باب پنجم:النفس الاآخر

3 0 0
                                    

باب پنجم:النفس الاآخر

جسکی ابتدا ہوئی اسکا اختتام لازم ہے
اور یہی تو نظام ہے خدا کا
ہر عروج کو زوال ہے
آج خود کے وجود پر غرور نہ کرو
ایک دن یہ بھی مٹی تلے ہوگا
جسکی ابتدا ہوئی اسکا اختتام لازم ہے
آخر ایک دن تم بھی ختم ہو جاو گے
تمہاری سانسیں رک جائیں گی
کب؟کیسے؟کہاں؟کوئی نہیں جانتا
ہو بھی سکتا ہے کہ جو تم جی رہے ہو
وہ 'النفس الاآخر' ہو
کیونکہ جسکی ابتدا ہوئی اسکا اختتام لازم ہے

یہ باب وہیں سے شروع  ہوا جہاں اسکا اختتام ہوا تھا۔۔وہ اندھیر صبح ایک ویران شام میں ڈھل رہی تھی۔رفتہ رفتہ اسکے ویرانیت میں اضافہ ہورہا تھا۔کیا کوئی شام اتنی حد تک خوفناک ہوسکتی تھی؟

آج تین تاریخ ہے۔اس فلیٹ کے کمرے میں موجود وہ آدمی کچھ چیزیں بیڈ پر پھیلائے بیٹھا ہے۔جو شخص کچھ دن پہلے تک اتنا پرکشش تھا،آج کیسے اسکے چہرے پر زمانے بھر کی اداسیوں کا ڈیرہ تھا۔جھریوں زدہ چہرہ،کپکپاتے ہاتھ،آج وہ کہیں سے بھی جمشید مراد نہیں لگ رہا تھا۔

اس کی زندگی ہمیشہ سے دو لوگوں کے گرد گھومتی تھی۔اسکی بیوی اور اسکا بیٹا۔پھر ایک دن وہ انکو چھوڑ گیا۔اسکے بعد اسکی زندگی میں دوسری بیوی اور دوسرا بیٹا آیا۔مگر افسوس کہ وہ دونوں اب سے چھوڑ کر چلے گئے۔

یہ زندگی بھی کیسے کیسے رنگ بدلتی ہے اسے آج اندازہ ہوا ہے،پہلے اس نے کسی کو چھوڑا اور اب کوئی اسے چھوڑ کر چلا گیا۔۔

وہ جوئل کا گٹار لیے بیٹھا تھا۔اسے دیکھ رہا تھا،چھو رہا تھا جیسے اس پر جوئل کے ہاتھوں کا لمس محسوس کررہا ہو۔

ایک باپ کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے نوجوان بیٹے کا جنازہ کندھوں پر اٹھائے۔

اس نے گٹار واپس رکھنے کے لیے بیگ اٹھایا۔وہاں ایک اسکیچ تھا۔اسے اچانک وہ مصور یاد آیا۔۔

کتنی مشابہت تھی اسکے اور جوئل کے چکرے میں۔اس نے یہ بات اس دن نوٹ نہیں کی تھی مگر آج نجانے کیوں اسے وہ یاد آیا۔

وہ تار سے تار جوڑتے ایک نئے سرے پر پہنچا۔تحسین مراد،اسکا بیٹا۔سب کچھ چھوڑ جانے کے بعد آج پہلی بار اسے وہ یاد آیا تھا۔وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے بھول چکا تھا۔اسے شروع شروع میں وہ یاد آتا تھا مگر جوئل کے آجانے کے بعد جیسے جمشید کی زندگی کی کتاب سے تحسین کے صفحے پھٹ چکے تھے۔تحسین کی جگہ جوئل نے لے لی تھی۔لوگوں کو ری پلیس کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

آج کئی سالوں بعد ہی سہی مگر اسے اپنے بڑے بیٹے کی کمی محسوس ہوئی تھی۔
اسکے دل سے چند لمحے کے لہے جوئل کا دکھ نکل چکا تھا۔اب اسے جینے کے لیے نیا مقصد مل چکا تھا۔وہ تحسین کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔

اسکے ذہن پر ماضی کا پردہ سا لہرایا۔جب وہ کام سے دوسرے شہر میں تھا اور اس نے تحسین سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسکی سالگرہ سے پہلے پہلے واپس آجائے گا۔مگر وہ نہ آسکا تھا۔
جب وہ واپس آیا تو تحسین اپنے گفٹس کو کونے میں رکھے کمرہ بند کر کے بیٹھا تھا۔وہ اسکے قریب آیا۔
"بابا مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔آپ نے پرامس کیا تھا کہ آپ میری برتھڈے پر آئیں گے۔"اس پانچ سالہ تحسین آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
"بابا کی جان!بابا کو ارجنٹ کام تھا نہ"اس نے تحسین کو گود میں لے کر اسکے گال کو چومتے ہوئے کہا۔تحسین نے مزید مزاحمت نہ کی۔جمشید نے اپنے پیچھی چھپی وہ بچوں کے کھیلنی کی موٹر کار نکال کر اس کو دی۔جسے دیکھتے ہی تحسین خوش ہوگیا۔
"تھینک یو سو مچ بابا!!"کچھ دیر پہلے والی ناراضگی کی جگہ خوشی نے لے لی تھی۔

ناول:خونی کاغذWhere stories live. Discover now