episode 2 of barish

2 0 0
                                    

” میں کوشش کرتی ہوں خود کو خوش رکھنے کی اور میں خود بھی یہی چاہتی ہوں کہ میں نارمل لوگوں کی طرح رہوں، لیکن سفیر کی یادیں مجھے ایک پل بھی سکون سے جینے نہیں دیتی ہیں، میں اسے چاہ کر بھی بھول نہیں سکی ہوں، بھلا پہلی محبت کبھی بھلائی گئ ہے؟ “وہ اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے پلٹی تو اس کی آخری بات سن کر حمنہ کچھ لمحے کے لئے کچھ بول ہی نہ سکی ۔
” سفیر کو دنیا سے گۓ دو سال ہو گئے ہیں فریحہ، اس کے جانے سے زندگی تو نہیں رکی نا؟ کوئی تم سے کبھی یہ نہیں کہے گا کہ تم اسے بھول جاؤ، لیکن اس بات کو اب قبول کر لو کہ وہ ہم میں نہیں رہا! خود کو اس کی یادوں اور اس کے خیالوں سے بایر نکالو تاکہ تم مطمئین رہو، آج کتنے عرصے بعد تم نے گلابی جوڑا پہنا ہے یاد ہے تمہیں؟ کتنے مہینے بعد تم مجھ سے ملی ہو یہ یاد ہے؟ “وہ اسے احساس دلانا چاہ رہی تھی کہ وہ جو کر رہی ہے خود کے ساتھ بالکل غلط کر رہی ہے ۔
” میں کوشش کر رہی ہوں، مجھے وقت لگے گا حمنہ، اور کتنا وقت لگے گا یہ میں خود بھی نہیں جانتی اور تمہیں ایک اچھی خبر سناؤں؟ “وہ بات کا رخ بدلنا چاہتی تھی ۔
” ہاں سناؤ! “
” میں نے کالج میں ایڈمیشن لینے کی بات کی ہے، میں اس سال اپنا فائنل ائیر مکمل کر لوں گی ۔“وہ اسے خوشی سے بتا رہی تھی ۔
” یہ تو بہت اچھا کیا تم نے، کم سے کم تم پڑھائی میں مصروف رہوگی تو اتنا الجھو گی نہیں! “وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی سفیر کے جانے کے بعد سے اس نے جیسے زندگی کے دروازے خود پر بند کر دۓ تھے اور اب جب وہ خود کو تھوڑا نارمل محسوس کر رہی تھی تو اس نے دوبارہ سے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا!
” چلو ہم نیچے چلتے ہیں ڈنر کا ٹائم یو گیا ہے آنٹی بھی کیا سوچتی ہوں گی میرے بارے میں کہ انہیں اکیلا چھوڑ کر چلی آئ! “فریحہ،حمنہ سے کہتے ہوئے کمرے سے بایر نکل گئی حمنہ بھی اس کے پیچھے چل دی ۔
************************
سب ڈنر کرنے لگے تھے لیکن اسے اس ماحول سے الجھن ہونے لگی تو وہ باہر لان میں آ کر کھڑی ہو گئی، کھلے آسمان تلے اسے کچھ سکون جیسا محسوس ہونے لگا۔
وقاص جو اپنی ماں اور بہن کو لینے آیا تھا اسے اکیلا کھڑا دیکھ کر اس کی پاس آ گیا۔
” آپ یہاں اکیلے کیا کر رہی ہیں؟ “وہ کہنے لگا تو وہ ڈر کر پیچھے کو ہٹی۔
” اندر مجھے گھٹن ہو رہی تھی وہاں سب مجھے بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں سفیر کو بھول جاؤں، بھلا محبت بھی کبھی بھلائی جاتی ہے؟ “وہ اسے تکتے ہوئے سوال کر بیٹھی ۔
” نہیں! محبت بھلائی نہیں جاتی، لیکن محبت کو کھونے کا ماتم ہر کسی کے سامنے نہیں کیا کرتے، محبت بہت انمول ہوتی ہے اسے ہر کسی کے سامنے ظاہر کر کے یوں بے مول نہیں کرتے! “وہ اسے سمجھا رہا تھا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
” آپ باتیں بہت اچھی کر لیتے ہیں! “وہ کہہ رہی تھی ۔
” اور آپ مسکراتے ہوئے بہت پیاری لگتیں ہیں “وہ اسے مسکراتا دیکھ تعریف کۓ بنا نہ رہ سکا۔
” شُکریہ! “وہ سر ہلاتے ہوۓ کہنے لگی تو وہ غور سے اسے دیکھنے لگا۔
آج اسے وہ فریش نظر آ رہی تھی۔ گلابی جوڑا پہنے وہ اسے روز سے مختلف لگی۔
” لگتا ہے آپ کا اندر جانے کا ارادہ نہیں ہے!“وہ اسے دیکھتے ہوئے سوال کر بیٹھی جس پر وہ سر کھجاتے ہوۓ اندر کی طرف بڑھ گیا ۔جبکہ وہ وہیں کھڑی پھر سے سفیر کے بارے میں سوچنے لگی۔
” تم مجھے حقیقت کی دنیا میں کبھی نہیں مل سکے، میں اب اس بات کو مان گئ ہوں، اس لۓ خیالوں کی دنیا میں تمہیں اپنا بنا بیٹھی ہوں، تمہیں کھونے کا دکھ آج بھی تازہ ہے، پر اب میں خود کو اور تمہاری محبت کو لوگوں کے سامنے بے مول نہیں کروں گی، میں اپنی خیالوں کی دنیا میں تمہیں بساؤں گے ۔
جہاں صرف سفیر رحمان ہوگا اور فریحہ حیدر! “
وہ تھک کر اپنی سوچوں سے اپنے کمرے میں آ گئ ۔جاتے جاتے وہ حمنہ سے مل کر پھر اپنے کمرے میں آ گئ ۔
اسے کالج جانا تھا تو وہ الماری میں سے صبح پہننے کے لئے کپڑے منتخب کرنا چاہتی تھی وپ نہیں چاہتی تھی کہ اب کوئی بھی اسے پاگل یا کمزور سمجھے ۔
الماری کے دراز سے اسے ایک پرانی تصویر ملی، یہ تصویر اس کی دوست کی شادی کی تقریب میں لی گئ تھی ۔جہاں عنایہ، ولی، زیدان، حمنہ، سفیر اور فریحہ کھڑے مسکرا رہے تھے ۔
” دو سالوں میں کبھی بھی میں نے کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، خود کو سفیر کی ذات تک اتنا محدود کر چکی تھی کہ میں واقعی اپنے ارد گرد کے لوگوں کو فراموش کر بیٹھی تھی! “وہ فریم ہاتھ میں لئے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے اور اگلے دن عنایہ سے ملنے جانے کا فیصلہ کر لیتی ہے!
الماری میں سے ایک سفید کرتی اور اس پر نیلا پاجامہ اور سفید ہمرنگ دوپٹہ وہ صبح کے لئے نکال کر ہینگ کر دیتی ہے ۔
پھر اپنا لباس تبدیل کر کے وہ سو جاتی ہے، آج بہت دن بعد اسے سکون کی نیند آئ تھی ۔
*****************
صبح جب وہ اٹھی تو اسے فریش دیکھ کر سب بہت خوش ہوۓ۔
” امی! آج میں اپنی سہیلی عنایہ سے ملنے اس کے گھر جانا چاہتی ہوں، بہت عرصہ ہوا اس سے ملے! “وہ ٹوسٹ بریڈ اور آملیٹ اپنی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔
نغمہ بیگم اس کی بات سن کر حیران ہوئ، کیونکہ دو سال میں پہلی دفعہ وہ اپنی کسی سہیلی کے گھر جانے کی بات کر رہی تھی، اس سے پہلے تو وہ کمرے سے باہر ہی بہت کم نکلتی تھی ۔
” ٹھیک ہے فری! حمدان یا حماد میں سے کوئی تمہیں ڈراپ کر دے گا، پھر تم جب کال کروگی تب کوئی تمہیں وہاں سے پک کر لے گا۔“وہ ان کی بات سن کر سر اثبات میں ہلانے لگی۔
” امی! آپ نے دیکھا وہ اپنی دوستوں سے رابطہ کرنا چاہ رہی ہے، وہ دھیرے دھیرے نارمل ہو رہی ہے! “جب وہ ناشتہ کر کے اٹھ گئی تو حمدان خوشی سے بولا تھا۔
” اچھا ہے حمدان کہ اب وہ حقیقت کو تسلیم کر چکی ہے، جتنے جلدی وہ ماضی سے نکل آۓ اس کے لئے یہی بہتر ہے، تم جلدی سے ناشتہ کر لو اور تیار ہو کر فریحہ کو عنایہ کے گھر ڈراپ کر دینا۔“وہ اسے کہتے ہوئے ناشتہ کر کے اٹھ گئیں ۔
وہ تیار ہو کر جب باہر آئ تو حیدر صاحب بھی اسے دیکھ کر خوش ہوۓ۔
” کہاں جا رہا ہے میرا بچہ؟ “انہوں نے پیار سے پوچھا ۔
” عنایہ سے ملنے جا رہی ہوں ابا، پھر وہاں سے بک سٹور جانا ہے کچھ بکس کی خریداری کرنی ہے ۔“وہ انہیں بتانے لگی تو حیدر صاحب نے اپنے والٹ سے کئی نوٹ نکالے اور اسے تھما دۓ۔”یہ پیسے رکھ لو، کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے یا پھر حماد کو کال کر دینا۔تمہیں جو چیز اچھے لگے وہ خرید لینا اور عنایہ کے گھر خالی ہاتھ مت جانا۔“ابھی وہ اور کچھ کہنے والے تھے جب وہ مسکرا کر کہنے لگی۔
” ابا اسے چاکلیٹ کیک بہت پسند ہے یاد ہے مجھے! اور میں اس کے لئے چاکلیٹ کیک اور چاکلیٹس لے کر جاؤں گی، اسے بھی تو یاد رہنا چاہیے نا کہ فریحہ حیدر کچھ بھی بھولی نہیں ہے! “
اس کی بات سن کت ہال میں موجود سبھی لوگ مسکرا دۓ، لیکن ردا کو اسکا نارمل ہونا کھٹک رہا تھا۔
*****************
” عجیب بات ہے نا کہ تمہیں گۓ دو سال ہو گئے، لیکن میں آج بھی تمہاری محبت کو اپنے دل سے نہیں نکال سکی۔کبھی کبھی سوچتی ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ آخر مجھ میں اور فریحہ حیدر میں کیا فرق تھا جو تمہیں اس سے محبت ہو گئی، لیکن تمہیں میری خاموش محبت نظر نہیں آئ؟ “وہ ایک شادی کی تقریب کی تصویر تھی جہاں سفیر رحمان کے ساتھ اس تصویر میں بھی فریحہ حیدر ساتھ تھی۔
” تمہیں پتہ ہے تمہارے جانے کے بعد فریحہ پاگل سی ہو گئی تھی، وہ اس بات پر یقین نہ کر سکی کہ تم اسے چھوڑ کر جا چکے ہو، یقین تو مجھے بھی نہیں آتا ہے کہ تم نہیں رہے، لیکن دیکھو میں اپنی ساری تکلیفیں، سارے غم بھلاۓ زندگی گزار رہی ہوں، جیسے مجھے تم سے محبت تھی بالکل اسی طرح مجھے فریحہ عزیز ہے، اس لۓ تمہاری محبت کو اپنے دل کے ایک گوشے میں دفن کر لی ہوں۔“ایک سرد آہ لیتے ہوئے عنایہ نے سوچا پھر فریم کو دراز میں ڈال کر کمرے سے باہر چلی گئ ۔
” تم سے ملنے کوئی آیا ہے عنایہ! “وہ باہر آئ تو مسز توقیر نے کہا تو وہ کچن میں جانے کے بجائے ہال کی طرف بڑھ گئی ۔وہاں جسے اس نے دیکھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ اسے ہی یاد کر رہی، اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ حیران ہو گئ۔
” کیسی ہو فریحہ؟ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم میرے سامنے ہو! “
” یقین کر لو کیوں کہ یہ میں ہی ہو عنایہ! “وہ ہلکا سا مسکرا کر کہنے لگی۔
اتنے میں مسز توقیر کیک لے آئیں تو عنایہ الجھتی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
” یہ چاکلیٹ کیک فریحہ لائ ہے تمہاری لیے ۔“وہ کیک رکھ کر دوبارہ اندر چلیں گئیں ۔
” تمہیں یاد تھا میری پسند کا؟ “عنایہ نے سوال کیا تو وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
” میں کچھ بھی بھولی نہیں تھی، کچھ بھی نہیں بس مجھے لگتا تھا سفیر کی موت کی ذمہ دار میں ہوں، اس بات پر یقین کرنے کے لئے کہ وہ مر چکا ہے مجھے بہت لگ گیا۔ان دو سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے نا عنایہ؟ “وہ کہہ رہی تھی اور عنایہ خاموشی سے اسے سن رہی تھی ۔
” جو گزر گیا ہے اسے بھول کر زندگی میں آگے بڑھ جانا ہی ہمارے لئے بہتر ہوتا ہے، ماضی میں جینے سے ہم اپنی اصل زندگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔“عنایہ کیک کٹ کر کے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگی تو وہ پلیٹ تھام لیتی ہے ۔
” میں سفیر کو کبھی بھول نہیں سکتی ہوں، کیونکہ جتنی محبت اس نے مجھ سے کی شاید ہی کوئی مجھ سے اتنی ہی محبت کرے، اس کی محبت سچی تھی تبھی تو اس نے نکاح کی بات کی تھی، ایک زندگی اسکے ساتھ جینے کی خواہش تھی میری جو اسکے جانے کے ساتھ ہی کہیں دفن ہو گئ! “ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے اس کے پاس آئ تھی۔اسکی باتوں سے اب بھی لگ رہا تھا کہ وہ سفیر رحمان کو بھولی نہیں ہے اور حقیقت تو یہی تھی کہ وہ اسے بھولی نہیں تھی!
” تم نے کیک لا کر میرا دل خوش کر دیا، ان دو سالوں میں جب جب تمہارے گھر آتی تھی سوچتی تھی تم کب مجھے کیک کھلاؤ گی اور آج دیکھو میری یہ خواہش پوری ہو گئی ۔آج تم آئ ہو نا تو ہم لنچ ساتھ کریں گے اور میں بالکل بھی انکار نہیں سنوں گی! “عنایہ نے بات بدلنے کی کوشش کی تو نا میں سر ہلانے لگی۔
” میں آج یہاں تم سے ملنے آئ ہوں، پھر مجھے بک سٹور جانا ہے اور اس کے بعد گھر، لنچ ہم کسی اور دن ساتھ کریں گے۔“
” ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی! “وہ کہتے ہوئے کیک اپنے پلیٹ میں ڈال کر اس کے مزے لینے لگی۔
***********
” اسلام علیکم، آنٹی میں کب سے فریحہ کو کال کر رہی ہوں اس کا موبائل آف جا رہا ہے، آپ میری اس سے بات کروا دیں! “حمنہ نے نغمہ بیگم سے کہا تو وہ اسے یہ بتا کر فون رکھ دیتی ہیں کہ وہ عنایہ توقیر کے گھر گئی ہے ۔
وہ خود بھی جلدی جلدی تیار ہونے لگتی ہیں جس پر مسز ایمان اس سے پوچھنے لگتی ہیں کہ” اتنی صبح صبح کہاں جا رہی ہو؟ “
” عنایہ کے گھر! فریحہ اور اسے سرپرائز دینے، وہ لوگ میرے بنا کیسے مل سکتے ہیں اور میں بہت خوش ہوں، بہت عرصے بعد فریحہ اپنے کسی دوست سے ملنے گئ ہے ۔“وہ جلدی جلدی دوپٹہ سر پر لیتے ہوئے انہیں بتا رہی تھی ۔
” تمہیں نہیں لگتا تم فریحہ کے معاملے میں جلد بازی کر رہی ہو؟ اگر وقاص کو اس رشتے پر اعتراض ہوا تب؟ تمہارے کہنے پر میں نغمہ سے بات تو کر آئ ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ لوگ ہاں کریں گے اور اگر وقاص کہیں اور انٹرسٹ رکھتا ہے تب؟ “وہ پریشانی سے کہہ رہی تھی ۔
وہ جو باہر جانے کے لئے تیار تھی ان کی بات سن کر ان کے پاس آ بیٹھی۔
” امی! آپ پریشان کیوں ہو رہی ہیں؟ آپ بچپن سے جانتی ہیں فریحہ کو اور اس کی فیملی کو، مجھے نہیں لگتا کہ وہ لوگ انکار کریں گے، کیونکہ دو سال گزر چکے ہیں اس حادثے کو، فریحہ بھی اب ٹھیک ہو رہی ہے، ہو سکتا ہے جیسے ہی اس کی تعلیم مکمل ہو وہ لوگ اس کا رشتہ دیکھنے لگیں، مجھے یقین ہے کہ وہ وقاص بھائی کے ساتھ بہت خوش رہے گی اور وقاص بھائی بھی فریحہ کے ساتھ خوش رہیں گے، آپ اپنے دل سے اس بات کو نکال دیں کہ نغمہ آنٹی انکار کریں گی! “وہ انہیں سمجھا رہی تھی ۔
” ٹھیک ہے حمنہ! “وہ سر اثبات میں ہلانے لگیں ۔
” ایک اور بات آج میں، فریحہ اور عنایہ گھر پر لنچ کریں گے تو آپ پلیز چکن بریانی، کباب اور کھیر بنا دینا، پلیز امی؟ “وہ اٹھ تے ہوئے پھر سے کہنے لگیں تو وہ مسکرا دیں ۔
” ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی لنچ پر تم سب کا! “وہ کہہ دی تو ان کی بات سن کر وہ خوشی سے گھر سے نکل گئ۔
تقریباً بیس منٹ لگے تھے اسے عنایہ کے گھر پہنچنے میں ۔وہ ہال میں داخل ہوتے ہی چلانے لگتی ہے۔
” سرپرائز! “اس کی آواز سن کر دونوں اس طرف دیکھتے ہیں تو حمنہ کو دیکھ کر دونوں کو حیرانی ہوتی ہے ۔
” کیا ہوا لگتا ہے میرا یہاں آنا تم دونوں کو اچھا نہیں لگا! “وہ ان دونوں کو اپنی طرف دیکھتا پا کر سوال کرنے لگی ۔
” نہیں ایسی بات نہیں ہے، مجھے تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے، آو تم بھی ہمارے ساتھ ناشتہ کرو! “عنایہ نے سینڈوچ کی پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ جھٹ پلیٹ تھام کر صوفے پر بیٹھ گئی ۔
” تمہیں کیا لگا اکیلے اکیلے دونوں مل لوگے اور مجھے خبر بھی نہیں ہوگی؟ ایک تو اتنے دن بعد تم یہاں آئوہ بھی میرے بنا، پتہ تو ہے کہ ہم ہمیشہ ساتھ رہتے تھے پھر مجھے ایک دفعہ کال کر کے بتا دیتی تو کیا ہو جاتا؟ “وہ اب فریحہ سے شکایت کر رہی تھی عنایہ تب تک اندر جا چکی تھی ۔
” میرا بہت من کر رہا تھا کہ میں عنایہ سے ملوں، صبح اچانک ہی ارادہ بنا اور بس مجھے بھائی یہاں ڈراپ کر کے چلے گئے۔“وہ بتا رہی تھی کہ جب تک عنایہ پھر سے سینڈوچ لے آئ جسے حمنہ نے جھپٹ لیا۔
” آج لنچ تم دونوں میری طرف کروگے، میں تم دونوں کو لینے آئ ہوں! “وہ ہاتھ جھاڑتے ہوۓ کہنے لگی تو فریحہ نے نہ میں ر ہلایا۔
” ابھی مجھے بک سٹور جانا ہے لنچ کسی اور دن ساتھ کر لیں گے! وہ سہولت سے اسے منع کر رہی تھی ۔
” لیکن میں امی کو لنچ بنانے کا کہہ آئ ہوں وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ ہمارا انتظار کریں گی! “وہ منہ بسورتے ہوئے کہنے لگی۔
” تم نے مجھے انکار کیا میں مان گئ، لیکن سوچو آنٹی ہمارا لنچ پر انتظار کریں گی اور ہم نہ گۓ تو انہیں کتنا برا لگے گا! “عنایہ نے بھی حمنہ کا ساتھ دینے کی کوشش کی ۔
” لیکن میں امی کو بتا کر نہیں آئ ہوں، دیر ہو گئی تو وہ پریشان ہو جائیں گی! “وہ پریشان لہجے میں کہہ رہی تھی تو حمنہ نے اپنے موبائل فون نکالا اور فریحہ کی والدہ کو کال کرنے لگی۔
” ہیلو، اسلام وعلیکم آنٹی، آج فریحہ میرے ساتھ لنچ کرے گی اسے گھر آنے میں وقت لگے گا تو آپ پلیز پریشان نہیں ہونا! “وہ اپنی بات کہہ کر کال کٹ کر دیتی ہے ۔
” اب خوش؟ اب ایک کام کرتے ہیں ہم ابھی بک سٹور چلتے ہیں پھر تب تک لنچ کا ٹائم ہو جائے گا تو پھر میرے گھر چلیں گے وہاں سے! “وہ کہتے ہوئے اٹھی تو عنایہ اپنی والدہ کو بتا کر خود چادر لینے چلی گئ ۔
حمنہ جیسے سب تیاری کے ساتھ آئ تھی وہ لوگ جیسے ہی باہر نکلتے ہیں اس کا ڈرائیور وہاں کھڑا رہتا ہے، ان تینوں کے بیٹھ تے ہی ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کر دیتا ہے، حمنہ بک سٹور جانے کا کہتی ہے جس پر ڈرائیور انہیں بک سٹور چھوڑ کر ان کا انتظار کرتا ہے ۔
فریحہ کچھ پینٹ اور برش لیتی ہے اور کچھ نوٹ بکس، جبکہ عنایہ وہاں سے ایک ڈائری لیتی ہے ۔
وہ تینوں بک سٹور سے باہر نکلتی ہے جب وہاں وقاص اور صائم اندر داخل ہوتے ہیں ان کو بل پے کرتا دیکھ وقاص ٹھٹھک گیا پھر اس نے حمنہ اور اس کے ساتھ کھڑی عنایہ کو دیکھا تو ان کی طرف بڑھ گیا۔
” تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ “وہ حمنہ کے پاس پہنچ کر اس سے پوچھنے لگا۔
” بھائی فریحہ کو کچھ سامان لینا تھا اور اسکے بعد آج میں نے اسے لنچ پر گھر انوائٹ کیا ہے تو میں بھی اس کے ساتھ یہاں چلی آئ۔“وہ اسے اپنے یہاں آنے کی وجہ بتانے لگی ۔
” اچھا پھر لے لیا ہے تم نے سامان؟ “
” ہاں! “اس نے ایک لفظی جواب دیا۔
فریحہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے عنایہ کو ٹھوکر مار رہی تھی کہ وقاص کے ساتھ کھڑے صائم کی نظر عنایہ پر ٹھہر سی گئی ۔
نیلی چادر میں اپنا چہرا چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے وہ بہت اچھی لگی تھی ۔
اسے دیکھ کر بار بار لگ رہا تھا کہ وہ پہلے اسے کہیں دیکھ چکا ہے لیکن کہاں یہ بات اسی یاد نہیں آ رہی تھی ۔
” صائم! “اسے یوں کھڑے دیکھ کر وقاص نے آواز دی تو اس کا دھیان اس طرف سے ہٹا۔
” ہاں کہو! “
” تمہیں یہاں سے جو لینا ہے خرید لو، پھر آج ہم بھی گھر ہی لنچ کریں گے! “وہ اس سے کہتا ہوا فریحہ اور حمنہ کی طرف بڑھا۔
” حمنہ،میں تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں، تم اگر تھوڑا انتظار کر سکتی ہو تو..... “وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا حمنہ سمجھ گئ تھی ۔
” بھائی میں ڈرائیور کے ساتھ آئ ہوں، آپ اپنا کام کر لیں، اگر دیر ہو گئی تو امی کو برا لگے کا۔“وہ اسے کہتے ہوئے وہاں سے نکل گئ جب کہ وقاص اس کے ساتھ جاتی فریحہ کو دیکھنے لگا۔
” اس پر نیلا رنگ جچتا ہے! “وہ بڑبڑایا جسے اس کے پاس کھڑے صائم نے سن لیا۔
” ہاں واقعی اس پر نیلا رنگ بہت جچتا ہے!“صائم نے کہا تو وقاص کے دیکھنے پر اس نے گڑبڑا کر اسے دیکھا۔
” کیا کہا تم نے؟ “
” وہ میں کہہ رہا تھا کہ یہ فائل نیلے رنگ کی کتنی اچھی لگ رہی ہے نا! “اس سے بات نہ بنی تو کچھ بھی بول گیا۔
” اگر فائل لے لی ہے تو چلیں، مجھے بہت بھوک لگی ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج حمنہ نے امی سے کچھ اچھا ہی بنوایا ہوگا! “وہ اس سے کہتا ہوا اسے بل پے کرنے لے آیا پھر وہ دونوں سٹور سے نکل کر وقاص کے گھر کی طرف گاڑی کا رخ موڑ دیتے ہیں ۔
***************
اسے وہاں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا، لیکن سب سے مل کر وہ خود کو مطمئین محسوس کر رہی تھی ۔وقاص اور صائم لنچ کرنے گھر آتے ہیں پھر انہیں میٹنگ میں جانا رہتا ہے تو وہ لوگ چلے جاتے ہیں ۔
مسز ایمان فریحہ کو خوش دیکھ کر جیسے مطمئین ہو گئیں تھیں کہ انہیں حمنہ کی بات پر یقین آ گیا تھا کہ فریحہ جلد ہی ٹھیک ہو جائے گی ۔
دوسری طرف عنایہ بار بار اپنے ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس نے صائم کو کہاں دیکھا تھا۔
اسے یوں ہال میں سوچ گم دیکھ کر مسز توقیر اس کے پاس آ بیٹھی ۔
” کیا سوچ رہی ہو عنایہ؟ “وہ پوچھی تو وہ جھجک کر انہیں دیکھنے لگی۔
” ماما! آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا! “وہ انہیں دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
” مجھے تم پریشان لگ رہی تھی اس لئے تمہارے پاس آ گئ، لیکن لگتا ہے تم مجھ سے شئیر کرنا نہیں چاہتی! “وہ پیار سے کہہ رہی تھیں تو وہ ان کی بات پر مسکرانے لگی۔
” بس آفس کے کچھ کام کی وجہ سے پریشان ہوں، ایک ٹائپسٹ کی جاب بہت مشکل لگتی ہے، سارا سارا دن فائل میں سر کھپاتی ہوں پھر بھی کہیں نا کہیں کوئی غلطی ہو جاتی ہے! “اس نے جھٹ سے بہانا بنایا۔
” میں اور تمہارے بابا تو تمہارے جاب کرنے کے حق میں نہیں تھے لیکن تم خود ہی ضد کر کے جاب کرنا چاہتی تھی اور انہوں نے تمہیں وہاں جاب کے لئے اس لۓ بھیجا ہے کیونکہ وہ ان کے دوست کا آفس ہے ۔“وہ کہہ رہی تھیں تو وہ سر اثبات میں ہلاتے ہوۓ اپنے کمرے میں چلی گئی اور صبح آفس کے لئے اپنی فائل دیکھنے لگی۔
آج وہ بہت خوش تھی کیونکہ آج بہت عرصے بعد وہ سب دوست اکٹھے ہوئے تھے ۔
” زندگی دھیرے دھیرے واپس اپنی ڈگر پر آ رہی ہے، تمہارے بنا بھی زندگی گزر ہی رہی ہے اور میں خوش ہوں کہ وہ اس بات کو قبول کر لی ہے کہ تم نہیں رہے اور اب میں بھی آگے بڑھنا چاہ رہی ہوں، زندگی تو اب کبھی بھی نہیں رکے گی لیکن فریحہ کو خوش دیکھ کر مجھے اطمینان ہو گیا ہے ۔“وہ فائل پر جھکی سوچنے لگی۔

********************
” اس کاحال بھی میرے حال سے مختلف نہیں ہوگا........!
میں جتنا اس کی یاد میں تڑپتا ہوں اتنا وہ بھی تڑپتی ہوگی.....!
وہ اپنی ڈائری میں قلم سے یہ شعر لکھ کر ڈائری بند کر دیتی ہے اسے خود بھی نہیں پتہ تھا کہ اس نے یہ کیوں لکھا بس وہ یہ لکھ کر اپنا سر ٹکائے پھر سے آج اسے یاد کرنے لگی۔
” میں جتنا تمہارے خیالوں سے بایر نکلنا چاہتی ہوں اتنا ہی تمہاری یادیں مجھے اپنی قید میں کر لیتی ہیں! کاش کہ تم مجھے چھوڑ کر نہ جاتے تو آج میری زندگی کتنی خوبصورت ہوتی! “
وہ پھر سے سفیر کو یاد کرنے لگی۔
****************

Barish Where stories live. Discover now