میرا شیر جیسا بچا جگنوؤں کو دیکھ کر واقع جگنو بن جاتا ہے ۔۔۔۔
میر ذکا نے زرا زور سے کہا تھا اور علیاہ اور مریم دونوں کھکھلا کے ہنس دی تھیں.
نو ڈیڈ مجھے تو بس ویسے ہی پسند ہیں جگنو وہ جھینپ کے بو لی تھی۔
اچھا میں نماز پڑھ لوں آپ لوگ بھی اب اندر آ جائیں مریم نے اٹھتے ہوۓ کہا تھا۔
شاہ میر کچن میں اپنے لیے چاۓ بنا رہے تھے رات کافی ڈھل گئی تھی جب ہادیہ کچن میں داخل۔ہوئی تھی۔
ارے شاہ میر آپ میں بنا دیتی ہوں چاۓ اس نے ان کو چوڑی پشت دیکھ کے فورا کہا ۔
تم اس وقت کیا کر رہی ہو ہادیہ سوئی نہیں ابھی کیا۔
اس گھر میں رات جلدی ہو جاتی تھی اور سب جلدی سوتے تھے اس لیے شاہ میر کو حیرت ہوئی تھی۔
وہ میں پانی لینے آئی تھی نوریہ بھول گئی تھی ۔
اور تم لوگوں کو کالج میں کوئی مسئلہ تو نہیں سب ٹھیک ہے ۔ وہ۔اور نوریہ ان کے کالج میں ہی زیر تعلیم تھیں ۔
وہ چاۓ مگ میں چھانتے ہوۓ پو چھ رہے تھے۔
نہیں کوئی مسئلہ نہیں دل تو کیا کہد دے مسئلہ آپ ہیں دل کے لیے مگر جھجک کو وجہ سے کچھ نہیں بول پائی تھی۔
چلو گڈ گرل جلدی سو جانا وہ اس کا گال تھپتھپا کے آگے بڑھ گئے تھے اور ہادیہ کے لیے وہ پل وہیں ٹھہر گیا تھا۔
شاہ میر کالج کے وز ٹ پہ تھے جب ان کی نظر گراؤنڈ میں بیٹھی لڑکیوں پہ پڑی وہ لوگ یقیناً کلاسز بنک کر کے بیٹھی تھیں۔
آپ لوگ کلاس میں کیوں نہیں اس وقت وہ قریب آ کے بولے تھے اور نوریہ اور ہادیہ کرنٹ کھا کے اٹھی تھیں ۔
تم۔دونوں بھی انہوں نے آنکھوں سے گھرکا تھا ان کو۔
وہ سر ہم لوگ بس جا ہی رہے تھے باقی لڑکیاں بھی کھڑی ہو گئی تھیں ۔سر میر کا رعب ہی ایسا تھا کہ اچھے اچھوں کی جان پہ بن آتی لڑکیوں میں تو ویسے ہی مقبول تھے وہ اپنے رعب شاندار شخصیت کی بدولت۔۔۔۔
انہوں نے ایک۔تنبہیہ نظر ہادیہ اور نوریہ پہ ڈالی تھی اور واپس مڑ گۓ تھے۔
اففففف یار کس قدر ہینڈسم ہے یہ بندہ اود اوپر سے آواز میں تو مر ہہ جاتی ہوں ۔یہ صبا تھی ہادیہ کی کلاس فیلو پلس دوست۔
وہ سب لوگ اپنی کلاسز میں جا رہے تھے جب صبا اس کے کان میں گھسی۔۔۔
پاگل لڑکی اگر میرے گھر اتنا ہینڈسم بندہ مو جود ہوتا نہ تو بات پتہ نہیں کہاں کی کہاں پہنچ چکی ہوتی اس نے آنکھ دبائی تھی اور ہادیہ کے گال سرخ ہو گۓ تھے فضول باتیں مت کرو تم اس نے ڈپٹا تھا صبا کو۔
مجھے لگتا ہے ہمیں شاہ میر سے سوری کر لینا چاہیۓ ۔۔۔۔ہادیہ نے گھر آ کر نوریہ کو کہا تھا شام کا وقت تھا اور وہ گھر پہ۔ہی موجود تھا۔
میں تو نہں جا رہی تم۔جا سکتی ہو
نوریہ نے سر جھٹکا۔
وہ دونوں جڑوا تھیں مگر نوریہ میں بہت بچپنا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ہادیہ اس کے بیڈ روم کے باہر کھڑی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
اس نے ہمت کر کے دستک دی تھی ۔
آ جائیں ۔
اندر سے شاہ میر کی آواز آئی۔
وہ۔مجھے آپ کو بتانا تھا کہ ہم پہلے ایسی لاپرواہی نہیں کرتے وہ بس صبا وہ میری دوست کی برتھ ڈے تھی اس لیے۔۔۔۔
