اور ہم بیٹھ کے خاموشی سے روئے جاتے ہیں
شام ہوتی،تم ہوتے،کسی دریا کا کنارہ ہوتاشاہ کوٹ میں
میر کالج کی پر شکوہ عمارت میں رنگ و بو کا سیلاب اترا ہوا تھا۔
یہ ایک ترقی یافتہ علاقہ تھا اور لوگوں کو سوجھ بوجھ بھی۔
پارٹی میں لڑکیاں بن سنور کے گھوم رہی تھیں ۔
کچھ دوستی نبھاتے ہوۓ ایک طرح کی ڈریسنگ میں ملبو س تھیں تو کچھ ویسے ۔
وہاں پر تنہا الگ ہو کے بیٹھی ہوئی وہ لڑکی افسردہ نظر آ تی تھی۔
وہ ہادیہ میر تھی اس سے کوئی آ کے پوچھتا کے کسی سے جلنا کس قدر عزیت ناک ہوتا ہے تو شاید وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیتی ۔
ارے تم ہادیہ یہاں کیوں بیٹھی ہو آؤ نہ اندر چلتے ہیں نوریہ کو بالا خر بہن کا خیال آ ہی گیا تھا۔
نہں تم جاؤ میں ٹھیک ہوں ۔
اس نے آہستہ سے کہا۔
اچھا ہادیہ تم نے دیکھا ہے شاہ میر بھائی اور میم شرمین کس قدر فرینک لگ رہے ہیں وہ اس ہنس کے شئیر کر رہی تھی بنا یہ سوچے کہ وہ پہلے اسی بات کی وجہ سے کس قدر عزیت محسوس کر رہی تھی۔
مجھے کیا پتہ میری نظر ان پہ تھوڑی تھی۔
ہادیہ کے لہجے میں ایسی چبھن ضرور تھی جس نے نوریہ کو بھی چونکا دیا تھا۔
تم چلو میرے ساتھ ہال میں۔
ہاں تاکہ اس دشمن جان کو دیکھ دیکھ کے جلتی رہوں ہادیہ نے دل میں سوچا۔
مگر وہ نوریہ ہی کیا جو مان جاۓ وہ اسے لے کر اٹھی تھی۔
اسٹیج پہ پلے ہو رہا تھا سب ٹیچرز سامنے چھوٹے صوفہ ٹائپ کرسیوں پہ براجمان تھے۔
دوسری اطراف میں لگی ہوئی کر سیوں پہ دوسری قطار میں نوریہ اور ہادیہ اور ان کا پورا گروپ بیٹھا تھا۔
یار سر شاہ میر اور میم شرمیں کس قدر اچھے لگتے ہیں ساتھ دونوں ہیں بھی کتنے ڈیسںنٹ۔
ہادیہ کو پچھلی قطار سے آواز سنائی دی تھی ۔
اس کو اپنے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔
وہ جانے کیا سے کیا سوچے جا رہی تھی۔
محبت کرنے والوں کو overthinking کی بیماری گویا وراثت میں ملا کرتی ہے اور ہادیہ میر کا وہ ہی حال تھا۔
وہ ایک ہاتھ سے اپنا ماتھا مسل رہی تھی ضبط کے مراحل گویا ٹوٹنے لگے تھے۔۔۔۔
تبھی آگے ہو کے پانی بھرتے شاہ میر کی نظر اس پہ پڑی تھی۔
اسے اس کی حالت ٹھیک نہیں لگی تھی وہ گویا بھاگتا ہوا ان لوگوں تک آیا تھا۔
ہادیہ کیا ہوا ہے ادھر دیکھو۔
سارے ہال نے نہیں تو آدھے ہال نے تو ضرور اس لمحے کو دیکھا ہو گا ۔
کیا ہوا ہے تم کو ۔
ہادیہ کی سرخ ہوتی آنکھیں شاہ میر کو پریشان کر گئیں تھیں وہ کئی دنو سے پریشان تھی یا الجھی ہوئی یہ شاہ میر جانتا تھا۔
اٹھو ادھر سے۔
وہ ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھے جارہی تھی۔
شاہ میر کے کشادہ ماتھے پہ تفکر کی لکیریں ابھر ی تھیں۔
نوریہ بھی پریشان ہو کر اسے دیکھے جا رہی تھی۔
اٹھو یہاں سے وہ باہر ہوا پہ چلو وہ اسے ایک ہاتھ پکڑ کے اٹھا رہا تھا۔
لڑکیاں اچک اچک کے دیکھ رہی تھیں۔
اوف ہادیہ میر جو گھر کا سب سے نازک بچہ تھا سب سے معصوم وہ شاہ میر کے ہاتھ پکڑتے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔
شاہ میر ننھی سی گڑیاجیسی کزن کو بازوؤں میں اٹھا کے باہر کی طرف بھاگا تھا ۔
اگر جو وہ جان لیتا کہ وہ لڑکی بس اسے کسی اور کے ساتھ ہنستا دیکھ کے ہوش کھو بیٹھی ہے تو بغیر عمروں کی پرواہ کیے اس کے عشق پہ ایماں لے آتا۔
