قسط نمبر 26

301 18 3
                                    


ان کہے جذبات (زوہا آصف)
قسط نمبر26

”سائرہ کم از کم تمہیں چاہیے تھا تم مجھے تھوڑا بہت آئیڈیا دے دیتی۔۔“ السا نے اس سے شکوہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”کیوں دیتی بھئی؟“ سائرہ نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ وہ دونوں اس  وقت دریا کنارے بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھیں باتیں کر رہی تھیں۔۔
”تا کہ میرا تھوڑا مائینڈ بنا ہوتا۔۔ میں مینٹلی طور پر ریڈی تو ہوتی۔“السا  نے اس کے  مسکراتے چہرے کو دیکھ کر کہا۔
”اس سے کیا ہونا تھا؟“ سائرہ نے ہنس کر اس کا گلنار چہرہ دیکھا تھا۔
”کچھ نہیں۔“ السا خفا خفا بولی۔
”اگر پہلے بتا دیتی تو تمہارے چہرے پر یہ حیا والی لالی کیسے دیکھتی السا؟“ سائرہ نے مسکرا کر اس کی ٹھوری کو چھوا۔
”ٹھہرو ذرا تمہاری ابھی شکایت لگاتی ہوں“ السا نے اسے دھمکی دی۔
”السا ایسی حرکت سوچنا بھی مت “ سائرہ نے اسے وارن کرناچاہا۔
”میں جو حرکت کرنے کا سوچ چکی ہوں وہ کر گزروں گی تم دیکھنا۔“ السا نے مسکرا کر اسے کچھ جتایا مگر معصوم سائرہ اس کی ہوشیاری سے کی گئی بات سمجھ نہ پائی۔
”تم نے جو کرنا ہو کرو بیشک۔۔ پر میری کوئی شکایت نہیں لگاؤ گی تم۔ پرامس کرو“سائر ہ نے روہانسی ہوتے ہوئے اس سے وعدہ لینا چاہا۔
”کیوں نہ لگاؤں۔۔؟“ السا نے مسکرا کر اسے تنگ کیا۔
”کیونکہ ایسی شکایتیں اچھی لڑکیاں نہیں لگاتیں۔“ سائرہ نے ٹھہر ٹھہر کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”پھر تو میں پکا لگاؤں گی۔۔“ السا نے ہنس کر اس کی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”السا۔۔۔۔“سائرہ نے منت کرتے لہجے میں اس کا نام پکارا۔
”کیاہوا سائرہ جانی؟ اتنا ڈر کیوں رہی ہو؟“ السا نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کے لال پڑتے چہرے کو دیکھا۔
”مم۔۔میں تو نہیں ڈر رہی۔۔“ سائرہ نے تھوڑا اکڑ کر اسے احساس دلانا چاہا کہ وہ نڈر ہے۔ مگر اس کی کامپتی حالت سے السا کو اچھا خاصہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کتنی نڈر تھی۔
”تم ضرار بھائی سے ڈر رہی ہو نہ؟“ السا نے ہنسی دباتے پوچھا۔
”میں تمہارے ضرار بھائی سے ہر گز نہیں ڈرتی۔“ وہ نظریں چڑائے بولی۔
”جی ضرار بھائی کوئی کام تھا؟“ السا نے یوں پوچھا جیسے سائرہ کے پیچھے وہ کھڑا ہو۔ سائرہ اک دم اچھل کر کھڑی ہوئی۔۔ تیز تیز سانس لیتی اس نے  مڑ کردیکھا۔۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔۔ ضرار اور مہد اس جگہ سے تھوڑی دور بار بی کیو کرنے میں مصروف تھے۔۔ اس نے اب خشمگیں نگاہوں سے السا کو دیکھا جو مسلسل ہنستی چلی جا رہی تھی۔۔۔
”السا۔۔۔ بہت ہی ظالم بھابھی  ہو تم“ سائرہ نے تپتے ہوئے کہا تھا۔ اپنے لئے اس کی زبان سے بھابھی سن کر السا کی ہنسی کو بریک لگی۔مگر پھر خوشدلی سے ہنس دی۔۔
”بچو۔۔ ابھی تو میں نے تمہاری شکایت لگانی ہے“ السا نےہنس کر اسے دیکھا۔
”جاؤ میں نہیں بول رہی تم سے۔“ سائرہ نے نروٹھے انداز میں کہا اور پھر سے اس کے پاس ہی پتھر پر بیٹھ گئی۔۔ مگر اس بار وہ رخ موڑ کر بیٹھی تھی۔ جس کا صاف مطلب تھا کہ وہ السا سے ناراض ہے اور اب اس سے بات نہیں کرے گی۔۔
”میں جا رہی ہوں شکایت لگانے۔۔“ السا کہتے ہوئے وہاں سےہاتھ جھاڑتی اٹھی اور لمحوں میں ضرار اور مہد کے پاس پہنچی تھی۔۔ سائرہ کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں۔۔ یا اللہ آج بچا لے اس ظالم بھاوج سے۔۔ سائرہ نے السا کو خفا نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آسمان کی جانب منہ کر کے فریاد کی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”میں کچھ مدد کروں؟“ اپنے عقب سے اس کی آواز سن کر اس نے بڑی ہمت کر کے ماہروش کو اگنور کیا۔۔ اسے یوں محسوس کروایا جیسے گویا حازم ٹینٹ لگانے میں مصروف اس کی بات سن ہی نہیں رہا تھا۔ ماہروش نادان یہی سمجھی تھی۔۔
”اوئے کڑوے کڑیلے۔۔“ ماہروش اب تھوڑا اونچی بولی۔۔ مگر افسوس حازم نے پھر اسے مکمل طور پر نظرا نداز کر دیا۔ اب کی بار ماہروش کو پھر سے یہی لگا کہ کیل لگانے کی وجہ سے شاید حازم اسے سن  نہیں پایا۔
”تم میری بات نہیں سن رہے۔۔“ اب کی بار ماہروش نے  کیل لگاتے حازم کو ہلکا سا دھکا  دیا ۔ اس اچانک دھکے سے حازم کا دھیان ہٹا اور ہتھوڑی کیل کو لگنے کی بجائے حازم کی انگلی پر لگ گئی۔۔ وہ  کراہتا ہوا اٹھا۔۔ اور ماہروش کو خونخوار نظروں سے گھورا۔
”امم۔۔ آئی ایم سوری۔۔“ وہ اس کی آگ برساتی نظروں سے گھبرا گئی۔
حازم نےاسے ایک بار پھر نظرانداز کرتے ہوئے اپنی انگلی پر دوسرے ہاتھوں کی انگلیوں سے دباؤ ڈالا۔۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ اس وقت اسے واقعی بہت تکلیف ہو رہی تھی۔۔
”حازم دکھاؤ تو۔۔ زیادہ تو نہیں لگی۔؟“ ماہروش نے فکر سے اس کا ہاتھ دیکھنا چاہا مگر حازم یوں پیچھے ہٹا جیسے کرنٹ کھالیا ہو۔
”تکلیف دینے والے یوں فکر کرتے ہوئے بہت فنکار لگتے ہیں۔“ اس نے ماہروش کو دیکھ کر طنز کیا۔
”مم۔۔ کیا مطلب؟ میں  سمجھی نہیں۔“ ماہروش اس کی بات پر حیران تھی۔۔ وہ کبھی اس طرح پہیلیوں میں باتیں نہیں کرتا تھا۔۔
”میں نے تمہیں ہر بات سمجھانے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا۔“ حازم نے کڑوے لہجے میں جیسے زہر اگلا۔۔ ماہروش زندگی میں پہلی بار حازم کا اپنے ساتھ ایسا انداز دیکھ کرکپکپائی۔۔ اسے یقین نہیں آیا تھا کہ اس کے سامنے ابھی وہی حازم کھڑا تھا جسے وہ بچپن سے جانتی تھی۔۔ جس سے وہ بے پناہ محبت کرتی تھی۔۔ جسے وہ اپنا سب کچھ مانتی تھی۔۔
”حازم۔۔ کیا ہوا ہے؟“ اس نے ہمت کرتے اس کے کندھے پر اپنائیت سے ہاتھ رکھنا چاہا مگر حازم دوبارہ سے جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا۔
”مجھ سے دور رہو ماہروش عزیز“ حازم نے اتنی سختی سے کہا تھا کہ وہ مظبوط لڑکی کانپ کر رہ گئی تھی۔
”کیا میں نے کوئی غلطی کر دی ہے حازم؟ جو تم ناراض ہو؟“ ماہروش  نے ذرا ہمت کرتے پوچھا۔
”میرا تم سے ایسا کونسا واسطہ جو میں تم سے ناراض ہوں گا؟“ حازم کی اتنی سنگدلی سے کہی گئی بات پر ماہروش کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔۔
”ہمارا کیا کوئی واسطہ ، کوئی تعلق نہیں حازم؟“ ماہروش نے ٹوٹے لہجے میں اک آس لیے پوچھا۔۔
حازم کی جناب سے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
”حازم؟؟“  ماہروش نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے پوچھا۔
”مجھے تنگ نہیں کرو مجھے بہت کام ہے۔“ حازم نے سختی سے کہہ کر دوبارہ سے ہتھوڑی اٹھا لی تھی جس کا صاف مطلب تھا کہ وہ حقیقتاً ماہروش سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ماہروش کچھ لمحے بے یقنیی سے وہاں کھڑی رہی تھی۔۔ مگر حازم کی جانب سے مکمل نظر اندازی سہہ کر وہ بوجھل دل لیے وہاں سے مڑ گئی تھی۔۔ اس کےجاتے ہی حازم نے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کی۔۔ انگلی کی تکلیف اتنی زیادہ نہیں تھی۔۔ مگر دل میں جو ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اس تکلیف  کا حساب نہیں تھا۔۔ وہ تکلیف بے حساب تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دونوں احتیاط سے بار بی کیو  کر رہے تھے جب السا ان کے بلکہ ضرار کے قریب بیٹھی تھی۔۔
”بھائی؟“  السا نے آکر مسکرا کر ضرار کو دیکھا۔۔ اسے یوں  یہاں موجود پا کر مسکراہٹ مہد ملک کےہونٹوں پر بھی رقص کرنے لگی تھی۔۔ ان دونوں کی نگاہیں ٹکرائیں ۔ دونوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھریں۔۔
”جی بھائی کی جان۔“ ضرار کے جواب پر وہ دونوں سنبھلے۔
”وہ بھائی۔۔“ السا نے کچھ کہنا چاہا مگر مہد کی موجودگی پر ہچکچائی۔
”بہانے بہانے سے اب ادھر چکڑ لگا رہی ہو نہ تم“ ضرار نے اسے چھیڑا۔ وہ لمحوں میں سرخ ہوئی۔
”بھائی آپ بھی نہ۔۔“ السا نے شرمیلی مسکراہٹ سے ضرار کے بازو پر ہلکا سا مکا رسید کیا۔
”اچھا   بتاؤ کیا چاہیے میری گڑیا کو؟“ ضرار نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
” بھائی۔۔ جیکٹ۔۔“ السا نے اپنے بازوؤں کو کور کرتے ہوئے کہا۔۔ اس علاقے میں اب سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
”اوہ۔۔“ ضرار نے سوچتے ہوئے اسے دیکھا۔
”سردی بڑھ رہی ہے۔۔“ السا نے گرد و نواح کو دیکھ کر سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے کہا۔
”امم جیکٹ اب؟“ ضرار نے پر سوچ نگاہوں سے دیکھا۔ السا نے پہنی بھی نیٹ کی میکسی تھی۔۔۔ باقیوں کی نسبت اسے سردی زیادہ لگ رہی تھی۔۔
”میں سائرہ سے پوچھتا ہوں۔“ مہد نے اٹھ کر کہا۔
”جاؤ“ ضرار نے مسکرا کر اسے مہد کے ساتھ بھیجا۔
”بھائی۔۔ پر۔۔“ السا نے کچھ کہنا چاہا۔ مہد وہیں کھڑا اس کا انتطار کر رہا تھا۔
”جاؤ ۔۔ کچھ نہیں کہے گا“ ضرار نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔ السا بھی مسکراتے ہوئے مہد کے ساتھ چل دی تھی۔۔ یہ محض اس لئے ممکن ہوا تھا کیونکہ ضرار نے اسے اتنا حوصلہ اور کانفیڈینس دیا ہوا تھا۔۔
ان دونوں کو ساتھ جاتے دیکھ کر ضرار جاوید نے دل سے ان دونوں کی دائمی خوشیوں کے لئے دعا کی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سائرہ جو کب سے السا کو ضرار کے ساتھ بیٹھی دیکھ کر جذبذب کا شکار تھی۔۔ اسے مہد کے ساتھ اپنی جانب آتے   دیکھ کر اس کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی۔اسے یوں لگا جیسے مہد اسے ڈانٹنے آیا ہو۔۔
”سائرہ  وہ۔۔“ مہد نے کچھ کہنے کے لئے لب واہ کیے ہی تھے کہ سائرہ اس کی بات کاٹتے جلدی سے بولی۔۔
”بھائی۔۔۔ پکا میں نے کچھ نہیں کیا۔۔ یہ خود سے ہی باتیں سوچ کر شکایتیں لگا رہی ہے۔“ سائرہ نے معصومیت سے ٹر ٹر بولنا شروع کیا۔ السا نے مسکراہٹ دبائی۔۔ مہد نے حیران ہو کر اپنی بہن کو دیکھا۔
”کیا نہیں کیا تم نے سائرہ؟“ مہد حیران ہوا۔
”جو بھی السا نے آپ کو بتایا ہے سب اس کی اپنی بنائی کہانی ہے۔۔ میں نے نہیں کیا کچھ پکا پرامس بھائی۔“ سائرہ نے معصومیت سے مہدکو دیکھتے ہوئے کہا۔۔ اس کے بچوں جیسے انداز پر مہد بھی ہنس پڑا۔
”پر اس نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔“ مہد ہنستے ہوئے بولا۔
”السا۔۔۔۔۔تم۔۔۔“ سائرہ نے منہ پھلا کر اسے دیکھا۔۔ پھر خود کو کمپوز کیا۔
”ویسے کیا بتانا تھا آپ نے  ان کے بارے میں؟“ مہد نے السا کو گہری نگاہوں کے حصار میں لیا۔
”بتا دوں سائرہ؟“ السا نے شرارت سے سائرہ کو دیکھا۔
”بھائی آپ  کیا کہنے آئے تھے؟“ معصوم سائرہ نے تھوڑی سی چالاکی دکھاتے ہوئے بات بدلی۔ السا سر جھکا کر اس کی حرکت پر مسکرائی۔۔
”وہ تم نے کوئی جیکٹ رکھی ہے گاڑی میں؟“ مہد نے یاد آنے پر پوچھا۔
”جی ہماری گاڑی میں دو جیکٹس ہیں ایک میری  ہے دوسری میں نے بھابھی کے لیے رکھی تھی“سائرہ نے اسے بتایا۔ اس کے بھابھی کہنے پر  مہد نے اسے دیکھا۔السا کا جھکا سر مزید جھکا۔ مہد نے ایک نظر اس کے جھکے سر کو دیکھا پھر مسکرا دیا۔
”اوکے کیز؟“ مہد نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلایا۔
”یہ لیں۔۔“سائرہ نے مسکرا کر اسے دیں اور السا کے جھکے سر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں یوں ساتھ کھڑے دیکھ کر تمز اپ کا اشارہ دیا۔
”چلیں۔“ مہد نے السا کو چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ اس کے ساتھ چل دی۔
”ایک منٹ“ السا مڑی اور سائرہ کے کان میں کچھ کہہ کر پھر مہد کے ساتھ ہو لی۔۔ سائرہ بسسس بے بسی سے اپنی شرارتی بھابھی کودیکھ رہی تھی۔۔ مگر جو بھی تھا اسے السا کے اس شرارتی انداز سے بھی  مسئلہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس کے بھائی کی محبت تھی۔۔ اور اس کی اپنی محبت کی عزیزِ جان ہستی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے ہمت کر کے اس کے پاس جانے کے لئے قدم بڑھائے۔ اپنے پیچھے کسی کا سایہ محسوس کر کے ضرار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔ اپنے پیچھے بے چین سی کھڑی سائرہ کو دیکھ کر پہلے وہ حیران ہوا اور پھر مسکرایا۔۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔ جہاں کچھ دیرپہلے مہد بیٹھا ہوا تھا۔
”خیریت ہے؟“ اس کی بے قراری محسوس کر کے ضرار مسکرا کر پوچھ رہا تھا۔
”وہ۔۔۔ میں۔۔“ سائرہ نے کچھ کہنے کے لئے لب واہ کیے۔
”جی کہیں؟“ ضرار نے اس کی جانب اپنی تمام تر توجہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”السا نے آپ کو میری کوئی شکایت تو نہیں لگائی؟“ سائرہ نے ڈرتے ڈرتے پہلی بار ضرار سے ایسے پوچھا تھا۔
”کیسی شکایت؟“ ضرار حیران ہوا۔
”کچھ کہا تو نہیں اس نے میرے بارے میں آپ سے؟“ سائرہ نے اس کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں تو۔۔“  ضرار نے نفی میں سر ہلایا۔ السا مہد کے ساتھ جاتے ہوئے سائرہ کے کان میں بھی یہی کہہ کر گئی تھی کہ میں بھائی کو بتا کر آئی ہوں مگر یہاں تو سارا معاملہ الٹا تھا۔۔ السا اسے بری طرح پھنسا کر گئی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی سائرہ اپنی بات کلئیر کرنے ضرور جائےگی اور وہی ہوا تھا۔۔
”چلیں ٹھیک ہے۔۔“ وہ فوراً اٹھ کر جانے لگی تھی جب ضرار نے اسے اس کے ارادوں میں کامیاب ہونے سے روکا۔
”رکیں“ ضرار نے کہا۔وہ وہیں رک گئی تھی۔۔
”بیٹھیں۔“ وہ فوراً  جیسے اٹھی تھی ویسے بیٹھ گئی۔
”کیا کہنے والی تھی السا مجھ سے آپ کے بارے میں؟“ ضرار نے اسکے معصوم چہرے کو نظروں میں لیا۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر وہ یونہی بس  ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہیں۔۔ پہلے تو اس کے پاس سائرہ سے باتیں کرنے کا اچھا بہانہ تھا۔ مگر اب تھوڑا فاصلہ آگیا تھا پہلے کی طرح۔۔
”وہ ۔۔۔“ سائرہ کو سمجھ نہ آیا کیسے بات سنبھالے۔
”ہاں؟ “ ضرار نے اسے دیکھا۔
”وہ میری شکائت لگانے والی تھی۔۔“ سائرہ نے نظریں نیچی کیے کہہ ڈالا۔
”کیسی شکایت؟“ ضرار اب مزید غور سے اسے دیکھنے لگا۔
”میں نہیں جانتی۔۔“ جھوٹ بولنے کی وجہ سے اس کا چہرہ مزید جھکا۔
”جانتی تو آپ سب کچھ ہیں۔“  ضرار نے مسکرا کر ذو معنی بات کہی۔
”نہیں تو،“وہ فوراً اسے دیکھتے بولی۔
”اچھا بتائیں پھر۔۔ کیا شکایت تھی اس کی؟“ضرار ے مسکراکر پوچھا۔
”وہ اس نے  آپ کو بتانا تھا کہ۔۔“ سائرہ  کیسے بتا پاتی۔۔
”کیا؟؟؟“ ضرار مزید آگے کو ہو کر اس کے قریب بیٹھا۔
”کہ میں نے آپ کو ظالم کہا تھا۔“ اس نے کہہ کر جتنا سر جھکایا جا سکتا تھا اتنا جھکا یا۔ ضرار اس کی اس ادا پر بری طرح گھائل ہوا۔۔۔
”ہائےےے۔۔ میں اور ظالم؟ ضرار نے مسکرا کر پوچھا۔
”نہیں تو۔۔“ اس نے بات ٹالنی چاہی۔
”ایسے کونسے ظلم کیے میں نے آپ پر؟“ ضرار مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”کو۔۔کوئی نہیں۔۔ “سائرہ  ہچکچائی۔السا کہاں پھنسا گئی ہو مجھے تم۔۔۔ وہ سوچ کر رہ گئی۔
”کرنے ضرور والا ہوں۔۔“ وہ اس کے سرخی مائل گالوں کو تکتا معنی خیزی سےبولا۔
”جی۔۔۔؟“ سائرہ  نا سمجھی سے بولی۔
”مطلب بغیر کسی ظلم و ستم کے الزام لگا رہی ہیں۔۔ اب کرنا تو بنتا ہے۔“ ضرار نے مسکرا کر اس کے نروس پن سے محظوظ ہوتے کہا۔
”نہیں۔۔ ایسا نہیں کریں“ اس نے التجا کرتے کہا۔
”اب تو بچ کے دکھائیں آپ۔“  اس نے مزید اسے الجھایا۔
”میں بچ جاؤں گی۔“ سائرہ نے ہمت کر کے اس سے نظریں ملائیں۔
”محبت کے ستم سے کیسے بچیں گیں؟“ ضرار کی بات پر وہ ششدرہ  گئی۔ وہ یک ٹک دیکھے گئی اسے۔
”مم۔۔محبت؟“ سائرہ نے ہلکی آواز میں دہرایا۔
”جی ہاں۔“ ضرار مزید مسکراہٹ  لیے بولا۔
” میں دیکھوں۔۔ السا  کو جیکٹ ملی کہ نہیں۔“ اس نے وہاں سے بھاگنے میں عافیت جانی۔۔ ضرار اس کی حرکت پر کھل کر ہنسا۔۔ بہت جلد وہ اپنی برسوں کی محبت کو محرم کی صورت پانے والا تھا اور اسے اس بات پر پکا یقین تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ تب سے لے کر اب تک اسے محویت سے تکتا ہی جا رہا تھا۔ السا اس کی نگاہوں سے بری طرح کنفیوز ہو چکی تھی۔۔
”آپ ایسا کریں مجھے سامنے بٹھا کر پہلے جی بھر کے دیکھ لیں۔“ السا  نے سرخ ہوتے چہرے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرے دل  کی بات کہہ دی تم نے“مہد ہنستے ہوئے بولا۔
”ڈھٹائی کی بھی حد ہوتی ہے۔۔“السا منہ پھلاتے بولی۔
”میری جان محبت میں بہت کچھ بننا پڑتا  ہے، ڈھیٹ بننا بھی سہی“ مہد نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما۔
”میرا خیال ہے ہم جس کام کے لئے یہاں آئے ہیں وہ کر لیں۔“ السا نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”میں جس کام کے لئے یہاں آیا ہوں وہ کر لوں؟“ مہد نے ذو معنی نگاہوں کے حصار میں اس کے وجود کو لیتے ہوئے گہری بات کہی۔
”کس کام  کے لئے؟“ السا سہمی۔
”پاس آؤ۔“ مہد نے  اسے مسلسل دیکھتے کہا۔
”پاس ہی تو ہوں۔“ اس نے سہمے انداز میں جواب دیا۔
”تھوڑا اور پاس۔“ مہد نے اسے گھمبیر لہجے میں کہا۔
”نہیں۔۔“ وہ منمناتے ہوئے بولی۔
”ٹھیک ہے۔“ مہد سنجیدہ ہوا۔
”ہمم۔۔“ السا نے اس کی خفگی محسوس کی۔
”ویسے نہ سہی ایسے سہی۔“ مہد نے اسے خود اپنی جانب کھینچا۔ اس وہ دونوں قریب کھڑے تھے۔ السا کی پشت مہد سے کچھ ہی انچوں کے فاصلے پر تھی۔۔
”تمہارا پروپزل گفٹ رہ گیا تھا۔“ مہد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیا؟“ وہ حیران ہوئی۔۔
”یہ رہا۔۔“اس نے  اپنی صراحی دار گردن میں کسی ٹھنڈی شے  کو محسوس کیا۔ ذرا سا چہرے جھکا کر دیکھا تو وہ اک لاکٹ تھا۔۔ نازک سا سونے کا لاکٹ۔۔جو مہد نے خود اسے پہنا کر پھر اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔
”یہ۔۔“ وہ کچھ بول نہ پائی۔
”یہ تمہار ا گفٹ ہے“ مہد نے اسے ویسے ہی تھامے کہا۔
”کیسا گفٹ؟“السا حیران ہوئی۔
”میری زندگی میں شامل ہونےکا۔“ مہد مسکرایا۔ السا نے سر جھکایا۔
”یہ رہی جیکٹ۔“ مہد نے اسے جیکٹ پہناتے ہوئے کہا۔
”میں خود۔۔ پہن۔۔“ اس کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے۔
”میں ہوں نہ“ مہد ن اسے مسکرا کر دیکھا۔اور جیکٹ پہنائی۔
”آپ آج بدلے بدلے ہیں۔“السا نے سر جھکائے بولا۔
”آپ کی قربت کا اثر ہے۔“ مہد بھی اسی کے انداز میں بولا۔
”میں قریب کب آئی؟“السا حیران تھی۔
”جب دور ہوئی تھی مجھ سے۔“ مہد سچ بولتا اسے بہت خوبرو لگا۔
وہ کچھ بول نہ پائی۔۔
”کچھ کہو؟“ مہد  اسے دیکھتا بولا۔
”میں کہوں؟“ وہ دونوں حیران ہوئے۔ یہ آواز سائرہ کی تھی جو شرارت سے انہیں دیکھ کر  کہہ رہی تھی۔
”تم آجایا کرو۔۔۔ ایک تو درمیان میں۔۔“ مہد سر پیٹتا ہوا بولا۔
”میں درمیان میں نہ آتی بھائی تو سب ٹھیک کیسے ہوتا“ سائرہ ناراض ہو کر بولی۔
”اوہ ہاں میری پیاری بہن۔“مہد فوراً اچھا بھائی بنا۔
”رہنے دیں اب آپ۔“ وہ خفا سی جانے لگی۔
”کیوں رہنے دوں۔۔ تم تو میری جان ہو۔“ اس نے سائرہ کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے اپنے ساتھ لگایا۔
”اور یہ بدتمیز لڑکی۔“ سائرہ نے السا کو  منہ چڑاتے ہوئے کہا۔
”یہ بدتمیز لڑکی تمہاری بھابھی ہے۔“ مہد ہنستے ہوئے بولا۔ السا نے ان دونوں کو گھورا۔
” میں  بدتمیز ہوں۔۔؟“السا نے ناراضی سے ان دونوں کو دیکھا۔
”نہیں۔۔“ مہد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”پھر؟“ السا اب بھی ناراض دکھائی دے رہی تھی۔
”تم تو۔۔ سائرہ کی اکلوتی بھابھی ہو۔“ مہد نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔السا شرما گئی۔
سائرہ اور مہد دونوں اسے یوں دیکھ کر مسکرائے۔
”بھائی۔۔ حازم بھائی مجھے جان سے مار دیں گیں۔“ سائرہ اس سے الگ ہوتے بولی۔
”کیوں بھئی؟“ مہد حیران ہوا۔
”اکلوتی بھابھی مت کہیں۔۔ نہیں تو انہوں نے میرا قتل  کر دینا۔۔۔ اور نجانےکتنا کچھ کہنا“سائرہ ہنستے ہوئے بولی۔
”ہاں سچ۔۔“مہد بھی ہنستے ہوئے بولا۔
”چلو اسے دیکھ لیں پتہ نہیں اس گدھے نے اب تک ٹینٹ لگائے ہیں یا نہیں۔“مہد ہنستے ہوئے بولا تھا۔ اور ان دونوں لڑکیوں کا ہاتھ تھامے  اس جانب چل دیا تھاجہاں ضرار، حازم اور ماہروش موجود تھے۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے ایک نگاہ اپنے بلکل سامنے بیٹھی ماہروش عزیز پر ڈالی تھی۔۔ جو  اس کی بے رخی سے اب تک خاموش تھی۔۔ بس اک چپ تھی جو وہ سادھے ہوئے تھی۔۔وہ دونوں اس وقت ٹینٹ کے درمیان میں کیے گئے بانفائر کے گرد  پتھروں پر بیٹھے تھے۔۔ بیٹھے تو آمنے سامنے تھے مگر ۔۔۔ حقیقت میں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی وہ اتنا دور تھے۔۔۔
بہت خاموش لہجے میں
میں اس کو چھوڑ آیا ہوں
اسے احساس اب ہوگا
اسے مجھ سے محبت تھی
وہ مجھ کو بھول بھی جائے
محبت یاد رکھے گی
عقیدت یاد رکھےگی
مجھے آگے نکلنا ہے
کبھی واپس نہیں جانا
سو اس کو چھوڑ آیا ہوں
کہ اس کو چھوڑ دینا ہی
بس میری محبت تھی۔۔۔
اس کا دل چاہا وہ پہلے کی طرح ماہروش سے جی بھر کے باتیں کرے۔۔۔ اس کی کھٹی میٹھی باتیں سنے۔۔ وہ اپنے دل کی تمام باتیں اس سے شئیر کرے اور وہ ٹھوڑی تلے ہاتھ جمائے محویت سے اسے تکتا ہوا اس  کی ساری باتیں بغیر بور ہوئے سنتا چلا جائے۔۔ مگر وہ ہمیشہ ٹر ٹر کرنے والی لڑکی گہری خاموشی سادھے بیٹھی تھی۔۔ چہرے  پر کوئی رونق نہیں تھی۔۔ اس نے اپنی ہی ایک دنیا بنائی ہوئی تھی۔۔ اکیلے تن تنہا۔۔ اپنی ہی کسی سوچ میں غرق وہ گرد و نواح سے مکمل طور پر لا تعلق تھی۔۔
”کاش میں تمہیں بتا سکوں میں تمہیں کس قدر چاہتا ہوں سوکھی سڑی بھنڈی۔۔“ حازم دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔۔
”کاش تم جان سکو کڑوے کڑیلے تم میرے دل میں بستے ہو۔۔“ ماہروش جو بظاہر طور پر اس سے بلکل لا تعلق تھی اس کے سوچوں کی دنیا میں راج بھی اسی دشمنِ جان کا تھا۔۔۔
”تم سے بڑھ کر میرے لئے کوئی امپارٹنٹ نہیں ہے۔۔ مگر جب تک میرے دل کو مہد اور ضرار کے حوالے سے تسلی نہ ہو جائے میں اپنی محبت کوپایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا ماہروش۔۔“ حازم نے کہنا چاہا۔۔ مگر وہ دم سادھے بس اس لڑکی کو تکتا جا رہا تھا جو خاموش بیٹھی اسے  بری طرح بے قرار کر رہی تھی۔۔۔۔ کچھ اس کے  دلکش نقوش والے خوبصورت چہرے پر بانفائر کی سنہری روشنی اس قدر نور بخش رہی تھی کہ حازم کا دل چاہ رہا تھا عقیدت سے چہرہِ یار اک بار تو ضرور چوم لے۔۔۔ مگرررر شاید اس کی یہ خواہش حسرت بن چکی تھی۔۔۔
اس نے بانفائر میں لکڑیاں ایڈ  کرتے ہوئے بھی مسلسل اس لڑکی کو ہی نگاہوں کے حصار میں رکھا تھا۔ اچانک اس کے لبوں سے ہلکی سی  کراہ نکلی۔۔ اس کی زخمی انگلی کو انگاڑوں نے چھوا تھا اور وہ بے خبر تھا۔۔ اس کی کراہ پر ماہروش نے بھی دل تھام کر اسے دیکھا تھا۔
اس نے ہاتھ کو ایک دو بار جھٹکا دیا درد کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا تھا۔۔ ماہروش اٹھی تھی۔۔۔ اور اس  کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔۔۔ اس کے دل میں ٹیس اٹھی تھی۔۔۔ کاش سب ٹھیک ہو جائے۔۔ کاش میں تمہیں اپنالوں۔۔ کاش۔۔ مگر میں کیا کروں  روشی۔۔ مجھے مہد کے کھڑ دماغ کا پتہ ہے۔۔ جب تک وہ مظبوط رشتے میں نہیں بندھ جاتا میں  شادی نہیں کر سکتا۔۔ کاش کہ تم مجھے سمجھو۔۔۔ اس کے دل میں جو تکلیف تھی وہ اس انگلی کی تکلیف سے کہیں زیادہ تھی۔۔۔ اسے کچھ پل کے بعد اپنے بلکل ساتھ اک وجود محسوس ہوا تھا۔۔ وہ خوشبو سے ہی پہچان گیا تھا۔۔ اس کی جان اس کے اندر نہیں اس کے ساتھ موجود تھی۔۔
”لاؤ ہاتھ ادھر کرو۔“ وہ بلکل سنجیدگی سے بولی۔ حازم سمجھ نہ پایا۔
”میں جانتی ہوں ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔۔ محض انسانیت کے ناطے کر رہی ہوں۔“ اس کی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر ماہروش گویا ہوئی۔۔ اس کےالفاظ سے حازم  بری طرح ہرٹ ہوا۔
”ایسا نہیں ہے ماہروش۔“ حازم نے کچھ کہنا چاہا۔
”ہاتھ دکھاؤ۔ تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گی“ ماہروش نے اسے جتاتے ہوئے کہا۔۔ اس کے دل کی حالت بہت بری تھی۔۔۔۔ وہ اندر سے بری طرح زخمی تھی۔۔ بلکہ شاید وہ دونوں ہی تھے۔۔ انہیں  مسیحائی کی ضرورت تھی۔۔ اس مسیحا کی جو ہمیشہ سے مرحم رکھتا آیا تھا۔۔ ماہروش کے لئے حازم اور حازم کے لئے ماہروش۔۔ مگر۔۔۔ وقت نے اک حسین ستم کیا تھا۔۔ وہ مسیحائی کرنے والے اک دوسرے کو ستم دینے پر تلے تھے۔۔۔
حازم نے خاموشی سے ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تھا۔ ماہروش جو گاڑی سے ایمرجنسی منی فرسٹ ایڈ کٹ لائی تھی۔۔ اس میں سے  ڈیٹول نکال کر اس کا زخم صاف کرنے لگی۔۔
”آہ۔۔“ حازم کے منہ سے پھر ہلکی سی کراہ نکلی۔۔
”درد برداشت کرنا سیکھو۔“ ماہروش نے اس سے نگاہیں ملائے گہری سنجیدگی سے کہا۔
”درد برداشت سے باہر ہو تو؟“ حازم نے اس کی نگاہوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا۔
”تو  بھی برداشت کرنا سیکھنا چاہیے۔“ ماہروش نے اس کا زخم اب صاف کر لیا تھا۔۔
”نہ کرنا آتا ہو تو۔۔“ حازم نے اب نگاہیں سامنے کے منظر پر ٹکا دی تھیں۔
”دینا آتا ہے سہنا نہیں آتا؟“ ماہروش کی بات  پر وہ ساکت ہوا۔
”میں نے کسی کو درد نہیں دیا۔“ حازم نے جھوٹ بولا۔
”جھوٹ بولنے بھی لگ گئے“ ماہروش تلخی سے مسکرائی۔
”میں نے نہ تم سے جھوٹ بولا اور نہ کبھی تمہیں جھوٹی امیدیں دلائیں۔“ حازم اپنا دامن بچاتےبولا۔
”امیدیں جھوٹی ہو سکتیں حازم پر احساس؟“ ماہروش نے اس کی پٹی کر کے فرسٹ ایڈ باکس بندکر دیا تھا۔
”کیسا احساس؟“ حازم نے اسے دیکھا۔
”محبت کا احساس۔“ ماہروش نے براہِ راست اسے دیکھا۔
”میں نے کبھی تم سے محبت نہیں کی“ حازم  کے کڑوے الفاظ پر ماہرو ش کا سانس رکا۔
”کیا تم نے واقعی ساری زندگی میں اک پل، اک لمحے کے لئے بھی مجھ سے محبت نہیں کی حازم؟“ ماہروش کے سوال پر اس نے کر ب سے آنکھیں میچی تھیں۔
”نہیں۔۔“ وہ اک لفظی جواب دیتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
”پر میں نے تمہارے ساتھ، تمہاری باتوں میں، تمہارے لہجے میں، لمحہ لمحہ اپنے لئے  محبت اور چاہت محسوس کی ہے حازم۔۔“ اس کی کانچ سی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔۔
”تمہیں غلطفہمی ہوئی ہے۔“ حازم نے بغیر مڑے  سفاکیت سے کہا۔
”یہ غلطفہمی نہیں ہو سکتی حازم۔۔“ ماہروش بھی اس کے پیچھے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
”کیوں نہیں ہو سکتی؟“ حازم نے اس کی جانب پشت کیے جواب دیا۔
”کیونکہ یہ احساس میں نے بچپن سے محسوس کیا ہے۔۔ میری زندگی کے اتنے برس محض اک غلطفہمی میں نہیں گزر سکتے حازم۔۔“ ماہروش کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے۔۔
”افسوس مگر حقیقت یہی ہے۔“ حازم نے وہاں سے جانا چاہا مگر ماہروش کی اگلی بات نے اس کے قدم روک لیے۔
”سنو۔۔ تم نہیں کرتے مجھ سے محبت ٹھیک ہے حازم۔۔“ وہ آنسو صاف کرتی اس کے سامنے کھڑی ہوئی۔۔
حازم نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سےنظریں ملائیں جو اسے اس وقت دنیا کا سب سے مشکل طرین کام لگ رہا تھا۔
”میں کرتی ہوں!“ ماہروش کی بات پر وہ ششدرہ گیا۔
”کیا؟“ حازم  حیران پریشان بولا۔
”میں تم سے محبت کرتی ہوں۔“ ماہروش نے اقرار کیا۔وہ ساکت ہوا۔ وہیں تھم گیا۔ وہ لڑکی کتنی بے باکی سے اپنی محبت کا اقرار کر رہی تھی۔۔ مگر حازم جانتا تھاکہ بے باکی نہیں ماہروش کی بے بسی تھی۔۔
”اس سلسلے میں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔“ حازم نے سنبھلتے ہوئے لمبا سانس خارج کرتے ہوئے اس سے نظریں چڑائیں۔
”مگر میں کرتی ہوں۔۔ تم سے محبت کرتی ہوں، دل و جان سے کرتی ہوں، تمہی سی کرتی ہوں، بچپن سے کرتی ہوں“ ماہروش نے بلک بلک کر روتے ہوئے کہا۔۔ اسے سمجھ نہ آیا کس طرح  کے ردِ عمل کا مظاہرہ کرے۔ وہ بس ساکت سا اسے دیکھتا گیا۔
”میں۔۔ میں تمہاری کوئی بات نہیں سننا چاہتا، پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو“ حازم اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے بولا۔
”ایسے مت کہو حازم۔“ماہروش روتے ہوئے اس کے قریب ہوئی۔
”ماہروش   پلیز۔“ حازم سمجھ نہیں پا رہا تھا اس بکھرتی ہوئی لڑکی کو کیسے سنبھالتا جسے توڑنے والا بھی وہ خود تھا۔
”تم میرے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہے۔“ ماہروش روتے ہوئے بولی۔ اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
”ماہروش اس وقت یہاں سے چلی جاؤ“ اسے کچھ اور سمجھ نہ آیا تھا۔
”مجھے مت چھوڑو۔۔ مجھے نہیں رہنا آتا تمہارے بغیر۔“ ماہروش چیخی۔۔ وہ اس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی۔اس کی آواز پر سب سے پہلے ضرار ان کے قریب آیا۔ اور پھر لمحوں میں سائرہ، مہد اور السا بھی۔۔ انہیں غیر معمولی حالت میں دیکھ کر وہ سب شاکڈ تھے۔
”ماہروش تماشہ مت لگاؤ۔“ حازم آہستہ بولو۔
”تم میری زندگی برباد کر رہے اور میں  تماشہ بھی نہ لگاؤں؟“ اسے یوں بولتے دیکھ کر سائرہ نے اسے تھاما۔ وہ کافی حد تک معاملہ سمجھ چکی تھی۔۔
”میں نے تمہاری زندگی برباد نہیں کی۔“ حازم سختی سے بولا۔ اس کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ مہد اور ضرار بھی پریشان ہو گئے تھے۔
”حازم۔۔ پلیز اک بار پھر سوچ لو۔۔“ ماہروش روتے ہوئے پھر بے بسی سے نرم پڑی۔ سائرہ اسے سنبھالے ہوئی تھی۔
”مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی فلحال۔“ حازم نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھا۔
”حازم کیابکواس کر رہا ہے؟ کیا مسلہ ہے؟“ مہد درمیان میں بولا۔
”تم سب درمیان میں مت پڑو۔“ حازم سفاکیت سے بولا۔
”کیوں نہ پڑیں؟ تو کیوں ایسے  کر رہا ہے اس معصوم کے ساتھ؟ ضرار ماہروش کو دیکھتے بولا۔
”میرے معاملے میں دخل اندازی کرنا مجھے قطعاً نہیں پسند۔“اس نے ان سبھی کو دیکھتے وارن کرتے لہجے میں کہہ کر قدم آگے بڑھائے تھے۔ اس کی رفتار سست تھی۔۔ شکستہ قدموں کی رفتار سست ہی ہوا کرتی ہے۔۔ اس کا دل بہت بوجھل ہو رہا تھا۔
”ایک آخری بات سنتے جاؤ“ ماہروش نے خود کو سائرہ کی بانہوں سے آزاد کراتے ہوئے کہا۔
”حازم نے مڑ کر اسے دیکھا۔ وہ سبھی اب ماہروش کو دیکھ رہے تھے۔ جس نے ایک تلخ مسکراہٹ سے اپنے آنسو بے دردی سے صاف کیے تھے۔۔۔
”میرے ، یعنی ماہروش عزیز کے لئے حازم علی آج سے تم مر گئے“ ماہروش نے اتنے سخت الفاظ بولے تھے۔ وہ مرد پورا کا پورا ان کی گہرائی محسوس کر کے کانپا تھا۔ وہ جانتا تھا ماہروش کو۔۔ وہ بہت ضدی لڑکی تھی۔۔ اس نے شاید آج اس کی محبت سے انکار کر کے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔۔۔
سب اسکے  انداز و لہجے پر ساکت تھے۔۔۔
”ماہروش اتنے سخت بول مت بولو میری جان۔“ سائرہ کی آنکھوں سے بھی آنسو گرا۔
”آئیندہ کے بعد میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں حازم“ماہروش سائرہ کی بات ان سنی کرتے ہوئے بولی۔ اور دیکھتے دیکھتے سب کو وہاں کھڑا چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔۔ وہ سب بس جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے رہ گئے تھے۔۔ ان سب کی زندگیاں جانے کتنے دنوں بعد نارمل ہونا شروع ہوئیں ہی تھیں کہ دوبارہ سے اک آزمائش نے ان کے در پر دستک دے دی تھی۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”یہ تونے کیا کیا ہے حازم؟“  ہوش میں آتے ہی مہد نے حازم کو دونوں بازوؤں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تھا۔
”م۔۔معلوم نہیں۔۔“ وہ گومگوں کی کیفیت میں بولا۔ مہد اس کی حالت دیکھ کر سہما۔ حازم کی آنکھیں پوری لال تھیں۔۔ وہ شاید رو دینے کے قریب تھا۔۔ ماہروش کے کڑوے الفاظ کا زہر اس کے وجود کو بری طرح چھلنی کر چکا تھا۔۔
”تو ٹھیک ہے؟“ مہد نے اس کی فکر کرتے ہوئے کہا۔۔ باقی سب کو بھی تشویش ہوئی۔
”مم۔۔معلوم نہیں“ وہ پھر اسی کیفیت میں بولا۔
”حازم ؟“ ضرار نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے اس کا نام پکارا۔
”وہ۔۔ وہ مجھے چھوڑ گئی ہے ضرار“ اس نے   بے یقینی سے ضرار کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں چھوڑ کر گئی۔“ ضرار نے اس کی نازک حالت دیکھتے ہوئے  اسے سنبھالنا چاہا۔
”وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی  ضرار۔“ وہ ہزیانی کیفیت میں جہاں کھڑا تھا وہاں گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا تھا۔ السا اور سائرہ اس کی حالت پر آنسو بہاتی اک دوسرے کے ساتھ جڑی تھیں۔ ضرار اور مہد نے افسوس سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”حازم اٹھ۔۔ نہیں گئی۔“ مہد نے اسے سنبھالتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھانا چاہا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
”وہ میری زندگی ہے۔۔ زندگی اگر نہ رہے تو انسان مر جاتا ہے“ وہ چیخا۔۔ وہ رویا۔۔۔ ٹھیک ویسے جیسے کچھ دیر پہلے وہ ماہروش کو رلا رہا تھا۔۔
وہ چاروں اس کی حالت پر سہم گئے۔
”حازم میری جان۔۔۔ ایسے مت کہہ۔۔۔ کہیں نہیں گئی ماہروش۔۔“ ضرار نے اس کے پاس نیچے بیٹھتے اسے حوصلہ دینا چاہا۔
”میں مر جاؤں گا ضرار اس کے بغیر۔۔۔میں جی نہیں سکتا۔۔۔۔۔“ حازم اونچی اونچی بلک کر رویا۔۔۔ وہ مرد جو دوسروں کو ہنسانے کا  فن رکھتا تھاآج ماہروش کے جانے پر رو رہا تھا۔۔اس لڑکی کو  توڑ کر  اس کی اپنی اپنی ذات بھی بکھر گئی تھی۔۔
”حاز م بھائی۔۔۔ اتنی محبت کرتے ہیں تو کہا کیوں نہیں اس سے؟“ سائرہ آگے آ کر اس سے پوچھ رہی تھی۔۔
”میں نہیں جانتا۔۔۔ میں نے یہ سب کیوں کیا۔۔“ حازم پچھتاتے ہوئے بولا۔۔
”مگر میں جانتی ہوں۔۔“ السا نے آگے  بڑھ کر کہا۔
”آپ چاہتے تھے پہلے مہد بھائی کی زندگی سیٹ ہو جائے۔ ضرار اور مہد بھائی کے درمیان سب ٹھیک ہو جائے یہی نہ؟“ سائرہ نے روتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔۔
”ہاں“ حازم آہستہ سے بول کر سر جھکا گیا۔۔ مہد ساکت کھڑا تھا۔۔ ضرار بھی بس خاموش ہو چکا تھا۔۔اس کی اتنی شدید محبت پر۔۔۔
”میں چاہتا تھا  میرے دونوں جگر پہلے کی طرح ہو جائیں۔۔“ حازم تھوڑا سنبھل کر آہستگی سے بولا۔
”ہم ٹھیک ہو تو گئے ہیں۔۔ بلکل پہلے جیسے  حازم۔۔“ مہد سر پیٹتے ہوئےبولا۔ اسے شدید افسوس ہو رہا تھا۔۔ کہ ان کے درمیان سب ٹھیک ہو چکا تھا پھر بھی حازم نے اتنی بڑی حماقت کیوں کی تھی۔۔
”مجھے تجھ پہ بھروسہ نہیں۔“وہ نظریں چڑائے بولا۔
”کیا کہا تونے؟“ مہد  نے اسے گھورا۔
”جب تک تو اور السا شادی نہیں کر لیتے میں مطمعین نہیں ہو سکتا“ وہ سر جھکائے بولا۔
”ہم تو کر لیں گیں مگر تو۔۔۔ تونے اپنے ساتھ کیا کیا؟“ مہد نے اسے بری طرح جھڑکا۔
”میری خیر ہے“ وہ اٹھا۔ ان سب کی جانب اب اس کی پشت تھی۔
”ہم سب جانتے ہیں تو ماہروش سے محبت کرتا ہے، بچپن سے کرتا ہے، بہت شدید کرتا ہے! “ ضرار کی بات پر اس نے  کرب  سے آنکھیں میچتے سہا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے وہ جا چکی ہے۔“ وہ سرد آہ بھرتے بولا۔
”وہ کہیں نہیں گئی حازم بھائی۔۔ آپ اس سے اعتراف کریں کہ آپ اس سے محبت کرتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ سائرہ نے امید سے حازم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”سنا نہیں تم سب نے؟ میں اس کے لئے اب مر چکا ہوں“ حازم نے کرب سے اس کے الفاظ دہرائے۔
”بس اک اظہار ِ محبت سے سب ٹھیک ہو سکتا ہے حازم بھائی۔۔ پلیز۔۔ اپنی اور اس کی زندگی برباد مت کریں۔۔“ سائرہ نے آگے بڑھ کر اس کی منت کرتے ہوئے کہا تھا۔
”اگر میں کر بھی دوں۔۔ صرف تمہاری خاطر تو بھی وہ میرا یقین نہیں کرےگی اب۔“ حازم نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”کوشش کرنے میں کیا ہے یار؟“ ضرار نے اسے دیکھا۔
”میں اسے جانتا ہوں ضرار!“ حازم نے تلخ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی تھی۔۔
”تم دونوں تو ہمارے گینگ کی جان ہو یار۔۔۔ تم ایسے کرو گے تو کیا خاک زندگی میں رونق رہے گی؟“ مہد نے دکھ سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”فکر نہیں کرو۔۔ سب پہلے جیسے رہےگا۔ ابھی تو تیری شادی میں بھنگڑے بھی ڈالنے ہیں ہم نے۔“ حازم نے بہت جلدی خود کو سنبھال لیا تھا۔۔ وہ زیادہ دیر اپنے اندر کے حالات باہر والوں تک ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا۔۔ اس کی بات پر سب نم آنکھوں سے مسکرائے۔
”تجھے یقین ہے؟“ ضرار نے پوچھا۔
”ہاں میرا اور اس کا تعلق  ختم ہوا ہے۔۔ ہم دونوں کا تم سب سے تو کچھ نہیں بگڑا۔“ اس نے بڑی ہمت سے الفاظ ادا کیے تھے۔۔
”پر میں خوش نہیں ہوں اس سب سے۔“ سائرہ روتے ہوئے بولی تھی۔ حازم نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔
”تمہارا بھائی راضی ہے اپنے خدا کی رضا میں۔۔ اگر وہ میری قسمت میں ہے تو اسے کوئی مجھ سے جدا نہیں کر سکتا“ اس نے مسکرا کر سائرہ کو اپنے ساتھ لگاتے کہا۔ سائرہ مسکرائی۔
”آپ میری خاطر ایک کوشش کریں گیں حازم بھائی؟“ سائرہ نے امید سے اسے دیکھا۔
”اوکے میری جان“ اس نے سائرہ کو اپنے ساتھ لگائے کہا تھا۔ وہ کھل کر مسکرائی۔ انہیں ایسے دیکھ  کر سب مسکرائے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے حازم ماہروش کو دوبارہ سے فیس کرنے کے لئے ہمت جمع کرنے لگا تھا۔۔۔۔ اس نے دل مظبوط کر لیا تھا۔۔ا ب وہ اپنے دل کے حالات ان میں سے کسی پر بھی ظاہر نہیں ہونے دینے والا تھا۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے گھر داخل ہوتے ساتھ۔۔اپنے بے ساختہ نکلتے ہوئے آنسوؤں کو روک نہ پائی تھی۔۔ راہداری سے لاؤنج میں داخل ہوئی۔۔صوفے پر اس نے اپناپرس طیش میں آ کر پھینکا۔۔ اپنے ہاتھوں سے گھڑی اور بریسلیٹ اتار کر اتنی قوت سے پھینکے کے وہ دور جا گرے۔۔۔اس کا دماغ اس وقت کام نہیں کر پا رہا تھا۔۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔کیسے خود پر  قابو پاتی۔۔ بچپن کی محبت سے لمحے میں دستبردار ہو کر آئی تھی۔ اس نے اپنے بالوں  کو جوڑے کی صورت باندھا تھا۔ بالوں سے کیچڑ اتار کر اس نے پوری قوت سے زمین پر پھینکا تھا۔۔ وہ  اتفاقاً عزیز کے پیروں کے پاس گرا تھا۔ وہ لاؤنج میں شور کی آوازیں سن کر پریشانی سے وہاں آئے تھے۔
”بیٹے؟؟ سب ٹھیک ہے؟“ عزیز پریشانی سے اس تک آئے
اس نے اک نظر انہیں دیکھا۔۔آنسو بے دردی سے صاف کیے۔
”ماہروش۔۔ میری جان؟“ عزیز نے شفیق لہجے میں اپنی بیٹی کو پکارا۔ اس کا حلیہ بہت خراب تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔۔ چہرے کا  رو رو کر برا حال تھا۔۔ عزیز کا دل بند ہونے لگا اپنی لاڈلی بیٹی کو یوں دیکھ  کر۔۔
”ماہروش؟“ عزیز نے اک بار پھر محبت سے اس کا نام پکارا۔ وہ فوراً بھاگ کر ان کے سینے سے لگی۔۔ اک طویل وقت گزر گیا تھا۔۔ وہ ایسے ہی ان کے سینے سے لگی بے تحاشہ رو رہی تھی۔۔
”بتاؤ تو میری جان کیا ہوا ہے؟ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔“ عزیز نے پریشانی سے اسے سنبھالتے ہوئے کہا۔
”بابا۔۔ آپ محسن کے رشتے کو ہاں کہہ دیں۔“ ماہروش نے ان کے سینے سے الگ ہو کر کہا۔
”کیا؟؟“ وہ شاکڈ رہ گئے۔۔
”حازم؟؟“ وہ بس نام ہی لے پائے۔
”کون حازم؟“ ماہروش نے انجان بن کر پوچھا۔ وہ بھی اس کے باپ تھے۔۔ ساری بات سمجھ چکے تھے۔۔
”اس نے تمہیں انکار کر دیا ہے؟“ عزیز نے مارے ضبط کے اس سے پوچھا۔
”بابا۔۔۔ آپ کی بیٹی اب اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔“ ماہروش نے جذبات کی انتہا پر پہنچتے ہوئے کہا۔
”پر بیٹا۔۔۔ وہ تمہارا بیسٹ فرینڈ بھی ہے، صرف اک رشتہ نہیں ہے تمہارا اس کے ساتھ“ عزیز نے اپنی جان کو سمجھانا چاہا۔۔ مگر وہ جانتے تھے اس کی ضد کو۔۔
”محبت سب رشتوں سے بڑی ہوتی ہے۔۔ اس نے صرف میری محبت کو انکار نہیں کیا۔۔ اپنی محبت کو بھی جھٹلایا ہے۔“ ماہروش روتے ہوئے بولی۔ عزیز کو اپنی بیٹی پر ترس آیا۔۔ جس نے اپنی زندگی کا  بہت قیمتی انسان کھو دیا تھا۔ جو اس کا ہمدم بھی تھا، ہمراز بھی تھا، خیرخواہ بھی وہی تھا اور دوست بھی وہی تھا۔۔
”میری بیٹی کیا چاہتی ہے ا ب؟“ عزیز نے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ ان کے دل میں بھی تکلیف سے ٹیسیں ضرور اٹھ رہی تھیں مگر وہ کمال مہارت سے چھپا گئے تھے۔
”میں چاہتی ہوں۔۔آپ محسن کے رشتے کو ہاں کر دیں۔“ ماہروش ٹھہر ٹھہر کر بولی۔۔ دل کی حالت سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی۔۔ وہ اس وقت ضد لگا رہی تھی۔۔ اور یہ سبھی جانتے تھے کہ وہ انتہا کی ضدی تھی۔۔ محبت بھی اس کی ضد سے ڈر کر دل کے کسی کونے میں چھپ گئی تھی۔۔ وہ کسی اور کی ہو کر حازم سے انتقام لینا چاہتی تھی اس بات سے انجان کہ اس کا یہ فیصلہ اس کی اپنی ذات کے لئے صرف اور صرف بربادی لائے گا۔۔۔
”جیسا تم چاہو۔۔ مگر ابھی آرام کرو“ عزیز اسے آرام کرنے کے لئے بھیج کر خود وہیں صوفے پر ڈھے گئے تھے۔۔ ان کو حازم سے شکوہ نہیں تھا۔۔ بس اپنی توقعات پر ہرٹ تھے۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”کیسا ہے؟“ حازم غیر مرعی مقطے پر نگاہیں جمائے بیٹھا تھا ۔۔ کہیں کسی بہت گہری سوچ میں گم۔۔ جب مہد اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ اسے اس کے آنے کا بلکل علم نہیں ہوا تھا۔ وہ جیسے اس کے بلانے پر واپس حال میں آیا۔
”ہنہ۔۔ہاں۔۔“حازم بے دھیانی میں بولا۔
”کیسا ہے میری جان؟“ مہد نے محبت سے اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کے کندھے پر اپنا بازو رکھا۔
”ٹھیک۔“ وہ بس اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔۔ ہمیشہ دماغ کی دہی بنانے والا حازم آج بس اک لفظی جواب دے کر خاموش ہو گیا تھا۔۔
”حازم۔۔ تو ایسے بلکل نہیں اچھا لگتا۔“ مہد نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”حیرت ہے میں کسی طرح کسی کو اچھا بھی لگتا؟“ حازم دکھ سے اسے دیکھتے بولا۔
”کیوں نہیں لگتا؟ تجھ میں تو ہم سب کی جان بستی ہے۔“ مہد نے اسے پیار سے دیکھتے کہا۔
”پر میری جس میں جان بستی ہے وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی ہے مہد“ حازم نے درد سے بھرپور لہجے میں جواب دیا۔۔ اس کے لہجے میں ، اس کے الفاظ میں، اس کی آنکھوں میں، اس کے چہرے پر درد ہی درد تھا۔۔۔
مہد نے اسے دیکھ کر خود کو سنبھالا۔
”نہیں یار۔۔ وہ تجھے چھوڑ کر نہیں گئی۔“ مہد نے اسے حوصلہ دینا چاہا۔
”مجھے جھوٹی تسلیاں نہ دے یار۔“ حازم نے اک نظر اسے دیکھا پھر دوبارہ نگاہیں اپنی گود میں رکھی اپنی ہتھیلیوں پر مرکوز کر دیں۔
”ہمت رکھ۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ مہد نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔
”یار۔۔ میں۔۔ میں سونا چاہتا ہوں۔۔“ حازم نے فلحال تنہائی کی خواہش کرتے ہوئے کہا تھا۔ جسے مہد بخوبی سمجھ چکا تھا۔
”اوکے۔۔ اپنا خیال رکھیں۔۔ صبح ملتے ہیں۔۔“ مہد اسے کہتا اس کے کمرے سے باہر چلے گیا تھا۔۔ مگر حازم اور مہد دونوں جانتے تھے آج کی رات انہیں بڑی ہی قسمت سے نیند آنے والی تھی۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”یہ لیں بھائی کافی۔“ السا نے اسے گرما گرم بھاپ اڑاتا کافی کا مگ تھماتے کہا تھا۔ وہ   واپس آکر بس اک جگہ ہی مسلسل ٹک کر بیٹھا تھا۔
”بھائی۔۔“ اس کے دوبارہ بولانے پر ضرار حال کی دنیا میں واپس آیا۔
”اوہ۔۔ تھینک یو“ وہ السا کے ہاتھ سے کافی کا مگ پکڑتے بولا۔
”میں آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟“ السا نے پیار سے پوچھا۔
”ہاں میری جان۔۔“ ضرار نے مسکرا کر اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔
”بھائی آپ پریشان ہیں؟“ السا نے اسے دیکھتے پوچھا۔
”نہ ہونے کا جواز نہیں بنتا۔“ضرار نے کافی کا گھونٹ بھرتے اسے دیکھ کر کہا۔
”بھائی۔۔ “السا کچھ کہنے لگی تھی کہ ضرار دوبارہ بول اٹھا۔
”اس میں ہم سبھی کی جان بستی ہے السا۔۔ وہ میری اور   مہد کی جان کا ٹکڑا ہے۔۔ ہم اسے اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔۔ “ ضرار نے افسردہ ہوتے کہا۔
”بھائی۔۔ حازم بھائی۔۔ غلط ہیں۔“ السا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”اس کی غلطی بتاؤ“ ضرار نے سنجیدہ ہو کر اسے دیکھا۔
”محبت کرنا۔۔“ السا نے نگاہیں جھکائےکہا۔
”ہاں۔۔ اس کی غلطی محبت کرنا ہی ہے۔۔ ٹھیک کہا تم نے۔۔ اس نے محبت کی ہے اور بے پناہ کی ہے۔۔ اپنی جان سے بڑھ کر کی ہے۔۔ ماہروش سے، مہد سے، مجھ سے، تم سے، سائرہ سے“ ضرار نے افسردگی سے کہا۔
”بھائی۔۔ آپ کو نہیں  لگتا انہیں ماہروش کو اپنا لینا چاہیے تھا؟“ السا نے اسے دیکھتے پوچھا۔
”اس نے دوستوں کی محبت میں اپنی محبت کی قربانی دے دی السا۔۔“ ضرار نے لب بھینچتے ہوئے کہا تھا۔
”پر بھائی۔۔ ان کو دونوں دوست ٹھیک ہیں۔“ السا نے اسے دیکھتے کہا۔
”وہ جس قدرمحبت کرتا ہے نہ السا۔۔ جتنے کم لوگ اس کی زندگی میں وہ ان سبھی سے اتنی ہی گہری  محبت کرتا ہے“ ضرار نے اسے بتایا۔
”بھائی۔۔ مگر اب کیا ہوگا؟ ماہروش اور حازم بھائی کی محبت تو  ماشاءاللہ نظر آتی ہے۔“ السا نے فکرمندی سے پوچھا۔
” کرتے ہیں کچھ۔۔ انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ضرار نے اسے تسلی دی۔
”جی انشاءاللہ۔  وہ دونوں ایک ساتھ ہی اچھے لگتے ہیں۔“ السا نے نم آنکھوں سے مسکرا کر کہا تھا۔
”ہاں گڑیا۔ اچھا جاؤ تم ریسٹ کرو۔“ ضرار نے اسے بھیجا۔
”جی بھائی۔۔ پر آپ بھی اب سو جائیں۔“السا نے اس کی فکر کرتے ہوئے کہا۔ ضرار مسکرایا۔
”جی ٹھیک ہے۔“ضرار نے سر کو خم دیتے کہا۔۔ السا مسکرا کر وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ بے مقصد اپنے کمرے میں رکھی سٹڈی ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔اپنے سامنے رکھے سفید رنگ کے صاف کاغذ پر ترچھی، سیدھی لکیریں مارتی وہ اپنی زندگی کی واحد جان سے عزیز ہستی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔
تیرا ہاتھ بناؤں پنسل سے
اس ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھوں
اس کے ذہن میں گھوما جب زندگی کے متعدد مقامات پر مختلف دل لبھاتے لمحات میں حازم نے اس کا مومی ہاتھ تھام کر اس کو  خود سے دور جانے سے روکا تھا۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے۔
کچھ الٹا سیدھا فرض کروں
کچھ سیدھا الٹا ہو جائے
اسے بے ساختہ کل کی گزری  ہوئی رات یاد آئی جس میں وہ حازم کے ساتھ اپنی آنے والی خوشیوں بھری زندگی سوچ کر سوئی تھی۔۔ اس کے ساتھ اس کی تصوراتی دنیا بہت حسین تھی۔۔
میں آہ لکھوں تو ہائے کہے
میں ہائے لکھوں
تو بے چین ہو جائے۔۔
اس کی آنکھوں سے  آنسو بہنے لگے۔۔ اس کا چہرہ تر ہوتا جا رہا تھا۔۔ وہ سسکنے لگی۔۔ تڑپ تو رات سے رہی تھی۔۔ اس کا وجود اب لرزش میں تھا۔۔
میں ”ع“ لکھوں
تو سوچے مجھے
میں ”ش“ لکھوں
تیرا شوق بڑھے
میں ”ق“ لکھوں
تجھے کچھ کچھ ہو
میں”عشق“ لکھوں
تجھے ہو جائے
ماہروش نے اپنے منہ پر زور سے ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی ہچکیوں پر بند ھ باندھنے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔ وہ خود کو نہیں سنبھال پا رہی تھی۔۔کچھ  ہفتوں کی، کچھ لمحوں کی، کچھ مہینے کی۔ کچھ برسوں کی محبت ہوتی تو شاید اسے صبر آجاتا۔۔ مگر جس محبت میں اسے شکست ملی تھی وہ اس کی بچپن کی محبت تھی۔۔۔ اس کی زندگی کی پہلی ترین محبت تھی۔۔ یہ محبت تب سے تھی جب وہ اس ”محبت“ کے معنی بھی نہیں جانتی تھی۔۔ اس کے دل کی دنیا میں صرف ایک شخص بستا تھا اور وہ صرف حازم تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ حازم کے سوا کسی کو اپنے دل میں نہیں آنے دے گی۔۔۔۔
”میں نے کبھی تم سے محبت نہیں کی“ وہ اک دم ساکت ہوئی۔۔ حازم کے کہے الفاظ اس کے ذہن میں گونجنے لگے۔۔ وہ اٹھی۔۔ گرتی سنبھلتی اپنے باتھروم میں گئی۔۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو گھورنے لگی۔۔
”میں نے نہ تم سے جھوٹ بولا ہے اور نہ کوئی جھوٹی امیدیں دلائیں ہیں تمہیں۔۔“حازم کے مزید کڑوے الفاظ اس کی روح تک کو سلگا گئے۔اس نے اپنا عکس دیکھا۔۔ بکھرے بال۔۔ آنکھوں میں بے انتہا سرخی۔۔ مسلسل رونے کے باعث انہیں آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ حلقے محسوس ہو رہے تھے۔۔
اس نے اک تلخ مسکراہٹ ہونٹوں پر  محسوس کی۔۔
”تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔“ حازم کے زہر اگلتے الفاظ اس کے دل و جان کو تڑپا گئے تھے۔۔
”نہیں۔۔۔۔“ وہ زور سے چیخی۔۔۔۔
اس کی چیخ اتنی بلند، اتنی خطرناک تھی کہ خاموشی میں ڈوبے عزیز ہاؤس میں گونجی تھی۔۔
”مجھے کوئی غلطفہمی نہیں ہوئی۔۔۔ میں پاگل نہیں ہوں۔۔“ وہ اونچ اونچی روتے بولی۔۔
”ماہروش۔۔“ عزیز کی آواز سن کر وہ اسی حلیے میں پیچھے مڑی۔۔
”یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے میری جان“ وہ دلگرفتہ ہو کر اپنی اکلوتی اولاد کو دیکھ رہے تھے۔
”بابا۔۔“ماہروش ان کے سینے سے لگی۔۔ اور سسکی۔۔۔ بے انتہا سسکی۔۔ اس کا درد کم نہیں ہو رہا تھا۔۔ اسے کسی چیز سے سکون نہیں مل رہا تھا۔۔ بڑی بڑی باتوں کو ہنسی میں اڑانے والی ماہروش عزیز آج محبت میں ناکامی پر اپنی جان سے ہار رہی تھی۔۔۔ عزیز اس کی حالت دیکھ کر پریشان تھے۔۔۔
”میرے بچے چلو۔۔ بیڈ پر۔۔۔ آؤ میں اپنی بیٹی کو سلاؤں“ عزیز نے اسے دکھ سے دیکھتے کہا۔
”اب مجھے نیندنہیں آئے گی بابا۔“ وہ روتے روتے بولی۔۔
”ایسے کیسے نہیں آئے گی؟ آج میں اپنے بچے کے ساتھ سوؤں گا“ عزیز اسے پیار سے دیکھتے بولے۔۔
اسے بیڈ پر لٹا کر بیڈ کی دوسری جانب خود بھی بیٹھے۔۔ اس کے اوپر لحاف دے کر اس کاسر سہلانے لگے۔۔
”بابا۔۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔“ اس کی آوازیں آہستہ آہستہ کم ہونے لگی تھیں۔۔ وہ بس دم سادھے اس کی باتیں سنتے جا رہے تھے۔۔
”کچھ بھی ہو جائے اب میں اسے اس بات کی سزا دے کر رہوں گی“ وہ غنودگی میں جاتے ہوئے آہستہ آواز میں بڑبڑا رہی تھی۔۔
”میں کسی اور سے شادی کر کے اسے ساری زندگی تڑپتاد یکھنا چاہتی ہوں جیسے میں آج تڑپ رہی ہوں“ ماہروش کی اس بات پر  عزیز ساکت ہوئے تھے۔۔ وہ اپنی بیٹی کی ضد سے واقف تھے۔۔ بس وہ اللہ سے آنے والے وقت میں خیر مانگ رہے تھے۔۔مگر جو ہونے والا تھا وہ اس سب سے انجان تھے۔۔ سارا معاملہ اللہ کے سپر د کر کے وہ خود بھی ماہروش کو سلاتے سلاتے سو چکے تھے۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ خالی خالی ذہن لیے بیڈ کے درمیان میں لیٹا چھت کو گھورتا جا رہا تھا۔۔اس کے کمرے کی سیلنگ پر شاید اس نے پہلی بار اتنا غور کیا تھا۔۔ وہ اس قدر ماہروش میں الجھا ہوا تھا کہ سیلنگ کا ڈیزائن میں اسے کبھی سوکھی سڑی بھنڈی دکھائی دیتی تو کبھی کڑوا کڑیلا۔۔ اس نے شدتِ غم سے کروٹ بدلی۔۔ مگر سامنے رکھے سائیڈ ٹیبل پر ان چھ ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھ کر اس کی آنکھ بھر آئی۔۔ دوبارہ اب بائیں جانب کروٹ بدلی تو وہاں سامنے ہی دو کیوٹ سے ٹیڈی بئیر رکھے دیکھ کر وہ دور کہیں ماضی میں کھو سا گیا تھا۔ بچپن کی یادوں نے ایک بار پھر اس اکا بسیرا کیا تھا۔۔۔
”حازم یہ چیٹنگ ہے۔۔ یہ پہلے میں نے لیا تھا“ ماہروش نے ناراض ہوکر اسے دیکھا تھا۔۔ وہ دونوں اک ٹوائے شاپ میں موجود اک دوسرے کے لئے گفٹ لے رہے تھے جب ماہروش کے پسند کیے ہوئے بڑے سے دو اک ساتھ جڑے ہوئے سفید رنگ کے ٹیڈی بئیر دیکھ کر حازم نے اسے تنگ  کرنا شروع کر دیا۔
”ہاں تو ہم ایک دوسرے کے لئے ہی لے رہے ہیں نہ۔۔ یہ تم نے پسند کیا ہے تو میرے لئے ہی کیا ہے نہ۔۔“ حازم ان بئیرز کو پکڑ کر مسکراتے ہوئے بولا۔۔
”پر یہ مجھے اپنے لئے پسند آیا ہے۔“ماہروش منمناتےہوئے بولی۔
”فرینڈشپ ڈے پر بھی تم لڑائی شروع کر رہی ہو“ حازم نے اسے مصنوعی خفگی دکھائی۔۔
”نہیں میرا ایسا مطلب نہیں تھا۔۔“ماہروش نے بے دلی سے انکار کیا۔۔ وہ ہمیشہ سے ایسے کیوٹ ٹوائیز کی شوقین تھی۔۔
”تم ایسا کرو یہ لےلو میری طرف سے۔“اس نے اک بھنڈی کی طرح کا دکھنے والا سوفٹ کھلونا حازم کی جانب بڑھایا۔۔
”یہ تو ہوبہو تمہارے جیسا دکھتا ہے۔۔“ حازم نے ہنستے ہوئے اس کا مزاق اڑایا۔۔
”ہا۔۔۔۔؟ میں تمہیں بھنڈی لگتی ہوں؟“ اس نے حازم کو گھورتے ہوئے کہا۔
”نہیں تو۔۔“حازم نے شرارت سے چمکتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”پھر تم نے ایسے کیوں کہا“ ماہروش اب بھی ناراض تھی۔۔
”کیونکہ تم مجھے صرف بھنڈی نہیں سوکھی سڑی ہوئی بھنڈی لگتی ہو“ حازم نے اسے منہ چڑاتے ہوئے کہا۔ ماہروش نے خفگی سے اسے گھورا۔
”میں تمہیں سوکھی سڑی بھنڈی لگتی ہوں؟“ وہ  ناراضی سے اسے دیکھتے بولی۔
”بلکل ہاں“ حازم مسلسل اس کےچہرے کے تاثرات دیکھ کر ہنستے ہوئے بولا۔
”اور تم کیا ہو؟“ماہروش اسے مسلسل گھور رہی تھی۔
”میں  پرنس چارمنگ“حازم نے کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔
”تم پرنس کڑوے کڑیلے ہو۔۔“ماہروش نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھتے ہوئے جتاتے ہوئےکہا۔
”جی نہیں“ حازم نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔۔
”جی ہاں“ماہروش نے اسے تنگ کرنا چاہا۔۔۔
” چلو۔۔، میں تو پھر پرنس ہوں تم تو سوکھی سڑی بھنڈی ہو۔‬“ حازم نے ہنستےہوئے کہا تھا اور اس بھنڈی والے کھلونے کو اس کے چہرے کے ساتھ جوڑا اور پھر کھل کر ہنسا۔۔
”تم خالی کڑوے کریلے ہو۔۔“ ماہروش نے بھی ہنس کر کہا تھا۔۔ اس کی بات پر حازم کے ہنستے لب فوراً بند ہوئے۔
”خالی کڑوا کریلا؟ حازم نے سوالیہ نگاہوں سے اسے گھورا۔ اور اس  بے معنی بات پر دونوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔
”یہ لو تمہارا فرینڈشپ ڈے کا گفٹ“ حازم نے وہی بھنڈی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔۔ ماہروش نے اسے گھورا۔۔
”اصولاً تمہیں وپ ٹیڈی بئیرز مجھے دینے چاہیے“ وہ خفا خفا سی بولی۔
”وہ تم نے مجھے دے دیے ایک ہی بات ہے“حازم نے ہنس کر کہا تھا۔۔ ماہروش بس اسے ناراضی سے تک رہی تھی۔۔
”پر۔۔“ وہ منمنائی۔۔
”میرے پاس ہو یا تمہارے پاس ایک ہی بات ہے سوکھی سڑی بھنڈی“ ماہروش نے اس کی بات پر منہ پھلایا۔۔
”دیکھنا جب بھی تم اسے دیکھو گے تمہیں میں یاد آؤں گی“ ماہروش نے اسے چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
”دیکھ لیں گیں“ حازم نے اس کی بات ہوا میں اڑاتے ہوئے کہا۔۔
وہ اک دم سے واپس حال کی دنیا میں واپس لوٹا۔
”تم سچ کہہ رہی تھی ماہروش عزیز۔۔ میں جب  بھی اسے دیکھتا ہوں مجھے تم ہی یاد آتی ہو۔۔“ حازم کی آنکھ سے اک آنسو ٹوٹ کر گرا۔
”افسوس کہ میں نے تمہیں کھو دیا ماہروش عزیز اپنی سب سے پیاری ہستی کو۔۔“ حازم نے درد سے سوچا۔۔
حازم نے افسوس سے چاروں جانب دیکھا۔ اسے اپنے ہی کمرے کی ہر اک شے میں ماہروش کا عکس دکھائی دینے لگا۔۔ ہر اک چیز میں ماہروش عزیز سے جڑی کوئی نہ کوئی یاد تھی۔۔ اس نے اس سے دھیان ہٹانا چاہا۔۔ مگر ہٹا نہ پایا۔۔ اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔۔ وہ لمحے میں اٹھ بیٹھا۔۔  بیڈ پر بیٹھا وہ ظاہری طور پر مظبوط دکھائی دینے والا حازم علی اندر سے بہت کمزور تھا۔۔ اس نے بے بسی سے دائیں جانب بنی بڑی سی  کھڑکی کی جانب دیکھا۔۔ جہاں سے چاندنی روشنی اس کے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔۔ وہ بستر سے اٹھا۔۔ اٹھ کر اس روشنی کے قریب کھڑا ہوا۔۔اب چاند کی دودھیا روشنی اس کے چہرے پر پڑنے لگی۔۔ وہ بے چین ہوا۔۔ اس نے کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا۔۔ اس کے کمرے سے ملک ہاؤس کےساتھ موجود عزیز ہاؤس  کے اک کمرے کا منظر واضح دیکھا جا سکتا تھا۔۔ وہ کمرا ماہرو  ش عزیز کا تھا۔۔
اس نے تھوڑا غور کر کے وہاں اندر کے حالات جاننے چاہے۔۔اسے ماہروش دکھائی دی۔۔ وہ بیڈپر تھی۔۔ اس کے ساتھ عزیز تھے جو اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے سلا رہے تھے۔۔۔ ماہروش کا چہرہ اس کی جانب تھا۔۔ وہ دیکھ سکتا تھا۔۔ ماہروش کے چہرے پر بھی بے تحاشہ درد  ظاہر تھا۔۔ وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔۔ اور اس کے آنسوؤں کے نشان اس کے رونی کی گواہی دے رہے تھے۔۔۔ اس نے بے بسی سے اپنی محبت کو دیکھا۔۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔۔ کچھ کرنا چاہتا تھا مگر کیا؟ یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔
اس کے ذہن میں برسوں پرانی پڑھی غزل سنائی دی۔۔۔
اداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا تو میرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص جسے تونے چھوڑنے میں جلدی کی،
ترے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
اسے بے ساختہ ماہروش کے الفاظ یاد آئے، ”آج کے بعد میرا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں حازم علی“ وہ پوری جان سے لرزا۔۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔۔ تم اگر سچ میں مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو میں کیا کروں گا ماہروش؟ میں کیسے جیوں گا تمہارے بنا۔۔ وہ اب سردی کی ٹھٹھرتی شام میں ننگے پاؤں   اپنے کمرے کے ساتھ ملحقہ ٹیرس پر کھڑا ماہروش کے کمرے کا نظارہ کر رہا تھا۔۔
وہ جلدباز، خفا ہو کر چل دیا ورنہ!
