افسانہ: آفت کی پرکالہ
افسانہ نگار: ایس مروہ مرزابیٹی چاہے آفت کی پرکالہ ہی کیوں نہ ہو، رخصت کرتے وقت اگر اسے کی گئی نصیحت اسے سمجھ آجائے تو سمجھ لیجئے کے تربیت کا حق تو ادا ہو ہی گیا ساتھ ساتھ وہ آفت کی پرکالہ اگلے گھر جا کر راحت کا استعارہ بھی ضرور بننے والی ہے ۔ بیٹیوں کی زندگی بس اپنے ماں باپ کے گھر ہی بادشاہوں سی ہے، گھر سے رخصت ہونے کی دیر ہے کہ قدرت ان پگلیوں کے دلوں میں ذمہ داری اور رکھ رکھاو کا پورا جہان اتار دیتا ہے۔ اگر بیٹی آفت بھی ہو تو یقینا اس سے بڑی راحت بھی اس روحِ زمین پر موجود نہیں ہے۔
"زرا ڈھولکی بجاو گوریو!
میرے سنگ سنگ گاو گویو!
یہ گھڑی ہے ملن کی، اک سجن سے سجن کی" پورے صحن سے لے کر برآمدے تک رنگ برنگی چہکتی، دھمکتی روشیوں اور دل کو بھلی دیکھائی دیتی ان لڑکیوں کے ٹولے کے بیچ وہ تیکھے حسن والی لالی اپنی ناک سکیڑے اب اس نئے فرعون کے زمانے کے گیت کے برآمد ہونے پر جل بھن گئی تھی۔
"بندہ پوچھے کہ گوریاں کسے کہا ہے اس وڈے دانتوں والی نے، اللہ گواہ ہے جو لالی کے سوا یہاں کوئی گوری چراغ لے کر بھی مل جائے۔ اور تمہارے سنگ گا ہی نہ لیں یہ مسی آوازوں والی، اوپر سے سجن! پتا نہیں وہ موٹی مونچھ والا ماسٹر کس طرف سے سجن بن گیا ہے۔۔۔۔۔اف لالی بھاگ جا قسم سے، ورنہ یہ بے سریاں ممیاں تجھے اپنے سریلے راگ سنا سنا کر مار دیں گی" پیلے جوڑے میں وہ انتہا کی حسین مگر دل کی آفت تو بس کاٹ کھانے کو دوڑنے والی تھی۔ شاداں اسکا ہاتھ زبردستی پکڑ اور مڑور مڑور کر مہندی کے ترچھے سے گلدستے بناتی ہوئی ہلکا ہلکا گوریو کا راگ بھی الاپ رہی تھی، فی الوقت لالی کو سب ہی زہر لگ رہے تھے جسکی وجہ اسکی اس شور شرابے اور گاوں کے دیو قسم کے رشتہ داروں کے مجمعے میں شادی ہونا تھی۔ محلے کی سب سے بڑی آفت، شریر اور افلاطون قسم کی لالی گل جان، ابا منشی غلام احمد کی چھٹکی اولاد جس کی پیدائش سے پہلے تو دعائیں لڑکے کی کی گئی تھیں پر اللہ نے شرارت اور آفت کی پوری دکان کے روپ میں لالی کو اس گھر کے آنگن میں اتارا تھا۔ اماں سعدیہ بیگم، اعلی پائے کی سادہ اور اللہ کی گائے جیسی جو اپنی اس لالی نما لال کی حرکتوں سے ناک تک عاجز تھیں۔ گلی محلے کا کوئی ایک بلب اور کھڑکی بھی لالی کے چھکوں اور چوکوں کی پہنچ سے بچی ہوئی نہیں تھی۔ باقی بھلا ہو کلیم نگر کے اس گنجان مگر پررونق گاوں کے ہر گھر سے نکلنے والے کاکے اور کاکیوں کا جن سب نے مل کر لالی کی ستائس رکنی کرکٹ ٹیم تشکیل دے رکھی تھی۔ بہرام بخش، اس گاوں کا سب سے خوبرو ماسٹر، ایم اے پاس، گاوں کی مائیوں کا راج دلارا اور بابوں کا شہزادہ پتر اسکے ساتھ ساتھ لالی کا ہونے والا مجازی خدا، پتا نہیں کس غلطی کے تخت لالی جیسی کارتوس اس نمانے پر چلنے والی تھی۔ خیر اپنے ابا منور بخش اور اماں رشیدہ رانی کا اکلوتا چشم چراغ پوری تیاری کے سنگ اور پورے دل کے ساتھ قربان ہونے پر راضی تھا، بچارا ناقابل شکست ہو کر بھی اس شوخی لالی پر دل ہار بیٹھا تھا۔
"تھالا تھالا، میری تھالا" یہ چنٹو تھا جو لالی اور شاداں پر یوں بم کی مانند آ گرا جیسے آسمان سے سیدھا ابھی نازل ہو کر اترا ہو، لالی کی ایک بھڑکی چینچ ابھری اور سارا صحن گوری سے الاپ سے تھم چکا تھا۔ صاحبزادہ چنٹو اپنی پوری نیلی قمیص مہندی سے رنگنے کے بعد لالی کی گود میں گرے پڑے دانتوں کی اعلی نمائش میں غرق تھا، اور اب لالی اسے دہکتی اگر بتی بنے کچا چبانے والی تھی۔ یہ تو بھلا ہو اس سائرہ کا جو سادہ لوح انداز میں دور ہی سے اپنی جوتی اتارے چنٹو کی طرف بڑھی، پورا صحن اب اس دھنگے پر پر ہما تن گوش ہوا۔
"کھوتے کے بچے، اس سے گہری ریسرچ نہیں ہوئی تجھ سے تھالا پر۔ اللہ اللہ کر کے وہ بے سری مہندی لگوانے بیٹھی تھی اور تُو__ پتر آج تو تیرا یہ تھالا ٹھیک کر کے خالا کرتی ہوں" سائرہ گل جان، اس گھر کی بڑی بیٹی اور خیر سے دو بچوں کی اماں۔
"لو جی، اب کل میری جگہ اسے ہی اس ماسٹر کے ساتھ رخصت کرنا اب۔ اماں___ یہ دیکھیں ہو گیا میرا ویاہ، کمینے تجھے تو پیس کے رکھ دوں گی" لالی کا خونخوار جھپٹنا اس سے پہلے بچارے چنٹو کو دبوچ لیتا، فورا سے پہلے چنٹو اپنی پدی پدی ٹانگوں سے بھاگنے میں فاتحانہ کامیاب ہوا تھا۔ اسکے بھاگتے ہی گوریوں کی آوازیں پھر سے بلند ہوئیں اور سائرہ ہنستے ہوئے اس سڑی لالی کو خود سے چمٹائے ہنس دی، سعدیہ بھی منہ پر دوپٹہ رکھے اپنی اس جوکر اولاد پر دانت نکالنے میں مصروف تھیں۔ ایک چارپائی پر پرانے زمانے کی چار پانچ عورتیں بھی بنا دانت والے منہ کے ساتھ لالی پر ہنس رہی تھیں۔
"ہنسنے کا بڑا شوق ہے، دانت لگوا دوں سبکو دو دو" جل بھن کر لالی بھڑکتی اور سلگتی اٹھ چکی تھی۔ ایک تو شاداں نے واقعی اسکے ہاتھ پر سیڑھیوں پے رکھے گملے کا ہی ڈیزائن چھاپا تھا اور اوپر سے اس چنٹو نے انکو بھی لیپ کر کے سہانا سا ٹھپہ بنا دیا تھا، بچاری کا دل سڑ کر خاک ہوا تھا۔
"ھائے لالی، کدھر دفع ہو رہی ہے۔ ٹک جا آج تیری مہندی ہے" بڑے دانت والی ڈھولکی بجانے والی عورت نے ہانک زدہ صدا لگائی تو لالی کا دل یہی کیا کہ یہ لیپ زدہ ہاتھ اسی کے منہ پر مل آئے۔
دانت پیستی ہوئی لالی کمرے میں گئی اور اسکے جاتے ہی ایک نیا گانا اپنے پورے عروج کو چھوتا ہوا بے سرے انداز میں ابھرا۔
☆☆☆☆☆
KAMU SEDANG MEMBACA
افسانہ: آفت کی پرکالہ تحریر: ایس مروہ مرزا
Fiksi Umumبیٹی چاہے آفت کی پرکالہ ہی کیوں نہ ہو، رخصت کرتے وقت اگر اسے کی گئی نصیحت اسے سمجھ آجائے تو سمجھ لیجئے کے تربیت کا حق تو ادا ہو ہی گیا ساتھ ساتھ وہ آفت کی پرکالہ اگلے گھر جا کر راحت کا استعارہ بھی ضرور بننے والی ہے ۔ بیٹیوں کی زندگی بس اپنے ماں باپ...