حاصل(محبت کا آغاز)

26 1 0
                                    

ارمان بیٹا!!
اسلام و علیکم امی!! وعلیکم اسلام بیٹا تھوڑا وقت ہمارے لئے بھی نکال لیا کرو۔۔
آپ باپ بیٹا بس اپنے بزنس میں مصروف رہتے ہو اور میں اکیلی گھر بور ہوتی ہو۔۔
امی اسی لیے تو کہتا ہو کوئی مصروفیت تلاش کر لیں۔۔
ہاں ہاں!! ٹھیک ہے میری تایا زاد بہن کی بیٹی آرہی ہے۔ بس میں اس کے ساتھ لگی رہو گی۔۔
ٹھیک ہے میری پیاری ماں اب میں جاو۔۔
ارمان کی ماں نے مسکان اپنے چہرے پر سجا لی۔۔ فی امان اللہ
دروازے کی گھنٹی بجے جا رہی ہے ایک تو یہ سب لوگ پتہ نہیں کس کام کی تنخواہ لیتے ہیں۔۔۔ ارمان کی امی نے دروازہ کھولا۔۔
اسمارا!! بیٹا تمھاری تو شام کی فلائٹ تھی نہ پھر ابھی کیسے۔۔۔
اسلام و علیکم آنٹی۔۔ نہیں فلائٹ تو اسی ٹائم کی تھی۔۔۔ کہیں میں جلدی تو نہیں آگئی۔۔
اسمارا کی آنکھوں سے شرارت چھلک رہی تھی۔۔
ارے نہیں بیٹا اندر آو۔۔میں تو بے صبری سے انتظار کر رہی تھی صوفے پر بیٹھتے ہی اسمارا سے سب کا حال احوال پوچھا گیا۔۔
آنٹی سب ٹھیک ہیں۔۔ انکل نظر نہیں آرہے۔۔
کام پر گئے ہیں اور ارمان اپنے کام پر بس دونوں باپ بیٹا بزنس نہیں کر رہے پتہ نہیں امریکہ کے صدر ہے نہیں بلکہ اتنا مصروف تو وہ بھی نہیں ہو گا۔۔۔
اسمارا نے قہقہہ لگایا۔۔
بیٹا تم فریش ہو جاو۔۔۔ جی آنٹی
بہت پیاری ہے باجی جی اسمارا بی بی۔۔
فرخندہ صاحبہ (ارمان کی والدہ) کی پرانی ملازمہ فیروزہ نے اپنے مخصوص انداز میں تعریف کرنا شروع کی۔۔۔
ہاں ٹھیک کہتی ہو بہت پیاری بچی ہے۔۔
ڈیڈ کیا میں اندر آجاو۔۔ارے آجاو برخوردار آج ادھر کیسے؟؟ سلمان صاحب نے ارمان کو اپنے دفتر میں دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا۔۔
ڈیڈ بس ایسے ہے ایک میٹنگ کے لیے جا رہا تھا سوچا آپ سے ملتا چلو۔۔۔
ہاں اچھا کیا۔۔۔ ڈیڈ کام کیسا چل رہا ہے؟؟
بہت اچھا!! مجھے آج بھی یاد ہے جب بھائی صاحب نے دھوکے سے سب بزنس پر قبضہ کر لیا۔۔۔ کیسے مشکل دور سے گزرے ہم پھر تم نے اپنا بزنس سیٹ کیا اور مجھے بھی یہ کمپنی کھڑی کر کے دی۔۔۔
ڈیڈ!! ارمان نے اپنا ہاتھ ڈیڈ کے ہاتھ پر رکھا۔۔۔
بیٹا تم بھی وہ سب بھول کے آگے بڑھو کب تک۔۔۔ میں چلتا ہو لیٹ ہو رہا ہو۔۔ ارمان نے موضوع بدل دیا۔۔۔
ارمان بیٹا!! ارمان ابھی دروازے تک ہی پہنچ پایا تھا۔۔ بیٹا اپنے اندر بھری اس کڑواہٹ کو کم کرنے کی کوشش کرو۔۔۔ ارمان نے کوئی جواب نہ دیا۔۔
ارے آگئے آپ کیسا تھا آج کا دن؟؟ فرخندہ نے سلمان سے استفسار کیا۔۔۔
ٹھیک تھا!! پتہ نہیں ہمارا ارمان ہنسنا بولنا پھر سے کیسے شروع کرے گا۔۔۔ فریحہ نے ہمارے بچے کے ساری خوشیاں ہی چھین لی۔۔۔
اب چھوڑ بھی دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔
کیا میں اندر آجاو؟؟ اسمارا بیٹا آو نہ
سلمان یہ اسمارا ہے بتایا تھا میں نے پڑھائی کے سلسلے میں یہاں آئی ہے۔۔
اوہ اچھا !! آو بیٹا اسے اپنا گھر سمجھو اور آرام سے رہو۔۔۔
شکریہ انکل!!
اسمارا بیٹا تمھارا داخلہ تو ہو گیا ہے نہ؟؟ جی آنٹی بس کل سے جوائن کرو گی۔۔۔
الصبع اسمارا نے وضو کیا اور نماز ادا کرنے لگی۔۔۔
اسمارا بیٹا۔۔۔ دروازے پر دستک کی آواز آئی۔۔
اسمارا نے نماز پڑھ کر دروازہ کھولا۔۔ بیٹا ناشتہ تیار ہے آ جاو۔۔۔
جی آنٹی!! ناشتہ کے ٹیبل پر براجمان ارمان کھانا کھانے میں مشخول تھا۔۔
اسلام و علیکم!! فرخندہ آنٹی اور سلمان انکل نے سلام کا جواب دیا۔۔
ارمان نے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔۔۔
اوہ یہ ہے آپ کا کھڑوس بیٹا!! محترم جناب مہمان داری کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔۔۔
چھوڑو بیٹا کھانا کھاو۔۔ارمان تم اسمارا کو یونیورسٹی چھوڑ آنا تمھارے دفتر کے راستے میں ہی ہے۔۔۔
امی لیکن!! کچھ نہیں بس اسمارا بیٹا تم ارمان کے ساتھ ہی جاو گی۔۔
ارمان نے راستے میں کوئی بات نہ کی۔۔۔ یہ اسمارا کے لیے کوئی عجیب بات نہ تھی۔۔۔ اس کے گھر والے ارمان کے رویے کے متعلق بات کرتے تھے۔۔ اس کی کم گو طبعیت اسمارا کو حیرت میں نہ ڈال سکی۔۔۔
اسمارا بیٹا کیسا تھا پہلا دن یونیورسٹی میں!!
بہت اچھا تھا آنٹی!! چلیں کچھ کرتے ہے گارڈنگ کا شوق ہے آپکو؟؟ آنٹی نے حیرت سے اسمارا کو دیکھا اور اسمارا نے ان کا ہاتھ پکڑا اور گارڈن میں لے گئی۔۔۔
اسمارا کی پیاری آواز ماحول کو اور حسین اور خوشگوار کرنے لگی۔۔

حاصل(مکمل داستان)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora