قسط #1

46 8 6
                                    

Ringa ring a roses
A pocket full of poses
Hush'a bush'a
They all fall down....
وہ یہ گاتی ہوئی سڑک پر بڑے لاپرواہ انداز میں چل رہی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ موسم خوب اچھا تھا۔ بادل چھاتے تھے۔ اور ہوا بھی چلنی شروع ہوگئی تھی۔ سامنے کی بڑی مارکیٹ سے پکوانوں کی خوشبو اٹھنے لگی تھی ۔ وہ فوراً اس جانب دوڑی۔ جیسے اسے بہت بھوک لگی تھی۔
وہ ایک ریستوران کے ٹیبل پر جا بیٹھی۔ اس نے پکوڑوں کا آڈر دیا۔ بھئی موسم ہی ایسا تھا، پکوڑے تو بنتے تھے۔ جب پکوڑے آگئے تو وہ خوشی خوشی کھانے لگی۔
عمر سترہ سال، بال کھلے ہوئے، کپڑے کیثول (casual) ، ایک لمبی اسڑپ والا پرس بازو سے لٹکایا ہوا تھا۔
پتلا لمبا جسم۔ دکھنے میں ایک بےضرر معصوم سی لڑکی۔ کانچ کی گڑیا۔
جب وہ پکوڑوں پر ہاتھ صاف کر چکی تو اٹھ کھڑی ہوئی۔
پیسے ویٹر کو تھما کر وہ پھر سے اپنی اس مٹکتی چال پر چل نکلی۔
کھلکھلاتی، ہنستی، اور کبھی کبھی تو کچھ گنگنانے لگتی تھی۔
بارش کا سما ہونے لگا۔اب وہ اپنے گھر کی جانب روانہ تھی۔ ایک بڑی سی گلی میں اس نے ایک ٹرن لیا۔
ایک شخص اس کی جانب بڑھتا ہوا چلا آرہا تھا۔ اس نے سر جھکایا ہوا تھا ۔
لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
اس آدمی نے سر اٹھایا۔ اور وہ ہکا بکا ہوکر اس کی جانب دیکھنے لگا۔
" تت۔۔۔تم۔۔۔تمم۔۔۔۔۔ " اس کے گلے میں الفاظ پھنس گئے جب اس نے لڑکی کو اپنی جانب آتے دیکھا ۔
" کہاں بھاگ رہے ہو فراز..؟؟؟؟۔۔۔۔ ادھر آؤ ناں۔۔" وہ اس کے پیچھے چلتے ہوئے بولی۔
وہ قدم پیچھے پہننے لگا۔
" و۔۔ووو۔۔۔وہیں رک جاؤ۔۔۔۔" وہ ہکلایا۔
" کیا مطلب فراز ؟؟.. ادھر آؤ ناں۔۔۔ مجھے بتاؤ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں؟؟" اس کے الفاظ میں معصومیت تھی۔
" نہیں!!!!"
وہ کہہ کر اور پیچھے ہونے لگا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ بھی اس کے پیچھے بھاگی۔
وہ دوڑتا ہوا ایک گلی مڑگیا۔ وہ بھی مڑگئی۔
کچھ دیر کے بعد وہ لڑکی وہاں سے برآمد ہوئی۔ اور بڑے آرام سے دوبارہ گلی میں چلنے لگی۔ اس کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ تھی۔
۔
۔
۔
اور اس گلی کے ایک موڑ پر وہ شخص خون آلودہ پڑا تھا۔ اس کے جسم پر بےجا وارتھے۔ اور وہ جانکنی کے عالم میں تڑپ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں بہت اندھیرا تھا۔ پردے روشندانوں پر گرے ہوئے تھے۔ صوفے پر ایک شخص آنکھوں پر بازو جمائے سویا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد اس کے جسم میں ہلچل مچ گئی۔ سانس متغیر ہونے لگا اور پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہوگئیں۔
اس نے ہولا کر آنکھ کھولی۔ اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
اب وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر ادھر اُدھر دیکھا۔ کمرہ خالی تھا۔ ایک آہ بھرتے ہوئے اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھا نہیں گیا۔
گال سرخ ہورہے تھے۔
" شام ؟؟" اس نے پکارا۔ ایک نوجوان آدمی دوڑا آیا ۔
" باس؟؟؟!!!.. آپ جاگ گئے؟" وہ پاس بیٹھ کر پوچھنے لگا۔
" تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں۔۔۔۔"وہ خفگی سے بولا۔
" جناب۔۔۔۔ میں آپ کو کیسے جگاتا۔۔۔۔ آپ کل رات سے بخار میں مبتلا تھے اور سڑک پر بےہوش ہوتے ہوتے بچے تھے۔ کیا میں اتنا ظالم ہوسکتا ہوں کہ ایک بیمار آدمی کو جگا دوں؟؟"
" تمھیں بہت بکواس کرنی نہیں آگئی؟؟"وہ پھر خفگی سے بولا۔
"مم۔۔۔میں تو کہہ رہا تھا کہ۔۔۔۔ آکر ناشتہ کرلیں۔" اس نے کہا اور اٹھ کر بھاگ گیا۔

وہ اٹھ کر باتھروم کی جانب بڑھا۔ شاور لیتے ہوئے وہ اپنے اس ڈراؤنے خواب کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پانی اس کے خوبصورت وجیہ جسم پر پھسل رہا تھا اور وہ اپنی کسی سوچ میں مبتلا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ نہا دھو کر باہر نکل آیا۔
اب وہ ڈریسنگ کے سامنے اپنی شرٹ پہن رہا تھا۔ شیشے کو گھڑی دو گھڑی گھورتا ایسے جیسے اسے کسی کی تلاش ہو۔
ابھی کچھ لمحے گزرتے ہوں گے کہ اس کی نظر دوبارہ شیشے پر پڑی اور وہ ٹھٹک سا گیا۔
" کب تک بھاگو گے، بشر حسین۔۔۔۔۔ آخر کار تمھیں جھکنا پڑے گا ۔" نسوانی آواز گونجی۔
وہ مسکرانے لگا۔ یہ کربزدہ مسکراہٹ تھی۔
" اور کتنا جھکانا چاہتی ہو؟؟؟" اس نے سوال کیا۔
" بہت نیچے۔۔۔۔جہنم تک۔۔۔۔" آواز آئی۔
اس نے عکس کو ایک گھوری دی۔
" بشر حسین کو جھکانے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔۔۔۔ اس کے علاؤہ اور کوئی بھی نہیں۔۔۔۔ تم بھی نہیں۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولا۔
ایک قہقہہ سنائی دیا۔
" دیکھ لیتے ہیں کون کس کو جھکا لیتا ہے۔۔۔ اور جہنم تک کون جاتا ہے۔۔۔"
" تم بشر ہو۔۔۔ جہنم میں تو  بشر ہی جائیں گے" آواز آئی۔
" ہاں میں بشر ہوں اور تم فقط ایک شیطان۔۔۔سو۔۔۔۔۔ میں پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے!!.." اس نے شیشے میں اس نسوانی عکس کو گھورتے ہوئے کہا۔

عکس جیسے جل سا گیا اور غائب ہوگیا۔
" باس؟؟؟!!!" پیچھے کھڑا شام عجیب نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ مڑا اور بولا۔
" میں آرہا ہوں۔۔۔اب جاؤ۔۔۔۔" وہ کرخت لہجے میں بولا۔۔ شام سر ہلا کر چلتا بنا۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے گہرے پہر تقریباً ایک بجے کے قریب اس سڑک پر ایک مترنم سیٹی سنائی دیتی تھی۔  یہ سڑک اکثر خالی رہتی تھی۔ لوگوں کا ادھر آنا جانا بھی کم تھا کیونکہ وہ اسے گھوسٹ روڈ کے نام سے یاد رکھتے تھے۔
صبح ٹریفک ٹھیک ہوتی اور رات کو سڑک بالکل سنسان لگنے لگتی۔ اس کی ایک اور وجہ اس کے ساتھ لگنے والا ایک جنگل تھا۔ لوگوں کے مطابق اس جنگل سے کئی بار لاشیں برآمد ہوئیں اور بہت سے لوگ لاپتا ہوئے۔ اسی لیے اس جنگل کو بھی "بلیک فارسٹ" کا نام دےدیا گیا۔
معمول کے مطابق وہاں ایک کار آرکی۔ شاید وہ وہاں روز آتا تھا۔ کبھی کبھار وہ اس جنگل میں چلا جاتا لیکن پھر سلامت بھی لوٹ آتا۔ اسی طرح اس دن بھی وہ آیا۔ اس نے کار سے اتر کر کچھ دیر سڑک کو گھورا۔ پھر جنگل کی جانب نکل پڑا۔
ہر جانب سائیں سائیں کی آواز رقصاں تھی۔ گھنے درخت اور خاردار جھاڑیاں۔ وہ ان میں چلتا ہی جارہا تھا۔ معمول کے مطابق آدھے راستے سے وہ واپس پلٹ جاتا تھا لیکن آج اس کو آگے جانے کا دل کیا۔ نجانے وہ کیسا انسان تھا جسے ذرا برابر بھی ڈر محسوس نہیں ہورہا تھا۔
وہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس کا پیر کسی نرم گھاس پر پڑا اور وہ کسی گڑھے میں گرتا چلا گیا۔
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Don't forget to VOTE ❤️.... It means alot 😻

Beautiful Deceptions خوبصورت دھوکے(On Hold )Where stories live. Discover now