وہ۔انگلیاں مروڑتی اسے بتا رہی تھی۔
پورے کمرے میں پھیلی۔اس کی خوشبو اس کے حواس پہ چھا رہی تھی۔ وہ شاید ابھی نہا کے نکلا تھا بال گیلے تھے ۔۔۔
وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آ یا تھا ۔
ہادیہ کو اپنی تلیاں بھیگتی محسوس ہوئی تھیں وہ آئی ہی کیوں وہ۔سوچ رہی تھی۔
دیکھو ہادیہ تم اور نوریہ مجھے بہت عزیز ہو میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ تم لوگ ا پنا پڑھائی کا ٹائم فضول ضائع کرو ۔
وہ۔اسے رسان سے سمجھا رہا تھا۔
جی۔ایسے ہو گا ااس نے آہستہ سے کہا۔
اور اس کے پاس سے نکل کے باہر آ گئی تھی جہاں اس نے سانس بحال کیا تھا ۔
افففف میں بھی نا وہ ہادیہ۔کو ہمیشہ خود پہ غصہ آتا تھا کہ وہ۔اس کے سامنے ایسے کیوں ہو جاتی۔
بروم میں اترتی شام کا منظر ہے یہ۔
علیاہ اپنےا سٹڈی روم میں موجود تھی جہاں دنیا جہاں کا خزانہ کتب کو صورت میں جمع تھا۔
میم آپ کا فون ہے مارگریٹ نے آ کر ادب سے کہا تھا۔
کون ہے ۔اس نے مصروف انداز میں۔پو چھا ۔
پاکستان سے فون ہے ۔
وہ۔چونکی تھی۔
کون اس نے پوچھا تھا مارگریٹ واپس جا چکی تھی۔
میں وہ میں آپ کی کزن ہوں ایکچوئیلی میں نے آپ کو ٹی وی پہ دیکھا ۔
کسی ینگ لڑکی کی آواز تھی جو تھوڑا کٹ کے آ رہی تھی اسے حیرت ہوئی اسے نہیں یاد تھا کے ان لوگوں کے پاکستاں والوں سے اچھے تعلقات ہوں کوئی۔
جی فرمائیں کیا پوچھنا اور کیا نام۔آپ کا ۔
میں نوریہ ہوں آپ کے تایا رفیق کی بیٹی اس نے شرما کے کہا تھا۔اصل میں مجھے آپ کو دیکھنے کا بہت شوق تھا آپ مجھے بہت خوبصورت لگتی ہیں کیا آپ مجھے اسکائپ پہ کال کریں گی
وہ جو بھی تھی بہت معصوم تھی اور علیاہ کھل کے مسکرا دی تھی۔
جی میں آپ کو ابھی کر دیتی ہوں ۔
وہ۔شاید اچھے موڈ میں تھی ۔
کیا سچ میں نوریہ بے یقین تھی جی سچ میں علیاہ نے ہنسی بمشکل دبائی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ اس کے ساتھ اسکائپ پہ موجود تھی۔
علیاہ نے دیکھا وہ اس سے کچھ سال چھوٹی بہت پیاری سی لڑکی تھی جو کافی شرما کے اس سے بات کر رہی تھی۔
میں سب سے چھپ کے آپ کو کال۔کی ہے مجھے دیکھنا تھا کہ کیا آپ اتنی ہی خوبصورت ہیں جتنی نظر آتی ہیں۔
تبھی پیچھے سے آواز آئی تھی ۔
نور نور کہاں ہو تم کب سے بلا رہا ہوں اور امی جان کہاں ہیں
وہ۔کوئی لڑکا تھا جو شاید دروازے پہ رک گیا تھا۔
اور تم کیا کر رہی ہو شاہ میر کے لیپ۔ٹاپ پہ اب اس کی نظر اندر پڑی تھی بس ایسے بھائی اس سے ابھی کوئی بات نہیں بن پا رہی تھی۔
علیاہ کو غصہ آیا اففففف کس قدر عجیب لوگ ہیں یہ اس نے کال کاٹ دی تھی۔
اور نوریہ وہ بھاگتی ہوئی جا رہی تھی ہادیہ کے پاس۔
میں نے اس سے بات کی ہادیہ وہ بہت پر جوش تھی ۔
کس سے ہادیہ نے اسے حیرت سے دیکھا۔
وہ علیاہ آپی سے اس نے جھجکتے ہوۓ کہا۔
کیا ہادیہ نے بمشکل اپنی آواز دبائی۔
