تیسری قسط

21 1 0
                                    


تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ،
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی۔۔

امن کی موٹر سائیکل پسلی اور اس نے بڑی مشکل اور جبر سے اسے روکا، پانچوں کے پانچوں رک گئے اور امن کی سلامتی پر شکر منایا۔ وہ بتانے سے قاصر تھا کے یہ کیسے ہوا شاید اسکا ذہن ابھی بھی بہت سی الجھنوں سے دو چار تھا۔ خیر اس عمر میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے باوجود بچے کچھ سوچتے ہیں، تو بس اپنا صحیح بتانے والوں کو دشمن سمجھتے ہیں۔

اور اپنی منزل کی جانب گامزن ہوئے۔ منزل۔۔۔۔ آج کل کی منزلیں بھی عجیب ہیں اور ان کے راستے بھی۔

علی: آج تو بال بال بچے اگر کچھ ہو جاتا تو گھر والے آئندہ نہ آنے دیتے، اور ہوسپٹل اور تھانے کا چکر علیحدہ اووف۔۔ اس نے گہری سانس بھری۔۔

رائیس: ارے ایسے کیسے کچھ ہوتا، امن شیر ہے اپنا، اور کسی کی اتنی مجال کے مجھے روک کر رکھے، میں گھر والوں کی نہیں سنتا، اور اخر اکلوتا ہوں اگر اپنی بات نہیں منوا پاؤں تو لعنت ہے مجھ پر۔

ظفر: رییو( رائیس کا نِک نیم)
کیا تم اپنے پیرنٹز سے نہیں ڈرتے؟

رائیس: ارے ڈرناکیسا، اور آج کی دعوت امن کی طرف سے، کیوں امن؟ سب اس بات پر کھلکھلا اٹھے۔

امن: ہاں ہاں کیوں نہیں چلو اب سب چلتے ہیں اللّہ کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں۔

سب نے اپنی اپنی بائک کا پہیہ گمایا اور ایک بار پھر ہوا کےسنگ ہولیئے،

سب دوست ایک اپڈیٹڈ ریسٹورنٹ نما کلب میں پہنچے۔ باہر سے کسی سجے ہوئے قبرستان جیسا معلوم ہوتا تھا۔ ہر وہ چیز یہاں موجود تھی جسے نہیں ہونا چاہیے.

بے باقیٍ من میں، نہ من رہے۔
اس محفل میں ہم نہ ہم رہے۔

بڑی ہی ڈھارس کے ساتھ وہ کلب میں ہنستے ہوئے داخل ہوئے۔

اس سے قبل کے وہ کچھ کھاتے اور مستی کرتے۔
ایک تنقیدی نظر دوڑائی، ہر طرف برانڈڈ ملبوسات میں مردہ دل چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔

ایک جانب ڈرنکس کی لمبی لائین لگی تھی۔ تو دوسری طرف ڈانس فلور ڈانسرز سے بھرا پڑا تھا۔

ایک ایک کر کے پولیس کے اہلکار کلب میں داخل ہونا شورع ہو گئے۔ اسی جگہ پر فرسٹ فلور پر ایک پارٹی میں ڈرگس اور شراب استعمال کر رہے تھے، ویسے تو کلب کے پاس شراب رکھنے کا لائسنس تھا مگر ڈرگس اور بےحیائی کی اجازت نہیں تھی، اس پارٹی میں ایک نو عمر لڑکے کی ذرا سی بات پر اسے لہو لہان کر دیا تھا۔ جب پولیس آئی تو امن اور اسکے دوستوں کو بھی گھسیٹتی ہوئی وین میں بند کر کے لے گئی۔ رائس اور دوسرے امیر زادے شور اور فون ملاتے رہے گئے۔

ایک لڑکا ڈرنک کرکے اپنے آپے سے باہر ہو چکا تھا اور آس پاس کے لوگوں کو برا بھلا کہنے لگا۔

