ڈیڈ آپ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جائیں!! ارمان کے والد نے اثبات میں سر ہلایا
ارمان کی والدہ اور اسمارا پیچھے والی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔
اسمارا بیٹا آپ اس طرف بیٹھ جاو اگر کوئی مسئلہ ہے تو۔۔۔۔ ارمان کی والدہ نے اسمارا کو بے چین دیکھا تو گویا ہوئی۔
نہیں آنٹی مجھے اس طرف بیٹھنے کی عادت ہے۔۔وہ کسی الجھن میں تھی یا شاید اس بے نامی رشتے کے لیے کی جانے والی کوششیں کارگر ثابت نہ ہو پانے کا خوف
عادتیں!!! ایک اور طنزیہ جملہ
ارمان کے اس رویے پر اسے ذرہ حیرت نہ ہوئی تھی۔"عادتیں اچار نہیں ہوتی کے ڈال لی جائیں
عادتیں تو دیمک ہوتی ہیں یہ لگ جایا کرتی ہیں"اس قدر گہرے جملے شاید وہ اس طرح کی گفتگو سمجھنے سے قاصر تھی۔۔۔اسمارا نے کوئی جواب نہ دیا۔
شادی ہال کے سامنے گاڑی رکی۔۔ ماں بات سنیں اسمارا کا دھیان رکھنا
وہ قدم رک سے گئے ارمان کی ماں حیرت سے تکنے لگی۔ ارمان نے اس قدر فکر کے جملے اسمارا کے لیے کبھی نہیں بولے تھے
ایک خفیف سی مسکان سجائے وہ سلمان صاحب کے ساتھ چل پڑیں۔
ارمان نے گاڑی پارک کی اور شادی ہال کے اندر داخل ہو گیا۔ اسے اس تقریب سے کچھ خاص شغف نہ تھا وہ صرف اپنے والد کے کہنے پر شامل ہوا تھا۔ پاس کے ٹیبل پر تایا اور ان کے بیٹے براجمان تھے۔
ارمان نے ایک نگاہ ان پر ڈالی اور اپنے فون میں لگ گیا۔ اس سب مصروفیت کے بیچ میں ایک خیال اس کے ذہن میں لہرایا اسمارا!!
وہ تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا خواتین کے خانے کی طرف چل پڑا۔ ہر طرف نظر دوڑا لی لیکن اسمارا کہیں نظر نہ آئی۔۔
امی!! اسمارا کہاں ہے؟؟ فکر کے وہ جذبات ارمان کے لیے نہ قابل بیان تھے۔
کیا ہوا بیٹا بہت فکر ہو رہی ہے اسمارا کی؟؟ امی نے قہقہہ لگایا
امی!! میں۔۔۔۔
وہ ادھورے الفاظ ایک مکمل جذبے کے عکاس تھے۔ ارمان تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا۔ ہال کے ایک کونے میں اسے اسمارا اور فریحہ نظر آئی۔ تیزی سے بڑھتے قدم رک سے گئے۔ وہ فریحہ کا سامنا کرنا نہیں چاہتا تھا۔
اسی اثنا میں ارمان کی نظر اسمارا کے ہاتھ پر پڑی۔ اسمارا نے بائیں ہاتھ سے اسے تھاما ہوا تھا۔ اور درد کی شدت اس کے چہرے پر عیاں تھی۔ارمان تیزی سے آگے بڑھا۔
کیا ہوا اسمارا!! کیا ہوا تمھارے ہاتھ کو؟؟
ارمان۔۔۔۔ وہ
وہ کیا بتاو مجھے کیا ہوا!! ارمان چوٹ لگ گئی ہے بہت درد ہے۔
ارمان نے ایک نظر بھر کر بھی فریحہ کو نہ دیکھا۔۔ جیسے اس کے لیے وہ وہاں موجود ہی نہ تھی۔
کیسے ہو ارمان!! یہ جملے بھی اس کی توجہ حاصل نہ کر سکے۔
چلو اسمارا۔۔۔ ارمان نے اس کا ہاتھ تھاما اور گاڑی کی طرف چل دیا۔
پتہ نہیں کہاں ہیں دونوں!! شادی کی تقریب ختم ہو گئی۔ کدھر چلے گئے۔۔۔
سلمان آپ دوسری گاڑی منگوا لیں۔ بچے ادھر ہی ہونگے۔ سلمان نے ہاں میں سر ہلایا اور فون کرنے لگے۔
وہ مسلسل ارمان کا نمبر ملا رہے تھے۔ پتہ نہیں غصے میں اسمارا کو کچھ بول نہ دیا ہو۔ پرائی بچی ہے کیا کریں اس لڑکے کا۔۔۔ فرخندہ صاحبہ خود سے بڑبڑاتے ہوئے بولی۔
ارمان کا فون۔۔۔ کہاں ہو؟؟ لاپروائی کی حد ہوتی ہے اسمارا کدھر ہے؟؟ ٹھیک ہے؟؟ کچھ بول نہ دیا ہو تم نے؟؟
