باب پنجم

30 0 0
                                    

بلیک ٹراؤزر پہ بلیک شرٹ پہنے'پاؤں میں سلیپرز 'ہاتھوں میں ٹرے تھامے وہ تھامے کتنی ہی دیر دروازے پر کھڑا خود کو ہمت دلاتا رہا۔
آخرکار گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے ہولے سے دروازہ بجاتے اندر داخل ہوا۔
کامران سٹڈی ٹیبل پر بیٹھا فائلز کھولے ہاتھ میں پین تھامے مصروف تھا ۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ ٹیبل تک آیا اور فائلز کے انبار کو سائڈ پہ کرتے ٹرے رکھی۔
"بھائی ۔۔۔دودھ !"
نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبائے آنکھوں کو جھپکتے کامران کو دیکھا جو ابھی بھی فائل پڑھنے میں مصروف تھا جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔
"بھائی!آ۔۔۔آپ کب تک یوں مجھ سے ناراض رہیں گے۔ میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کرونگا آپ پلیز اس طرح مت کریں ۔ مجھ سے انجانے میں ۔۔۔محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں نے ایسا کیا۔ میں وعدہ کرتا آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں ہوگی ۔"

کامران نے ہاتھوں میں پکڑی فائنل ٹیبل پر رکھی تو اسے بریک لگا۔
"ارسلان! وہ محبت' محبت نہیں ہوتی جس میں عزت شامل نہ ہو۔ وہ تو صرف ۔۔ایک خواہش ہوتی ہے بس۔۔"
کامران کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتے بولا۔ وہ اب بھی سامنے دیوار کو دیکھ رہا تھا ۔
"اور۔۔لڑکیوں کے لیے محبت سے بڑھ کر عزت معنی رکھتی ہے۔ اچھی لڑکیاں محبت کے بغیر تو رہ سکتی ہیں مگر عزت کے بغیر نہیں ۔"
ارسلان کی نگاہیں اسکی کمر پر جمی تھی کی اچانک وہ کھڑا ہوتے پیچھے مڑا اور بولا۔
"تم ہی بتاؤ۔۔۔کیا ایک مہذب انسان کسی خاتون کو سرراہ روک کر اظہار محبت کر سکتا ہے؟"
اس پر گھڑوں پانی پڑا۔
"ارسلان! صرف محبت کافی نہیں ہوتی عزت کرنا سیکھو ۔۔سیکھو۔۔میری جان سیکھو ۔ جو شخص عزت دینا نہیں جانتا وہ عزت لے بھی نہیں سکتا ۔ "
یکدم وہ کھڑا ہوا اور ارسلان کو بازؤں سے تھاما
"دوسروں کی عزت کرنا درحقیقت اپنی عزت کروانا ہے ۔"
"بھائی ۔۔۔پلیز مجھے معاف کردیں ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوبارہ ایسا نہیں کرونگا ۔ "
کامران لہجے میں محبت سمیٹے بولا:
"ارسلان ! تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تم سے ناراض ہوسکتا ہوں۔ "
"تو بھائی آپ یہ جو مجھے نظر انداز کرتے ہیں ' مجھ سے بات نہیں کرتے' میری طرف دیکھتے نہیں وہ ۔۔۔وہ پھر کیا ہے؟ "
ہزاروں کوششوں کے باوجود اس کی آواز بھیگی ۔
کامران اس کے انداز پر بے ساختہ مسکرایا ۔
" یہ صرف اس لیے تھا کہ تمہیں احساس ہو کہ تم نے کیا کردیا ہے اور وہ بھی میرے منع کرنے کے باوجود ۔۔ہاں ؟"
وہ الماری کی طرف گیا اور اسے کھولتے بولا ۔
" پھر اگر میں تم سے ناراض ہوتا تو کیا تمھارے گفٹس لے لیتا ؟"
الماری میں بالکل سامنے اس کے دوپہر دئیے گے گفٹس موجود تھے ۔
وہ حیران ہوا اور بولا ۔
"مگر۔۔مگر یہ تو آپ نے کسی فقیر (اس کے ذہن میں عاقب کا چہرہ ابھرا ) کو نہیں ۔۔دے دیے تھے؟"
"ارے یار۔۔وہ تو صرف تمہیں دیکھانے کے لیے کیا تھا ۔ "
وہ الماری بند کرکے واپس آیا۔
"یعنی۔۔۔"
حیرت اور ناراضی کے مارے بول بھی ناسکا ۔
"یعنی کہ ۔۔مجھے معلوم تھا کہ تم مجھے چھپ چھپ کے دیکھ رہے ہو۔"
کامران نے ہنس کے اسکی بات مکمل کی ۔
" بھائی ۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ ایسا کریں گے ۔ میں کتنا پریشان ہوا آپ کو پتہ ہے ؟"
اس کی ناراضی بھرے انداز پر کامران نے قہقہہ لگایا ۔
"اگر میں ایسا نہ کرتا تو کیا تم نے میرے پاس آتے ؟ آگے ہی میں تو تڑپ ہی گیا تھا تمہیں گلے لگانے کو ۔"
کامران نے ارسلان کو اپنے بازوؤں میں گھیرا اور گلے لگا لیا۔
وہ اس انداز پہ جذباتی ہوا ۔
"بھیا! مجھے معاف کردیں۔میں نے آپ کو ناراض کیا ۔ میرا وعدہ ہے میں آئندہ کبھی آپ کو ناراض نہیں کرونگا۔ "
کامران نے اسے خود سے دور کیا اور اسکے بکھرے بالوں کو پیچھے کرتے بولا۔
" پکا والا وعدہ؟"
"پکا والا وعدہ !"
دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہنس پڑے' کمرے میں ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا ۔

                                       "انتظار"Donde viven las historias. Descúbrelo ahora