راہ خدا (آخری قسط)

157 19 51
                                    

22 اگست ،2020ء
فضا مزید ٹھنڈی اور سوگوار ہو رہی تھی۔
تبھی کھلی کھڑکی سے ایک جھونکا آیا اور اس سے ٹکرایا۔
اس نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں۔
کچھ دیر تک وہ ماضی اور حال والی کیفیت میں رہی پھر پھر ایک بار پھر سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔

دیکھنا ایک دن میں تمہیں یاد آئوں گی اور تمہیں پھر برگر کھانا کیا بلکہ برگر کے نام سے ہی نفرت ہو جائے گی۔"

ایک ننھا منہ سا فقرہ اس کے ذہن میں گزرا اور بہت کچھ یاد دلا گیا۔

ماضی:
آج خدیجہ اور آئمہ کا فزکس کا پیپر تھا۔
خدیجہ رٹے مارتے ہوئے بولی۔

"یار آئمہ!یہ نیومیریل نمبر 2.1 اور2.2 یاد کرنے تھے۔"

"ہاں تو اور کیا ؟بلکہ میم نے کہا تھا ان دونوں میں سے کوئ ایک تو لازمی آئے گا۔"
گاڑی ڈرائو کرتی آئمہ اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔

"کیاااا؟ کب کہا تھا؟ میں نے تو نہیں یاد کیے۔"

"جب تم  اپنے منہ میں چپس ٹھونس رہی تھی اس وقت۔"

"کیااا یارررر؟ 😰"

"چلو کوئ نہیں۔ اب یاد کر لو۔"

اور پھر خدیجہ نے وہ رٹے لگائے،وہ رٹے لگائے کہ پیپر کرتے ہوئے ان نیو میریکلس کے علاوہ وہ سب بھول گئ تھی۔😜
وہ تو آئمہ کی مہربانی ورنہ خدیجہ کے مطابق تو اگر آئمہ نقل نہ کرواتی تو اس نے فیل ہی ہو جانا تھا۔😉
گو کہ یہ بڑا رسک والا کام تھا مگر پھر ان دونوں کی دوستی ہی ایسی تھی تو اب کیا کیا جائے؟😂

ہوا کے ایک اور جھونکے نے اسے حال میں واپس پہنچا دیا ۔
آنکھوں سے موتی پھسلنے کو بیتاب تھے۔
ٹوتے ٹوٹے لفظوں میں یہ جملہ ادا ہوا۔
خدا ۔ تمہیں۔ جنت ال فردوس۔ میں جگہ۔ ۔ ۔ عطا ۔ ۔ فرمائے۔
اور بس یہ کہہ کر موتی آنکھوں سے پھسل گئے۔

اور موت کو تو بس ایک بہانا چاہیے!!
ڈاکٹر کے مطابق پانچ منٹ کی دیری جان لیوا ثابت ہوئ تھی۔
آج خدیجہ کی پانچویں برسی تھی۔
اور اب اسے برگروں سے شدید قسم کی چڑ ہو گئ تھی۔

جانے والے جا تو رہے ہو
تو پھر اپنی یہ یادیں بھی ساتھ ہی لےتے جائو
(مناہل آصف)

بارش تیز ہو گئ تھی ۔
آج موسم بھی اس کی یاد میں برس رہا تھا۔
پانچ بج چکے تھے۔
وہ خاموشی سے اٹھی اور نیلے رنگ کا سکارف چہرے کے گرد لپیٹ لیا۔
سر بہت بھاری ہو رہا تھا مگر آج بھی اسے یہ کام کرنا تھا جو کہ وہ پچھلے چار سالوں سے نم آنکھوں اور بوجھل دل سے کرتی آ رہی تھی۔
وہ ہر سال 22 اگست کو خدیجہ کے نام کا صدقہ دیتی تھی اور کیونکہ خدیجہ کی عادت تھی وہ ہر ہفتے کو کسی اسپتال میں کیلے اور یخنی ثواب کے طور پر لے کے جاتی تھی اور اب آئمہ اس کے نقش قدم پہ چل رہی تھی۔

"سنو اگر میں مر گئ نہ تو پھر میرے بعد تم یہ کام جاری رکھنا۔"
اس دن خدیجہ نے اسپتال سے نکلتے ہوئے آئمہ سے  یہ کہا تھا۔

چند باتیں،چند یادیں
کچھ گزرے لمحے ، کچھ گزری راتیں
بس اب یہی باقی بچی ہیں
اب نہیں بیتنے والے یہ لمحے
خدارا لوٹ آئو
اب نہیں کٹتی راتیں
خدارا لوٹ آئو
(مناہل آصف )

اس نے  خاموشی سے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور آہستہ آہستہ راہ خدا پر یعنی پھولوں کے راستے پر چل پڑی۔

ختم شد

خدا سے خدا تک کی کہانی
وصل سے اصل بھید تک کی کہانی
راہ اللہ تک کہ سفر کی کہانی
راہ خدا از قلم مناہل آصف

●●●●●●●●●●
Firstly
Alhumdullilahhhhhhhhh
My first novel is completed  🎉💃
Secondly
Thanks for all yr support my cute wattys.
So how was the last episode ?
I know thorry emotional ho gye but phir mzay ki ending nhi bn rhi thy 😜
and plz ignore my fzool poetry 😂
...................
So thanku so much for yr support
by the way mughe apna character maar kay boht khushi ho rhy hay 😂

🔘Vote the story
🔘Follow me on insta @miniee_creations
□□□□□□□□□□□□
Minahil Asif
Date:29th September,2020
Time:10:45 pm

Edit :
Alhumdullilah novel is re edited .
hope u like it
Thanks for all of yr support.
Minahil Asif
Date: 9th August,21

Raah e khuda✔Where stories live. Discover now