میرے باپ کا کو ئ بیٹا نہیں ہے جو تم لوگوں کو عدالتوں میں پو لیس میں گھسیٹے گا۔۔۔
میرے باپ کی بس ایک بیٹی ہے جو تم لوگوں کو کانٹوں سے لے کر جہنم تک گھسیٹے گی اور اس کا نام علیاہ ذکا میر ہے ۔۔۔
بروم کی سر زمیں بھی بتائے گی علیاہ میر کون ہے۔۔۔۔
وہ شائناکی گردن پہ پیر ررکھ کے کھڑی تھی۔۔۔
سنو محترمہ اگر آپ کا پورا ہو گیا ہو تو ساتھ باپ کا ایک عدر بھیتیجا بھی کھڑا ہے
شاہ ویز کو اپنا درد یاد آیا۔
اور محترمی نے پو گررن گھما کے بس آدھی آنکھ سے اسے دیکھا تھا۔۔۔
کیا پورا۔۔۔
علیاہ میر کو واقع اب شاہ ویز کی زبان سمجھنے کے لیے ریسرچ کہ ضرورت تھی۔
تمہاری یہ ڈائیلاگ بازی جو تم کب سے کیے جا رہی ہو۔
بولی تو وہ ایک لفظ نہیں اس نے شائنا کی طرف اشارہ کیا۔
اور آدھی انگریز آدھی پاکستانی کو اس پورے پاکستانی کی بات تیر کی طرح لگی تھی۔۔۔۔
تو تم آؤ نہ آ کر پوچھ لو ۔
علیاہ میر نے اسے ایسے کہا گویا آگے سے کو انعام مل رہا ہو۔۔۔
ہاں تو مرد ہوتا تو میں بتاتا تم کو کیسے پوچھا جاتا ہے ۔۔۔۔
یوں اس کو گھر سے دور اس فارم ہاؤس پہ لا کر بس تم اسے سیر ہی کروا رہی ہو۔
جینز پہ برؤن شرٹ پہنے شاہ ویز نھ اپنے بازو کہنی تک موڑ کر آرام سے کرسی اٹھا کہ بیٹھتے ہوۓ کہا تھا۔
واہ کیا لاجک ہے تمہاری علیاہ میر۔
شاہ ویز نے ایسے ہاتھ جھاڑے جیسے ہو گیا کام تم سے تو۔
اور بروم کی شہزادی اسے اتنا غصہ آیا کہ فورا اس کی طرف لپکی اور یہی وہ پل تھا جب نیچے پڑے وجود نے پتہ نہیں کہاں سے چھوٹا سا چاقو نکال کر علیاہ پہ حملہ کرنا چاہا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز نے پلک جھپکنے کی دیر میں علیاہ کو کھینچ کے بازو میں لیا تھا اوہ دو سرے ہاتھ سے شائنا کا بازو پکڑا تھا۔۔۔۔
اور بروم کی شہزادی چاہے پاکستان کے شاہ ویز میر سے جتنا لڑتی مگر اس پل اس نے دل سے مانا تھا وہ اس کی جان بچا چکا تھا۔۔۔
وہ ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی
اچھا خاصا شیف النفس بندہ ہوا کرتا تھا میں یہاں آنے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا نفس۔۔۔
علیاہ میر کی سوئی پھر وہیں اٹکی تھی وہ اس کے بہت نزدیک تھی۔۔
شاہ ویز نے جلدی سے اسے بازو سے پکڑ کر خود سے دور کیا تھا۔۔۔۔
اب بت بنی کھڑی ہو یہ ابھی پہلوان بنی کھڑیں تھیں۔۔
شاہ ویز شائنا سے چاقو لیتے ہوۓ بولا۔
کیا ۔۔۔ وان۔۔۔۔
علیاہ بولی بھی تو کیا۔۔
شاہ ویز کا دل کیا سر پیٹ لے۔۔
پہلوان۔۔۔۔ پہلوان
اس نے کھینچ کے کہا۔
لو اسے پکڑو اور اس کی تلاشی لو میں باہر جا رہا ہوں۔
شاہ ویز نے اسے کہا تھا۔
اور باہر آ کر وہ سوچ رہا تھا ایک بار یہ مسئلہ ختم ہو جاۓ وہ علیاہ میر کی شکل نہیں دیکھے گا۔
وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا اسے یاد کرنا پڑا تھا۔
مگر اس نے یہ نہیں سوچا کہ اسے یہ یاد کیوں کرنا پڑا ہے۔
اور تھوڑی دیر میں شا ئنا کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔
شاہ ویز بھاگ کر گیا تھا اندر۔
کس نے کیا ہے یہ سب بولو کس نے کہا۔
علیاہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
وہ میں زیادہ نہیں جانتی مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ جس نے سر ذکا کے ساتھ سب کیا وہ اس کا ساتھ آپ کے آفس کے کسی بندے نے دیا تھا ۔۔
وہ سب کچھ لے کر بھاگ گیا اور کسی کو حصہ نہیں دیا۔
باہر جا کر جب اسے پتہ چلا کے آپ اس کا پیچھا کروا رہی ہیں تو اس نے پھر اس آفس کے بندے سے رابطہ کیا ۔۔۔۔
اور مجھے جس نے اس کام کے لیے کہا وہ ماسک میں آتا ہے بس اس نے مجھے بتایا کہ اسے آپ کو ڈرانے دھمکانے کا کام کیا گیا ہے اور اس نے مجھے بہت بڑی رقم دی آپ کو زخمی کرنے کے لیے تاکہ آپ ڈر جائیں۔
وہ کاٹ کاٹ کہ باتیں بتا رہی تھی ۔
علیاہ نے اس کی اچھی خاصی ٹھکائی کر دی تھی
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی تم سے جان چھڑوانے کے لیے پھر سے رابطہ کر رہا ہے تم لوگوں کے آفس ہی ۔۔۔
شاہ ویز نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
ہاں ایسے ہی لگ رہا ہے۔
علیاہ کچھ پریشان لگ رہی تھی مگر کس بات پہ یہ شاہ ویز نہیں جانتا تھا۔
بہت اندھیرا ہو گیا ہے
گھر چلنا چاہیئے علیاہ نے کہا ۔
وہ دونوں فارم ہاوس سے باہر دو بڑے بڑے پتھروں پہ بیٹھے تھے ۔
اور اس کا کیا ہو گا ۔
شاہ ویز نے اندر اشارہ کیا۔
پولیس کو کر دی ہے کال وہ آتی ہو گی۔
علیاہ نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے باہر قدم بڑھائے
ESTÁS LEYENDO
جگنوؤں کا شہر
Fantasíaیہ کہانی شروع ہوتی ہے آسٹریلیا کے علاقے بروم سے ۔۔۔۔ جہاں علیاہ میر شہزادیوں کی طرح زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔۔۔ یہ کہانی مڑتی ہے پاکستاں کے گاؤں شاہ کوٹ کی طرف ۔۔۔۔۔ ایک علیاہ میر ہے جو شہزادیوںسی ہے ------- ایک شاہ ویز ہے جو شہزادوں جیسا ہے----- ایک...