قسط نمبر 1

549 16 4
                                    

Tis all a checkerboard of nights and days,
Where Destiny with men for pieces place,
Hither and Thither moves and mates,
And stays one by one back in the closet lays.
                              (Edward Fitzgerald)

پیراڈائیس کلب میں حسبِ معمول کافی رونق تھی۔ یہ شہر کے اونچے طبقے کے لوگوں کا کلب تھا وہیں سامنے ایک میز پر مرد اور عورت بیٹھے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ان کے بیچ کوئی ناخوشگوار بحث چل رہی ہو
"تم کیوں آئے ہو یہاں؟" عورت گھورتی ہوئی بولی
"بزنس۔۔۔۔۔۔۔!" مرد نے مسکرا کر کہا
"کس قسم کا بزنس؟"
"میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کروں گا"
"بہت خوب۔۔۔۔!" عورت بولی "لیکن یہاں تم کیا کرو گے"
"اس آدمی کو پہچانتی ہو" مرد ایک بوڑھے آدمی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا
"مشہور کڑوڑپتی سیٹھ لغاری" عورت سر ہلا کر بولی
"ٹھیک ہے"
"مگر تم کرو گے کیا"
"اسے تھوڑا سا ڈرانا ہے" مرد نے کہا
"تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے" عورت برا سا منہ بنا کر بولی
"وہ تو ایورسٹ کی بلندیوں کو چھو رہا ہے"
"کس طرح خائف کرو گے"
"بہت آسانی سے، اسے کوئی خوفناک چہرہ دکھایا جائے"
"مجھ سے کیا چاہتے ہو"
"نعمان کو پھانسو۔۔۔۔"
"تیمور کیا تم نشے میں ہو۔۔۔! " عورت غصے سے بولی
"کالم ڈائون زاریہ "مرد بولا
" تم پاگل تو نہیں ہوگئے۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے لغاری اسے پہچانتا ہوگا وہ بھی تو شہر کے ایک بڑے سرمایہ دار کا لڑکا ہے" زاریہ بولی
"میں جانتا ہوں مگر لغاری اسے پہچان نہیں سکے گا" تیمور نے کہا
"کیسے۔۔۔۔۔۔؟"
"میک اپ"
"میں یہ نہیں کر سکتی" زاریہ نے چڑ کر کہا

