باب:اول

110 6 27
                                    

"ارسلان! تم مجھ سے ایک فضول بات پر مسلسل بحث کر رہے ہو"۔ رخسانہ اسے ڈانٹتے ہوئے بولی۔

"امی! پلیز... میرے لیے میری خوشی کے لئے ایک دفعہ چلی جائیں۔"
کمرے کے بلایندرز ہٹے ہوئے تھے اور ہوا سے مسلسل جھول رہے تھے۔

ایسے میں رخسانہ بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔

"تم مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں اس لڑکی کے گھر تمہارا رشتہ مانگنے جاؤ جسے تم نے بس ٹاپ پر دیکھا"۔
اس نے ٹیک چھوڑیں اور اسے سمجھانے لگی"دیکھو ارسی! تمہارے لیے لڑکیوں کی کمی تو نہیں کہ اب تمہیں سڑک پر سے لڑکیوں کو تلاش کرنا پڑے۔۔میں تمہارے لئے ایک سے ایک اچھی لڑکی لاؤں گی۔۔۔۔۔۔"

"کیا مطلب ہے اچھی لڑکی؟ جو مجھے اچھی لگی اس پر تو آپ راضی نہیں اور امی میں نے آج پہلی بار تو اسے نہیں دیکھا مجھے ماسٹر کے سال ہونے والا ہے اور پچھلے تین سال سے میں روز....اسی کو ہی تو دیکھنے جاتا ہوں"۔

رخسانہ کو افسوس ہوا "پتا نہیں تمہاری تربیت میں کیا کمی رہ گئی تھی کہ اب تمہارے یہ کرتوت بھی مجھے دیکھنے پڑھ رہے ہیں...."

سفید شلوار قمیض میں ملبوس وہ تھکا لگتا تھا، جنجھلا کر بات کاٹی "امی! کونسے کرتوتوں کی بات کر رہی ہیں آپ؟ میں نے آج تک اس سے بات نہیں کی' کوئی غلط حرکت نہیں کی اور آپ کو دو دنوں سے منا رہا ہوں۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر ابو زندہ ہوتے تو ابھی تک میری منگنی کی تاریخ بھی فائنل ہوچکی ہوتی." آنسو اس کی آنکھوں میں تیرنے لگے تھے۔

رخسانہ نے اسے بازو سے کھینچ کر قریب کیااور گلے لگا لیا' کتنی ہی دیر وہ اپنے باپ کو یاد کرتا رہا۔

آخر کار رخسانہ شکست مانتے ہوئے کہنے لگی

" اچھا سنو! میں جاتی ہوں "۔

"یس۔۔۔۔"وہ خوشی سے اچھلا.

" پوری بات تو سن لو اگر وہ مجھے پسند نہ آئی تو تم دوبارہ اس کا نام نہیں لوگے".

" نام کہاں معلوم ؟اور ویسے بھی محبت کرنے کے لئے تعارف کا ہونا ضروری تو نہیں.... اور مجھے یقین ہےکہ آپ کو اپنے بیٹے کی چوائس ضرور پسند آئے گی "۔

وہ چہکتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔

"تم بہت بدتمیز ہوتے جا رہے ہو"۔

رخسانہ اسے جاتا دیکھنے لگی وہ اسکی بات پر ہنستے ہوئے جا رہا تھا۔ سفید رنگت ہونے کی وجہ سے سفید شلوار قمیص اس پر بہت جچ چل رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اس کی بھلائیں اتاریں۔


----------------------------------------------------------

ایسا نہیں تھا کہ ہر خواہش پوری ہونے کی وجہ سے وہ بگڑ گیا تھا وہ اس کے باوجود بہت سلجھا ہوا تابعدار لڑکا تھا۔ مگر پھر علی ایک کار حادثے کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے گئے۔ علی کی وفات کے بعد ارسلان شدید بیمار رہنے لگا تھا۔ وہ ہر وقت باپ کا ہی ذکر کرتا تھا، پورا دن انہیں بلاتا، تصور میں ان سے باتیں کرتے رہتا ۔کامران اس وقت گیارہویں کے پیپرز سے فارغ ہوا تھا۔ کامران نے اس وقت رخصانہ کا بہت ساتھ دیا۔ بارہویں کے بعد اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ جاب بھی شروع کر دی تھی۔اس نے ارسلان کو باپ بن کر پالا تھا۔ وہ بھی باپ کی طرح اس کی ہر بات مان جایا کرتا ،اس کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا مگر باپ کا نعم البدل تو خدا نے اس جہان میں پیدا ہی نہیں کیا۔آج بھی والد کے ذکر پر ارسلان اپنی آنکھوں کو بھیگنے سے روک نہیں پاتا تھا۔

                                       "انتظار"Where stories live. Discover now