Episode 1 of barish

6 0 0
                                    

" تمہیں پتہ ہے وقاص، مجھے بارش کیوں پسند ہے؟ "وہ اس کے ساتھ ٹہلتے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔جس پر وہ اسے دیکھتے ہوئے سر نفی میں ہلانے لگتا ہے ۔
" کیونکہ بارش ہر منظر صاف کر دیتی ہے، سارا آسمان مختلف قسم کے رنگوں میں مل کر بہت جاذب نظر لگتا ہے، جو درد میں ہوتے ہیں نا وہ اس بارش میں رو کر اپنا دل ہلکا کر لیتے ہیں! "وہ بولے جا رہی تھی اور وہ اس سن رہا تھا، ہمیشہ وہ بہت خاموش رہتی تھی، لیکن شاید آج برستی بارش نے اسے بہت کچھ یاد دلا دیا تھا۔
" فریحہ؟ تم ٹھیک ہو نا؟ "وقاص اس کے کھوۓ ہوۓ انداز پر پریشان ہوا۔
" مجھے کیا ہونا ہے وقاص؟ میری زندگی تو خود ان برستی بوندوں کی طرح ہے، کب تھم جائے، کب بہہ جائے کیا پتہ؟ جیسے یہ بادل بن موسم برس جاتے ہیں، بالکل ویسے ہی تو میری زندگی میں بھی یہ درد ہیں، جو کبھی بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتے! "اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہے، اسے اس لمحے بس اپنی تکلیف یاد تھی۔
" تمہیں پتہ ہے فریحہ؟ تم نے خوشیوں کا راستہ خود ہی اپنے اوپر بند کیا ہے ۔اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھو، کیا تمہیں ان پر ترس نہیں آتا؟ اس درد، اس تکلیف سے باہر نکل کر دیکھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ دنیا بہت خوبصورت ہے! "وقاص اسے سمجھا رہا تھا۔
" میری دنیا تو بس وہ شخص تھا، جو مجھے چھوڑ گیا! اسی بارش میں ۔میں اس کے ساتھ یہاں آئ تھی، کتنے خوش تھے ہم، لیکن میری خوشی بھی بہت مختصر تھی، اس رات اتنی تیز بارش ہوئی کہ مجھے اب بارش سے خوف محسوس ہونے لگا ہے ۔ اس بارش میں اس کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، میں بھی اس کے ساتھ تھی، لیکن دیکھو وہ چلا گیا اور میں..... میں اب تک زندہ ہوں، جبکہ میری زندگی تو اسی دن ختم ہو گئی تھی جب سفیر مر گیا تھا! اس کے جانے کے بعد میں ہر بارش میں یہاں آتی ہوں، انتظار کرتی ہوں کسی ایسی ہی بارش کا جو مجھے لے ڈوبے، لیکن ایسی بارش ان دو سالوں میں کبھی نہیں ہوئ! "وہ کرب سے اپنی کہانی اسے سنا رہی تھی جو خود اس کی محبت میں مبتلا تھا۔
" کچھ لوگوں کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے فریحہ، اس میں ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا! "وہ اسے سمجھا رہا تھا۔
" ٹھیک کہہ رہے ہو! چلو اب گھر چلتے ہیں! "وہ جیسے بات کرنے سے اب پرہیز کرنا چاہ رہی تھی ۔
" فریحہ ایک سوال کروں؟ "وقاص جیسے آج کوئی فیصلہ کرنا چاہتا تھا۔
" اگر زندگی میں کبھی میں تمہارا ہاتھ تھامنا چاہوں، تمہارا ساتھ دینا چاہوں تو کیا تم میرا ساتھ قبول کروگی؟ "وہ پوچھ رہا تھا اور وہ چلتے ہوئے رکی اور اسے دیکھنے لگی، پھر کچھ وقفے کے بعد اس نے اپنی بات کا آغاز کیا،