اور ہو جو دونوں بازوؤں میں سر دئیے بیٹھ کے روتی نظر آتی ہے وہ علیاہ میر کی اکلوتی دوست روحا توصیف خان تھی۔
مجھے لگتا تھا وہ سچ میں مجھ سے محبت کرتا ہے ۔
مجھے لگتا تھا وہ میرے ساتھ مخلص ہے وہ سسکتے ہوۓ علیاہ کو بتا رہی تھی وہ جو تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ۔کہتا تھا میرے لیے مسلمان ہو ا ہے وہ ۔
وہ سب جھوٹ تھا جھوٹ۔
روحا کے الفاظ ٹوٹ رہے تھے۔
اٹھو تم میرے ساتھ چلو۔
علیاہ نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔
مگر کہاں روحا نے حیرت سے دیکھا۔
پو لیس اسٹیشن اس نے آرام اے کہا ۔
نہں بالکل نہیں میں کیا بتاؤں جا کر کے وہ لڑکا جس سے میں نے پورا سال۔پاگلوں کی طرح پیار کیا اس کی ہر بات پہ یقین کیا وہ مجھے اپنے فلیٹ میں بلا کر اپنے دوستوں کی عیاشی کا سامان کرنا چاہتا تھا۔
روحا کا لہجہ ٹوٹ رہا تھا۔
ہاں بالکل ہم۔یہی بتائیں گے۔
علیاہ نے اس کی طرف دیکھ کے اعتماد سے کہا۔
اوہ علیاہ پلیز وہ مائیکل ہے مشہور باکسر ہم لوگ جتنے بھی مظبوط ہو جائیں یہ انگریزوں کا ملک ہے وی کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیں گے کبھی نہیں ۔
وہ مجھ پہ چھوڑ دو تم بس ہمت پیدا کرو ہم اس کا چہرہ پوری دنیا کے سامنے لائیں گے ہم بہت سی اور لڑکیوں کو بچا سکتے ہیں روحا تم سوچو یار۔
نہیں میں یہ نہں کر سکتی میں نے اس کو دل سے چاہا تھا اور جن کے ساتھ اچھا وقت گزارا جائے ان کی کی برائیاں نظر انداز کی جاتی ہیں میں اس کو چھوڑ چکی ہوں بس کافی ہے یہ روحا کسی طور پہ نہی مان رہی تھی۔
محبت ہاہاہا ویری فنی مجھے سمجھ نہیں آتی یہ سب لڑکیاں محبت کے نام پہ بیو قوف کیوں بنتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ اگلا بندہ کیسا ہے وہ کیا ہے پھر بھی دل کا سارا قصور بنا کر اس کا ساتھ دیتی ہیں
اور روحا توصیف خان جسے آپ غلطی کہہ رہی ہیں وہ غلطی نہیں گناہ ہے گناہ اور گناہوں کی۔معافی نہیں کفارے ہوتے ہیں
وہ جو انسان آج تمہارے ساتھ یہ کر رہا تھا کیا گارنٹی ہے کہ وہ کل کو ایسا نہیں کرے گا وہ تمہاری چپ کو تمہارا ڈر سمجھے گا روحا اور ڈر کو ہمیشہ استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں کمرے میں چھپ کر بیٹھ کر رونے سے بہتر ہے باہر نکل کر رولانے والوں کا منہ توڑ دیا جاۓ۔
علیاہ میر اگر وکیل ہوتی تو کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیتی۔روحا نے بس سوچا نہیں تھا اور اسے بتا بھی دیا تھا اور اگلے پل وہ دونوں علیاہ کی ہیوی بائیک پہ سوار پولیس اسٹیشن جا رہی تھیں۔
علیاہ میر بھلا کب ہارتی تھی۔۔۔۔
ان کے دیکھنے سے جو آ جاتی ہے چہرے پہ رونق
وہ یہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے
ŞİMDİ OKUDUĞUN
جگنوؤں کا شہر
Fantastikیہ کہانی شروع ہوتی ہے آسٹریلیا کے علاقے بروم سے ۔۔۔۔ جہاں علیاہ میر شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔۔۔ یہ کہانی مڑتی ہے پاکستاں کے گاؤں شاہ کوٹ کی طرف ۔۔۔۔۔ ایک علیاہ میر ہے جو شہزادیوںسی ہے ------- ایک شاہ ویز ہے جو شہزادوں جیسا ہے----- ایک...