پیاری سعدیہ غفار!
السلام علیکم!میری دعا ہے کہ تم بخیر و عافیت ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہو۔ مزید میں نہیں جانتی کہ اس خط میں کیا لکھوں حالانکہ پچھلے چھے سال سے میں تم سے بات کرنا چاہ رہی ہوں مگر کبھی ہمت نہیں جٹا پائی۔ تم حیران ہورہی ہوگی کہ میں خط کیوں لکھ رہی ہوں جبکہ میں تمہیں فون کرسکتی تھی، میں فون نہیں کرسکتی کئی تحفظات لاحق ہیں، خط لکھنے کی عادت مجھے مادام ایولین Evelyn نے ڈال دی ہے، میں ان کے ہاں لائبریری میں کام کرتی ہوں۔ نامعلوم تم تک یہ خط پہنچے گا بھی یا نہیں لیکن میری دلی دعا ہے کہ تم اس کو پڑھ سکو۔ آخری دفعہ، شاید، میں تم سے ملنا چاہتی ہوں، بہت ساری باتیں میرے اندر دفن ہیں سعدیہ، وہ مجھے دن با دن کھوکھلا کررہی ہیں، میں وہ کسی کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں، اور وہ کوئی صرف تم ہی ہوسکتی ہو۔ میں نے ساری زندگی تمہاری باتیں سنی ہیں، اب اسے میری خود غرضی کہہ لو، لیکن میں چاہتی ہوں اس دفعہ تم مجھے سنو۔ شاید اب تمہاری شادی بھی ہوچکی ہو، میری دعا ہے تم بہت خوش ہو۔
سعدیہ زندگی بہت ویران ہے، اور بہت آہستگی سے چل رہی ہے، گزشتہ چھے سالوں میں ایک ایک پل میں نے اذیت میں گزارا ہے، یہاں پر سکون موجود ہے لیکن بے سکونی اس سے بھی زیادہ ہے۔ جیسے صحرا میں آسمان پر بادل جمع ہوں لیکن برسیں نہ اور باشندے بوند بوند کو ترستے ایڑیاں رگڑتے ہوئے مر جائیں۔ میں ایسے نہیں مرنا چاہتی، شاید تمہیں یاد ہو میں نے ایک دفعہ کہا تھا چاہتیں بدل جایا کرتی ہیں اس وقت میری چاہ صرف یہ ہے کہ میں تم سے ملوں۔ چند لوگ اور بھی ہیں جن کو مجھے کچھ بہت اہم باتیں بتانی ہیں مگر ان کے روبرو میں نہیں ہونا چاہتی۔ میں چاہتی ہوں اگر کبھی تمہیں کہیں یشعر محمد دکھائی دے تم اس کو بتاؤ کہ میں اسے اپنا بھائی سمجھتی ہوں۔ یہاں لائبریری میں اس کا ہم عمر ایک لڑکا اپنی بہن کے ساتھ آتا ہے اور اسے دیکھتے ہی مجھے بے اختیار یشعر یاد آتا ہے، اور بھائی سمجھنے کے باوجود میں اس سے نہیں ملنا چاہتی۔ تم مجھ سے ملو تو میں تمہیں بتاؤں گی یشعر کون ہے۔ افسوس سعدیہ میں آنے سے پہلے تمہیں کچھ بھی تو نہیں بتا سکی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت میں بتانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ تب مجھے ڈر تھا کہ مجھے نقصان نہ پہنچ جائے مگر اب سوچتی ہوں مجھے تمہیں بتا دینا چاہیے تھا، میرا دل اتنا بھاری نہ ہوتا۔ ماما یا کشف آپی کو بھی کچھ نہیں بتانا چاہتی، جانتی ہوں اب تک انہوں نے میری غیر موجودگی کو قسمت کا وار سمجھ کر صبر کرلیا ہوگا۔ بابا کے لیے میرا دل اور آنکھیں دونوں بے تحاشا آنسو بہاتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں جب تم مجھ سے ملنے آؤ تو واپسی پر مجھے میرے بابا کے پاس لے جاؤ، سعدیہ۔ زندہ یا مردہ، مجھے فرق نہیں پڑتا میں بس بابا کے پاس جانا چاہتی ہوں، ان کی قبر ہمارے گھر سے تین بلاکس دور واقعہ قبرستان میں ہے۔ پتہ نہیں ان کی قبر پر کسی نے تختی بھی لگائی ہوگی یا نہیں، پتہ نہیں کوئی فاتحہ خوانی کے لیے ان کے پاس جاتا ہوگا یا نہیں۔ میرے بابا ایک عظیم انسان تھے، تم بھی جانتی ہو، وہ گمنام موت کے مستحق نہیں تھے، سعدیہ۔۔۔ وہ بہت اعلیٰ مقام کے حامل تھے لیکن میں ان کے لیے کچھ نہیں کرسکی۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔
سعدیہ کے ہاتھ میں موجود ذردی مائل کاغذ کے آخر پر آنسوؤں کے مٹے مٹے نشان تھے۔ سیاہی پھیل چکی تھی۔ اس کے نیچے چند سطریں چھوڑ کر مختلف رنگ کی سیاہی سے لکھا گیا تھا۔
سعدیہ میری درخواست سمجھ کر ایک دفعہ مجھ سے ملنے آجاؤ۔ مجھے خط کا جواب دے دینا تاکہ میں آگاہ رہوں اور دعا کرنا کہ یہ خط صرف تم تک پہنچے۔
تمہاری دوست
_علوینہ ذوالقرنینخط کے لفافے کے باہر ٹرانسلوانیا پوسٹ کی مہر لگی تھی۔
ESTÁS LEYENDO
ریاضت تمام
Ficción Generalسیکوئل آف صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی یہ کہانی تھی: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی تھی صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی تھی غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹ...