حاصل (پارٹ نمبر 2)

10 1 0
                                    

اسمارا کیا بات ہے تم اداس لگ رہی ہو؟؟
کچھ نہیں آنٹی بس ایسے ہی۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے یونیورسٹی میں کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔۔۔
امی!!
آو ارمان!! تم سے کچھ بات کرنی تھی!!
ارمان سامنے پڑی کرسی پر براجمان ہو گیا۔۔۔ کہیئے
ارمان بیٹا اسمارا کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہے"""
اوہ امی یہ بات ہے مجھے لگا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے آپ خواہ مخواہ اس لڑکی کے لیے۔۔۔
ارمان ایسے نہیں کہتے ارمان کی والدہ بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔
ارمان اٹھ کے چل دیا دروازے کے پاس جا کر ارمان مڑا اس نے ایک نگاہ ڈالی اچھا ٹھیک ہے پتہ لگاتا ہو آپ پریشان نہ ہو۔۔۔
پتہ نہیں کیسی لڑکی ہے ہمارے گھر کا سکون برباد کر رہی ہے۔۔ ارمان بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔
اسمارا لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی کے رمورٹ سے بے خیالی میں کھیلنے میں مصروف تھی۔۔۔ارمان کی آمد نے بھی اسے متوجہ نہ کیا۔۔۔
میڈم کوئی مسئلہ ہے اس بے رخی سے پوچھنا بھی کیا پوچھنا تھا۔۔
نہیں کوئی نہیں اسمارا اٹھ کر جانے لگی۔۔۔تمھیں تلخیوں اور مسئلوں کا کیا پتہ بس دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہو۔۔۔وہ طنز بھرے جملے۔۔۔
*درد سب کے ایک جیسے ھیــــں ... مگر حوصلے الگ الگ ھیــــں ... کوئی بکھر کر مسکراتا ھے ... تو کوئی مسکرا کر بکھر جاتا ھے ...!!!*
اسمارا بولتی چلی گئی۔۔ اس کے الفاظ میں الگ قسم کا اثر تھا۔۔۔ ارمان نے نگاہ اٹھا کر دیکھا پر کچھ کہہ نہ سکا۔۔۔
صبح ناشتے کے ٹیبل پر خاموشی سی چھائی تھی۔۔۔ ارمان کے والد اخبار پڑھنے میں مصروف تھے ارمان کی والدہ چپ چاپ ناشتہ کر رہی تھی۔ اور اسمارا تو اپنے خیالوں میں مگن۔۔۔
ارمان نے سرسری سی نگاہ اسمارا پر ڈالی۔۔چلو میں تمھیں چھوڑ آتا ہوں۔۔۔
نہیں میں چلی جاو گی۔۔۔اس کے لہجے میں روکھا پن تھا۔۔۔
ارمان اٹھ کر جانے لگا۔۔۔اچھا رکو چلتی ہوں اسمارا نے اپنا بیگ اٹھایا انکل آنٹی کو اللہ حافظ کہا اور ارمان کے ساتھ ہو لی۔۔۔
دونوں کے درمیان ایک گہری خاموشی تھی۔۔۔ایک نہ ختم ہونے والی گفتگو کی مانند دونوں کھڑکیوں کے باہر جھانک رہے تھے۔۔۔
اسمارا یونیورسٹی کے گیٹ کے پاس اتر گئی۔۔ ارمان نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارا دیا لیکن تھوڑی دور گاڑی روک دی۔۔۔
ایک لڑکا فرہاد اپنی گاڑی سے باہر آیا اور اسمارا کا ہاتھ تھامنا چاہا اسمارا نے فورا ہاتھ جھٹک دیا
اس کا گھبرایا ہوا چہرا ارمان کو حیران کر گیا اس جیسی بہادر اور پر اعتماد لڑکی سے اس کی امید نہ تھی۔۔
ارمان تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھا۔۔۔ کیوں پریشان کر رہے ہو۔۔۔۔
تجھے کیا تکلیف ہے کیا لگتی ہے تمھاری!! فرہاد بدتمیزی سے گویا ہوا۔۔۔
میں بتاتا ہوں!! ارمان نے گریبان پکڑ لیا۔۔ آس پاس موجود لوگوں نے بیچ بچاو کروایا۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ارمان ایڈمن کے دفتر میں تھا۔۔۔ ارمان کی شکایت پر اس لڑکے کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا گیا ۔۔۔
شکریہ!! ارمان نے ایک نگاہ اسمارا پر ڈالی
جو ہوا اسے بھول جاو!! تسلی کے یہ الفاظ بہت عجیب لگ رہے تھے۔۔۔ ان میں اسمارا کو دلاسہ نہیں دیا گیا گویا اس بات کو ختم کرنے کا اشارہ تھا
اسمارا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
یہ کون ہے!! کنول اسمارا کی سب سے اچھی دوست گویا ہوئی۔۔۔
ہے کوئی!! کمبخت احسان کر گیا۔۔۔اسمارا کی آنکھوں میں چمک تھی
اسمارا بچے آج موڈ ٹھیک لگ رہا ہے۔۔ جی جی آنٹی بس اب سب ٹھیک ہے۔۔۔
شام کی چائے پر آنٹی گویا ہوئی۔۔ارمان اپنے فون میں مصروف تھا۔۔۔
اسمارا نے اپنے کپ پر نگاہ ڈالی۔۔۔ آہ کی آواز نے سب کو اپنے طرف متوجہ کیا۔۔۔
اسمارا بیٹا دھیان سے چائے گرا دی تم نے۔۔
دھیان کہاں ہے تمھارا۔۔۔
ارمان نے دوائی لا کر دی اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
یار تجھ سے نہیں ہو گا تم نے بتایا تو ہے کہ وہ بہت کھڑوس ہے ایسے کیسے تم اسے پرواہ کرنا سکھاو گی۔ کنول نے استفسار کیا۔۔
یار کنول پڑھائی پوری کر کے میں تو اپنے گھر چلی جاو گی بس میں اس گھر میں سب ٹھیک کرنا چاہتی ہو۔۔
ارمان اپنی فیملی کو ٹائم دے گا آنٹی انکل بھی خوش رہیں گے۔۔۔
اچھا دیکھ لو میں کینٹین جارہی ہو کچھ منگوانا ہے؟؟ کنول کو اسمارا کے پلان میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔۔۔
ارمان!! جی ڈیڈ
بیٹا!! خاندان میں شادی ہے تم بھی ہمارے ساتھ چلتے تو اچھا ہوتا۔۔۔ڈیڈ میں اچھا ٹھیک ہے۔۔
ارمان کے والدین نے خوشی کا اظہار کیا۔۔۔
اسمارا کو بھی جانے کی پیشکش کی گئی جو اس نے خوشی خوشی قبول کر لی۔۔۔
اسمارا بیٹا بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔آنٹی نے تعریف کے پل باندھ دیے
گلابی فراک میں وہ اور بھی حسین لگ رہی تھی۔۔۔
شادی کی تقریب میں ارمان کے تایا اور ان کی فیملی بھی شریک تھی۔۔۔
پورا خاندان ان کی دشمنی سے واقف تھا۔۔ یہ لڑکی کون ہے وہ سب اسمارا کو ان کے خاندان کے اتنے قریب دیکھ کر حیران تھے۔۔۔
فریحہ نے ارمان پر نگاہ ڈالی۔۔
ارمان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ اس کی محبت کا مذاق بنایا گیا۔۔۔
فریحہ کی آنکھوں میں ذرا برابر شرمندگی نہ تھی۔۔۔
اسمارا بیٹا میرے لیے جوس لے آو۔۔ ارمان کی والدہ گویا ہوئی۔۔
اسمارا جوس کا گلاس لے کر مڑی اتنے میں کسی نے اس کے دوپٹہ پے پاوں رکھا اور اسمارا گرتے گرتے بچی۔۔
اسمارا نے پلٹ کر دیکھا اسمارا کے فراک میں پن لگنے سے سوراخ ہو گیا۔۔
اسمارا کہاں رہ گئی جوس لینے گئی تھی۔۔
ارمان!! اچھا اچھا دیکھتا ہوں
ارمان بے دلی سے اٹھا۔۔۔ جوس کاونٹر کے پاس اسمارا کھڑی تھی۔ تم یہاں ہو جوس لینا تھا بنانا نہیں تھا ارمان نے طنز کیا۔۔
اسمارا نے پلٹ کے نہ دیکھا۔۔ ارمان آگے بڑھا
اسمارا کیا ہوا تم رو رہی ہو!! ارمان کی بات سے وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔
کیا ہوا!! آج پہلی بار اتنے دھیمے پیار بھرے الفاظ مانو شہد میں ڈوبے ہوئے
اسمارا نے اپنے دوپٹے کی طرف دیکھا اپنا فراک وہ دوپٹے سے چھپانے کی کوشش میں مصروف تھی۔۔
یہ کیسے ہوا۔۔ ہاں کچھ تو بتاو
اسمارا نے کوئی جواب نہ دیا۔۔اچھا چلو گاڑی میں بیٹھو میں آتا ہوں
اسمارا تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھی۔۔
امی بات سنیں اس نے اپنی والدہ کو ساری روداد بیان کی۔۔
بیٹا اگر ہم سب ایسے چلے گئے تو خاندان والے باتیں کریں گے ایسا کرو تم اسمارا کو گھر لے جاو
ٹھیک ہے!! ارمان پلیز اس کو ڈانٹنا مت
ارمان کے والد نے تنبیہ کی۔۔۔
چلیں!! پورے راستے اسمارا آنکھوں میں آنسو لیے بیٹھی رہی۔۔۔ وہ لڑکی کون تھی اس نے ایسا کیوں کیا؟؟ ارمان کو بتاو یا رہنے دو؟؟
گھر پہنچتے ہی اسمارا اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔ دروازے پر دستک ہوئی۔۔ فیروزہ ہاتھ میں جوس لیے کھڑی تھی۔۔
اسمارا بی بی یہ لیں ارمان صاحب نے بھجوایا ہے۔۔۔ ارمان نے!!