سوالوں کی بوچھاڑ تھی ارمان کو بولنے کا موقع نہ دیا گیا۔ اب کچھ بولو بھی کے الفاظ کے بعد ارمان مطمئن سا ہونے لگا۔
وہ اسمارا کے ہاتھ پر چوٹ لگی تھی تو پٹی کروانے لایا تھا۔
اچھا آتے ہیں۔۔۔۔ ہسپتال پہنچتے ہی ارمان سے سب سچ بتانے کا کہا گیا۔۔۔ ارمان نے حرف بہ حرف سب بیان کر دیا
اب یہ تو اسمارا ہی بتا سکتی ہے کہ فریحہ نے کچھ کہا کے نہیں؟؟ سلمان صاحب بولے۔
ڈاکٹر اسمارا کیسی ہے؟؟ ارمان نے ڈاکٹر کو آتا دیکھ کر استفسار کیا۔
ٹھیک ہے ہاتھ پر کچھ ذور دار چیز لگنے کی وجہ سے سوجن ہے آرام کریں اور تھوڑی بہت ہاتھ کی ورزش'''' اور سب ٹھیک ہے۔
ارمان نے سکھ کا سانس لیا۔ اسمارا کو گھر لے جایا گیا۔ ارمان خود کو کوسنے میں لگا ہوا تھا کیوں اس نے ساتھ چلنے کو کہا۔۔۔ اسے خیال رکھنا چاہئیے تھا۔۔۔
فرط جزبات میں ارمان نے اپنا ہاتھ دیوار پر دے مارا۔ اسمارا بیٹا فریحہ نے کچھ مارا تمھارے ہاتھ پر۔۔۔
بولو بیٹا!! فرخندہ صاحبہ بولی
آنٹی وہ فریحہ مجھ سے آپ لوگوں سے کیا تعلق ہے اس بارے میں پوچھ رہی تھی جب میں نے بتانے سے انکار کیا تو وہ ۔۔۔۔۔۔
پھر کیا بیٹا بتاو!! سلمان صاحب نے اس خاموشی کو توڑنا چاہا۔۔۔
انکل پھر فریحہ نے پاس پڑا گلدان اٹھایا اور میرے بازو۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ فرخندہ آنٹی نے اسے تسلی دی۔۔۔
دروازے کے پاس ارمان چپ چاپ ساری گفتگو سن رہا تھا۔۔۔
آخر کیوں؟؟ کیوں تم نے ہمارے رشتے کا پاس نہیں رکھا۔ کیوں تم نے جو میرے دل کے کسی کونے میں تمھارے لیے اچھے خیالاے اور جذبات تھے وہ بھی ختم کر دیے۔۔۔۔ ارمان نے میسج لکھا اور فریحہ کے نمبر پر بھیج دیا۔۔۔
آج برسوں بعد فریحہ کا نمبر ملانا پڑا۔۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا فریحہ
آنٹی آپ بھی آرام کریں مجھے کچھ چاہئیے ہو گا تو لے لوں گی۔۔۔ اسمارا ابھی بھی فریحہ کے رویے پر حیران تھی۔۔۔ جب دونوں میں محبت نہیں ہے تو پھر فریحہ نے ایسے کیوں کیا۔ وہ جلن کیوں تھی اس کی ہر بات اس کا ارمان پر حق جتانا۔۔
دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ اسمارا نے اٹھ کے دروازہ کھولا۔۔۔۔۔ ارمان آپ
اس وقت کچھ کام ہے۔۔۔ اسمارا بولتے بولتے رک گئی ۔۔کام اور مجھ سے!!
اندر آنے کا نہیں کہو گی۔۔۔ وہ گویا ہوا۔۔۔ اسمارا نے ہاتھ کا اشارا کیا۔
تمھارا ہاتھ کیسا ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے کچھ ورزش بتائی ہے میں کروا دوں گا۔ کچھ اور چاہئیے
اسمارا صوفے پر براجمان ارمان کو دیکھنے لگی۔۔۔ اتنا محبت اور خیال کرنے والا شخص تم نے کیسے ٹھکرا دیا۔۔۔فریحہ بہت نقصان کا سودا کیا ہے تم نے۔۔۔
اسمارا!! اسمارا کہاں کھو گئی؟؟
نہیں کچھ نہیں ایسے ہے۔۔۔ ارمان بہت درد ہے بازو میں اور ایک یونورسٹی کا کام بھی ہے۔۔ اگر تم کر دو۔۔۔
ارمان نے ایک لمحے کو سوچا!! اچھا کر دیتا ہوں
YOU ARE READING
حاصل(مکمل داستان)
Romanceیہ کہانی ہے اسمارا کی ایک عام سے شہر کی لڑکی۔ ارمان جس نے اپنی محنت سے ایک مقام تو حاصل کر لیا لیکن باقی جذبات کہیں دب کر رہ گئے۔۔ یہ کہانی عکاسی کرے گی کہ کیسے اسمارا ارمان کی ذندگی میں محبت کے رنگ بھرے گی۔۔۔ امید ہے یہ ناول آپ لوگوں کو پسند آئے گا...