قسط نمبر 12

634 39 5
                                    

"ابے یار تو غلط آدمی ہمیشہ غلط جگہ غلط ٹائم پر ہی کیوں آ کر اپنی اینٹری مارتا ہے؟" مہد نے اپنی سرخ ہوتی ناک پر زور سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔اس کی اس بات پر حازم کی پہلے سے پھیلی آنکھیں مزید پھیلی تھیں۔
"بکواس مت کر۔۔ یہ بتا وہاں کھڑا ہو کر میری بہن کو کیوں ٹھرکیوں کی طرح گندی نظروں سےتک رہا تھا؟" حازم کی ایکسرے کرتی نگاہوں نے مہد ملک کے پورے وجود کو اپنے احاطے میں لیا تھا۔
"م۔۔میں کسی کو نہیں دیکھ رہا تھا۔" مہد نے اس سے نظریں چڑاکر وہاں سے آگے بڑھ جانا چاہا تھا مگر حازم بھی کہاں کسی سے کم تھا فوراََ اس کے سامنے آ کر اسے آگے جانے سے روک دیا تھا۔
"بھائی مجھ سے نہ چھپا۔۔"حازم نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا تھا۔
"بکواس نہ کر ایسی کوئی بات نہیں ہے۔" مہد نے اس کو آگے دھکیلنا چاہا تھا مگر وہ کسی پہاڑ کی طرح اس کے راستے پر جامد کھڑا رہا تھا۔
"کیسی بات ہے پھر بلو رانی؟؟" حازم نے اسے شرارتی نگاہوں سے ایسے گھورا تھا جیسے اسے گھورنے کے مہد ملک سے پیسوں کی صورت انعام دیا جانا تھا۔
"دیکھ یہ بلو رانی مت کہہ۔۔ وہ ضرار ہے" مہد نے اسے اپنی شہادت کی انگلی دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
"اوئے آہستہ بول بلو رانی کی بہن بھی یہیں ہے۔۔ یہ نہ ہو کہ شہادت نصیب ہو جائے تیری وجہ سے مجھ معصوم کو"حازم نے اس کے وارن کرتے ہوئے کہا۔
"کوئی نہیں اس کی بہن سے شہید بھی ہو جائیں گیں تو کیا جائے گا؟"مہد اک ٹرانس کی کیفیت میں بولا تھا۔۔ حازم نے اسے گھورا۔
"شرم کر۔۔ وہ ضرار کی میری اور تیری بھی بہن ہے۔۔"حازم نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
"کیوں بھئی اس نے ہم تینوں کی اجتماعی بہن بننے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟" مہد نے الٹا اس سے سوال عرض کیا۔
"تو کیا تیرا واقعی شہید ہونے کا ارادہ ہے؟"حازم نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔۔
کیا پتہ میں کب کا شہید ہو گیاہوں اس کی قاتلانیہ نگاہوں سے ۔۔اس کے دل نے صدا دی تھی۔۔ مگر زبان سےکچھ اور ادا ہوا تھا۔
"شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن۔۔۔" وہ لطیف انداز میں گنگنایا۔۔اس کی اس حرکت پر حازم علی کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"بے شرم انسان چل۔۔ ضرار کو معلوم پڑ گیا نہ تو تو واقعی شہید ہو جائےگا۔۔" حازم اس کو کندھے سے گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج السا کو گھر سے غائب ہوئے دو روز ہو چکے تھے۔ ان دو دنوں میں نہ اسے السا کی جانب سے کوئی معلومات ملی تھی اور نہ ہی گھر میں ضرار کا کوئی فون آیا تھا۔ السا کے کمرے میں اسی کے چھوٹے سے بیڈ پر گم سم سا بیٹھا وہ شخص کچھ پریشان سا تھا۔ اسے نہیں یاد تھا اس نے السا سے آخری بار پیار سے بات کب کی تھی مگر اس کی غیر موجودگی نے اس کے اعصاب پر بہت گہرا اثر ڈالا تھا۔ وہ شخص آج زندگی میں پہلی بار السا جاوید کے لیے حقیقتاََ پریشان تھا۔ اس نے بلا ارادہ بیڈ شیٹ پر ہاتھ پھیرا تھا اور اس میں سے السا کو محسوس کرنا چاہا تھا۔۔ اس کی خوشبو اس کی موجودگی کا احساس لینا چاہا تھا۔۔ بیڈ پر سلیقے سے رکھے گئے سرہانے کو اپنے سینے سے لگائے اس کی نظر السا کے بیڈ کے ساتھ رکھے گئے چھوٹے سے بوسیدہ حالت سائیڈ میز پر گئی تھی۔۔ اس نے بے اختیار اس سائیڈ ٹیبل کے پہلے دراز کو کھول کر اس کے اندر ہاتھ مارا تھا۔۔ جہاں اسے اک بہت ہی عجب شے ملی تھی۔۔ السا کے پاس ایسی کسی چیز کا موجود ہونا اس شخص کو حیرت کے سمندر میں مبتلا کر گیا تھا۔۔اس انسان نے چھپکے سے وہ شے اٹھائی تھی اور بہت ہی احتیاط سے اسے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورج بڑی شان سے غروب ہو رہا تھا اور ایسے میں ڈھلتی شام کا یہ حسین منظر دیکھنے کی بجائے وہ تینوں ملک ہاؤس کے کیچین میں موجود تھیں۔ کیچن بھی باقی پورے گھر کی طرح گھر کے مکینوں کے اعلیٰ ذوق ہونے کی بہترین مثال دے رہا تھا۔ بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا یہ باورچی خانہ کسی محل کے باورچی خانے سے کم نہیں تھا۔ کیچن کے دروازے کے بلکل ساتھ ڈبل ڈور فرج اندر آنے والے کا استقبال کرتی تھی اس کے بلکل ساتھ برتنوں کی بڑی سے الماری بنائی گئی تھی جو اس طرف کی پوری دیوار کا احاطہ کرتی تھی۔ اس کے اندر ہر طرح کے میٹیرل کے خوبصورت و قیمتی برتن بڑے سلیقے اور ترتیب سے رکھے گئے تھے۔۔ سامنے کی دیوار پر درمیان میں خوبصورت اور جدید طرز کا سنک لگا ہوا تھا اسی سنک کے اوپر اک بڑی سے کھڑکی کھلتی تھی جس سے باہر بنے بڑے سے لان کا منظر بھی بلکل واضح نظر آتا تھا۔ سنک کے دونوں اطراف شیلف بنائی گئی تھیں اور اس کی بائیں جانب والی شیلف کے بلکل ساتھ کوکنگ سٹوو رکھا گیاتھا۔ اس نئے طرز کے چولہے سے کچن کے دروازے تک ایک شیلف بنائی گئی تھی جو بہت سے مختلف کاموں کے لیے مدد دیتی تھی۔
"السا پلیز تم باز آ جاؤ" سائرہ کی منت کرتی آواز پر اس نے چکن کو مسالہ لگاتے ہوئے ہاتھ روک کر اسے دیکھا تھا۔وہ دونوں کب سے اس کی منتیں کر رہی تھیں مگر السا تھی کہ آج حازم کی منہ بولی بہن ہونے کا ثبوت دے رہی تھی اور ان کے لاکھ کہنے کے باوجود اپنی بات پر بضد تھی۔۔
"ہاں السا سائرہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔ تمہیں یوں کام کرتے اگر اشفاق انکل مہد بھائی یا اس کڑوے کریلے نے دیکھ لیا تو خامخواہ شامت ہماری آ جائے گی۔۔" ماہروش نے بھی السا کو دوبارہ سے اپنے کام میں مگن ہوتے دیکھ کر پریشانی سے کہا تھا۔
"تو تم ہماری بات نہیں مانو گی؟" سائرہ نے اسے جانچنا چاہا جس نے اپنی چمکتی نیلی آنکھیں سائرہ کے رف حلیے پر گاڑھیں تھیں۔۔اس کی آنکھوں میں اپنے ارادوں کی پختگی کی چمک تھی۔۔اور اس کا سر زور زور سے نفی میں ہل رہا تھا۔
"السا دیکھو پلیز۔۔ بات مان لو ہم دونوں لگا لیں گیں مسالہ اگر مہد بھائی یا حازم کے بچے نے تمہیں یوں کیچن میں کام کرتے دیکھ لیا تو وہ ہمیں ڈانٹیں گیں۔۔" ماہروش نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہا تھا۔
