اک انجانی راہ
قسط نمبر :5
ازقلم :عمارا***************
حارب اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اور اک پیاری سی بہن تھی پریشے ۔۔۔۔
حارب کے والد کا انتقال ابھی ایک سال پہلے ہی ہوا تھا تو گھر کا اکلوتا بیٹا ہونے کے ناطے ساری زمہداری اس چھوٹے سے لڑکے جس نے ابھی جینا شروع ہی کیا تھا ۔۔۔۔
جس نے ابھی زندگی کے خواب دیکھنا شروع ہی کیے تھے ۔
اس کاندھوں پر اب گھر کی زمہداری تھی ۔۔۔۔۔۔
بہت سے خواب اور بہت سی خواہشوں کو اپنے ہی اندر دفن کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور جا کے اپنے بابا کی جگہ سنبھال لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے خاندان والے جو حارب کے والد کے انتقال پر سوائے تعزیت کے کچھ نا کر سکے تھے ۔۔۔
اور حارب کے چچا جنہوں نے موقعے کا خوب فائیدہ اٹھانا چاہا تھا ۔۔۔۔
انہوں نے حارب کے والد کا بیزنیس ہتھیانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔
کوشش ہی نہیں بلکے پوری سازش کی ۔۔۔۔۔حارب کے والد کا بزنس تھا ان کے اک پارٹنر کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
تو اب حارب کے والد کی انتقال کے بعد ان کے پارٹنر اتنا بڑا بزنس اکیلے نہیں چلا سکتے تھے ۔۔۔۔
تو حارب کے چچا نے وہ بزنس خریدنا چاہا ۔۔۔۔
وہ انہیں زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر سارا بیزنیس اپنے نام لگوانا چاہتے تھے ۔۔۔۔۔۔اور حارب کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کے وہ
خرید سکتا اور نا ہی وہ اپنے بابا کا بزنس اپنے چچا کے حوالے کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔سو اس نے بینک سے بیس لاکھ کا لون لے لیا ۔
اور اپنے بابا کے بزنس کو ڈوبنے سے بچا لیا ۔۔۔۔
بزنس تو وہ بچا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔
پر اب اک اور بوجھ اس پر آن پڑا تھا ۔۔۔۔
وہ بہت زیادہ قرض لے چکا تھا ۔۔۔۔
جو کے اسے دھیرے دھیرے چکانا تھا ۔۔۔۔۔
وہ اللہ پر بھروسا کرر کے چل نکلا تھا ۔۔۔۔۔اس کے چچا کی ایسی سازش کے باوجود کوئی بھی اس کے چچا کو غلط نہیں جان رہا تھا سبھی حارب لوگوں کو ہی غلط سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔۔
پر حارب کو یوں ترقی کرتا دیکھ کر اور ایسے اپنی ماما اور بہن کی ڈھال بنتے دیکھ کر دل ہی دل میں دعا کرتے ہوں گے کے کاش ہمارا بیٹا بھی ایسا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
حارب اس ٹرانس سے جلدی ہی نکل آیا تھا ۔۔۔۔
کیونکہ یہ وقت نہیں تھا غم کو دل سے لگا کے بیٹھنے کا ۔۔۔۔۔۔
اور وہ کس کس غم کو دل سے لگاتا ۔۔۔۔۔۔
باپ کی وفات کو ۔۔۔۔۔
ماں کے بیوہ ہو جانے کو ۔۔
بہن اور خود کے یتیم ہو جانے کو ۔۔۔۔
اور کہی دل میں اک غم یہ بھی تھا کے اب شاید وہ اپنے متعلق کبھی خواب نا دیکھ پائے ۔۔۔۔
شائید اب وہ اپنے لیے کبھی نا جی پائے ۔۔۔۔
کیونکہ اب اسے اپنی ماما اور اپنی بہن کے لیے جینا تھا ۔۔۔۔
ان کو تحفظ دینا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بہن کو باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دینی تھی ۔۔۔۔۔
اپنی ماں کا سہارا بننا تھا ۔۔
اور وہ بنا بھی تھا ۔۔۔۔۔
اس نے اپنی زمہداریوں کو بہت اچھے سے خود پر لاگو کر لیا تھا وہ اب بچہ نہیں رہا تھا ۔۔۔۔
زندگی کے یوں اچانک موڑ نے اسے بچہ نہیں رہنے دیا تھا ۔۔۔۔
ابھی وہ اکیس سال کا ہی تو تھا ۔۔۔۔۔
یہی تو عمر ہوتی ہے خواب دیکھنے کی ۔۔۔۔
زندگی میں کچھ بڑا کرنے کی ۔۔۔۔۔
زندگی کو دل سے جینے کی ۔۔۔۔۔۔
مگر وہ اپنی زندگی میں بڑا کام ہی تو کرہا تھا ۔۔۔۔۔
اتنا بڑا کام کے شائید وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔
مگر وہ بہت ہی مضبوط اعصاب کا لڑکا تھا ۔۔۔۔۔
اس ایک سال میں اس نے سب کچھ بدل دیا تھا ۔۔۔۔۔۔
سب مشکلات کو اسے نے بہت ہی صبر اور برداشت سے فیس کیا تھا ۔۔۔۔
وہ روکا نہیں تھا ۔۔۔۔
وی مایوس نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔
وہ ہمت نہیں ہارا تھا ۔۔۔۔۔
اپنے بابا کی جگہ کو سمجھداری سے سنبھال لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ایک سال گزر گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اب وہ حارب وہ حارب رہا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔
سب کچھ بدل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔
اس نے خود کے لیے جینا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔
********************
حارب : کیا لیٹ رپلائے دے رہے ہو ۔؟؟؟؟
وفا کے ایک سیکنڈ لیٹ رپلائے پر حارب پوچھ رہا تھا۔۔۔۔(وفا):
ہااااااااااا اب کون لیٹ رپلائے دے رہا ہے؟وفا کی آپی باہر سے ہی چلی گئی
تو اک دم سگنل ڈسکنیکٹ ہو گئے
تو وفا کو لگا کے حارب لیٹ رپلائی
کرہا ہے مگر جب وفا نے میسج کیا تو وہ سینڈ ہی نہیں ہوا تو وفا بھاگ کر روم سے باہر آئی تو اس کی آپی گھر نہیں تھی مطلب کے وہ اکیڈمی چلی گئی تھیں ۔۔۔۔
جو کے 4 سے 6 بجے تک تھی اور اب وفا کو انتظار کرنا تھا۔۔۔۔۔******************
وفا کی آپی گھر آئی جب تو خود با خود ہی سگنل دوبارہ کنیکٹ ہو گئے تھے اور وفا کا میسیج بھی سینڈ ہو گیا تھا ۔
(اب کون کیٹ رپلائے دے رہا ہے )حارب: میں
وفا کا میسج دیکھ کے حارب نے ہنستے ہوئے رپلائے کیا تھا ۔۔۔۔وفا : وہ آپی بار سے ہی چلی گئی تو مجھے پتا نہیں چلا کب سگنل ڈسکنیکٹ ہو گئے ۔۔۔
حارب :ہاں میں بعد میں یاد آ گیا تھا مجھے 4 سے 6 ۔۔۔۔۔۔۔۔
(وفا)آپ کس وقت مصروف ہوتے ہیں ؟؟؟؟؟۔۔۔۔
وفا حارب سے پوچھ رہی تھی کیونکہ ابھی اس نے کہا کے وہ کسی بھی وقت مصروف ہوتا ہے ۔
تو یہ بات وفا کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔(حارب) ہاں میں کسی بھی وقت مصروف ہوتا ہوں ۔۔۔۔۔
حارب نے معمولی انداز میں کہا تھا۔۔۔۔وفا: اچھا تو کیا آپ مرڈرر ہیں کے کسی بھی وقت جانا پڑھے گا ۔ مرڈر کے لیے.🙄.
وفا نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔۔حارب : توبہ توبہ ایسے خطرناک کام میں نہیں کرتا ۔ پر اب مجھے لگتا ہے آپ کے ساتھ رہ رہ کر یہ بھی سیکھ جاؤ گا ۔۔۔۔۔۔
حارب گھوما کر بات وفا پر لے آیا تھا۔۔۔۔۔وفا : اللہ معاف کرے میں کب کرتی ہوں مرڈر 🙆۔
وفا کو تو جیسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا حارب کی بات سن کے۔۔۔۔۔۔حارب: ارے تھپڑ مارتے ہو نا تم ۔ اور منہ بھی توڑنے میں ماہر ہو تو۔ مرڈر کرنے میں کتنا وقت لگے گا 😂😂😂😂😛۔
اب ہنسی کو کنٹرول کرنے کی باری حارب کی تھی۔۔۔۔۔وفا :
😂😂😂😂😂😂😂۔
حارب کی بات سن کے وفا کی ہنسی نہیں رک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔وفا: ویسے میں اک بات سوچ رہی تھی ابھی بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہا کے پتا نہیں آپ سے دوستی کیسے کرلی میں نے🤔۔
(حارب ) الله بہت مہربان ہے اچھے انسان کو ۔
اچھے انسان سے ملا ہی دیتا ہے ۔۔۔۔۔
آپکے مجھے مل جانے پر میں بس یہی کہوں گا۔ماشاء اللہ
سبحان اللہ
الحمد اللہ ۔۔۔
الحمد اللہ آپکے مجھے مل جانے پر ۔۔۔۔۔۔۔(وفا)۔۔۔۔
اوہ جہاں تک میری بات ہے وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ 🙄۔
وفا حارب کی بات پر اسے تنگ کرنے کے لیے بولی ........حارب : چلو الله یہ آپکو بہتر سمجھا دے گا ۔
حارب ہلکی سی مسکراہٹ لیے بولا ۔
*********************Now here is new part I hope you like it ❤.
Good bye 🖐🙂
YOU ARE READING
اک انجانی راہ
Fantasyاس کہانی میں اک انجانی راہ کا ذکر کیا ہے ۔ جس راہ پر دو انجانے مل جاتے ہیں ۔ کٹھی میٹھی باتوں اور ہنسی مذاق سے بھرپور مجھے امید ہے آپ کو میری یہ کہانی پسند آئے گی ۔