Episode 6

0 0 0
                                    

وہ اسے کال کۓ جا رہا تھا اور دوسری طرف وہ اپنا موبائل بند کر کے اپنے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف ہو گئی ۔
سفیر اس کی حرکت پر جھنجھلا گیا تھا۔
” حد ہوتی ہے، میں اس سے آج اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنے والا تھا اور وہ میری بات سنے بنا ہی پہلے تو کالکاٹ دی اور اب اپنا موبائل بند کر دیا۔ مطلب اس نے مجھے سمجھا کیا ہوا ہے آخر۔“ وہ اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا جب اچانک ہی ماہا اس کے کمرے میں داخل ہوئ۔
” بھائی! “اس نے سفیر کو آواز دی تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
” کیا ہے؟ “وہ فریحہ کا غصہ ماہا پر نکال رہا تھا۔
” آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ ابھی تو میں نے کچھ کہا بھی نہیں ہے آپ سے ۔“ وہ اداسی سے بولی ۔
” ماہا، دیکھو ابھی میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں تم مجھے اس وقت اور پریشان مت کرو، تمہارا جو بھی کام ہے، میں صبح کر دوں گا ۔“وہ یہ کہتا ہوا کمرے میں بنی بالکنی کی طرف بڑھ گیا، جس کا مطلب تھا کہ اب وہ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔
” ٹھیک ہے! “وہ بظاہر تو نرمی سے کہہ رہی تھی، لیکن کمرے سے باہر جاتے ہی وہ واپس یہ سوچنے لگی تھی کہ سفیر کے اس رویے کے پیچھے فریحہ حیدر ہی ہے ۔
***********
اگلے دن وہ تینوں کالج میں اکٹھے بیٹھے ایک دوسرے سے اسائنمنٹ لے کر اسے مکمل کر رہے تھے ۔
” عنایہ، چلو نا اب ہم کینٹین چلتے ہیں، پچھلے ایک گھنٹے سے ہم بس اسائنمنٹ ہی لکھ رہے ہیں، مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ باقی اسائنمنٹ ہم کچھ کھانے کے بعد کر لیں گے نا ۔“حمنہ کہہ رہی تھی تو وہ دونوں اپنا ہاتھ روک کر ادے تکنے لگیں ۔
"حمنہ کتنی بھُکڑ ہو تم، ہم دونوں بھی تو کب سے اسائنمنٹ لکھ رہے ہیں ۔ایک آخری اسائنمنٹ بچا ہے وہ لکھنے کے بعد فرصت سے کینٹین میں بیٹھ کر لنچ کریں گے اور باتیں بھی ہوں گی۔“عنایہ اسے جواب دیتے ہوئے پھر سے لکھنے میں مصروف ہو گئی ۔
فریحہ، اپنے پیپرز سمیٹ کر اسے فائل میں لگاتے ہوئے ان دونوں کا کینٹین جانے کا کہنے لگی۔
” ایک ہی اسائنمنٹ بچا ہے وہ ہم لنچ کے بعد کر لیں گے ۔  ابھی کچھ کھا لیتے ہیں کیونکہ مجھے بھی بہت بھوک لگی ہے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ فائل بیگ میں ڈالنے لگی رو عنایہ بھی اپنے پیپرز سمیٹنے لگی۔
حمنہ پہلے ہی لکھنا بند کر دی تھی۔
وہ تینوں کینٹین جاتے ہیں اور وہاں ایک ٹیبل کی طرف بڑھ جاتے ہیں ۔
حمنہ بیگ رکھ کر آرڈر دینے چلی جاتی ہے اور وہ دونوں وہیں بیٹھی اس کا انتظار کرنے لگتی ہیں ۔
” تمہیں سچ مچ بھوک لگی ہے فری؟ “عنایہ نے سوال کیا۔
” تمہیں کیا لگتا ہے عنایہ؟ “اس نے بھی اس کے انداز میں ہی جواب دیا۔
” میں تو جانتی ہوں، لیکن پھر بھی تم سے سن نا چاہتی ہوں! “عنایہ نے مسکرا کر کہا تو فریحہ بھی مسکرانے لگی۔
” تم جانتی ہو نا کہ حمنہ کبھی بھی بھوکی نہیں رہ سکتی ہے، اسے کچھ نہ کچھ چاہیے رہتا ہے، پھر چاہے وہ کوئ چپس یا جوس ہی کیوں نہ ہو۔ اسے ہمارے ساتھ ہی کینٹین آنے کی عادت ہے اب اگر ہم منع کر دیتے تب بھی وہ منہ بنانے لگتی اور ہمیں کام ادھورا چھوڑ کر ہی جانا پڑتا، اس لئے میں نے سامان باندھا اور کینٹین جانے کا فیصلہ کر لی۔“فریحہ کہنے لگی تو عنایہ اس کی بات پر مسکرا دی۔
کچھ ہی دیر میں حمنہ واپس تو اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں سینڈوچ اور جوس تھے ۔
” یہ کیا ہے حمنہ؟ صرف دو سینڈوچ؟ ہم دونوں کب سے تمہارا انتظار کر رہے تھے ۔ اور تم واپس آئ تو بس دو سینڈوچ کے ساتھ! “عنایہ افسردگی سے کہنے لگی تو فریحہ بھی اس کی بات پر اثبات میں سر ہلانے لگی۔
” تم کیا بس اپنے کھانے کے لئے ہی ہمیں کینٹین لائ تھی؟ تم کھاؤ اور ہم تمہارا منہ دیکھیں؟ “فریحہ کی بات سن کر حمنہ ایک سینڈوچ کے دو حصے کر کے ان کی طرف پلیٹ رکھ دیتی ہے اور خود مزے سے سینڈوچ کھانے لگتی ہے اور جوس بھی پیتی ہے ۔
اس کی اس حرکت پر دونوں ایک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں اور پھر حمنہ کا منہ تکنے لگتے ہیں ۔
” حمنہ، یہ بالکل غلط ہے، ہم آدھی سینڈوچ کھانے نہیں آۓ ہیں تمہارے ساتھ، یہ سینڈوچ بھی تم کھا لو، میں اپنے اور عنایہ کے لئے جا کر کچھ لاتی ہوں ۔“فریحہ کہتی ہوئ اپنی جگہ سے اٹھ جاتی ہے ۔حمنہ اس کی بات کو نظرانداز کرتی کھانے میں مگن ہو جاتی ہے ۔
” اگر تمہیں اتنی ہی بھوک لگی تھی تو اکیلے ہی کینٹین آ گئ ہوتی، کم سے کم ہم اپنا اسائنمنٹ تو پورا کر لیتے ۔تمہاری وجہ سے ہمارا اسائنمنٹ بھی پورا نہیں ہو سکا۔“عنایہ اس کی حرکت پر چڑھ کر کہنے لگی۔
حمنہ اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھنے لگی ۔
” یار تم تو جانتی ہی ہو کہ تم دونوں کے بنا مجھے کہیں بھی اچھا نہیں لگتا ہے ۔ پھر بھی تم ایسا کہہ رہی ہو۔“وہ جوس کا سپ لیتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
حمنہ کی بات درست بھی تھی۔
وہ تینوں ہی ہر جگہ ساتھ پاۓ جاتے تھے ۔
فریحہ کینٹین سے اپنے اور عنایہ کے لئے سینڈوچ اور جوس لۓ اپنے ٹیبل کی طرف جا رہی تھی جب ماہا اس کے سامنے آ جاتی ہے ۔
” رکو فریحہ حیدر! “اس کی آواز پر فریحہ رک جاتی ہے اور اسے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے کہ اب کیا ہوا جو وہ اس کے سامنے آ گئ ۔
” تم نے اب مجھ سے بدلہ لینے کے لئے میرے بھائی کو پھانسنا شروع کر دیا، ایسی کیا بات ہوئی تھی تمہاری اس سے کل جو وہ تمہارا غصہ مجھ پر اتار رہا تھا۔“وہ اس کے سامنے آتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
” مجھے تم سے بدلہ لینا ہوتا ماہا تو اس وقت لیتی جب تم نے میرے ساتھ برا کیا تھا، جب میں تب بدلا نہیں لی تھی تم سے تو اب کیوں لوں گی؟ اور جہاں تک بات رہی تمہارے بھائ سے بات کرنے کی، تو میں نے اس سے ایسا کچھ بھی نہیں کہی کہ وہ تم پر غصہ کرے، یہ تم دونوں کا معاملہ ہے بلاوجہ مجھے اس میں مت گھسیٹو۔“فریحہ بہت ہی ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات مکمل کر کے آگے بڑھ جاتی ہے جب ماہا پھر سے اس کے سامنے آ جاتی ہے ۔
” میرے بھائی سے دور رہو فریحہ، اس سے امیدیں وابستہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں تمہیں اس کے آس پاس بھی برداشت نہیں کر سکتی۔“وہ یہ کہہ کر چلی جاتی ہے اور ارد گرد کے لوگ فریحہ کو یوں کھڑے دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔
فریحہ اس کی باتوں کو اپنے ذہن سے جھٹک کر آگے بڑھ جاتی ہے تو عنایہ اور حمنہ اسے سوالیہ نظروں سے تکنے لگتے ہیں ۔
” کیا ہوا تم دونوں مجھے ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟ “فریحہ نے سوال کیا۔
” وہ چڑیل ماہا پھر تمہیں پھر کچھ سنانے لگی اور تم چپ چاپ اس کی باتیں سن رہی تھی ۔“حمنہ چڑ کر کہنے لگی۔
