رشتے

47 6 17
                                    

"امی کتنے ہیں؟"خدیجہ نے چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھا اور امی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئ۔
"پندرہ ہزار ہیں ۔پانچ میں نے جوڑ کر رکھے تھے اور دس محلے میں سے ادھار لیے ہیں اور تو کوئ ہے نہیں کے اور پیسے مل جاتے ویسے بھی محلے والے مدد کر دیتے ہیں خاص کر فائزہ کے گھر والے۔"
"یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہیں امی یہاں لوگ واقعی بہت اچھے ہیں پر امی باقی پےسوں کا کیا ہوگا۔"اس نے فکرمندی سے کہا۔
"بیٹا اور میں کیا کر سکتی ہوں جتنے ہو سکتے تھے کر دیے۔یہ دے دیتے ہیں آگے اللہ خیر کرے۔"
"امی بابا غصہ کریں گے یاد ہے نہ اس دن کتنا غصہ ہوۓ تھے جب آۓ تھے۔"وہ پریشان اور ڈری سی بولی۔
"اللہ سب بہتر کرے گا تم فکر نہ کرو۔"انہوں نے اسے تو تسلی دے دی لیکن اندر سے وہ خود بھی پریشان تھیں۔
               *____________*
وہ عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئ تو باہر سے اسے باتوں کی آواز آئ جاۓنماز تہہ کر کے باہر گئ تو فائزہ امی سے باتیں کر رہی تھی۔
"اسلام و علیکم فائزہ کیسی ہو؟" وہ اس صوفے سامنے والے پر بیٹھ گئ جہاں امی اور فائزہ بیٹھے تھے۔
"واعلیکم اسلام میں ٹھیک تم سناؤ۔"
"تم کب آئ مجھے پتہ ہی نہیں چلا."
"ابھی آئ ہوں جب عمر نماز کے لیے جا رہا تھا۔"
"بیٹا تم بیٹھو باتیں کرو میں اندر تسبیح پڑھ لوں اور خدیجہ بیٹا فائزہ کو کچھ کھانے وغیرہ کا پوچھو۔"علیہ بیگم نے پہلے فائزہ کو کہا پھر خدیجہ کو کہہ کر اندر چلی گئ۔
"ارے تم کہاں چلی؟"فائزہ نے خدیجہ کو اٹھتے دیکھ کر بولا۔
"تمہارے لئے کچھ لاتی ہوں۔"
"بیٹھو تم یہاں میں تم سے باتیں کرنے آئ ہو کھانے پینے نہیں اور اگر کچھ چاہیے ہوگا میں خود لے لوں گی میرا اپنا گھر ہے۔"فائزہ نے اٹھ کر اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔
"چپ کر کے بیٹھو اور میری بات سنو۔"اس بار اسنے ہلکا سا ڈپٹا تو خدیجہ بھی اسکی طرف متوجہ ہو گئ۔
"تمہیں پتی ہے میں پھوپھو بننے والی ہوں۔"فائزہ نے جوش سے اسے بتایا۔
"ہیں کیسے؟ فائق اور فرحان تو ابھی بہت چھوٹے ہیں۔"خدیجہ حیرانی اور پریشانی سے بولی۔
اوہو بدھو میں انکی نہیں جبران بھائ کی بات کر رہی ہوں۔"فائزہ نے اسکے سر پر ہلکی سے چیت لگائ۔
"او اچھا تو ایسے بولو نہ اور تمہیں کیسے پتہ؟"
"وہ ایسے کے جبران بھائ اور طوبہ بھابھی (جبران کی بیوی) نے ہمارے گھر آنا تھا پر نہیں آۓ تو پتی چلا کے بھابھی کی طبیعت خراب ہے اور گڈ نیوز ہے۔"آخر میں وہ چہکی۔
"توبہ کرو لڑکی اپنی عمر دیکھو اور باتیں دیکھو۔" خدیجہ نے اسکے بولنے پر شرم سے کہا۔
"اوہو ویسے ہو تو تم مجھ سے بڑی پر بہت ہی کوئ چنی کاکی ہو اور میں کوئ غلط بات تھوڑی کی ہے ۔صرف دو سال چھوٹی ہو میں تم سے تم بیس کی اور میں اٹھارہ کی اب تو شناختی کارڈ بھی بن جاۓ گا میرا ۔"اسنے جیسے اپنا چھوٹا کہے جانا بہت مائنڈ کیا۔
"اچھا جی مان لیا آپ کو بڑا۔"خدیجہ نے جیسے ہار مانی۔
"تم لوگ جبران بھائ سے کافی کلوز ہو نا؟" اسنے ان لوگوں کی کافی اٹیچمنٹ دیکھی تھی جبران سے ۔
"ہاں بہت دراصل ماما کی صرف ایک بہن ہیں آسیہ خالہ(جبران کی امی) بابا کی بہن کینیڈا اور بھائ انگلینڈ میں ہوتے ہیں تو ہم پچپن سے ہی انسے زیادہ کلوز ہیں۔"اسنے تفصیل سے جواب دیا۔
