ایک علیاہ ہے جو شہزادیوں جیسی ہے( 1 episode )

1.8K 56 23
                                    

گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز دور سے سنائی دیتی تھی وہ جو کوئی بھی تھا بہت ماہر لگتا تھا یہ بروم ٹاؤن آسٹیر یلیا کا علاقہ تھا جہاں جو لائی کا مہینہ بہت ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔
بلیو جینز پر ڈیپ ریڈ سویٹر پہنے روحا کی آنکھیں دور آتے گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز پہ تھی ۔
تبھی اسے وہ آتی دیکھائی دی۔
گہرے براؤن بال کمر تک آتے تھے جو ہوا میں اڑ رہے تھے وہ گھوڑے کو بھگاتی آ رہی تھی ۔۔۔۔۔
کسی دن مجھے لگتا ہے تم غلطی سے اس دنیا اسے قصبے میں آ گئی ہو علیاہ میر تمہیں نہ کسی جنگل میں کسی شیر یا چیتے کے گھر پیدا ہونا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔
علیاہ نے زور کا قہقہہ لگایا تھا بلیک جینز پہ بلیک ٹی شرٹ اور بلیک ہی خوبصورت سویٹر پہنے گھٹنوں تک آتے لانگ بوٹس وہاں جو چیز بے حد سفید نظر آتی تھی وہ علیاہ میر کا خوبصورت سرخ و سفید رنگ تھا۔۔۔۔
گہرے براؤن بالوں کو پیچھے جھٹکتی ہوئی اب وہ اپنے خوبصورت سفید گھوڑے کو اصطبل کی طرف لے کر جا رہی تھی ۔۔۔۔
علیاہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے تم ان گھوڑوں کے ساتھ ہی رہنے لگ جاؤ جب دیکھو میڈم ادھر ہی موجود ہوتی ہیں
روحا سخت نالاں نظر آتی تھی اور پتہ ہے مجھے کیا لگتا ہے علیاہ نے اس پہ آنکھیں جمائیں گہری نیلی آنکھیں اففففف کوئی اتنا حسین بھی ہو سکتا ہے کیا روحا اکثر سوچا کرتی تھی۔۔۔۔
کیا لگتا ہے جناب روحا نے مسکرا کے پوچھا
مجھے لگتا ہے تم ہر وقت میرے ہی بارے میں سوچتی رہتی ہو وہ ایک ادا سے کہتی آگے بڑھ گئ تھی۔
بروم میں میر ولاء کی ایک صبح کا منظر ہے جہاں نوکروں کی ایک فوج نظر آتی ہے سب کی بھاگ دوڑ لگی ہوئ ہے اگر چہ گھر میں بس تین ہی لوگ ہیں مگر پیسہ وافر مقدار میں موجود ہے اس لیے انتظام بھی شہانہ ہے ۔
میر ولا ایک محل کی طرح نظر آتا ہے بروم کے سب سے امیر آدمی کا محل۔میر ذکا کا محل ۔
علیاہ میم آ گئی ہیں سب لوگ اپنا کام دیکھ لو ناشتہ لگنے والا ہے مارگریٹ جو اس گھر کے نوکروں کی سربراہ۔ہے اسے اندر آتا دیکھ کے بوکھلائی تھی ۔
ڈیڈ مام کہاں ہیں صوفے پہ بیٹھے میرذکا کو ماتھے پہ پیار کر کے وہ اوپر اپنے کمرے میں جاتے ہوۓ بولی تھی ۔روحا انکل کے ساتھ بیٹھ کے گپ شپ لگا رہی تھی۔بیٹا آپ کی مام کچن میں ہیں وہ مسکرا کے بولے تھے۔
او کے 2 منٹ میں آئی میں وہ بھاگتے ہوۓ اوپر جا رہی تھی
؁؁؁؁
اور یہ منظر ہے پاکستان پنجاب کے ایک ترقی یافتہ گاؤں شاہ کوٹ کا ۔
وہاں دیکھیں تو جدید اور پرانے طرز کی ایک حویلی نظر آتی ہے جو پوری شان سے سر اٹھاۓ کھڑی ہے ۔
اندر جائیں تو گیراج میں کھڑی گاڑیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ لوگ کافی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اگر یہ لڑکی پاکستان میں ہوتی بی جان میں آپ کو بتا رہا یہ جان سے جاتی وہ اونچا لمبا لڑکا کف زدہ کپڑے پہنے سرخ چہرے کے ساتھ کہہ رہا تھا ۔شاہ ویز آپ چپ رہیں بی جان کے ساتھ بیٹھی خاتون نے اسے گھورا تھا۔امی آپ وہ انہیں دیکھ کے رہے گیا تھا۔
مجھے یقین نہیں آتا یہ لڑکی ہمارے خاندان سے تعلق رکھتی ہے نوریہ نے ہادیہ کے کان میں سر گوشی کی تھی۔
گھر میں بڑے حال کا منظر ہے یہ جہاں ٹی وی چل رہا تھا اور گھر کے کم و بش سبھی افراد وہاں موجود تھے۔
بی جان آپ تو ایسے دیکھ رہی ہیں جیسے کوئی انعام کہ توقع ہو ۔
اس حویلی میں میر نواب اپنے دو بیٹوں کے ساتھ آباد ہیں۔
بڑے میر شاہنواز اور ان کی بیگم رابعہ اور بچے شاہ میر اور حماد
چھوٹھے بیٹے میر رفیق ان کی اہلیہ زہرا  اور ان کا بیٹا شاہ ویز اور دو بیٹیاں ہادیہ اور نوریہ۔
جب کے سب سے چھوٹا بیٹا میر ذکا آسٹریلیا میں ہے۔
تو اب آتے ہیں ٹی وی کے منظر پہ جو سامنے نظر آتا ہے۔
وہا وہ آدھی انگریز آدھی ایشیائی لڑکی نظر آتی ہے سر پہ کالا رومال کسے بلیک فل رائڈنگ ڈریس میں ملبوس لانگ بوٹس پہنے وہ گھوڑے کی ریس میں شریک ہے ۔۔۔۔۔
افففف کتنی حسین ہے یہ نوریہ کچھ زیادہ متاثر نظر آتی تھی ہادیہ نے اسے گھور کے دیکھا ۔۔۔
لو جیت گئیں علیاہ آپی حماد نے نعرہ لگانے والے انداز میں کہا تھا اور اس کی کمر پہ پڑنے والا ماں کا دھموکہ کم۔اور شاہ ویز کی گھوری سخت تھی۔۔۔۔۔۔

جگنوؤں  کا شہر Where stories live. Discover now