قسط #2

34 6 3
                                    

روڈ کی سائیڈ پر ایک کار کھڑی تھی اور ایک شخص فٹ پاتھ پر بیٹھا نجانے کس سوچ میں مصروف تھا۔ موبائل اس کے عقب میں پڑا تھا۔
یکدم رنگ ہوئی اور اس نے فون پک کرلیا۔
" ہیلو۔۔۔ بشر؟؟"
" کون؟؟"
" میں تمھیں کب سے کال ملا رہی ہوں لیکن تم ہوکہ فون پک ہی نہیں کررہے؟"
" میں بیزی تھا۔"
" جتنے بھی بیزی صحیح لیکن کیا مجھ سے بات ایک بات کرنا بھی اب ناگوار ہوگیا ہے؟؟!!"
" ہاں۔۔۔ ایسا ہی سمجھ لو۔۔۔!" وہ درشتی سے مخاطب ہوا۔
" کیوں؟!..." (جھنجلا کر)
" میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ دوبارہ مجھے کال مت کرنا!!"
" بشر ایسا نہ کہو۔۔۔۔ میں تم سے دور رہ سکتی ہوں لیکن تمھارے بغیر نہیں۔۔۔۔"
" تم سے کس نے کہا کہ تم مجھ سے دور ہو!... تم میرا فطور بن چکی ہو ، سمجھی!!!... وائے ڈونٹ یو لیو می آلون!!؟؟" وہ یکدم چلانے لگا۔
آس پاس چلتے لوگ رک کر اس کو حیرت سے دیکھنے لگے۔
لیکن وہ بولتا رہا۔
" آخر تم چاہتی کیا ہو!!؟؟" اس نے تنگ آکر اپنی آنکھیں دبائیں۔
" کیا تم نہیں جانتے؟؟!!"(چلا کر)
" نہیں ، اگر میں جانتا تو میرا یہ حال کیوں ہوجاتا!" وہ اسی طرح کانپتی آواز میں بولا۔
" کاش بشر تم اس وقت سمجھ جاتے تو تمھارا اب ایسا حال نہ ہوتا۔۔۔ لیکن اب تم اسی آگ میں جلتے رہو گے۔۔۔۔ ہمیشہ کے لیے!!!"  عجیب قہقہوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
اس نے فون اٹھا کر خود سے دور اچھال دیا۔ فون کی اسکرین ٹوٹ کر چلنا چور ہوگئی۔
" باس۔۔۔یہ کیا کیا آپ نے!؟؟" قریب سے کسی کی آواز آئی۔
وہ نوجوان دوڑ کر گیا اور اس کا فون اٹھالایا۔ فون کا حال دیکھ کر اس نوجوان کو شدید افسوس ہوا۔ قریب کھڑے کسی آدمی نے اس نوجوان کو بتایا کہ وہ خود کلامی کررہا تھا 😫 اور اس نے یکدم فون اٹھا کر روڈ پر پھینک دیا۔ نوجوان نے سن کر سرہلایا۔ آدمی چلاگیا۔
نوجوان نے اس کو فٹ پاتھ پر سے اٹھایا۔
اور کار میں بٹھایا۔ اور کار اسٹارٹ کردی۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ منمناتی ، گنگناتی ہال میں چلتی ہوئی آرہی تھی۔ ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا جس کی پتیاں وہ بےدردی سے الگ کررہی تھی۔
" بشر حسین لوؤز می...... بشر ڈونٹ لوؤ می؟!" اس نے یہ دھراتے ہوئے دو مزید پتیاں اکھاڑیں۔ پھر بجانے اسے کیا غصہ آیا کہ اس نے لائٹر نکال کر اس زخمی گلاب کے پھول کو آگ دکھا دی۔ پھول جلنے لگا اور وہ ہنسنے لگی۔ اس کے قہقہے بلند ہوتے چلے گئے۔ وہ ہنستی ہنستی ہال کے چمکیلے فرش پر گر گئی۔
آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر بہنے لگے اور بہتے چلے گئے۔
اس نے سر اٹھا کر فانوس کو دیکھا اور اپنے آنسو پونچھ لیے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور چلتی ہوئی ایک گلدان کے پاس آئی۔ پھولوں کو الگ کرکے اس نے آگ دکھادی۔ اور اس نے تمام گلدانوں کے ساتھ ایسا ہی کیا۔
" ماریہ کی محبت اس پھول کی طرح تھی جس کو تم نے کانٹا بنا کر پھینک دیا، بشر حسین!" وہ چلائی۔ اس نے  چلاتے ہوئے جلتے پھولوں کو کچلا ۔