"تم ہی کرو گی" تیمور دوٹوک بولا
تیمور اور زاریہ دونوں کولیگ تھے اور کرائم رپورٹنگ کی فرم میں کام کرتے تھے دونوں کے تعلقات کافی دوستانہ تھے مگر ساتھ ہی بات بات پر جھڑپ بھی چھڑتی رہتی تھی۔
دس پندرہ منٹ تک دونوں میں بحث ہوتی رہی آخر کار زاریہ نرم پڑ گئی
"لیکن نعمان حادی سے اس کا تذکرہ ضرور کرے گا۔۔۔۔دونوں گہرے دوست ہیں" زاریہ نے سوچتے ہوئے کہا
"اگر تم اسے منع کرو گی تو وہ ہر گز تزکرہ نہیں کرے گا....میں اس کی ٹائپ سے واقف ہوں" تیمور نے خوداعتمادی سے کہا تھوڑی دیر بعد زاریہ ہوٹل سے باہر نکلی اس نے ایک ٹیکسی رکوائی اور روبی ہیون ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئی۔
                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعمان شاہ دیو قامت اور مضبوط اعضاء کا نوجوان تھا وہ انتہائی احمق اور بیوقوف ہونے کے ساتھ ساتھ مخلص بھی تھا۔ وہ اپنے دوستوں میں دیوزاد احمق کے لقب سے مشہور تھا، اور بقول سارجنٹ حادی اس کے جسم کی نشوونما کے سلسلے میں بیچاری عقل غذا بنتی رہی تھی اور آخر میں جسم ہی جسم رہ گیا عقل صاف ہو گئی۔ نعمان سیٹھ دلاور شاہ کا اکلوتا چشم و چراغ تھا مگر ناکارہ۔ سیٹھ دلاور کا شمار شہر کے بڑے سرمایہ داروں میں ہوتا تھا وہ نعمان سے حد درجہ بیزار تھے کیونکہ وہ سوائے کھانا ٹھوسنے کے کوئی کام دلجمعی سے نہیں انجام دے سکتا تھا۔
نعمان نے بڑی شدت سے ہوٹل بازی شروع کر رکھی تھی۔ وہ اس وقت روبی ہیون میں ایک میز پر تنہا بیٹھا مرغ مسلم کی مرمت کر رہا تھا۔ہوٹل کے تمام بیرے اسے اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ وہ بے تحاشہ کھاتا تھا۔
نعمان نے زاریہ کو ہال میں داخل ہوتے دیکھا اور وہ نعمان کو دیکھتے ہی سیدھا اس کی میز کی جانب بڑھی۔ جب نعمان نے زاریہ کو اپنی میز کے قریب آ تے دیکھا تو اس کا دل ایک ہزار فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑکنے لگا۔ زاریہ اس کی میز کے قریب پہنچ کر مسکرائی۔ نعمان بھی جواباً مسکرایا
"ترر۔۔۔شررر۔۔۔تشریف رکھیئے" نعمان ہکلایا
"شکریہ۔۔۔!" زاریہ مسکرا کر بولی
"ایک مرغ مسلم اور لاؤ" نعمان نے ویٹر سے کہا
"مجھے مرنا نہیں ہے" زاریہ بولی "میرے لئے صرف کافی" وہ ویٹر سے بولی
"آپ کی مرضی۔۔۔!" نعمان مضمحل ہو گیا
"میں کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ سے ملوں۔۔۔آپ کی شخصیت بڑی پرکشش ہے" زاریہ بولی
نعمان کی سانس تیز ہوگئی اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا وہ بوکھلا کر بہت تیزی سے پلکیں جھپکانے لگا تھا۔
"میں اور تیمور ایک دلچسپ کھیل کا پروگرام بنا رہے تھے تو میرا ذہن آپ کی طرف گیا" زاریہ پھر خاموش ہو کر نعمان کی طرف دیکھنے لگی"بڑا دلچسپ کھیل ہے"
"کھ۔۔ھھ۔۔کھیل" نعمان اپنا حلق صاف کرنے کی کوشش کرتا ہوا بدقت بولا
"ایک آدمی کو ڈرانا ہے" زاریہ نے کہا
"کون ڈرائے گا؟" نعمان نے پوچھا
"آپ۔۔۔!"
"ڈرا ڈرا کر مار دوں گا سالے کو۔۔۔۔کون ہے!" نعمان بولا
"سیٹھ لغاری۔۔۔!"
"کیاااااا۔۔۔۔۔!" نعمان نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا
کیوں۔۔۔۔کیا بات ہے!"
"وہ دراصل قبلہ والد محترم کا دوست ہے" نعمان رازدارانہ بولا
"وہ آپ کو نہیں پہچان سکے گا" زاریہ بولی
"آخر کیسے۔۔۔؟"
"آپ کا بھیس بدلوا دیا جائے گا"
"میک اپ۔۔۔!" نعمان خوش ہو کر بولا "میں تیار ہوں ۔ حادی کو اپنے میک اپ کرنے پر بڑا ناز ہے۔"
"مگر ٹھہرئیے۔۔۔ آپ غلطی سے بھی اس کا تذکرہ حادی سے نہیں کریں گے"
"کیوں۔۔۔؟"
"بس نہیں کریں گے،وعدہ کیجئے"
"نہیں کروں گا پکا وعدہ"
زاریہ اسے چند منٹ کے لئے تنہا چھوڑ کر تیمور کو فون کرنے چلی گئی۔اس دوران نعمان اس کے تعاریفی جملے سوچ سوچ کر مسکرانے لگا۔زاریہ کی واپسی پر وہ حد درجہ سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کرنے لگا۔
"چلئیے۔۔۔!" زاریہ نے اس سے کہا
پھر وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور ایک ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ زاریہ اسے آہستہ آہستہ بتاتی جا رہی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے۔اور ٹیکسی فراٹے بھرتی رہی۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

CONTINUE.......
GOOD READS😊
ENJOY THE EPISODE 💜💜

بساط (Complete)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora