قسط نمبر 3

118 7 0
                                    

نعمان باقاعدہ طور پر لغاری کا تعاقب کر رہا تھا اور دل ہی دل میں پھولا نہیں سما رہا تھا کہ اب وہ بھی کم از کم سارجنٹ حادی سے ٹکر لے ہی سکتا تھا۔ اسے وہ سارے جاسوسی ناول یاد آنے لگے جنہیں وہ اب تک پڑھ چکا تھا اور وہ خود کو بھی ایک پراسرار جاسوس سمجھ رہا تھا۔
لغاری کی گاڑی مختلف سڑکوں پر دوڑتی رہی اور نعمان اس کا تعاقب کرتا رہا۔تیمور نے کہا تھا کہ جب تک وہ کہیں رک کر اتر نہ پڑے اس کا تعاقب جاری رکھنا ہے، غالباً اس کا مطلب یہ تھا کہ لغاری اس تعاقب سے آگاہ ہو جائے۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی ایک سنسان سڑک پر ہولی۔گاڑی کی رفتار خاصی تیز تھی اور نعمان نے رفتار کا تناسب اتنا رکھا تھا کہ موٹر سائیکل اس سے کافی فاصلے پر رہے۔
اچانک گاڑی کی پچھلی سرخ روشنی نظروں سے غائب ہو گئی۔ نعمان نے اس خیال سے موٹر سائیکل کی رفتار تیز کر دی کہ کہیں اگلی گاڑی کسی طرف گھوم نہ گئی ہو۔گاڑی کے قریب پہنچ کر نعمان نے موٹر سائیکل روک دی۔اس نے سوچا کیوں نہ لغاری کو ایک مرتبہ پھر ڈرایا جائے۔اسے یقین تھا کہ لغاری گاڑی کے اندر ہی ہوگا۔
ابھی تک وہ خود کو ایک فلمی ہیرو سمجھ کر لغاری کا تعاقب کر رہا تھا اور اس نے اسے ڈرا بھی دیا تھا۔ اس لئے اس کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔ وہ موٹر سائیکل سے اترا اور لغاری کی گاڑی کی طرف بڑھا۔ گاڑی میں اندھیرا تھا۔نعمان نے ٹارچ نکال لی۔روشنی لغاری پر پڑی جو سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا لیکن چہرے پر روشنی پڑنے کے باوجود بھی اس نے اپنا چہرہ نعمان کی طرف نہیں گھمایا۔
نعمان اس کی بزدلی پر دل ہی دل میں ہنسا اور اپنا چہرہ کھڑکی کے اندر ڈال دیا۔اور پھر اس نے قریب سے دیکھا تو اسے لغاری کی کھوپڑی میں سراخ نظر آیاجس سے وافر مقدار میں خون نکل کر اس کے گال پر پھیل گیا تھا۔ نعمان نے بجلی کی سی سرعت سے اپنا سر باہر نکالا اور پوری قوت سے دوڑنا شروع کر دیا۔ وہ خوف کے مارے موٹر سائیکل کو فراموش کر بیٹھا تھا ورنہ باآسانی اس پر فرار ہو جاتا۔ کافی دور نکل آنے کے بعد اسے ایک ٹیکسی دکھائی دی اور وہ اس میں ٹھس گیا وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہانپ رہا تھا اور دل بری طرح دھڑک رہا تھا رہ رہ کر لغاری کا خوفناک چہرہ اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ اور ٹیکسی تیمور کے فلیٹ کی طرف بڑھتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داریان کمرے کے ادھر اٌدھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک دروازے کی طرف اٹھ گئی جس پر بڑا سا خون کا دھبہ موجود تھا
"بلاشبہ وہ اس کمرے سے گزرے تھے" داریان آہستہ سے بولا حادی بھی اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ دوسرے لمحے وہ دروازہ کھول چکا تھا اب وہ دونوں پائیں باغ کی پچھلی طرف موجود تھے۔روشنی کا دائرہ بڑی تیزی سے تاریکی میں ادھر ادھر گردش کر رہا تھا۔داریان زمین پر جھکا قدموں کے نشانات تلاش کر رہا تھا "زمین سخت ہے" وہ بڑبڑایا
"وہ کیا۔۔۔۔۔!" حادی چیخا
قریب ہی موجود خودرو جھاڑیاں عجیب انداز میں ہل رہی تھیں۔داریان سیدھا کھڑا ہو گیا۔اب روشنی کا دائرہ ہلتی ہوئی جھاڑیوں پر پڑ رہا تھا۔دفعتاً جھاڑیوں سے ایک آدمی کا پیر باہر نکل آیا۔