" میں نے اپنی زندگی میں صرف سفیر سے محبت کی ہے، میں نہیں جانتی مجھے زندگی میں پھر کبھی کسی سے محبت ہوگی یا نہیں، تم بہت اچھے ہو وقاص اور اگر تم میرے ماں باپ کا انتخاب ہوۓ تو میں کبھی بھی انکار نہیں کر سکوں گی ۔"وہ اپنی بات کہنے کے بعد رکی نہیں اور دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی گاڑی کی طرف چل دی، وقاص اس کا جواب سن نے کے بعد تھوڑا مطمئین ہوا۔
پھر وہ اسے گھر چھوڑ کر خود اپنے گھر چلا گیا۔
**************
" تمہیں پتہ ہے سفیر کہتے ہیں مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں کرتے، لیکن مجھے لگتا ہے اس رات تمہارے ساتھ میں بھی مر گئ، میری زندگی اسی دن ختم ہو گئی جب تم چلے گئے، میں نے تو ہمیشہ یہی چاہا تھا کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو! "وہ ایک 25 سالہ لڑکے کی خوبصورت سی تصویر تھی ۔
وہ فریم ہاتھ میں لئے اس سے باتیں کر رہی تھی، یہ آج کی نہیں دو سالوں کی عادت تھی کہ وہ رات بیٹھ کر اپنی ساری باتیں سفیر سے شئیر کرے جو اب اس کی زندگی میں کہیں بھی نہیں تھا۔
ردا جو نیچے پانی پینے آئ تھی ادھ کھلا دروازہ دیکھ کر وہ فریحہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تو اسے وہاں سے باتوں کی آوازیں آنے لگی وہ پریشان ہوئ پھر وہ کچن سے پانی لے کر اپنے کمرے میں چلی گئ ۔
" حماد، آپ کو نہیں لگتا کہ ہمیں اب فریحہ کی شادی کر دینی چاہیے، وہ جب تک تنہا رہے گی سفیر کو بھول نہیں سکے گی، اسکا اب کالج میں داخلہ ہی کروا دیں کہ اس کا ذہن بٹ جائے۔"وہ فکر مندی سے اس سے کہہ رہی تھی جب کہ حماد اس کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا۔
" مجھے خوشی ہوئی یہ جان کر کہ تمہیں فریحہ کی فکر ہے، میں نے کل وقاص کی فیملی کو گھر پر انوائٹ کیا ہے، ماما بابا سے میں پہلے ہی بات کر چکا ہوں ۔"وہ اسے بتا رہا تھا تو وہ اندر ہی اندر خوش ہوئ کہ چلو پھر اب فریحہ کی ذہنی حالت تو ٹھیک رہے گی ۔
" آپ کو مجھے بھی بتانا تھا پھر میں کل کے سارے انتظامات خود ہی دیکھ لیتی، آپ نے بلا وجہ امی کو پریشان کیا۔"وہ بولی تو وہ سر نفی میں ہلانے لگا۔
" جو بھی کرنا ہے تمہیں کرنا ہے، اس لئے میں تمہیں ابھی بتا رہا ہوں، اور اب پلیز سو جاؤ، رات بہت ہو گئی ہے اور اب مجھے آفس بھی جانا ہے صبح میں! "وہ لیمپ بند کرتے ہوئے کہنے لگا تو وہ بھی اپنی طرف کا لیمپ بند کر کے سو گئ۔
*****************
اگلی صبح ناشتے کی میز پر حیدر صاحب اور ان کی بیگم نغمہ نے سب کے سامنے انہیں اطلاع دی کہ شام کو وقاص اسجد کی فیملی ڈنر پر مدعو ہے ۔
