Episode 3 of barish

4 0 0
                                    

ماضی.......!
" عنایہ! عنایہ......! کہاں ہو یار کب سے ڈھونڈ رہی ہوں تمہیں! "وہ اسے آواز دیتے ہوئے اس کمرے میں گئ جو ان تینوں کو مسز جمال نے دیا تھا۔
" میں تھک گئی تھی فریحہ، ہم یہاں آ تو گۓ چار دن پہلے لیکن میں ابھی سے تھک گئ ہوں، مجھے امی کی بہت یاد آ رہی ہے ۔"وہ منہ بناتے ہوئے بولی تو حمنہ چڑ گئ تھی ۔
" عنایہ ہم کونسا کسی دوسرے شہر میں آۓ ہیں، کچھ دوری پر ہی تو ہمارا گھر ہے اور تمہیں پتہ آنٹی کے اتنے اصرار کرنے پر تو ہم یہاں رکنے کے لئے تیار ہوۓ ہیں، ملیحہ آپی کی شادی والے دن تو ہمیں یہاں سے چلے ہی جانا ہے، تمہیں تو پتہ ہے نا کہ ملیحہ آپی کی کوئ بہن نہیں ہے اور آنٹی مجھے کتنا مانتی ہیں، میں تم لوگوں کے بنا کہیں جاتی ہوں تو میرا من نہیں لگتا ہے اور اب تم دکھی ایسے ہو رہی ہو جیسے میں تمہیں کسی دوسرے شہر لے آئ ہوں، کچھ دیر آرام کرتے ہیں پھر شام میں ہلدی کا فنکشن ہونے والا ہے ہمیں اس میں آنٹی کی مدد کرنی رہے گی ۔"حمنہ اپنی عادت کے مطابق بولتی چلی جا رہی تھی تو عنایہ نے بیگ میں سے شام کے لئے اپنا ڈریس نکالا، اسے ڈریس نکالتا دیکھ کر حمنہ اور فریحہ بھی اپنا ڈریس اور جیولری بیگ میں سے نکالنے لگی۔
" تم یہ جوڑا پہنوگی؟ "حمنہ نے فریحہ کے سفید فراک کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
" ہاں تو! "اس نے ایک لفظی جواب دیا۔
" اوہ بہن ہلدی ہے، کسی کی میت نہیں جو تم یہ سفید فراک پہننا چاہتی ہو! "اس نے اس کے سفید رنگ کے کپڑے کو دیکھتے ہوئے ٹوکا۔
" حمنہ اسے جو اچھا لگتا ہے پہننے دو، ابھی تو اس نے فراک کو پوری طرح کھولا بھی نہیں ہے اور تم تنقید کرنے لگی ہو، ہو سکتا ہے اسکی ڈیزائن اچھی ہو اور وہ پورا سفید نہ ہو۔"حمنہ کے بولنے پر عنایہ نے اسے ٹوکا ۔
فریحہ پھر مسکراتے ہوئے اپنا فراک کھولنے لگی۔
اسکا فراک سفید رنگ کا تھا جس پر گولڈن کلر سے کام بنا تھا اور بھاری گولڈن دوپٹہ تھا۔سمپل سے فراک پر بھاری دوپٹہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
" واؤ! کتنا خوبصورت ہے یہ! "حمنہ اور عنایہ نے ایک ساتھ کہا تو وہ مسکرا دی۔
" دیکھا اس لۓ میں کہہ رہی تھی کہ پہلے سے نتیجے اخذ نہیں کرتے، مگر تم ایک بار بولنا شروع کر دو پھر کسی کی سنتی کب ہو! "وہ یہ کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے اس کے کپڑے کا بیگ لے کر اسکا ڈریس دیکھنے لگی۔
حمنہ کا ڈریس لیمن کلر کا تھا جس پر سلور کلر کا کام بنا تھا، عنایہ نے پھر اپنا ڈریس نکالا اس کا ڈریس بھی لیمن کلر کا تھا۔
" ہم دونوں کا ڈریس ایک ہی کلر کا ہے ۔"حمنہ نے خوشی سے کہا تو عنایہ بھی مسکرا دی۔
" میں تو بہت تھک گئ ہوں اب ایک گھنٹہ سونے کے بعد ہی میں شام میں کویئ کام کر سکوں گی۔"حمنہ اتنا کہہ کر بیڈ پر لیٹ گئی، جبکہ وہ دونوں اپنے ڈریس کی میچنگ جیولری نکالنے لگے۔
" میں ابھی ملیحہ آپی کے پاس جا رہی ہوں، امی نے ان کے لئے یہ سوٹ دیا ہے اور یہ رنگ بھی ۔"فریحہ کہنے کے ساتھ ہی کمرے سے باہر چلی گئ اور عنایہ اسکے پیچھے ہی چل دی ۔عنایہ نے اپنا رخ کچن کی طرف کیا اور فریحہ نے ملیحہ کے کمرے کی طرف ۔
اسنے دستک دی تو ملیحہ نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
" آپی یہ امی نے آپ کے لیے بھیجا ہے ۔"اس نے مسکراتے ہوئے اسے پیک کیا ہوا ڈریس اور رنگ کا باکس اسے تھمایا ۔
" اس کی کیا ضرورت تھی فریحہ! تم لوگ آ گئ ہو تو گھر میں رونق لگ جائے گی ۔"آصفہ بیگم کے کہنے پر وہ بنا کچھ کہے انہیں سامان تھماتے ہوۓ ملیحہ کے کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اور کچن کی طرف بڑھ جاتی ہے ۔
" کیا کر رہی ہو؟ "فریحہ نے عنایہ کو کچن میں کھڑے دیکھ کر سوال کیا۔
" مجھے بھوک لگی ہے لیکن میں کیا کھاؤں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، آنٹی کہیں تھیں بیٹا جو اچھا لگے کھا لینا، فریج میں کباب رکھیں ہیں اور بریانی بھی ہے! "وہ کنفیوز سے انداز میں کہہ رہی تھی ۔
" سب تو ہے پھر کیا مسئلہ ہے تمہیں؟ "اس نے سوال کیا۔
" مجھے کباب کھانا ہے کیونکہ اب شام ہونے والی ہے اور میں اس وقت چائے پیتی ہوں اور اس کے ساتھ کچھ کھاتی ہوں، تمہیں تو پتہ ہے نا میری عادت کا! "وہ کہہ کر رکی تو پھر فریحہ اسے وہاں سے ہٹاتے ہوۓ خود فریج میں سے دودھ اور کاب نکال ایک طرف چاۓ کا پانی چڑھاتی ہے اور دوسری طرف فرائنگ پین رکھ کر اس میں تیل ڈال کر کباب تلنے لگتی ہے-
پھر وہ سب کچھ ایک پلیٹ میں نکال کر ٹرے میں سب رکھ کر عنایہ کو کمرے میں جانے کا کہنے لگتی ہے اور خود ٹرے لے کر کمرے میں چلی جاتی ہے-
"بھوک تو مجھے بھی لگی تھی اس لۓ میں کباب اور چاۓ یہیں کمرے میں لے آئ"کمرے میں پہنچ کر فریحہ عنایہ سے کہنے لگی پھر وہ دونوں ایک ساتھ ناشتہ کرنے لگے-ان کی باتوں کی آواز سے بھی حمنہ سوئ رہی-پھر وہ دونوں برتن لے کر واپس کمرے سے باہر چلیں گئں-حمنہ کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو تنہا پایا وہ پھر فریش ہو کر کمرے سے نکلی ہی تھی جب اس کی ٹکر ولی خان سے ہوئ(ولی ملیحہ کا بھائ) -
وہ اسے دیکھا تو کچھ لمحے کے لۓ دیکھتا رہ گیا!
نیند سے بوجھل آنکھیں,کمر سے نیچے جاتے بال وہ رف حلیے میں بھی اسے موصوم لگ رہی تھی-
"ولی آپ نے عنایہ اور حمنہ کو دیکھا ہے؟"وہ اس سے پوچھنے لگی تو وہ اپنے خیالوں کی دینا سے باہر آیا-
"ہاں!ابھی وہ دونوں کچن میں تھیں,پھر امی نے انہیں کچھ کام دۓ ہیں کرنے کے لئے شاید -"وہ اسے بتاتا ہوا پھر وہاں سے چلا جاتا ہے -
حمنہ جب نیچے پہنچتی ہے تو عنایہ اور فریحہ دونوں مایوں کی تھال سجا نے میں مصروف تھیں-
"تم دونوں مجھے اکیلے کیسے چھوڑ سکتے ہو؟پتہ ہے میں کتنا گھبرا گئی تھی جب مجھےتم لوگ کمرے میں نہیں دکھے وہ تو اچھا ہوا جو ولی راستے میں مل گیا اس نے بتایا کہ آنٹی نے تم لوگ کو کام دیا ہے کرنے کے لئے تو تم دونوں نیچے ہو! "وہ اپنی عادت سے مجبور جب بولنے پر آئی تو نان اسٹاپ بولنے لگی-
ولی جو کسی کام سے باہر جا رہا تھا اسے بولتا دیکھ کر رک گیا, پھر اس کا موبائل بجنے لگا تو وہ باہر نکل گیا-
"حمنہ تم سو رہی تھی اور ہمیں بھوک لگی تھی تو پہلے ہم کچن گئے وہاں سے ہم نے اپنے کھانے پینے کا انتظام کیا اور جب برتن رکھنے گئے تو آنٹی نے ہمیں کام دے دیا-اور تمہیں ڈرنا نہیں چاہیئے تھاہم کونسا تمہیں پہاڑ پر تنہا چھوڑ کر چلے گئے تھے, گھر ہی تو ہے! "عنایہ تھال میں کینڈل رکھتے ہوئے کہہ رہی تھی!
فریحہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہی تھی!
"فریحہ تم آج شام میں لینس پہنو گی؟"حمنہ نے سوال کیا تو جواب عنایہ نے دیا-
"اس کی آنکھیں خود ہی بھوری ہیں اسے لینس کی کیا ضرورت ہے! ہاں اگر تم چاہو تو وائٹ لینس پہن سکتی ہو! "وہ اسکا مذاق اڑانے والے انداز میں کہنے لگی-
"کیوں ؟تم لینس نہیں پہنتی ہو کیا؟"وہ برا مناتے ہوئے پوچھنے لگی-
"میں تو ہر شادی میں پہنتی ہوں اور آج شام میں میں ڈارک براؤن کلر کا لینس پہن نے والی ہوں! "
فریحہ اب گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں کام جلدی ختم کرنےکا کہتی ہے -
"اگر تم دونوں زبان سے زیادہ ہاتھ چلاؤ گے تو کام جلدی ختم ہوگا اور ہمیں تیار ہونے کے لئے زیادہ وقت ملے گا, یہ نا ہو کہ ہم لڑکی کے رشتہ داروں کے بجائے کام والی ماسیاں لگنے لگیں! "اس کی بات سن کر دونوں جلدی جلدی تھال میں پھول اور کینڈلز سیٹ کرنے لگتے ہیں -
**********************
"کیا یہ ضروری ہے کہ ملیحہ بھابی گھر ہم دونوں جائیں؟زین بھائ کی ہلدی ہے انہیں جانا چاہئے نا!صبح سے تمہارے ساتھ مل کر سارے کام دیکھ رہا ہوں اور اب جب شام میں مجھے فرصت ملی ہے تو تم کہہ رہے ہو کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں بھابی کے گھر! " سفیر رحمان تھکے ہوئے انداز میں اپنے زید سے مخاطب تھا -
"جہاں تم نے میرا اتنا ساتھ دیا ہے سفیر وہاں یہ آخری کام بھی کروا دو میرے بھائ٬اس کے بعد بے شک تم گھر آنے کے بعد کوئ کام نہ کرنا لیکن میں اکیلا امی کے ساتھ وہاں اچھا نہیں لگوں گا! "وہ اسے منا نے کی کوشش کر رہا تھا -
"ہاں مگر یہ میں تمہاری آخری بات مان رہا ہوں پھر میں کل تمہاری کسی کام میں مدد نہیں کروں گا،چچی نے بھی مجھے شوفر سمجھا ہوا ہے ٬نا جانے کتنے چکر تو میں درزی کے یہاں لگا آیا ہوں اور پھر چچا نے تمہارے ساتھ سجاوٹ دیکھنے کے لئے لگا دیا-بس یہ آخری کام ہوگا میں پہلے ہی تمہیں بتا دے رہا ہوں! "وہ اسے کہتا ہوا خود تیار ہونے چلا گیا-
چچی ٬زین کی بہنیں زارا اور سارہ اور سفیر کی بہن ماہا اور سفیر ہلدی کی رسم کے لئے ملیحہ کے گھر کے لئے نکل جاتے ہیں -
ملیحہ کے گھر ان کا بہت اچھا استقبال ہوتا ہے -
سفیر اور زید ایک ساتھ ہی رہتے ہیں جب وہ تینوں ایک ساتھ ملیحہ کو لے کر نیچے آتیں ہیں!
سفیر کو ارد گرد سے بے نیاز رہتا اس کی نظر بھوری آنکھوں والی لڑکی پر ٹھہر سی جاتی ہے!
سفید اور گولڈن کلر کا فراک پہنے وہ بالکل پری لگ رہی تھی -سفیر کو اس لمحے اس لڑکی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا!
فریحہ حیدر اس لمحے سفیر رحمان کے دل کی دنیا کو بدل چکی تھی!
وہ ایک ٹک اسے ہی دیکھے جا رہا تھا!
"سفیر! "زید نے اسے آواز دی تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا!
"کہاں کھو گیا ہے ؟"وہ پوچھ بیٹھا تو وہ اس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا کیمرا لینے چلا گیا!
حمنہ بار بار اپنا دوپٹہ سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کا دوپٹہ بار بار زمین کو چھو رہا تھا٬تھک کر وہ ایک جھٹکے سے اپنے ڈوپٹے کو کاندھے پر ڈال دیتی ہے -
ولی دور کھڑا اس کی حرکت کو دیکھ کر مسکرانے لگا اسے معصوم سی حمنہ بہت اچھی لگی تھی-
اتنے میں زید اور سفیر کیمرا لے آۓ اور زید کی والدہ نے رسم کا آغاز کیا تو سب باری باری ملیحہ کو ہلدی لگانے لگے-
جب فریحہ کی باری آئ تو سفیر نے اس کی ایک تصویر اپنے موبائل میں کھینچ لی اور موبائل پاکٹ میں ڈال کر پھر سے تصویر لینے لگا!
کچھ دیر بعد جب سب ڈنر کرنے چلے گئے تو فریحہ اور عنایہ ٬ملیحہ کو اس کے کمرے میں پہنچا دیتے ہیں!
"سفیر میرے بھائی! زین بھائی نا بھابی کو دیکھنا چاہتے ہیں ابھی ٬تو کسی طرح ان لڑکیوں میں سے کسی ایک کو راضی کر کی وہ بھائ سے بات کر لے! "اس کی بات سن کر سفیر نے سوچا کہ اچھا موقع ہے اسی بہانے وہ اس لڑکی سے اس کا نام بھی جان لے گا!
وہ زید کے ساتھ اوپر گیا تو وہ اور عنایہ ملیحہ کے کمرے سے باہر نکل رہیں تھیں -
"میری بات سنیں! "سفیر کی آواز پر دونوں نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا اور یہی وہ لمحہ تھا جب عنایہ کو لگا کہ اس کے سامنے کھڑا شخص ہی اس کے خوابوں کا شہزادہ ہے!
وائٹ کرتا سوٹ پہنے ٬ڈارک براؤن آنکھیں ٬دراز قد آور پیشانی پر بکھرے بال وہ ہر لڑکی کا آئڈیل ہو سکتا تھا!
اسے اس طرح خاموش دیکھ کر فریحہ کو بات کرنی پڑی!
"جی کہیں! ہم سب رہے ہیں! "
"وہ بھائ کو بھابی کو مایوں کے جوڑے میں دیکھنا ہے اور ان سے بات کرنی ہے تو اگر آپ تھوڑی بات کروا دیتی تو بہت احسان ہوتا آپ کا مجھ پر -"سفیر کو خاموش دیکھ کر زید نے کہا تو وہ کچھ دیر تو سوچنے لگی پھر سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اجازت دے دی -
زید پھر اپنا موبائل نکال کر زین کو کال کرتا ہے تو وہ موبائل لے جا کر ملیحہ کو دے دیتی ہے اور خود ان کی بات ختم ہونے کا انتظار کرتی ہے -
پھر ملیحہ پندرہ منٹ بعد ہی موبائل فون واپس کر دیتی ہے -
اب وہ چاروں ایک ساتھ نیچے چلے جاتے ہیں -
"لگتا ہے آپ کے یہاں مہمانوں کو کھانا کھلانے کا رواج نہیں ہے -
"جب وہ دونوں جانے لگیں تو سفیر نے کہا تو وہ دونوں رک گیئں -
"آپ نے کھانا نہیں کھایا اب تک؟"عنایہ نے پوچھا تو ان دونوں نے نفی میں سر ہلایا -
وہ انہیں لے کر پھر ڈائننگ روم میں لے کر گئ جہاں ولی کھڑا تھا٬انہیں دیکھ کر وہ ان کی طرف بڑھا اور انہیں لۓ آگے بڑھ گیا!
"شکر ہے جان چھوٹی ان دونوں سے! "ان کے جانے کے بعد فریحہ سکون کا سانس لیتے ہوئے کہنے لگی-
"ایسے کیوں کہہ رہی ہو تم؟اتنا اچھا تو ہے سفیر! "وہ کہنے لگی تو فریحہ آنکھیں بڑی کر کے اسے دیکھنے لگی-
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"اس کے دیکھنے پر وہ اس سے سوال کرنے لگی-
"تمہیں اس کا نام کیسے پتہ چلا ؟"وہ پوچھی تو عنایہ گڑبڑا گئی -
"وہ دونوں جب بات کر رہے تھے تو میں نے ان کی! "اس نے سچ بتایا-
"خیر یہ سب چھوڑو اب ہمیں بھی کھانا کھا لینا چاہیے ،کل مہندی کا فنکشن ہے اور ہمیں بھی تو مہندی لگوانی رہے گی نا! "وہ بات بدلتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامے وہاں سے نکل گئی -
"یہ حمنہ کہاں رہ گئی ہے ؟ویسے تو ہمیں ڈھونڈ نے لگتی ہے اور ابھی پتہ نہیں کہاں ہے! "عنایہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگی-
"ہو سکتا ہے کہ وہ کھانا کھانے گئی ہو! "فریحہ نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا-
ڈنر کے بعد سب واپس چلے گئے تھے - وہ دونوں جب اپنے کمرے میں گئیں تو حمنہ وہاں پہلے سے ہی موجود تھی!
"اف یہ لڑکی سو گئ ہے اور ہم اسے ہر جگہ ڈھونڈ رہے تھے! "عنایہ نے اسے سوتے دیکھا تو فریحہ سے کہنے لگی-
"تھک گئ ہوگی کام کر کے ٬ہم تو ملیحہ آپی کے ساتھ ساتھ تھے اور سجاوٹ کا کام پہلے ہی ہم دیکھ چکے تھے ٬ وہ شاید آنٹی کے ساتھ کام کروانے لگی ہوگی اس لئے ہم سے پہلے ہی آ کر سو گئی! "فریحہ اپنی جیولری اتارتے ہوئے عنایہ سے کہنے لگی-
"اب ہمیں بھی سو جانا چاہئے! "عنایہ نے کہا پھر وہ چینج کر نے چلی گئی اور بیڈ پر لیٹ گئی -
فریحہ بھی پھر چینج کر کے سو گئ ٬کیوں کہ کل ملیحہ کو مہندی لگنی تھی-
*****************************
"یہ مجھے کیا ہو گیا ہے ؟ بار بار اس لڑکی کا چہرہ میرے سامنے کیوں آ رہا ہے ؟ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا! "وہ اپنے بستر پر سوۓ سوۓ اس کے بارے میں سوچنے لگا تھا -
"میں تو ابھی اس کا نام تک نہیں جانتا اور میرا یہ حال ہے کہ بس جب سے اسے دیکھا ہے کوئ اور چہرا مجھے نظر نہیں آ رہا ہے ٬میں کیا کروں ؟اپنی کیفیت کسے بتاؤں؟" وہ خود ہی سمجھ گیا تھا -
پھر جب اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وہ اپنا موبائل نکال کر اسکی تصویر دیکھنے لگا اور تصویر دیکھتے ہی جیسے اسے سکون مل گیا تھا -
وہ اسے دیکھ کر مسکراۓ جا رہا تھا -
بھوری آنکھوں والی لڑکی اس کے لبوں پر بے وجہ مسکراہٹ لانے کی وجہ بن گئی تھی !
*************************
مہندی کا دن بہت مصروف گزرا تھا!
زین کے گھر والے صبح ہی مہندی بھیج چکے تھے -
دوپہر کے وقت سے ملیحہ کو مہندی کے لئے تیار کیا گیا تو پھر شام تک وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی رہی!
آصفہ بیگم بار بار آنکھیں صاف کرتیں٬کل کو انہیں اپنی اکلوتی بیٹی کو رخصت کرنا تھا!
وہ تینوں بڑی خوش اسلوبی سے میزبانی کا کام سرانجام دے رہے تھے!
آج فریحہ نے بلو کمیز اور پینٹ پر ہنسنے دوپٹہ لیا تھا -
عنایہ اور حمنہ نے ڈارک پنک کلر کے فراک پہنے تھے -
حمنہ بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کہ کب گھر مہمانوں سے خالی ہو اور وہ سکون سے مہندی لگا سکے!
"پتہ نہیں کب یہ لوگ یہاں سے جائیں گے! "وہ بڑبڑا رہی تھی اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ولی نے اس کی بات سنی تو مسکراتا ہوا اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا!
"کسے بھیجنے کی جلدی ہے تمہیں ؟ملیحہ آپی کو؟"وہ اس سے پوچھنے لگا تو گڑبڑا گئی -
"نہیں ٬نہیں! ایسی بات نہیں - میں تو بس چاہتی ہوں مہمان اب جلدی سے چلے جائیں پھر میں سکون سے مہندی لگوا سکوں گی! "وہ اس سے کہنے لگی تو وہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی -
"آپ ایک کام کریں میرے ساتھ اس طرف آ جائیں ٬میں ایک مہندی آرٹسٹ کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں! "وہ جیسے اسے اس کے مسئلےکا حل بتا رہا تھا-
حمنہ بنا کچھ سوچے اس کے بتاۓ ہوۓ جگہ پر پہنچ گئی اور مہندی آرٹسٹ کا انتظار کرنے لگی-
ولی نے اپنے کہے کے مطابق ایک لڑکی کو اس کے پاس بھیجا پھر وہ خوشی خوشی اپنے ہاتھ پر مہندی لگوانے لگی!
وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے موبائل استعمال کرنے لگی اور اسی میں تصویر لینے لگی٬پھر اس نے فریحہ کو کال کر کے اسے بتایا کہ وہ مہندی لگوا رہی ہے تو وہ دونوں سب کام چھوڑ کر اس کے پاس چلیں آئیں-
اس کے ایک ہاتھ پر مہندی لگ چکی تھی اب وہ دوسرے ہاتھ پر مہندی لگوانے میں مصروف ہو گئ تھی -
تبھی فریحہ اور عنایہ کمرے میں آۓ-
”تم ہمارے بنا کیسے مہندی لگوا سکتی ہو؟اگر جگہ مل گئی تھی تو کم از کم ہمیں تو بتا دیتی ٬ میں یہاں بیٹھ کر فریحہ کو مہندی لگا دی ہوتی خود تو مہا رانی کی طرح بیٹھ کر دونوں ہاتھوں پر لگوا لی مہندی! “عنایہ اسے دیکھتے ہی پھٹ پڑی!
”وہ مجھے ولی نے کہا تھا تو میں آ گئی اور بیٹھ کر مہندی لگوانے لگی٬ تم دونوں کو میسج کیا تھا میں نے لیکن تم نے دیکھا ہی نہیں تب میں نے فریحہ کو کال کر کے یہاں بلا لیا کہ وہ اور تم دونوں یہاں آرام سے مہندی لگوا سکو! “وہ اسے بتانے لگی پھر اس نے اس لڑکی سے کہا فریحہ کو مہندی لگانے کے لئے اب وہ لڑکی اور عنایہ فریحہ کے ہاتھوں پر مہندی لگانے میں مصروف ہو گئی-
حمنہ نے جب اپنے دونوں ہاتھ کی مہندی دیکھی تو اس کی نظر چھوٹے سے ”و“ پر گئ ٬ پہلے تو اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا پھر اسے لگا کہ یہ سب ولی نے کیا ہے تو اسے غصہ آنے لگا-وہ ان سے بہانا بنا کر اٹھ گئی -
”تم پھر ہمیں چھوڑ کر جا رہی ہو؟“فریحہ نے کہا تو وہ مسکرا کر اسے دیکھنے لگی-
”مجھے بس ایک چھوٹا سا کام ہے ٬ ابھی گئی اور ابھی آئ! “وہ ان کے جواب کا انتظار کۓ بنا کمرے سے نکل گئی اور سیدھا ولی کے پاس جا کر رکتی ہے!
”یہ کیا کیا ہے آپ نے میرے ساتھ ؟“وہ اس سے پوچھتی ہے تو وہ انجان بننے لگتا ہے -
”کیا کیا ہے میں نے ؟“وہ معصوم سی شکل بناۓ الٹا اس سے پوچھنے لگا!
”آپ..... آپ نے اس لڑکی سے کہا تھا کہ مجھے مہندی لگاتے ہوۓ ”و“ بناۓ؟“وہ سیدھا سا سوال کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے آگے بڑھا دیتی ہے!
”بہت خوب صورت تو لگ رہا ہے یہ آپ کے ہاتھ پر! “وہ بھری ڈیزائن دیکھے ہوئے کہنے لگا تو وہ حیرت سے اسے تکنے لگی-
”کیا مطلب ہے آپ کی بات کا؟“وہ نا سمجھی سے کہنے لگی-
”مطلب تو وہی ہے جو آپ سمجھ نہیں رہیں! میں اپنا نام آپ کے ہاتھ پر ہی نہیں بلکہ آپ کے نام سے جوڑنا چاہتا ہوں حمنہ! میں تمہیں پسند کرتا ہوں حمنہ ٬اگر ایسا کچھ نہ کرتا تو تمہیں بتا نہیں سکتا اور تم پھر یہاں سے چلی جاؤ گی! “بالآخر اس نے وہ بات کہہ دی تھی جس کے لیے اس نے اس کے ہاتھ پر ”و“ بنوایا تھا!
وہ اس کی بات سن کر اسے تکنے لگی!
”ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟اچھا لگتا ہوں نا؟“ وہ ہاتھ باندھے اس سے کہنے لگا!
وہ نظریں جھکا گئی!
”بہت خوش فہمی نہیں ہے آپ کو اپنے بارے میں ؟“
”مجھے یقین ہے ٬ خوش فہمی نہیں! “اس نے بھی دوبدو جواب دیا-
”آپ سے کس نے کہا کہ آپ اچھے دکھتے ہیں ؟ ایسی شکل بنا کر گھومتے ہیں کہ کوئ بھی دیکھ کر ڈر خان!  اکڑو سنگھ بنے پھرتے ہیں! “وہ کہہ رہی تھی تو پہلے وہ اس کی بات سنتا ہے اور اس کے بعد ہنسنے لگتا ہے!
”کیا ہوا؟ ہنس کیوں رہے ہیں ؟ میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہے کیا؟“اسے اس کا ہنسنا برا لگا تھا -
”اتنے ہینڈسم بندے کو تم اکڑو کہو گی تو ہنسی نہیں آۓ گی!“ اس کی بات سن کر وہ جانے لگی تو پیچھے سے اس نے اسے آواز دی -
”رکو! “
وہ پلٹی!
”تمہارے ہاتھ پر ابھی صرف ”و“ لکھوایا ہے بہت جلد تمہارے ہاتھ میں اپنے نام انگوٹھی پہناؤں گا! “وہ اس کی بات سن کر آگے بڑھ گئی!
*********************




جاری ہے!

Barish Where stories live. Discover now