"ہاں نہ باقی سارا کام بھی تو ہم نے کر لیا ہے مل کر یہ بھی ہم مل کر کر لیتے ہیں؟ تم نے خود کو یوں ہلکان ضرور کرنا ہے۔"سائرہ نے اسے خفگی سے گھورا تھا۔السا نے مسلسل نفی میں ہلتے ہوئے اپنے سر کو مزید ہلنے سے روکا نہیں تھا۔۔ وہ ابھی بھی ویسے ہی سر نفی میں ہلاتی جا رہی تھی۔
"السا باز آ جاؤ چکڑ آ جائیں گیں تمہیں" ماہروش نے اس کی اس حرکت پر اسے منع کرنا چاہا تھا۔
السا نے اس کی بات نہ مانتے ہوئے سر نفی میں ہلانا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ دو دنوں میں ملک ہاؤس میں خود کو محفوظ اور ہر طرح کی پریشانی سے آزاد محسوس کر نے لگی تھی۔ اسی طرح مسلسل اپنے سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے اسے بری طرح چکڑ آیا تھا۔۔ اس نے خود کو گرنے سے بچانے کے لیے پاس ہی شیلف کو پکڑنا چاہا تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ خود کو بچا پاتی یا سائرہ اور ماہروش آگے بڑھ کر اسے سنبھال پاتیں ایک مضبوط سہارے نے اس ننھی سی جان کا بازو تھام کر اپنے مضبوط حصار میں لے کر اسے گرنے سے بچا لیا تھا۔ اس نے مارے خوف کے اپنی آنکھیں زور سے میچی ہوئی تھیں۔۔ ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بند کی گئیں تھیں۔۔ کیچن میں گرمائش ہونے کے باعث اس کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا تھا۔۔ سفید چہرے پر چھائی یہ سرخی مہد ملک کے چہرے پر اک جاذب مسکراہٹ لانے کا موجب بنی تھی۔ اس نے آج تک کسی دوشیزہ کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا یا شاید السا کو دیکھ لینے کے بعد اس کے دل کو اور کسی کو بھی دیکھنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔۔
اول تو زمانے میں نہیں تم سا کوئی اور
گر ہو بھی تو ہم کونسا تسلیم کریں گیں
سائرہ اور ماہروش نے یہ منظر دیکھ کر اپنی اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔۔ السا نے دھیرے سے اپنی ایک آنکھ کھولی تھی۔۔ مگر اپنے اتنے قریب اس شناسہ چہرے کو دیکھ کر اس کی دوسری آنکھ اسی لمحے کھلی تھی۔۔ مارے حیرت خفت اور شرم کے اس کے چہرے کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ سرخ ہو چکا تھا۔۔ وہ اک جھٹکے میں اس سے دور جا کر کھڑی ہوئی تھی۔۔ اور اس کی جانب اپنی پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔ دھڑکنوں نے الگ ہی شور مچایا ہوا تھا۔۔ چہرے کا رنگ اس قدر لال ٹماٹر ہو رہا تھا کہ کوئی دوسرا دیکھ کر یہی اندازہ لگاتا جیسے پورے جسم کا لہو محض اس کے چہرے پر آ سمایا ہو۔۔ اس نے ہلکے سے رخ موڑ کر ان تینوں کو دیکھنا چاہا تھا۔۔ مگر اس کے مڑتے ہی ملک ہاؤس کے کیچن میں سائرہ ماہروش اور مہد کے قہقہوں کی آواز گونجی تھی۔۔اس نے اک ناراض نظر ان تینوں پر ڈالی تھی اور پھر سر جھکا لیا تھا۔۔
"خبر دار اب کوئی یوں میری بہن پر ہنسا تو۔" حازم نے کیچن میں اینٹری مارتے ہوئے سختی سے سب کو ڈانٹا تھا۔۔اور خود السا کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا۔۔ اس کی اس بات پر السا کو بے ساختہ ضرار یاد آیا تھا۔۔ اور بے تحاشہ یاد آیا تھا۔۔
"اوئے ہیرو۔۔ زیادہ ڈرامے نہ کر۔۔" مہد نے اس کے کندھے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے السا کی دوسری جانب کھڑا ہو گیا تھا۔
"میں ڈرامے باز لگتا ہوں تجھے؟" حازم نے ڈرامائی انداز اپناتے ہوئے کہا تھا۔۔
"لگنے کی کیا ضرور ت ہے۔۔ تو تو پہلے سے ہی ہے۔" مہد نے اسے چڑاتے ہوئے کہا تھا۔۔ یہ الگ بات تھی کہ وہ دونوں اس وقت السا کی خفت ختم کرنا چاہتے تھے جو پچھلی کچھ دیر سے اس کے چہرے پر واضح نظر آرہی تھی۔۔
"مہد باز آ جا تو۔۔"حازم نے اسے خفگی سے گھورتے ہوئے کہا تھا۔
"میں؟؟ میں نے کیا کیا؟" مہد نے اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔۔
"ٹھیک ہے پھر اگر میں نےکچھ کیا تو مجھے نہ کہیں کچھ۔۔" حازم نے اسے اپنی شہادت کی انگلی دکھاتے ہوئے وارن کرتے ہوئے کہا تھا۔اس کی اس بات پر کیچن میں موجود تمام نفوس نے الجھن سے حازم علی کو دیکھا تھا۔
"ہاں ہاں کر لے جو کرنا ہے مہد ملک کسی سے ڈرتا نہیں۔۔" اس نے اس کی آنکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں گاڑھتے ہوئے کہا تھا۔
"سوچ لے" حازم نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
"سوچ لیا"مہدنے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
"اچھا سائرہ وہ میں کہہ رہا تھا کہ وہ جو تمہاری دوست نہیں تھی۔۔ کیا نام تھا اس کا۔۔ ارے وہی جو تمہارے ساتھ یونی میں پڑھتی تھی۔۔ کیا نام تھا س کا۔۔۔ خیر نام چھوڑو نام میں کیا رکھا ہے۔۔ مہد مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ لڑکی۔۔۔" حازم انتہائی پر اسرار انداز میں بات کر رہا تھا جب مہد فوراََ اس کی بات کاٹ کر گویا ہوا۔
"کہ وہ لڑکی میری بہن ہے یہی نہ۔۔" اس کے انداز اور بات پر وہ سب ہنس پڑے تھے۔۔ان سب کی ہنسی میں السا جاوید کی بھی ہنسی شامل تھی جس کو دیکھ کر مہد کو طمانیت کا احساس ہوا تھا۔
"کم آن حازم تم جھوٹی کہانیاں نہیں بناؤ۔۔ ہمیں پتہ ہے کہ مہد بھائی کو لڑکیوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔"ماہروش نے حازم کو دیکھتےہوئے کہا تھا۔ اس کی بات پر السا کے چہرے کی مسکراہٹ لمحے میں سمٹی تھی۔۔
" نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے۔۔ میں بتاتا ہوں اس کے شیطانی ذہن میں آج کل کیا چل رہا ہے۔۔" حازم مہد کو اشاروں میں کچھ کہہ کر ان سب کو مخاتب کر کے کچھ کہنے ہی لگا تھا جب مہد نے پھرتی سے آگے بڑھ کر اس کا منہ زور سے بند کیا تھا اور اسے تقریباََ گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گیا تھا۔۔
"ان دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا" سائرہ اور ماہروش ان کو دیکھتے ہوئے اک ہی جملہ بول گئی تھیں۔۔السا نے بس خاموش نگاہوں سے انہیں دیکھا تھا اور پھرسر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میری حقیقت بھی ہے اک خواب کی طرح
خواب بھی وہ کہ جس کی کوئی تعبیر ہی نہیں

ان کہے جذبات (COMPLETED)Where stories live. Discover now