فریحہ یہ خبر سن کر بھی نہیں چونکی تھی اور ناشتہ کرنے میں مصروف تھی جبکہ حماد اور حمدان غور سے فریحہ کو دیکھ رہے تھے ۔
" فری! میں سوچ رہا تھا کیوں نہ تم پھر سے یونیورسٹی میں اپنا داخلہ کروا لو اور اپنا گریجویشن مکمل کر لو! "حمدان اس سے کہہ رہا تھا جس پر اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
" میں خود بھی یہی سوچ رہی ہوں گھر بیٹھے ہوئے میں بور ہو گئ ہوں، آپ جا کر میرا ایڈمیشن کروا آئیں، پھر مجھے بتا دیں کہ یونیورسٹی کب سے جوائن کرنی ہے ۔"وہ کہہ کر ناشتے کی میز پر سے اٹھ گئی اور اس کے جانے کے بعد سب اصل موضوع کی طرف آۓ۔
" امی کیا آپ کو لگتا ہے کہ فری وقاص سے شادی کے لئے مان جائے گی؟ ابھی آج وہ کالج میں اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لئے راضی ہوئ ہے، اگر ہم جلدبازی کریں گے تو وہ پھر سے خود کو اپنے خول میں قید کر لے گی ۔"حمدان فکرمندی سے کہہ رہا تھا۔
" آج نہیں تو کل ہمیں فریحہ کو اس گھر سے رخصت کرنا ہی ہے، میں اس کی ابھی شادی کے حق میں نہیں ہوں لیکن اسے اس طرح تنہا دیکھ کر مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہیں میری بچی پاگل نہ ہو جائے ۔"نغمہ بیگم نے کہا تو حیدر صاحب نے حیرت سے انہیں دیکھا۔
" آپ کو ڈر نہیں لگتا اپنی بیٹی کے بارے میں ایسی بات کرتے ہوئے؟ وہ کوئی مریض نہیں ہے نغمہ، بس سفیر کی موت کا سدمہ ہے جو دھیرے دھیرے اتر جائے گا ۔"وہ انہیں تسلی دے رہے تھے ۔
" دو سال لگ گۓ حیدر صاحب اس حادثے کو گزرے اگر سفیر کی جگہ ہماری بچی کوکچھ ہو جاتا تو کیا تب بھی آپ اتنے پر سکون رہتے؟ آپ کو یاد نہیں شاید ان کے نکاح کی تاریخ طے ہو گئ تھی اور وہ دونوں اپنا شادی کا جوڑا خریدنے گۓ تھے لیکن وہاں سے اس رات وہ دونوں ہی سہی سلامت نہیں لوٹے تھے، آپ شاید وہ وقت بھول گئے ہیں لیکن میں نہیں بھولتی، اللہ نے ہماری فریحہ کو پھر سے زندگی دے دی اور اب میں یہ نہیں چاہتی ہوں کہ کوئی بھی میرے گھر آ کر میری بیٹی کو اس کے ماضی کا حوالہ دے ۔"وہ آب دیدہ ہو گئیں ۔
" امی وقاص بہت اچھا لڑکا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہماری فری کے بارے میں جاننے کے بعد اس سے شادی کرنے پر راضی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اسکے گھر والے بھی کبھی بھی اس ماضی کا طعنہ نہیں دیں گے، ویسے بھی آپ ان کی فیملی سے مل چکی ہیں اور ابھی کونسا ہم اسے رخصت کرنے کو کہہ رہے ہیں بس بات چیت ہی تو کرنی ہے! "اب کی بار کب سے خاموش بیٹھے حماد نے بات کی تو حیدر صاحب بھی سر اثبات میں ہلانے لگے۔
" ٹھیک ہے لیکن میں فریحہ کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کروں گی، آخری فیصلہ اس کا ہی ہوگا۔"وہ اپنی بات کہہ کر ردا کو شام کا مینو بتانے لگی اور اسے گیسٹ روم کی صفائی کرنے کا کہہ کر پھر سب دوبارہ ناشتہ کرنے لگے ۔