" ماریہ کیا کرسکتی ہے ، اس کا اندازہ تمھیں تو کیا تمھارے فرشتوں کو بھی نہیں ہے ۔۔۔۔ ماریہ کی حدود کہاں تک ہیں یہ بھی تم نہیں جانتے۔۔۔۔ وہ مر کر بھی تمھارے دماغ کا فتور بن سکتی ہے، تمھیں جھکا سکتی ہے، ایڑھیاں رگڑنے پر مجبور کرسکتی ہے !" وہ اور زور سے چلائی ۔ سارا ہال گونج اٹھا۔
ایک بار پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ ہنستی چلی گئی۔ جلے ہوئے پھولوں کو اپنے پیروں سے مسلتی ،  آنسو پونچھتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔ اوپر سے اب بھی اس کے دلدوز قہقہے سنائی دے رہے تھے۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجانے وہ کس بھیانک خواب سے جاگ اٹھا تھا۔ سخت بخار میں مبتلا اس کا جسم اور کانپتے ہاتھ اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ فتور اس کی بیماری ثابت ہورہا تھا۔ جو وہ دیکھ سکتا تھا کوئی اور اس کو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پچھلے چند سال اس پر اتنے بھاری ہوں گے ، یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
وہ دوسری جانب مڑا۔ شام سامنے صوفے پر سوتا ہوا دکھائی دیا۔
" شام؟؟"
شام فوراً جاگ اٹھا۔
" باس۔۔۔۔ آپ جاگ گئے۔۔۔۔ آپ کو بھوک محسوس تو نہیں ہورہی۔۔۔۔ کچھ کھانے کے لیے لاؤں؟"
" نہیں۔۔۔۔ فالحال تم اس قتل کیس کا حال سناؤ کیا بنا اس کا ۔۔۔۔۔ کتنے دنوں سے میں اسپر غور ہی نہیں کر پارہا تھا۔۔۔۔ خیر۔۔۔" اس نے آہ بھری۔
" ابھی تو انویسٹی گیشن جاری ہے ، آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔۔"
" کوئی اور ثبوت ؟؟"
" نہیں باس۔۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔"
" تم جایا کرو کرائم سین پر تاکہ کچھ نہ کچھ ایسا مل جایا کرے جس کی بناء پر ہم آگے کارروائی کرسکیں۔۔۔"
" ٹھیک ہے باس۔۔۔۔ آپ ابھی بیٹھیں ، میں کافی بنا کر لاتا ہوں۔۔۔۔ کافی تو پیں گے ناں؟"
" ہاں لے آؤ۔۔۔"
شام نے سر ہلا یا اور مسکرا کر کچن کی جانب چلا گیا۔
وہ بیڈ پر ہی بیٹھا رہا۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا جس کی سکرین ٹوٹیں ہوئی تھی پھر خود کو کوسا۔
شام جب تک کافی لے کر آگیا۔
" چھوڑیں باس۔۔۔۔ نئا لے لیں گے ۔۔۔ آپ بس سکون کریں۔۔۔"
" تمھیں میرے سکوں کی کیا پڑی ہے؟"
" وہ۔۔۔۔آہم۔۔۔۔ دراصل آج کل موسم کی وجہ سے آپ بیمار پڑ رہے ہیں اس لیے کہہ رہا تھا۔ "
" کیا تمھیں ابھی تک یہ غلط فہمی ہے کہ میں موسم کی وجہ سے بیمار ہوں؟؟"
شام کو لگا کافی اس کے گلے میں پھنس گئی۔ وہ کھانسا۔
" جی اور بھلا کیا وجہ ہوسکتی ہے؟"
" ہوسکتی نہیں ، ہے!.... وجہ ہے اور تم یہ اداکاری میرے ساتھ مت کیا کرو۔۔۔۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔۔۔۔ مجھ جیسے سر پھرے آدمی کے ساتھ دو سال گزار چکے ہو۔۔۔اور اب بھی تم وجہ نہ جاننے کی اداکاری کرنی پڑرہی ہے!"
" ناراض مت ہوں باس۔۔۔۔ میں واقعے پریشان ہوں۔۔۔"
" اٹس فائن۔۔۔۔ مگر سچ کو اگنور کر دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔"
" میں جانتا ہوں باس۔"
" ہونہہ۔۔۔" وہ کافی پینے لگا۔ شام نے بھی اس کی تقلید کی۔
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Beautiful Deceptions خوبصورت دھوکے(On Hold )Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon