Chapter 16

153 5 14
                                    

"کیا ہوا؟
سب ٹھیک ہے نا"
وہ کال سننے کے بعد بےچین سی لوٹی تھی۔۔۔
"وہ۔۔۔ ابّو۔۔۔
میرے ابّو۔۔۔ ہسپتال میں ہیں۔۔۔
و۔۔۔ وہ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔"
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"کس ہاسپٹل میں ہیں؟
چلیں ہم چلتے ہیں۔۔۔"
"ا۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ ساتھ جائیں گے؟"
"جی۔۔۔ کوئی مسئلہ ہے میرے ساتھ جانے میں؟"
"لوگ غلط سمجھیں گے۔۔۔"
وہ ابھی بھی روتے ہوئے ہی بول رہی تھی۔
"لوگ؟؟؟
آپ اس وقت بھی لوگوں کا سوچ رہی ہیں؟
افسوس ہوا جان کر۔۔۔"
"چلیں۔۔۔"
وہ بس اتنا کہہ کر دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ بھی پیچھے چلا گیا۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی وہ روتی رہی لیکن بلال نے اسے بالکل تسلّی نہ دی۔ وہ جانتا تھا، ایسے موقعوں پر تسلی دینا بیکار ہوتا ہے۔ "باپ ہسپتال میں ہو اور بیٹی سے کہا جائے صبر کرو۔ کیسے کر لے وہ صبر؟"
اس نے من ہی من سوچا۔

•••••°°°°°°••••••°°°°°°•••••••

"ابو کیسے ہیں؟"
ہسپتال پہنچتے ہی ماں کو دیکھ کر نوشین نے پوچھا۔۔۔
"امی بتائیں نا۔۔۔ کیسے ہوا یہ سب؟
صبح تو بالکل ٹھیک تھے نا ابو۔۔۔"
بلال فاصلے پر کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ جبکہ رامین وہاں موجود نہ تھی۔
"رامین کے سسرال والے آئے تھے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ۔۔۔ اگر رامین کی شادی میں، تمہارے ماضی کا کوئی ذکر ہوا تو اُن کی بڑی بدنامی ہوگی۔ اس لیے شادی میں اُنکے رشتےدار نہیں آئیں گے۔ اور۔۔۔"
"اور؟؟؟"
"اور تم۔۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی شادی میں شرکت نہ کرو۔۔۔"
نوشین کا چہرہ بے تاثر ہو گیا۔ وہ کافی دیر مجسمہ سی بنی کھڑی رہی اور اُسکی ماں چہرہ چھپائے رونے لگی۔ بلال معاملہ سمجھنے سے قاصر تھا اور پھٹی پھٹی نظروں سے نوشین کو دیکھ رہا تھا جبکہ اسکا چہرہ دوسری طرف تھا۔
"ابو ٹھیک ہیں؟"
کچھ دیر بعد خاموشی میں نوشین کی آواز سنائی دی۔
"بی پی شوٹ کر گیا تھا۔ اب بہتر ہیں"
ڈاکٹر نے کمرے سے نکلتے ہوئے اسکا سوال سن کر جواب دیا۔
"میں مل سکتی ہوں؟"
انیلا بیگم ڈاکٹر سے اجازت لے کر اندر چلی گئیں۔ نوشین اب تھوڑی مطمئن تھی۔ پھر اسے خیال آیا تو اس نے مڑ کر بلال کی طرف دیکھا جو ابھی بھی اُلجھا ہوا سا تھا۔
"سر۔۔۔ آپ اب جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ سب ٹھیک ہے یہاں"
"لگ تو نہیں رہا۔۔۔"
نوشین خاموش رہی۔

"مجھے آپکی بہن کے سسرال والوں کی ایسی شرائط کی وجہ جاننی ہے۔"
وہ اُسکے قریب جا کر کہہ رہا تھا۔
"آپ۔۔۔ کیوں جاننا چاہتے ہیں؟"
"پتا نہیں۔۔۔ بس جاننا چاہتا ہوں۔۔۔ اور آپکو بتانا بھی ہوگا"
نوشین بے یقینی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔ اُس نے نا جانے کیوں، حق جتایا تھا اور نوشین کو اس بات پر نہ حیرت ہوئی نہ برا لگا۔ وہ بس پریشان تھی تو یہ سوچ کر کہ آخر کیسے اور کس طرح یہ سب بتائے گی اُسے۔ پھر سے کافی دیر ماحول میں خاموشی چھا گئی۔
"میں ابو سے مل لوں، پھر آپکو گاڑی تک چھوڑ دوں گی۔"
"ٹھیک ہے۔۔۔"
وہ لوگ انیلا بیگم کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگے۔

حُسنِ مقدّر Where stories live. Discover now