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا۔۔
میں اک کوشش کروں گا ماہروش۔ خواہ میں تمہیں اچھے سے جانتا ہوں ، تمہاری ضد کے آگے کچھ بھی نہیں ہے تمہارے لئے۔۔ میں جانتا ہوں اب تم عمر بھر مجھے اذیت دینے والی ہو۔۔ مگر میں مجبور تھا کیسے ہماری محبت کو چن لیتا۔۔ مجھ پر اشفاق انکل کے اور مہد کے بہت سے احسانات ہیں جانِ جاناں۔۔۔ میں پھر کیسے مہد کو تکلیف میں چھوڑ کراپنی محبت کو چن لیتا۔۔۔؟
انا نے ہاتھ اٹھانے نہیں دیا، ورنہ
میرے دعا سے وہ پتھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عمر تیرا منتطر رہا محسن۔۔
یہ اور بات ہے کہ، رستہ بدل بھی سکتا تھا۔۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ماہروش۔۔ جو میں خود سے بھی کبھی نہیں کہا وہ آج تم سے کہنا چاہتا ہوں۔۔ مگر میں اسی محبت سے آج بڑی بے دردی سے تمہارے سامنے انکار کر بیٹھا ہوں۔۔ میں جانتا ہوں تم مجھے آسانی سے معاف نہیں کرو گی یا شاید۔۔ معاف ہی نہ کرو۔۔ حازم نے دکھی ہو کر سوچا۔۔
میں سوچتا تھا کہ ہماری محبت بہت مضبوط ہے مگر جس محبت کا میں نے کبھی اظہار ہی نہیں کیاا ور تمہارے بتانے پر انکار کر دیا۔۔ اب کیسے وہ مجھے نصیب ہوگی ماہروش۔۔؟ جس محبت کا ذکر کبھی میں نے نہ تم سے نہ خود سے کیا  ، وہ کیسے بھلا مظبوط ہو سکتی ہے۔۔۔۔ کاش سب ٹھیک ہو جائے۔۔ وہ بس اپنی ہو سوچوں کی دنیا میں مگن تھا۔۔
”حازم بھائی؟“سائرہ کی آواز پر وہ  پلٹا۔
”تم اس وقت؟“ وہ بس خاموش نگاہوں سے بولا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟“سائرہ نے فکرمندی سے پوچھا۔
”مجھے کیا ہوا؟“ وہ انجان بنے پوچھنے لگا۔
”حازم بھائی۔۔“ سائرہ اس کی حالت دیکھ کر روہانسی ہو گئی۔ا ک طرف اس کا بھائی تھا اور دوسری طرف اس کی بہنوں جیسے بچپن کی سہیلی۔۔
”میں ٹھیک ہوں گڑیا۔۔“ حازم نے اس کی تسلی کرنی چاہی۔
”آپ جتنے ٹھیک ہیں نظر آرہا ہے۔۔“ سائرہ نے فکر مندی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ بس خاموش نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
”ادھر آکر بیٹھیں۔“ سائرہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے بیڈ پر بٹھایا۔
”سائرہ تم جا کر ریسٹ کرو۔“ حازم نے اسے یہاں سے بھیجنا چاہا۔
”آپ کو اس حالت میں چھوڑ کر؟“ اس کی بات پر حازم کو کوئی جواب نہیں آیا۔
”حازم بھائی؟“ سائرہ اس کے ساتھ بیٹھ کر بولی۔
”جی؟“ سائرہ نے اس کی جانب دیکھا۔
”ایک بات پوچھوں؟“ اس کی معصومیت پر وہ مسکرایا۔
”جی؟“ اس نے پھر اک لفظی جواب دیا۔
”محبت کرتے ہیں آپ اس سے؟“اس کے سوال پر اس کی مسکراہٹ لمحوں میں سمٹی۔۔
”بتائیے؟“ سائرہ نے اسے خاموش پا کر دوبارہ پوچھا۔
”تم میرے اندر کی حالت جانتی ہو سائرہ۔“ حازم نے اسے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”آپ بھی تو اس کے اندر کی حالت جانتے ہیں حازم بھائی۔۔“ سائرہ کہہ کر سر جھکا گئی۔
”ہمارے لئے یہی ٹھیک تھا سائرہ“ وہ نظریں چڑائے بولا۔
”یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ “ وہ  نم آنکھوں سے اسے دیکھتے بولی۔
”آپ اس سے ایک بار بات کریں۔۔ کم از کم اسےبتائیں، اپنی فیلنگز کے بارے میں۔۔“ سائرہ نے اک امید سے اسے دیکھا۔۔
”میں اسے بہت اچھے سے جانتا ہوں سائرہ۔۔ اور تم بھی اسے اتنے ہی اچھے سے جانتی ہو“ حازم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”محبت میں ضدیں نہیں چلتیں۔“ سائرہ نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”بات اگر ماہروش عزیز کی ہو تو اس کی محبت میں ضدیں جائز ہیں سائرہ۔“ حازم کے جملے پر سائرہ کچھ نہ بول سکی وہ جانتی تھی ماہروش کو۔۔ اس کی ضد کے آگے اس کی محبت بھی ہار  جائے گی وہ جانتی  تھی۔۔
”آپ اک بار اس سے بات کریں گیں پھر بھی۔۔“ سائرہ نے  کہا۔
حازم خاموش تھا۔۔ بے حد خاموش۔۔
”میرے لئے؟“ سائرہ کی آس بھری نگاہوں کی  جانب دیکھ کر حازم کے دل کو کچھ ہوا۔
”اوکے ۔۔ پر صرف تمہارے لئے۔۔“ حازم ہلکا سا مسکرایا۔
”تھینک یو حازم بھائی۔۔“ سائرہ نے مسکرا کر کہا ۔۔ حازم اسے مسکراتے دیکھ کر مسکرایا۔
”آپ ریسٹ کریں بھائی۔۔ میں چلتی ہوں“ سائرہ نے کہہ کر وہاں سے واپسی کی راہ لی تھی۔۔ حازم کو سوچوں کے بھنور میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔۔حازم بس لمبا سانس بھرکے رہ گیا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”کوئی بات ہوئی تیری؟“  ضرار کے سوال پر  وہ اپنی سوچوں کی دنیا سے واپس آیا۔
”معلوم نہیں“ مہد کے جواب پر ضرار کے ماتھے پر سلوٹیں ابھریں۔
”کیا مطلب؟“ضرار نے پوچھا۔
”مطلب یہ کہ  اس سے بات کرنا یا نہ کرنا ایک برابر رہا۔“ مہد نے افسوس سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”پر ایسے بات کا حل نہیں نکلےگا۔“ ضرار بے چینی سے بولا۔
”اس  کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔۔“ مہد نے دکھ سے کہا۔۔
”ان کی محبت کے بارے میں ہم بچپن سے جانتے ہیں مہد۔۔ حازم نے آخر ماہروش کے سامنے کیوں جھٹلایا؟“ ضرار نے استفسار کیا۔
”ہم دونوں کے لئے۔۔“ مہد کی بات پر پر وہ چونکا۔
”ہمارے لئے؟“ضرار حیران تھا۔
”ہاں۔۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ہمیں تکلیف میں چھوڑ کر اپنی محبت کو نہیں اپنا سکتا۔“  مہد  کی بات پر وہ شاکڈ تھا۔
”پر ہم دونوں بلکل ٹھیک ہیں۔۔“ ضرار نے نا سمجھی سے کہاتھا۔
”صاف سی بات یہ ہے کہ  اس نے ہماری خاطر اپنی محبت قربان کر دی ہے ضرار۔“ مہد نے دکھ سے کہا تھا۔۔ اس کی بات پر ضرار مزید دکھی ہو گیا تھا۔
ضرار کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ہانپتی ہوئی سائرہ کو مہد کے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ اچھل کر رہ گئے تھے۔۔
”مہہ۔۔مہد بھائی۔۔؟“ وہ ہانمپتے ہوئے بولی۔
”بولو۔۔ سائرہ کیا ہوا ہے؟“ مہد پریشانی سے اٹھا۔
اس کے ساتھ ضرار بھی تھا۔۔
”حازم۔۔حازم بھائی۔۔۔“ سائرہ  لمبے لمبے سانس خارج کرتے ہوئے بولی۔
”کیا ہوا ہے حازم کو؟“ مہد سے پہلے ضرار بے چینی سے بولا تھا۔۔۔
”وہ اپنے کمرے میں  بے ہوش فرش پر پڑے ہیں۔۔۔۔“سائرہ کی بات پر مہد اور ضرار کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ان کہے جذبات (COMPLETED)Where stories live. Discover now