"دماغ خراب کر دیا ہے تم لوگوں نے دافع ہو جاؤ یہاں سے جاہل کی اولادوں مینے ٹھیکا نہیں اٹھایا ہو ا تم سب کی بکواس سننے کا۔" کسی امیر خاندان کی اولاد معلوم ہوتا تھا۔ republic کا سوٹ اور suede کے جوتے پہنے ہوئے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر سے یہ کہہ کر نکلا کے مسجد جا رہا ہے، نیلی شلوار قمیض اور honda بائک لیے۔
مگر رستے سے ہی ایک دوست کے ساتھ کلب کا رخ کر لیا، اس دوست کی قد کاٹھ نہایت مظبوط اور باڈی بلڈرز جیسی معلوم ہوتی تھی، وہ ہر روز مارشل آرٹ کی ورزش کیا کرتا تھا۔ خاصا ہینڈ سم یس سالا نوجوان تھا۔

آج تو جیب بھی بھری تھی کے کل ہی تنخواہ ملی ہے۔ اب اس نے اپنی بہن کی شادی کا سامان جوڑنا شروع ہی کیا تھا کہ ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اسکی وفات ہو گئی وہ اس بات کا اثر اپنے اندر دبائے جی رہا تھا۔

اللّٰہ کے کرم سے اسکی چودویں سکیل سے سولویں سکیل کی ایجوکیٹرز کی جاب ہو گئی تھی۔ حالات بہتر ہونا شروع ہو چکے تھے۔

مگر اس کا دوست ایک امیر طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں کی فیس بک کے ایک گروپ سے دوستی شروع ہوئی تھی اور اب اتنی گہری ہو چکی کے دونوں بچپن کے دوست معلوم ہوتے ہیں۔ یہ جاب بھی سلمان نے ساحر کے کہنے پے اپلائی کی تھی اور اسکی تقرری کے پیچھے ساحر کا ہی کمال تھا کیوں میرٹ پر پاکستان میں کوئی کام ہونا ناگہانی آفت جیسا ہے۔

" کیسی چل رہی ہے زندگی اب، اب تو تم busy ہو گئی ہو، یا دوبارہ کسی وہم کا شکار ہو".

"ہاں اب سب ٹھیک ہو گیا ہے شاید، مگر اب بس گھر جلدی سے بدلنا یے یہاں مجھے گئے دنوں کی یاد بہت ستاتی ہے"۔

"انشاللہ جلد ہی یہ مثلا بھی حل ہو جائے گا"۔
دونوں ایک ہوٹل میں گئے اور وہاں کچھ کمالات کے جواہر دکھانے کے بعد آدھ بیعوش حالت میں فلیٹ پے چھوڑ گیا۔ یہ فلیٹ ساحر نے اسلام آباد سے یہاں آنے کے بعد خریدا تھا۔

سلمان کے جانے کے بعد ساحر نے کافی بنائی اور اپنے دفن کیے ہوئے زخم کریدنا شروع کیئے۔

اس کی شروعات چائے کے اس کپ سے ہوئی تھی جس میں شاید اس شراب سے بھی زیادہ نشہ تھا کے جو وہ ابھی پی رہا تھا۔ صوفے پے پیر پھلائے وہ کچھ سوچ میں بے اختیار بول پڑا۔۔۔۔
ایک نام جو اس کے حوادث پے چھایا ہوا تھا۔

"نور۔۔۔۔۔ نورلعین۔۔۔" اس نے لمبی سانس بھری اور اسکی سرخ پڑے چہرے کے کنارے سے، سرخی مائل آنکھوں سے چند قطرے آنسوؤں کے بے ساختہ گر گئے۔۔۔

وہ یہ یاد کرنے لگا کے کیسے اسکی بات ایک لڑکی سے ہوئی تھی جو بہت مغرور اور اکڑو معلوم ہوتی تھی۔ اور کس طرح وہ ذرا ذرا سی بات، دوستی اور پھر نہ جانے کب پاک اور بے لوث محبت میں بدلتی گئی۔ اس نے ملنے سے انکار کردیا تھا سلمان بہت ناراض ہوا مگر اچانک ایک دن جب وہ ریڈیو پاکستان سن رہا تھا ایک آیت کے ترجمہ نے اسکے رونگٹے کھڑے کر دیے۔
سورۃ نور۔ جسکا ترجمعہ کچھ یوں تھا۔
"کے نیک عورتیں نیک مردوں کے لئے ہیں، اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کیلئے۔"
اس بات سے اسکے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔اور وہ گہری سوچ میں مبتلا ہو کے
گیا۔ نہ جانے کب سو گیا اور رات نے سب کی تکالیف اور رنج و الم کو ڈھانپ لیا۔۔۔۔

ذی روح Zee Roohحيث تعيش القصص. اكتشف الآن