EPISODE 2

23 4 0
                                    


(ماضی)

اسکی ماں کو گئے ہفتہ گزر گیا تھا۔۔ اور اس ہفتے میں وہ زیادہ تر قبرستان میں ہی پایا جاتا تھا۔۔ قبرستان پہ بیٹھا فاطمہ کی قبر کے آگے اسے سب قرآن کی تلاوت ہی کرتے ہوئے پاتے تھے۔۔ وہ پندرہ سال کا تھا اُسے اب تک پچیس پارا حفظ ہو چکا تھا۔۔ یہ اُسکی خود کی خواہش تھی قرآن کو حفظ کرنے کی۔۔۔

مغرب کی آزان ہوتے ہی اُسکے لب خاموش ہوئے۔۔ وہ اٹھ گیا اپنی جگہ سے اور چل دیا مسجد کی جانب مسجد میں پہنچ کر اُسنے وضو کیا اور نماز کی ایک جگہ چن کر وہ وہیں بیٹھ کر اذان ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔ اُسکے انتظار کرنے تک کچھ لوگ وضو بنا رہے تھے تو کچھ لوگ ابھی مسجد میں داخل ہوئے تھے لیکن ایک وہ تھا جو سکون سے بیٹھا اذان کو زرلب دہراتے ہوئے اذان کا جواب دے رہا تھا۔۔ پندرہ کی عمر میں وہ اللہ سے اتنا نزدیک تھا جو کچھ ہی لوگوں کو ایسی عبادت کرنی نصیب ہوتی ہیں۔۔ اذان ختم ہوئی تو سب کے ساتھ وہ بھی کھڑا ہو گیا نماز ادا کرنے۔۔ نماز ادا کرنے کے بعد اسکا رخ ایک بار پھر قبرستان کے جانب تھا، کچھ مخصوص صورتیں پڑھ کر وہاں سے نکل کر گھر کے جانب بڑھ گیا۔۔ گھر میں داخل ہوا تو اسے ہال میں امان دبیر اور انکی بیوی مسز رہنما دبیر بیٹھے نظر آئے نظر دوسرے صوفے پہ گئی تو طہٰ کو اُن دونوں کی اولادیں بھی نظر آئی جو ایک اسکے عمر کا تھا ہاد دبیر اور اُسکی چھوٹی بہن عطیہ دبیر۔۔۔۔ وہ اُن سے نگاہیں پھیرتا آگے بڑھنے لگا جب اُسے کسی نے پُکارا تھا

"طہٰ کہاں جا رہے ہو۔۔؟"

وہ یہ آواز پہچانتا تھا۔۔ یہ آواز زنیرہ دبیر کی تھی۔۔ فاطمہ شہزاد کی ایک لوتی دوست، فاطمہ شہزاد کی چچازاد کزن کی بیوی، اور مریم کی رضاعی ماں کہنا بھی غلط نہیں ہوگا۔۔ اس آواز پہ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے مڑا

"اسلام و علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ۔۔؟"

اسکی ہر عادت ہی اچھی تھی اور ان میں ایک عادت یہ تھی کہ وہ سلام کرنا نہیں بھولتا تھا۔۔ جبکہ زنیرہ دبیر اُسکی حرکت پہ اور اپنی لاپرواہی پہ مسکرا کر رہے گئی

"وعلیکم اسلام۔۔ میں بالکل ٹھیک اور میرا بچا کیسا ہیں۔۔"
انھونے محبت سے اسکا بال بگاڑتے ہوئے کہا

"میں بھی ٹھیک۔۔۔"

مختصر سا جواب دے کر اسکی غیر ارادی نگاہ ہال میں موجود باقی سب پہ گئی۔۔ اُسنے عطیہ دبیر کو اپنی ماں سے سرگوشی کرتے دیکھا جو اسے ہی تضحیک آمیز نگاہوں سے دیکھتی ہوئی عطیہ کو کچھ جواب دے رہی تھی۔۔ طہٰ نے ان دونوں سے اپنی نظریں ہٹائی سب تکلیف دہ تھا بہت تکلیف دہ

"اپنے ڈی ڈی سے نہیں ملو گے۔۔"
زنیرہ دبیر کے سوال پہ اُسکی آنکھوں کی چمک بڑھی

"کہاں ہیں وہ۔۔؟"

اسکی خوشی دیکھ وہ مسکرانے پر مجبور ہوئی۔۔ اُنہونے عطیہ اور مسز رہنما دبیر کی حرکت دیکھی تھی اسلئے طہٰ یہاں سے لے جانا چاہا اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو گئی

دل رازوں کی تشہیر سے ڈرتا ہیںWhere stories live. Discover now