قسط ۱

3.5K 119 9
                                    


یہ شخص کیا کر رہا ہے یہاں ۔
کیا ہو گیا بری بات ایسے نہیں کہتے مہمان ہے وہ ہمارا ۔
یہ کیسا مہمان ہے ۔۔۔۔۔۔ جب دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر آ جاتا ہے یہ بندہ ۔
بڑے احسان ہیں اس کے ہم پر ۔
جی بالکل ! اس نے باپ کو گھورتے ہوئے کہا ۔
ایسے کیوں دیکھ رہی ہو جلدی سے چائے بناؤ اور لے کر آؤ۔
میں کوئی لے وے کر نہیں آ رہی آپ خود لے جانا ۔
ایسے اچھا تھوڑی لگتا ہے جب بن جائے تو لے آنا ۔ اس بار ولید صاحب نے تھوڑے غصے سے کہا۔

انبھاج ابھی دوستوں کے ساتھ گھوم پھر کر آئی تھی یونیورسٹی مکمل ہوئے دہ ہفتے ہو گئے تھے اور وہ اپنی دوستوں کو بہت مس کر رہی تھی اسی لیے سب دوستوں نے مل کر گیٹ ٹو گیدر کا پلین بنایا ۔ آج کا دن کافی اچھا گزرا تھا اور وہ بہت خوش بھی تھی مگر گھر آتے ہی گھر کے ڈرائنگ روم میں صدیقی کو بیٹھا دیکھ کر ساری خوشی فنا ہو گئی ولید جتنی اس شخص کی عزت کرتا انبھاج اتنی ہی اس شخص سے نفرت کرتی تھی اس کا خیال تھا کہ اس شخص کا ان سے کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہے ورنہ کون آج کے دور میں ایسے کسی کی بھی مدد کر دیتا ہے آج تک کم از کم بھی چالیس لاکھ دے چکا تھا یہ شخص اور اتنی بڑی رقم آج کے دور میں یوں ہی کوئی تھوڑی دے دیتا ہے اور پھر اس کی نظریں ، کچھ عجیب تھا ان میں ۔
انبھاج انبھاج ۔ اس کو اپنے والد کی آواز آتی سنائی دی ۔
اس نے جلدی سے چائے کپ میں ڈالی ساتھ ہی بسکٹ اور کیک وغیرہ رکھے اور ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑی اندر جا کر اس نے چائے ٹیبل پر رکھی اور خود باہر نکل آئی کچھ آگے جا کر اسے یاد آیا کہ نمکو والی ٹرے تو وہ رکھنا ہی بھول گئی ہے اس نے جلدی سے کچن سے نمکو والی ٹرے جس میں نمکو اور کباب رکھے ہوئے تھے اٹھائی اور ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی مگر روم کے نزدیک پہنچتے ہی صدیقی کی آواز نے اور اس کی باتوں نے اس کے پاؤں جما دیے اسے لگا جیسا وہ چلنا بھول گئی ہو جو وہ سن رہی تھی وہ سچ نہیں وہ سچ کیسے ہو سکتا ہے اس کا باپ اس کا باپ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے اس کے کان ان باتوں کو قبول نہیں کر پا رہے تھے ۔
جی تو کیا سوچا پھر آپ نے ۔ صدیقی نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے بولا ۔
جی کس بارے ميں ؟ ولید صاحب نے انتہائی مودبانہ انداز میں کہا ۔
ارے میری اور انبھاج کی شادی کے بارے میں ۔اس نے بسکٹ اٹھاتے ہوئے بولا ۔
جی وہ پوچھا نہیں پوچھ کر بتاتا ہوں میں آپ کو۔
ارے جناب پوچھنا کیسا آخر کمی ہی کس بات کی ہے مجھ میں جوان ہوں اچھا کماتا ہوں اور پھر کہیں نہ کہیں تو کرنی ہے نہ شادی تو پھر مجھ سے کرنے میں کوئی مسئلہ تو نہیں ہونا چاہیے اور ویسے بھی پوری زندگی تو میں آپ کی مدد تھوڑے کرتا رہوں گا ۔اس نے صاف انداز میں بولا۔
ٹھیک ہے کل تک بتاتا ہوں میں آپ کو ۔
ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی ۔
آپ کھائیں نا انبھاج کباب لاؤ بیٹا ۔ ساتھ ہی انہوں نے انبھاج کو آواز دیتے ہوئے کہا
انبھاج جو دروازے میں کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی اپنے آپ کو سنبھالتی اندر آئی اور کباب اور نمکو والی ٹرے وہاں میز پر رکھ کر اپنے کمرے میں آ گئی کمرے کا دروازہ اندر سے لوک کر دیا اور بیٹھ کر رونا شروع کر دیا ۔
" آخر بابا اس شخص کی باتیں سن بھی کیسے سکتے ہیں وہ مجھے خریدنے کی باتیں کر رہا تھا اور بابا خاموش سب سنتے رہے ایسا کیسے کر سکتے ہیں وہ "
پھر اندر سے آواز آئی وہ خرید تو نہیں رہا وہ تو صرف رشتہ ہی تو مانگ رہا ہے تو اس میں غلط کیا ہے ۔
اچھا جی تو پھر پیسوں کا ذکر کرنے کا کیا مقصد تھا ۔ انبھاج نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی رونا شروع کر دیا مگر پھر آنسو صاف کرتے ہوئے کھڑی ہوئی
ارے انبھاج توں عام لڑکی تھوڑے ہے بن ماں کی پلی بچی ہے توں اس باپ کی بیٹی ہے جو شراب کا عادی ہؤا کرتا تھا توں تھی جس نے اس کی عادت ہٹائی آج تک اتنے مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کرتی آئی ہے تو یہ صدیقی کون سے بکرے کا نام ہے یہ کہتے ہی وہ باتھ روم گئی منہ دھویا اور سو گئی کیونکہ اس شخص کے ہوتے ہوئے تو وہ ہرگز باہر نہیں جانے والی اور پھر وہ تھک بھی بہت گئی تھی ۔
*******************************
انبھاج کو سو کر اٹھے تقریباً آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا اور وہ تب سے نوٹ کر رہی تھی کہ اسکا باپ اس سے کچھ بات کرنا چاہ رہا ہے مگر کر نہیں پا رہا اور وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا باپ اس سے کیا بات کرنا چاہ رہا ہے ۔
" آخر کل بتانا بھی تو ہے اپنے صدیقی صاحب کو اللّٰہ کرے کسی گٹر میں ڈوب کے مر جائے وہ صدیقی کا بچہ ۔"
اس نے دل ہی دل بہت ساری گالیاں اور بددعائیں اسے دیتے ہوئے کہا ۔
آخر میں سہی ہی تو تھی نکلا نہ اس گھٹیا شخص کا کوئی نہ کوئی مطلب تب ہی اتنی مہربانیاں ہو رہی تھی ہم پر ۔اس نے پھر دل ہی دل میں سوچا ۔
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایک قتل معاف ہو جائے اور وہ اس صدیقی کا قتل کر دے یا کوئی جادو کا چراغ ہاتھ لگے اور وہ اس جن سے کہہ کر صدیقی نام کے جن کو کسی جزیرے پر چھڑوا دے مگر ایسا کچھ کہاں ہو سکتا تھا۔
" اب کیا ہو گیا بابا کو۔۔۔۔۔ہاں ۔۔ کس منہ سے رشتےکی بات کریں گے آخر اتنی طرف داریاں جو کرتے تھے اب جب میں سچی ثابت ہو گئی تو کس منہ سے بات کریں گے "
انبھاج دل ہی دل میں خود سے لگی ہوئی تھی کہ یکدم ولید صاحب نے اسے مخاطب کیا۔
انبھاج!
ہاں بولیں سن رہی ہوں۔
میں نے صدیقی سے ۔۔وہ بولتے بولتے رکے ۔
ہائے صدیقی صاحب سے صدیقی اتنی بڑی چھلانگ اس نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔

مجھے تم قبول ہو (✔✔Complete )Where stories live. Discover now