باب:دوم

52 2 0
                                    

دوپہر کے دو بجے تھے۔ سوج کی چمک تیز ہوگئی تھی۔جسکی وجہ سے گرمی نے بھی زور پکڑا تھا۔سکول،کالجوں کی چھٹی کا وقت تھا' یہی وجہ کہ سڑک پر لوگوں کا رش بڑھتا جارہا تھا۔
آج وہ آفس سے آدھی چھٹی لے کر سیدھا وہی آیا تھا۔تھوڑا سے دور سڑک کنارے گاڑی میں بیٹھا ٹریفک کے شور ہنگامے اور گرمی سے بےپرواہ سڑک پر نظریں گاڑے اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔
"ارسی۔۔میں تمھارے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ تم نے کچھ غلط کرنے کی بجائے صحیح راہ چنی۔ مگر عشین کے والدین نے انکار کردیا ہے۔۔۔دیکھو۔۔ارسی۔۔"
"بھائی! کس بنا پر انہوں نے انکار کیا؟کیا کمی ہے مجھ میں؟"
"دراصل۔۔انکار عشین نے کیا ہے!"
اسے چاروں جانب ایک ہی بازگشت سنائی دی۔
"دراصل انکار عشین نے کیا ہے۔"
"دراصل انکار عشین نے کیا ہے۔"
آوازیں تیز ہوتی جارہی تھیں۔ اسکا دم گھٹنے لگا تھا ۔اس نے زور سے سر جھٹکا اور آدھ کھلی کھلی ڈرائیونگ سیٹ کی کھڑکی مزید نیچے کھسکائی۔ دم اب بھی گھٹ رہا تھا'ہاتھ بڑھاتے فرنٹ سیٹ کی کھڑکی بھی گرا دی اور لمبے لمبے سانس لینے لگا' آنکھیں اب بھی سامنے سڑک پر جمی تھیں اور کانوں میں وہی آوازیں گونج رہی تھی مگر اب وہ مدھم سنائی دیتی تھیں جیسے کہیں دور سے آرہی ہو۔ اسی سمے اسے سڑک پر عشین کی بس آتی دکھائی دی' وہ فوراً گاڑی سے اترا اور اسکی جانب بڑھنے لگا' نگاہیں ہنوز اس پہ جمی تھیں۔ وہ بس سے اتر رہی تھی ۔ آج بھی ویسی ہی تھی،سفید یونیفارم پہ کالی چادر کیے چہرہ ڈھانپے' سفید چمکدار پیشانی اور لمبی گنی پلکیں جن کا بوجھ شاید آنکھیں اٹھا نہیں پاتی تھیں' اس لیے زیادہ تر جھکی ہوئی ہوتی۔ آج اتفاق سے اس کے ساتھ والی لڑکی نہیں تھی۔وہ مدھم مسکرایا ۔عشین اس سے آگے گلی میں داخل ہورہی تھی وہ بھی اس سے دس قدم کا فاصلہ رکھ کے چلنے لگا۔دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی' اس کا رونہا رونہا کانپ رہا تھا۔ کانوں میں کامران بھائی کی آواز گونجنے لگی تھی۔
"ارسلان! خبردار اگر تم نے کوئی الٹی حرکت کی۔"
اس نے لمبا سانس کھینچا ' وہ فیصلہ کرچکا تھا ۔ارسلان عشین دس قدم پیچھے چل رہا تھا۔ گلی سیدھی لمبی جاتی تھی، جس کے ایک طرف کریانہ سٹور اور مسجد جبکہ دوسری طرف چھوٹا سا ہوٹل تھا ۔ جہاں رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیورز ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھاتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ گلی میں کافی رش رہتا تھا۔اطراف کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے سامنے کی جانب دیکھا۔گلی کے اختتام پر دو راستے نکلتے تھے' دائیں اور بائیں بائیں گلی دائیں کے مقابل سنسان ہوتی تھی اور اس سے مزید گلی آگے عشین کا گھر آتا تھا۔ عشین اب گلی کا موڑ مڑ رہی تھی اس نے رفتار تیز کی اور گلی کراس کی حسب توقع یہ گلی سنسان تھی۔اس کے پاس یہ واحد موقع تھا ۔
ارسلان نے بولنے کے لیے لب کھولے مگر جیسے آواز سلب کرلی گئی ہو' اس کے اندر لگی ضمیر کی گھنٹی بجنے لگی تھی۔جیسے اسے اس کام سے خبردار کرنا چاہتی ہو۔
قدرت کا انسان پر ایک عظیم تحفہ ضمیر ہے ۔ ضمیر ایک ایسی گھنٹی ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے' وہ اس وقت بجتی ہے جب انسان کو غلط کام کرنے لگتا ہے وہ اسے خبردار کرتی ہے' اسے روکتی ہے۔کچھ لوگ ضمیر کی گھنٹی سے جھاگ جاتے ہیں اور بڑے کا سے ہاتھ روک لیتے ہیں مگر کچھ لوگ گھنٹی کی پرواہ کئے بغیر غلط کام کر گزرتے ہیں ۔جو لوگ بار بار غلط کام کرنے پر بھی ضمیر کی سنتے انکا ضمیر ہمیشہ کے لیے سو جاتا ہے جسے جگانا بہت مشکل ہوتا ہے ایسے لوگ بےحس ہوجاتے ہیں وہ نہ تو دوسروں کے دکھ 'غم کو محسوس کرپاتے ہیں ناہی انکی خوشی کو برداشت کر پاتے ہیں۔
ارسلان نے بھی ضمیر کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹھنڈی سانس لی اور آستین سے پیشانی پہ آئے پسینے کو پونچا۔
"میں۔۔۔آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"
جواب خاموشی میں ملا ۔ ارسلان اب سے فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ چلنے لگا تھا۔
"میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"
خاموشی نے پھر اسکا منہ چڑایا۔ عشین نظریں جھکائے کوئی جواب دئیے بنا ایسے چلتی جارہی تھی جیسے وہ اکیلی ہو۔
اسکی دھڑکنیں لمحہ بہ لمحہ تیز ہورہی تھیں'دل ایسے دھک دھک کررہا تھا جیسے ابھی سینہ چیڑتے ہوئے باہر آجائے گا۔ ارسلان نے اپنی ساری قوت جمع کرتے ہوئے آواز کو اونچا کیا۔
"میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں عشین! پرپوزل سے انکار کی وجہ پوچھنا چاہتا ہوں۔"
اچانک وہ رکی اور ارسلان کی جانب رخ کیا۔ ارسلان کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔اسے اسکی جھکی نظروں میں بھی غصیلے شعلے بھڑکتے نظر آئے۔
"یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ راستہ روک کر انکار کی وجہ پوچھی جائے؟"
"معافی چاہتا ہوں۔ مجبور ہوکر اخلاقیات کی یہ حد پار کی ، آخر کیا وجہ ہے؟"
ارسلان نے دیکھا بات کرتے ہوئے بھی اس نے نگاہیں جھکا رکھی تھیں۔
"بیچ سڑک کے تم مجھے بدنام کرتے رہے ہو' تمہیں کیا لگتا ہے اس تماشائی دنیا میں تمھاری نظریں مجھ پہ ہو اور لوگ نہیں دیکھتے یہ سب؟ اور وہ تمھاری زہریلی مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔"
شدید شرمندگی کی حالت میں چونکا اور زیر لب بڑبڑایا۔
"مسکراہٹ؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                                       "انتظار"Donde viven las historias. Descúbrelo ahora