"وہ جوریہ باجی اور جاثیہ انکی بہنیں ہیں نا جن سے تم نے مہندی والے دن ملوایا تھا۔"اسنے یاد آنے پر پوچھا۔
" ہاں اور انکا ایک چھوٹا بھائ جلال بھی ہے۔"
"اچھا تم بیٹھو میں پانی لے کر آتی ہوں۔" خدیجہ کہتے ساتھ آٹھ گئ پیچھے فائزہ رکو رکو کہتی رہ گئ کیونکہ اسے اسکے پانی لانے کا مطلب اچھے سے پتہ تھا۔
"میں نے منا کیا تھا نہ۔"فائزہ نے خدیجہ کو ٹکڑے لاتے دیکھ کر خفگی سے بولا۔جس میں پانی کی جگہ کوک ساتھ بسکٹ اور نمکو تھی۔
"کچھ نہیں ہے یار یہ کوک کل عمر لایا تھا اور یہ چیزیں بھی تمہاری قسمت میں تھیں تو بچی رہ گئیں۔"اسنے چیزیں ٹیبل پر رکھیں۔ اور معصومیت سے بولی۔
"بہت چلاک ہو تم لڑکی."فائزہ نے اسکو دیکھ کر ہنستے ہوۓ کہا۔
"یہ تو الزام ہے بھئ۔"خدیجہ بھی ہنستے ہوئے بیٹھ گئ۔اور کوک کا گلاس اسکو پکڑایا۔
"ہاں یاد آیا وہ تمہارا سوٹ رکھا ہے بہت شکریہ دینے کے لیے۔" وہ کوک کا آپ لیتے ہوۓ دوسرے صوفے کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
"شکریہ کی لگتی جب بھی کوئ چیز چاہیے ہو بس بتا دینا۔اور بتاؤ تمہاری پارٹی کیسی رہی۔"خدیجہ نے بھی ایک بسکٹ اٹھایا۔
"بہت اچھی رہی اور سب نے تعریف کی میرے سوٹ کی کہ بہت اچھا ہے۔"
"اس میں اتنا اچھا کیا ہے سمپل سا تو ہے۔"اسنے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"تم نے سنا "simple is beautiful" فائزہ مزے سے بولی۔تو دونوں ہسنے لگیں۔
"اچھا چلو اب میں چلتی ہوں۔"تھوڑی دیر اور باتیں کرنے کے بعد فائزہ اٹھی۔
"بیٹھ جاؤ اور۔"وہ بھی ساتھ اٹھی۔
"نہیں یار کالج کا کام کرنا ہے۔"
"چلو ٹھیک جلدی آنا پھر۔"
"انشاء اللہ ضرور۔اللہ حافظ۔"
"اللہ حافظ."
فائزہ کے جانے کے بعد پہلے اسنے ٹی ل سے چیزیں اٹھا کر کچن میں رکھیں پھر سوٹ پکڑا تو اسے عجیب سے احساس نے آ گھیرا۔وہ جب بھی اس سوٹ کو دیکھتی اس کی کیفیت بدل جاتی ایک الگ سا احساس اسکے اندر اجاگر ہوتا جسے سمجھنے سے وہ جود کاسر تھی۔اسنے جلدی سے اسے الماری میں رکھا اور جود عالیہ بیگم کے پاس چلی گئ۔
               *_____________*
وہ اکمل عابد کے فارم ہاؤس سے سیدھا گھر آیا تھا۔اندر داخل ہوا تو اسے دادا ٹی وی دیکھتے نظر آۓ۔
"اسلام و علیکم دادا۔" وہ سلام کرتا انکے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔
"واعلیکم السلام بیٹا کیسے ہو؟"انہوں نے اسکی طرف چہرہ موڑ کر دیکھا۔
"ٹھیک دادا آپ بتائیں آپکی طبیعت کیسی ہے اور اذھان کہاں ہے؟"وہ صوفے پر نیم دراز حالت میں اپنی پیشانی مسلتا بولا۔
"میں تو ٹھیک ہوں الحمدللّٰہ اذھان اپنے دوستوں کے ساتھ نکلا ہوا ہے پر تم ٹھیک نہیں لگ رہے۔"وہ فکرمندی سے بولے۔
"نہیں دادا میں ٹھیک ہوں بس تھوڑی سی تھکن ہے آپ پریشان نہ ہوں۔"وہ اٹھ بیٹھا اور انکے مطمئین کرنے لگا۔
"کہا بھی ہے میں نے اپنا خیال رکھا کرو ہر وقت کام میں گھسے رہتے ہو۔"وہ اسکے لیے پریشان ہو گۓ تھے۔
"دادا میں ٹھیک ہوں کام میں نہیں کرونگا تو کون کرے گا بس تھوڑی تھکن ہے آرام کرونگا تو بالکل سہی ہو جاؤنگا۔"وہ انکے تسلی دے رہا تھا کیونکہ جانتا تھا دادا اسکے کیے پریشان رہتے ہیں۔