اگلے دن وہ آنٹی کی بوتیک گئی۔۔۔ آنٹی پلیز میں جاننا چاہتی ہوں پلیز بتائیں
اسمارا کے ذور دینے پر آنٹی گویا ہوئی
بیٹا!! فریحہ ارمان کے تایا کی بیٹی ہے۔۔ ارمان اس کو بہت چاہتا تھا دونوں کی شادی ہونا تھی۔۔ میں اس رشتے کے خلاف تھی فریحہ ارمان کو بہت لوٹتی تھی اور میں چاہتی تھی اس کی ذندگی میں ایک سمجھدار اور اچھی لڑکی آئے
ارمان کے تایا نے دھوکے سب سے کچھ اپنے نام کروا لیا ہم بہت مشکل دور سے گزرے لیکن ارمان کے دل میں فریحہ کی محبت کم نہ ہوئے۔۔۔
ہمارے پاس بس خاندانی حویلی بچی تھی فریحہ نے رشتے کے بدلے وہ مانگ لی۔۔۔ اور اسے اپنے نام کرواتے ہی ارمان کو ٹھکرا دیا یہی نہیں بھری محفل میں ارمان کو ذلیل کیا۔۔۔
اس دن کے بعد سے ارمان کو لڑکیوں کی ہر بات جھوٹ لگتی ہے اس نے خود کو کام میں اتنا مصروف کر لیا ہے۔۔
ظاہر ہے آنٹی اس کے پیار کا مذاق اڑایا گیا ہے۔۔ ہاں بیٹا پر کیا کر سکتے ہیں۔۔
کر سکتے ہیں نہ آنٹی!! اسمارا نے خفیف سی مسکراہٹ سجا لی
ارمان کچھ بات کرنی ہے تم پوچھ رہے تھے فراک کیسے!! وہ بولتے بولتے رک گئی
ارمان نے نظر جھکا لی!! جیسے وہ پوچھنا ہی نہیں چاہتا لیکن اسمارا بتانے پر بضد تھی۔۔
ارمان ایک لڑکی نے جان بوجھ کر پاوں رکھا اور اس کے بعد۔۔۔ کون تھی وہ لڑکی
اسمارا میں تم سے پوچھ رہا ہو کون تھی!!!ارمان کے چہرے پر غصہ عیاں تھا
وہ اس واقعے کو اسمارا کی بے وقوفی سمجھ رہا تھا۔۔۔لیکن یہ معاملہ ہی کچھ اور نکلا
اسمارا بولو!! ارمان شاید سب اس کو فریحہ کہہ رہے تھے۔۔
فریحہ!! ارمان کے ماتھے پر شکن آگئے وہ اٹھ کر جانے لگا۔۔
مجھے جانا ہی نہیں چاہئیے تھا پتہ نہیں اس نے کیوں کیا۔۔اسمارا نے ارمان کی ہمدردی سمیٹنی چاہی۔۔
ارمان کچھ تو بولو اپنا نہیں کم سے کم میرا بدلہ تو لے لو۔۔ اسمارا خود سے گویا ہوئی
اگر وہ کچھ اور___ اسمارا رونے لگی۔۔ارمان واپس پلٹا کچھ نہیں کر سکتی وہ
*میں ہوں نہ* ارمان نے اپنا رومال نکال کر اسمارا کو دیا
ولیمے کے لیے تیار ہو جاو!! ساتھ میں چلیں گے۔۔۔ اسمارا نے اپنے آنسو پونچھے۔۔

حاصل(مکمل داستان)Onde histórias criam vida. Descubra agora