” فری تم کیوں اس کی باتیں سنتی ہو؟ اسے بھی کھری کھری سنایا کرو۔“عنایہ نے بھی کہا۔
” چھوڑو تم لوگ اس کی باتوں کو ویسے ہی بہت بھوک لگی ہے اب ہمیاور دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پھر ہمیں لیکچر اٹینڈ کرنے بھی جانا ہے ۔“وہ ان دونوں کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی توجہ کھانے کی طرف لے جاتی ہے ۔
اس کے بعد وہ تینوں پھر لیکچر اٹینڈ کرنے کلاس چلی جاتی ہیں ۔
*************************
صائم کمرے میں اندھیرا کۓ بیٹھا تھا، جب وقاص اس کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اور اس لائٹ جلا دیتا ہے ۔
” اندھیرا کر دو وقاص ۔ مجھے اب یہ روشنی اچھی نہیں لگتی، اس کے بنا مجھے میری زندگی بے معنی لگتی ہے ۔“وہ بہت درد میں کہہ رہا تھا ۔
” تم اس کے جانے پر دکھی ہو؟ “وقاص نے پوچھا۔
” دکھ اس کے جانے کا نہیں کا نہیں ہے، مان ٹوٹ جانے کا ہے! “وہ صوفے سے سر ٹکائے کہہ رہا تھا۔
” جو مان نہیں رکھتے نا، انہیں اتنا مان نہیں دیا جاتا ہے صائم! “وقاص اسے سمجھا رہا تھا ۔
” تمہیں کبھی محبت نہیں ہوئ وقاص اس لئے تم ایسا کہہ سکتے ہو، لیکن محبت میں کسی انسان کا دھوکہ دینا، موت کے برابر ہوتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ زندگی جینے کی وجہ ہی نہیں رہی۔“صائم کرب سے کہنے لگا۔
” کیا محبت زندگی کی وجہ بن جاتی ہے؟ کیا محبت خونی رشتوں سے بھی زیادہ اہم بن جاتی ہے؟ “وقاص کو اس باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
” محبت میں بس محبت اہم ہوتی ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی اہم نہیں ہوتا ہے ۔“وہ کہنے لگا۔
” میں اسے ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا، میری ماں مجھے خوش دیکھنا چاہتی تھی، وہ کینسر کی مریض ہونے کے باوجود بھی بس اس لئے خوش تھی کیونکہ میں خوش تھا، میں امی سے اس کے بارے میں ہر بات کرتا تھا وقاص! اور وہ میری بات سن کر، مجھے خوش دیکھ کر میری خوشی میں خوش تھی۔“وہ ایک گہری سانس لینے کے بعد پھر اپنی بات جاری رکھتا ہے ۔
” مجھے ایسا لگتا تھا کہ اسے بھی مجھ سے محبت ہے، لیکن جب امی نے اسے بتایا کہ سارا بزنس بھائی کا ہے، میرا کچھ بھی نہیں ہے تو اس نے اپنے بات کرنے کا انداز بدل دیا۔اس نے کہا کہ ہم صرف دوست ہیں اور یہ کہ امی کو کوئ غلط فہمی ہوئی ہوگی۔اس دن میں نے انہیں اداس دیکھا۔اسے مجھ سے نہیں میری دولت سے محبت تھی! “ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔
” خود کو سنبھالنے کی کوشش کرو، تمہیں اس طرح دیکھ کر آنٹی کو تکلیف ہوگی صائم۔“وقاص اس کا کاندھا تھپتھپا کر کہنے لگا۔
” وقاص محبت پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا، میرا بھی نہیں تھا، لیکن جو درد، جو زخم مجھے محبت نے دیا ہے نا وہ مجھے ساری زندگی یاد رہے گا ۔“وہ اپنی آنکھ رگڑتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا۔
” تمہیں اس سے بہتر مل سکتی ہے، جو تمہیں بس تمہارے لئے چاہے گی، اس کی محبت بے غرض ہوگی، اسے نا تم سے تمہاری دولت کے لئے محبت ہوگی اور نہ ہی تمہارے سٹیٹس سے ۔ جسے تم نے چاہا اسے بھولنے میں وقت لگے گا ۔لیکن کیا تم نہیں چاہتے کہ آنٹی تمہیں خوش دیکھیں؟ “
” میں چاہتا تو ہوں اور کوشش کروں گا کہ خود کو سنبھال سکوں “ابھی اس نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ وقاص الماری میں سے ایک ٹی شرٹ اور جینس نکال کر اسے تھما دیتا ہے ۔
” اگر ایسی ہی بات ہے تو تم فریش ہو کر میرے ساتھ باہر چلو۔“
وقاص کے کہنے پر اسے نا چاہتے ہوئے بھی تیار ہونے کے لئے اٹھنا پڑا۔
***************
سفیر آج پھر اسے کال لگا رہا تھا۔
آج فریحہ نے پہلی ہی بیل پرکال اٹھا لی تھی۔
” ہیلو، السلام علیکم کیسی ہو فریحہ؟ تم نے فون کیوں آف کیا تھا؟ “وہ کال ریسیو ہوتے ہی کہنے لگا۔
فریحہ اس کی بات سن نے کے بعد غصہ میں آ گئ ۔
” سفیر؟ آپ ہوتے کون ہیں مجھے کال کرنے والے؟ تنگ آ گئ ہوں میں آپ سے ۔ مت کیا کریں بار بار مجھے کال۔آپ کی بہن کو لگتا ہے کہ میں آپ کے پیچھے پڑی ہوں، اس سے بدلہ لینے کے لئے ۔ جب میں نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں ہے تو میں کیوں اس کی باتیں سنوں؟ آپ کی بہن مجھے پسند نہیں کرتی ہے یہ بات میں آپ کو بتائ ہوں! “فریحہ ایک ہی سانس میں سب کہہ دیتی ہے ۔
” لیکن میں آپ کو پسند کرتا ہوں اور ہر ممکن کوشش کروں گا کہ آپ بھی مجھے پسند کریں۔“وہ جیسے اس کی بات کو سنا ہی نہیں تھا۔
” آپ کو میری بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟ “فریحہ نے پھر کہا ۔
” میں سمجھ رہا ہوں لیکن آپ میری بات نہیں سمجھ رہیں ہیں، مجھے ماہا سے کوئ فرق نہیں پڑتا،..... مجھے فرق پڑتا ہے تو بس اتنا کہ آپ میرے بارے میں کیا راۓ قائم کریں گی، آپ کیا سوچتی ہیں میرے بارے میں؟ “سفیر جوبات جاننا چاہتا تھا وہ بات وہ کہہ دیا۔
” میں آپ کے بارے میں کچھ نہیں سوچتی ۔“اس نے جھٹ سے کہا۔
”اچھا؟“پھر سے سوال کیا گیا۔
” میں تمہیں اتنا مجبور کر دوں گا فریحہ حیدر کہ تم صرف مجھے سوچوگی! تمہاری ہر بات میں میرا ذکر ہوگا۔دیکھ لینا میں ایسا کر کے دکھاؤں گا تمہیں ۔“سفیر نے کٹیلے لہجے میں کہا۔
” اتنے مغرور انسان کو پسند کون کر سکتا ہے! “فریحہ کو اس کے انداز سے چڑھ ہوی۔
” آپ کریں گی مجھے پسند! “پھر سے جواب آیا۔

” مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سننی ہے اور آئندہ مجھے کال کۓ تو میں آپ کی شکایت حمدان بھائی سے کروں گی ۔“فریحہ یہ کہہ کر کال کاٹ دیتی ہے ۔
بدتمیز انسان! بہن بھی بنا وجہ بولتی ہے اور سفیر خود بھی دوبارہ اگر اس نے مجھے کال کی تو اس کی شکایت حمدان بھائی سے کروں گی ۔
فریحہ بڑبڑاتے ہوئے کچن کی طرف چلی جاتی ہے اور اپنے لۓ کافی بنانے لگتی ہے ۔
ابھی وہ کافی کے لئے پانی چڑھا رہی تھی، جب اس کے موبائل پر میسج ٹون بجی۔
اس نے میسج کھول کر دیکھا تو سفیر کے نمبر سے میسج تھا۔
اس نے دیکھا تو وہاں ایک شعر تھا۔
” تجھے سوچتا ہوں ہر گھڑی....
تنہائی میں تیری تصویر دیکھتا ہوں....
تجھے اتنا چاہتا ہوں کہ ہر گھڑی.......
بس خود سے تیری باتیں کرتا ہوں..... “
پاگل انسان!
وہ یہ کہہ کر اس کا نمبر بلاک کر دیتی ہے اور اپنی کافی بنانے لگتی ہے ۔
دوسری طرف سفیر جب دوبارہ میسج کرتا ہے تو اسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا نمبر بلاک کر دیا گیا ہے ۔
وہ فریحہ کی حرکت پر مسکرا دیتا ہے ۔
” تم بھی یہاں ہو اور میں بھی ۔کب تک مجھے نظر انداز کرتی رہو گی ۔کوئی نہ کوئی لمحہ تم پر یہ بات واضح کر دے گا کہ میں صرف تمہیں پسند ہی نہیں بلکہ تم سے محبت بھی کرتا ہوں! “وہ سوچتے ہوئے اپنا موبائل رکھ کر لیپ ٹاپ پر پریزینٹیشن بنانے لگتا ہے ۔
***************

جاری ہے

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Nov 22, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

Barish Where stories live. Discover now