************
" کیا کوئی کسی سے اتنی محبت کر سکتا ہے جتنی محبت فریحہ حیدر نے سفیر رحمان سے کی ہے! "وہ اپنے دوست صائم کے ساتھ بیٹطا اس سے سوال کر رہا تھا ۔
" میں کسی کا تو نہیں جانتا، لیکن جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے وقاص تو اس کی کوئی حد نہیں ہوتی، محبت تو بس ہو جاتی ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ بہت گہری ہوتی جاتی ہے! "وہ اسے بتا رہا تھا اور اس کی باتیں سن کر وقاص مسکرا دیا۔
" کہیں تمہیں بھی کسی سے محبت تو نہیں ہو گی؟ جو محبت کے بارے میں اتنا کچھ جان گئے ہو؟ "وہ اب اسے پریشان کرنا چاہ رہا تھا۔
" نہیں! مجھے تو اب تک کسی سے محبت نہیں ہوئ، لیکن مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تمہیں فریحہ حیدر سے محبت ہو گئی ہے! "وہ جو کافی پی رہا تھا صائم کی بات سن کر اسے اچھو لگ گیا۔
" میں دوست ہوں تمہارا کم سے کم مجھ سے تو یہ بات شئیر کر سکتے ہو تم! "اس کے یوں گھورنے پر صائم نے پھر کہا تو وہ ادھر ادھر نظریں گھمانے لگا۔
" ویسے آج امی اور حمنہ جا رہے ہیں حیدر انکل کے گھر فریحہ کا رشتہ مانگنے میرے لئے، وہ بھی حمنہ کے کہنے پر کیوں کہ اسے فریحہ بہت پسند آئ ہے! "وہ اسے بتا رہا تھا جس پر صائم مسکرا دیا تھا۔
" اور تم نہیں کرتے اسے پسند؟ "وہ اس سے سوال کر رہا تھا جس سے وہ بچنا چاہ رہا تھا۔
" میں نہیں جانتا کہ میں اسے پسند کرتا ہوں یا نہیں لیکن جب میں اسے دیکھتا ہوں تو میرا دل کرتا ہے کہ میں اس کی اداس آنکھوں میں ڈوب جاؤں ۔ جب وہ بولتی ہے نا تب میرا من کرتا ہے کہ میں خاموشی سے کھڑا ہو کر اسے سنتا رہوں اور اس کی زندگی کے سارے دکھ سمیٹ لوں! "وہ جیسے فریحہ کے تصور میں کھو سا گیا تھا۔
" تمہیں اس سے محبت ہو گئی ہے وقاص! "وہ کہہ رہا تھا اور وہ اسے دیکھ کر کندھے اچکانے لگا۔
" آج شام دیکھو فریحہ کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ اس کا ایک بھائی ہمیشہ اس کی حمایت کرتا ہے، وہ کہہ رہا تھا کہ فیصلے کا اختیار ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا، جو فریحہ چاہے گی وہی ہوگا ۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک دفعہ مجھے موقع دے کر دیکھے میں اسے کبھی کوئی تکلیف نہیں دوں گا صائم، بس وہ اس رشتے کے لئے ایک بار ہاں ہی کہہ دے۔"وہ صائم سے اپنی بات کہہ رہا تھا تو وہ سر اثبات میں ہلانے لگا۔
" اللہ کرے جو تم چاہتے ہو وہی ہو اور فریحہ مان جاۓ گی، کیونکہ آخر کب تک وہ بھی ماضی میں زندگی گزارے گی! "
" چلو اب یہاں سے چلتے ہیں کافی دیر سے ہم یہیں بیٹھے ہیں تمہیں تو شام کو جانا بھی ہوگا نا فریحہ کے گھر؟ "وہ اٹھ تے ہوئے سوال کرنے لگا تو وہ نفی میں سر ہلانے لگا ۔
" میں انہیں فریحہ کے گھر ڈراپ کر دوں گا اور پھر اس کے بعد جب وہ لوگ کال کریں گے تو میں انہیں وہاں سے پک کر لوں گا ۔"وہ کہتے ہوئے پارکنگ میں آ گۓ ۔
*********************
" تمہیں پتہ ہے سفیر، سب کو لگتا ہے کہ میں تمہیں بھول گئ ہوں لیکن نہیں میں تمہیں کبھی بھی نہیں بھول سکتی ہوں، کیونکہ آج جو میں زندہ ہوں وہ صرف تمہاری وجہ سے، اس حادثے میں تم خود تو چلے گئے مگر تمہارے بعد میری زندگی جینے کی وجہ ہی جیسے ختم ہو گئی ہے، میرا دل نہیں لگتا کسی کام میں، تمہارے بچھڑ نے کا غم اب بھی میرے لئے تازہ ہے ۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں سب کچھ کیسے بھول جاؤں، ساتھ زندگی گزارنے کا خواب تھا میرا، کاش اس رات میں تم سے کہیں جانے کی فرمائش نہ کرتی تو شاید آج تم میرے ساتھ ہوتے! "وہ اس وقت پھر سے سفیر کی تصویر لے کر بیٹھی تھی ۔
سب سے چھپ کر وہ روز کمرے میں خود کو قید کر کے سفیر کی تصویروں سے باتیں کرتی تھی، کوئی اور اگر اسے دیکھ لیتا تو اسے پاگل ہی سمجھتا لیکن وہ اب خود کو کافی حد تک سمبھال چکی تھی۔
بیڈ پر رکھی تصویروں میں ایک تصویر میں وہ دونوں ساتھ کھڑے تھے یہ تصویر ان کی منگنی کی تصویر تھی جہاں وہ سرخ فراک پہنے ہوئے تھی اور سفیر سفید کرتا پہنے ہوئے تھا!
" تمہارا ساتھ بہت خاص تھا میرے لئے، بہت خاص، تم تھے تو مجھے لگتا تھا کہ میری زندگی میں سارے رنگ ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ میری زندگی میں کوئی رنگ ہی نہیں ہے! "وہ یہ سب سوچتے ہوئے ساری تصویروں کو البم میں ڈال کر واپس الماری میں رکھ کر دوبارہ بیڈ کراؤن سے سر ٹکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی۔
وقت کب گزرا اسے اس بات کی خبر بھی نہیں ہوئ اس کی نیند تو تب ٹوٹی جب ردا بھابھی نے اس کے کمرے میں داخل ہوئ۔
" فری! اٹھ جاؤ مغرب کا وقت ہو گیا ہے اس وقت نہیں سوتے ۔"وہ اس کے پاس آتے ہوئے پیار سے کہنے لگیں ۔تو وہ آنکھیں کھولے انہیں دیکھنے لگی، پھر وہ اٹھ کر واش روم میں گئ اور جب وہ باہر آئ تو ردا اس کی الماری سے ایک ہلکے گلابی رنگ کا ایک جوڑا لۓ اس کی منتظر کھڑی تھی ۔
" تیار ہو کر نیچے آ جاؤ، حمنہ اور ایمان آنٹی آنے والی ہیں تمہیں بتایاےتھا نا صبح میں! "ردا اس کے ہاتھ میں کپڑا تھما کر اس کے کمرے سے بایر چلی گئ ۔
وہ اداس-چہرہ لۓ پھر سے واش روم میں چلی گئ، جب وہ باہر آئ تو خود کو آئینہ کے سامنے دیکھنے لگی۔
کتنا عرصہ ہو گیا تھا اسے گلابی رنگ کا جوڑا پہنے، وہ جانتی تھی کہ حمنہ اسے پسند کرتی ہے اور ایمان آنٹی بھی وہ آج ان کے گھر کیوں آئیں ہیں وہ جانتی تھی کیونکہ وقاص کی بات اسے یاد تھی۔
وہ سوچتے سوچتے اپنے کمرے سے باہر نکلی اور ہال کی طرف بڑھ گئی جہاں حمنہ اور ایمان آنٹی بیٹھی تھیں ۔
وہ مسکرا کر ان سے سلام کرتے ہوئے حمنہ کے ساتھ بیٹھ گئ ۔
" بہت دن بعد تمہیں گلابی جوڑے میں دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے، یہ رنگ تم پر ہمیشہ جچتا ہے! "حمنہ نے اس کے بیٹھ تے ہی ستائشی لہجے میں کہا جس پر وہ مہض مسکرا کر رہ گئ ۔
" فریحہ چلو ہم تمہارے کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں ہیں، یہاں میں امی اور آنٹی کے سامنے تم سے ٹھیک سے بات نہیں کر سکوں گی ۔"وہ یہ کہہ کر اس کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہو گئی تو ناچار فریحہ کو اسے ساتھ لۓ اپنے کمرے میں جانا پڑا۔جاتے جاتے اس نے ردا بھابھی کو ایک ٹرے کمرے میں لانے کا کہا ۔ ان دونوں کے جاتے ہی مسز ایمان اصل موضوع کی طرف آ جاتیں ہیں جب کہ ردا چاۓ لینے کے بہانے سے وہاں سے اٹھ جاتی ہے ۔" میں آج یہاں بڑے مان سے آج آپ سے کچھ مانگنے آئ ہوں نغمہ بہن، مجھے امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گی "انہوں نے اپنی بات کا آغاز کیا تو نغمہ بیگم نے سر اثبات میں ہلاتے ہوۓ کہا ۔
" آپ جو مانگنا چاہتی ہیں اگر میں وہ آپ کو دے سکی تو ضرور دوں گی! "
" میں چاہتی ہوں آپ اپنی بیٹی فریحہ کو میرے بیٹے وقاص کی دلہن بنا دیں، پہلے بھی میری یہی خواہش تھی کہ فریحہ ہمارے گھر کی بہو بنے، لیکن آپ لوگ اس کا رشتہ سفیر سے طے کر چکے تھے اس لئے میں خاموش رہی، اب جب کہ اس حادثے کو گزرے دو سال ہو گئے ہیں تو میں نے سوچا کہ شاید اب آپ لوگ اس کے رشتے کا اگر سوچیں تو میرے وقاص سے اسکا رشتہ طے کر دیں، میں وعدہ تو نہیں کر سکتی ہوں آپ سے لیکن آپ کو اس بات کایقین ضرور دلا سکتی ہوں کہ آپ کی بیٹی ہمارے گھر ہمیشہ خوش رہے گی ۔! "وہ ان کی بات غور سے سن رہی تھیں پھر مسکرا کر کہنے لگی۔
" آپ اس بات کی فکر نہ کریں میں اس بارے میں حیدر صاحب سے بات کرتی ہوں، لیکن میں چاہتی ہوں جیسے دو سال کا وقت دیا گیا ہے اسے تھوڑا اور وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر لے، حمدان کے کہنے پر وہ کالج میں داخلہ لینے کے لئے راضی ہو گئ ہے ایسے میں اگر ہم اس پر شادی کی بات ڈالیں گے تو وہ ہم سے بد گمان ہو سکتی ہے! "انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو وہ سر اثبات میں ہلانے لگیں ۔
" ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی! "پھر وہ دونوں کسی اور موضوع پر بات کرنے لگیں ۔
*****************
" فریحہ اتنی چپ چپ کیوں رہتی ہو؟ سب تمہیں اس طرح اداس دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں پلیز خود کو اس خول سے باہر نکالو اپنے ارد گرد کے لوگوں میں خوشیاں ڈھونڈنے کی کوشش کرو ۔"حمنہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔





جاری ہے!

Barish Where stories live. Discover now