ستارے بھی جھک کے سلام کریں گے ہادی وہ اتنی خوبصورت ہے۔۔۔۔۔
نوریہ گویا ٹرانس میں تھی۔
اور تم نے یہ سوچا ہو اگر باقی سب کو پتہ چلا کتنا غصہ کریں گے ہادیہ کو اس پہ افسوس ہو رہا تھا۔
ضروری نہیں کہ شکل سے نرم دل نظر آنے والا ہر مرد نرم دل ہو ۔۔۔۔۔
کچھ شاہ ویز میر جیسے بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔
ضروری نہیں کہ ہر خوبصورت لڑکی کی قسمت بھی خوبصورت ہو۔۔۔۔
کچھ علیاہ میر جیسی بھی ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔
علیاہ آپ کسی بائیک ریس میں حصہ نہیں لیں گی میں آپ کو وارن کر رہی ہوں
مریم اس کے سارے نرالے شوقوں سے نالاں تھیں۔
ماما یہ بہت بڑا ایونٹ ہے اور میں نے بہت زیادہ تیاری کی ہے میرے سارے دوست جا رہے سو ری مام میں آپ کی بات نہیں سن سکتی وہ مصروف اندازمیں بولی تھی۔
تمہیں پتہ ہے نا اس سارے ایونٹ کو میڈیا کوریج ملے گا تمہارے خاندان والے ایسے لوگ نہیں کہ تمہیں گھوڑوں اور بائیکس پہ دیکھ کر فخر کریں گے حرف تو میرے تربیت پہ آئے گا نہ وہ اس کو سمجھا رہیں تھیں ۔
تبھی اس کے مائنڈ میں کچھ دن پہلے پاکستان سے آنے والی کال۔گھوم گئی تھی مگر اس نے ذہن جھٹک دیا۔
اوہ مام پلیز میری فیملی آپ ہو اور میرے ڈیڈ بس اور یہی مرا ملک ہے ۔
وہ کسی طور بھی سمجنا نہیں چاہتی تھی وہ علیاہ میر تھی جس کے سمجھنے کے پیمانے الگ تھے وہ جب ضد پہ اڑ جاتی تھی تو نی نفع دیکھتی تھی نہ نقصان اور یہ عادات اس نے میر ذکا سے چرائی تھیں۔
ہاں میرا بیٹا ہو گیا تیار تبھی ڈیڈ پیلیس میں داخل ہوئے تھے۔
یس ڈیڈ بٹ مام کو دیکھیں کیسی عجیب باتیں کر رہی ہیں اس نے رعونت سے سر جھٹکا تھا۔
اوہ پلیز مریم میری بیٹی کو مت کچھ کہیں چلیں بیٹا میں بھی آپ کے ساتھ ہی چل رہا وہ ریلیکس موڈ میں تھے۔
اور میں بھی روحا بھاگ کے اس کے گلے لگ گئی تھی۔
تمہیں پتہ ہے علیاہ وہ ڈیوڈ بھی ریس میں شامل ہو گا اس سے زرا بچ کے رہنے ۔آج کل زخمی ناگ بنا ہوا ہے وہ۔
اوہ پلیز روحا ڈونٹ بل سلی اس جیسے چوہوں کو اہمیٹ دینے لگ جائے تو علیاہ میر کو علیاہ میر کون کہے گا اس نے غرور سے کہا تھا ۔
اور روحا اسے بے بسی سے دیکھ کر رہے گئی۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مریم بھی جا کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھیں۔
جب باپ کو ہی نہیں پروہ تھی تو وہ کیا کر سکتی تھیں ۔
اور پاکستان میں شاہ کوٹ میں حماد ،نوریہ ،حادیہ اور بی جان ٹی وی کے آگے جم کر اسے لائیو کوریج دیکھ رہے تھے۔کچھ پاکستانی اسٹوڈینٹس بھی جو آسٹیلیا میں زیر تعلیم تھے اس میں حصہ لے رہے تھے اس لیے میڈیا اس کو اچھا خاصا کوریج دے رہے تھے۔
بی جان اگر بھائی شاہ کو بتا دیا امی یا تائی نے تو بہت برا ہو گا
ہادیہ تھوڑی ڈرپوک تھی ممنا کر بولی۔
کوئی نہیں وہ دونوں اندر بیٹھ کے باتیں بگھار رہیں ان کو کیا پتا۔
بی جان کو بہت شوق تھا شاید اپنی پوتی کو بار بار دیکھنے کا ۔
ماؤں کے دل اللہ پاک نے بہت نرم بناۓ ہیں ۔
وہ دیکھو وہ وہ میرا زکی بی جان نے ایل۔ای۔ ڈی کو طرف ا شارہ کیا تھا جہاں علیاہ کے ساتھ اس کی فیملی کو دیکھا رہے تھے۔
بی جان چاچو تو بہت ینگ سے ہیں حماد نے فورا کہا تھا۔
ہادیہ نوریہ نھی توجہ سے دیکھ رہی تھیں۔
علیاہ نے روڈ ریس کی مناسبت سے ڈریسنگ کی ہوئی تھی اور بہت پیاری لگ رہی تھی۔
بی جان کی آنکھوں میں آنسو تھے نہ کوئی لڑائی نہ جھگڑا میر ذکا وہاں پارھنے گئے تھے سب کی رضا پر اور پھر ادھر کے ہو کے رہے گئے مسئلہ تب بنا تھا جب انہوں نے وہاں انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی ۔
دا جان کے لے یہ۔ناقابل قبول تھا۔ بی جان بھول بھلیوں میں گم تھیں جب حماد کی۔آواز نے ان کو ہوش دلایا تھا۔دیکھیں بے جان علیاہ آپی تو لڑکوں کو بھی ہرا رہی ہیں حماد کو آنکھیں پھٹی ہوئی لگ رہی تھیں اس کے لیے یہ سب نیا تھا۔۔۔۔۔
باپ پہ گئی ہے ساری یہ ذکا بھی تو ایسے ہی تھا بچپن سے انہوں نے ان سب کو معلومات میں اضافہ کیا تھا۔
لیکن ادھر جا کر پتہ نہیں میرے بچے کو کیا ہو گیا یہ سب انہوں نے علیاہ کی طرف دیکھتے ہوۓ ہنکارا بھرا پتہ نہیں کیا بنا دیا یے زکی تم نے لڑکی کو وہ گویا خود سے ہم کلام تھیں۔
وہ بائیک بھگا ئے جا رہی تھی اور اس کے ماتھے پہ شکنیں نظر آتی تھیں
جس کی وجی ڈیوڈ تھا۔
وہ اس سے جیتنے کی نہیں اسے گرانے کی کو شش میں تھا اور علیاہ یہ بات سمجھ چکی تھی۔
تم سے تو میں نپٹ لوں گی ڈیوڈ کے بچے اس نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا تھا۔
وہ چاہتی تو اسے اس کی طرح ٹریٹ کر کے گرانے کو کوشش کر سکتی تھی مگر وہ علیاہ میر تھی بروم کی شہزادی کہا جاتا تھا اسے معلوم تھا کہ اس پہ یہ سب نہیں جچتا۔۔۔۔۔
کیا تماشا لگا رکھا ہے یہ۔۔۔۔۔
آنے والی آواز نے ان سب کو اچھلنے۔پہ مجبور کر دیا تھا۔
شاہ ویز دروازے کے پاس کھڑا تھا اور
اس کی نظر سامنے اسکرین پہ تھی جہاں وہ ڈیوڈ کے ساتھ برابر بائیک بھگاتی نظر آ رہی تھی۔۔۔۔۔
بند کور یہ تماشا اور بی جان آپ بھی وہ افسوس اے ان کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
یہ کیا ہوا یہ حماد چلایا تھا اور سب کی نظر اسکرین پہ۔پڑی تھی جہاں وہ خون میں لت پت بس ایک بار نظر آئی تھی ڈیوڈ اسے نقصان ہہنچا ہی چکا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز بی جان کی طرف دوڑا تھا جو ایک۔طرف گر چکی تھیں
YOU ARE READING
جگنوؤں کا شہر
Fantasyیہ کہانی شروع ہوتی ہے آسٹریلیا کے علاقے بروم سے ۔۔۔۔ جہاں علیاہ میر شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔۔۔ یہ کہانی مڑتی ہے پاکستاں کے گاؤں شاہ کوٹ کی طرف ۔۔۔۔۔ ایک علیاہ میر ہے جو شہزادیوںسی ہے ------- ایک شاہ ویز ہے جو شہزادوں جیسا ہے----- ایک...