داریان جھاڑیوں کے قریب پہنچ چکا تھا۔اور پھر انہوں نے ایک دردناک منظر دیکھا۔ بوڑھا حمدانی جھاڑیوں کو اپنی مٹھی میں جکڑے کرب سے اپنے ہاتھ پیر پٹخ رہا تھا۔اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔
"حمدانی صاحب۔۔۔۔!" داریان بے اختیار اس پر جھک پڑا "میں داریان ہوں حمدانی صاحب" داریان چیخا۔
"دیر۔۔۔ہوگئی" حمدانی آہستہ آہستہ بڑبڑایا "دد۔۔دا۔۔ریاااان۔۔۔دیر۔۔۔ہوگئ۔۔۔سسن۔۔ٹرررل۔۔۔بننک۔۔۔سینٹرل بینک" پھر اس کا سارا جسم لرزنے لگا اور گردن ایک جھٹکے کے ساتھ دوسری طرف گھوم گئی۔
"حمدانی صاحب"داریان نے اسے جھنجھوڑا "حمدانی صاحب"
لیکن حمدانی ہمیشہ کے لئے خاموش ہو چکا تھا۔
کئی منٹ تک وہ دونوں بت بنے وہیں کھڑے رہے۔ کی اچانک داریان کی نظر ایک وزیٹنگ کارڈ پر پڑی۔ داریان نے اسے اٹھالیا جو کسی نادر علوی کا تھا جو جمشید اسٹریٹ میں رہتا ہے۔
"سارغ۔۔۔۔!" حادی یکلخت بولا
"اب تم پولیس اسٹیشن فون کردو" داریان بولا
حادی ٹیلی فون کی طرف بڑھا
"نہیں۔۔۔۔!" داریان ہاتھ اٹھا کر بولا "اسے یونہی رہنے دو تھوڑے فاصلے پر ایک دوسری عمارت ہے وہاں فون ضرور ہوگا"
حادی کے چہرے پر ہچکچاہٹ کے آثار نظر آرہے تھے
"سمجھا! تم سلیپنگ سوٹ میں کسی شریف آدمی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا چاہتے" داریان مسکرایا
"تم ٹھرو میں جاتا ہوں"
حادی داریان کے قدموں کی آواز سنتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ چکی تھی ڈرائیور نے نعمان کو جھنجھوڑ کر اٹھایا جیسے تیسے نعمان ٹیکسی سے اترا اور پتہ نہیں کتنے کا نوٹ ڈرائیور ڈرائیور کی طرف بڑھا دیا ٹیکسی ڈرائیور اسے تحیر آمیز نظروں سے نعمان کو دیکھنے لگا جس سے معلام ہوتا تھا کہ اس نے ڈرائیور کو کرائے سے بہت زیادہ رقم دے دی ہو۔
نعمان نے تیمور کے فلیٹ کے دروازے پر دستک دی اور دروازہ کھلتے ہی منہ کے بل فرش پر جاگرا
"کیا ہوا۔۔۔؟" تیمور اسے جھنجھوڑنے لگا نعمان کی آنکھیں چھت پر جمی رہیں اور وہ ہانپتا رہا۔ یک بیک وہ اچھل کر بیٹھ گیا
"تم نے مجھے پھنسوا دیا" وہ دہاڑ کر بولا
"ہوا کیا۔۔۔!" تیمور جھنجھلا کر بولا
"اب مجھے پھانسی۔۔۔۔" نعمان خوفزدہ آواز میں بولا
"کیا تم نے اسے مار ڈالا" تیمور حیرت سے بولا
"میں نے۔۔۔؟"نعمان حلق پھاڑ کر چیخا "تم نے مجھے پھانس کر اسے ختم کر دیا"
"کیا کہہ رہے ہو" تیمور بوکھلا گیا "اور میری موٹر سائیکل کہاں ہے؟"
"ہوگی کہیں۔۔۔۔میں کیا جانوں"
"تم موٹر سائیکل پر نہیں گئے تھے!"
"گیا تھا۔۔۔!"نعمان جھلا کر بولا "شاید وہ وہیں رہ گئی"
تیمور کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔اتنے میں زاریہ بھی اس کے فلیٹ میں داخل ہوئی اس کا اپارٹمنٹ تیمور کے برابر ہی تھا وہ نعمان کی دھاڑ سن کر وہاں آپہنچی
"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟" نعمان کی حالت اور تیمور کا خائف چہرہ دیکھ کر اس نے سوال کیا۔ اور تیمور نے اسے ساری بات بتائی۔ پھر جیسے تیسے انہوں نے نعمان کو ٹالا
"مجھے سچ سچ بتاؤ تم کیا کر رہے ہو!" زاریہ بولی
"جو پہلے بتا چکا ہوں۔۔۔۔لغاری کے قتل سے میرا کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔کوئی پہلے سے ہی اس کی گھات میں تھا"
"لیکن اب تمھارا کیا بنے گا"
"موٹر سائیکل کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے جا رہا ہوں" یہ کہہ کر وہ فلیٹ سے باہر نکل گیا۔

CONTINUE......
GOOD READS 😊
ENJOY THE EPISODE 💜💜

بساط (Complete)Where stories live. Discover now