"تمہارے کام نہ کرنے سے ہم بھوکے نہیں مر جائینگے وہ اللہ ابھی بھی دے رہا ہے تب بھی دے گا کام اور پیسوں سے زیادہ تم عزیز ہو ہمیں۔انہوں نے سخت لہجے میں اسے ڈپٹا۔
"اسکے دادا آئندہ خیال رکھوں گا اب فکر نہ کریں۔"اسنے بات ختم کی اور ٹی وی کا ریموٹ اٹھا لیا۔
"جی ہاں ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کے مشہور بزنس مین پر کچھ نا معلوم افراد نے حملہ کیا جب وہ اپنے بیٹے کمال عابد اور بھائ اجمل عابد کے ساتھ اپنے شیخوپوری والے فارم ہاؤس پر تھے۔ایسا لگتا ہے یہ کوئ طاقتور گرہ کا کام ہے کیونکہ انکے فارم ہاؤس کا سکیورٹی سسٹم بھی ہیک کر کیا گیا تھا اور انکے گارڈز کو بھی بے ہوش کر دیا گیا تھا۔اور دیکھنے میں ایسا لگتا کی انکا اصل نشانا اکمل عابد تھے کیونکہ انکی حالت بہت خراب تھی جبکہ انکے بھائ اور بیٹا بالکل سہی تھے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساتھ اکمل عابد کی تصاویر دیکھائی جا رہی تھیں نیوز اینکر مزید بول رہی تھی کہ جاذب نے ٹی وی بند کر دیا۔
"اللہ رحم کرے ہم پر کتنی بری طرح مارا ہے۔"دادا افسوس سے بولے۔
"آپ ٹینشن نہ لیں اسکے کرتوت کچھ خاص اچھے نہیں تھے کرپٹ اور دھوکے باز ہے بہت ہر کام میں ہیرا پیاری بھی کرتا ہے ۔میرے ساتھ بھی چالاکی کی کوشش کر چکا ہے۔"وہ نامل انداز میں بولا۔
"لیکن اسکی حالت تو دیکھنے تھی کرنی بری تھی۔"انکے تو اسکی حالت پر دکھ ہو رہا تھا۔
"چھوڑیں ایسے لوگوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔"وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
"اب میں تھوڑا آرام کر لوں۔"
"ہاں بیٹا جاؤ میں بھی جا رہا ہوں نماز کا ٹائم ہو رہا ہے۔"
جاذب اور دادا دونوں اپنے کمروں میں چلے گۓ۔
جاذب کے جانے کے بعد عثمان نے جاذب کے کہنے پر انکے سارے سکیورٹی سسٹم کو ریسیٹ کر دیا تھا اور گارڈز کو بھی بے ہوشی والے سپرے سے بے ہوش کر دیا اور اکمل عابد کی تصاویر لے کر میڈیا پر فرضی کہانی بنا کر دے دیں۔اکمل عابد کی نہ ایسی حالت تھی اور نہ وہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ اپنے سے آدھی عمر کے لڑکے سے مار کھا چکا ہے اجمل اور کمال بھی مصلحت کے تحت چپ رہے۔
               *____________*
وہ ساکت کھڑا اپنے سامنے موجود وجود کو دیکھ رہا تھا۔اسے اپنی بصارت پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ جو دیکھ رہا ہے وہ سچ۔ اس ایک لمحے میں اسنے کیا کچھ محسوس نہ کیا تھا۔حیرانی۔۔۔۔پریشانی۔۔۔۔خوشی۔۔۔۔ماضی کی یادیں۔۔۔۔کرب۔۔۔۔دکھ۔۔۔۔غم۔۔۔۔اپنے عزیز لوگوں کی یادیں۔۔۔۔غصہ۔۔۔۔نفرت۔۔۔۔بچھڑنے کا دکھ۔۔۔۔کھونے کا دکھ۔۔۔۔اس ایک لمحے میں آنے اپنے پچھلے سالہ سال ایک ساتھ محسوس کیے تھے۔وہ کبھی اس وجود کو دیکھتا جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا کبھی اس پر جھکی لڑکی جو اس خون کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔گویا وہ ابھی تک کنگ تھا کہ اکا ماضی ایک بار پھر اسکے سامنے آ گیا ہے۔وا اس وجود کی نظریں بھی خود پر محسوس کر سکتا تھا ان آنکھوں میں بھی وہی جزبات و احساسات تھے ۔
دوناں لوگوں کے لبوں نے ایک ساتھ بے آواز جنبش کی تھی۔
"عالی پھوپھو"
"جاذب"
                 *_________*

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

خوبصورتی فانی ہےWhere stories live. Discover now