second episode دوسری قسط

30 1 1
                                    

حِرا

نفس تو کب کا مر چکا ہے۔
اور خواہش کو ماضی میں چھوڑ آئی ہوں۔
سب رنگینیاں اپنی،
مُردہ دِلوں کے ساتھ، انھیں بھی مار آئی ہوں۔

آیا نہ ہاتھ کچھ بھی جُستجو میں ساحر،
بے کار سے کچھ بہانے میں بھی سیکھ آئی ہوں۔۔۔

کل شاید میں کمرے میں آکیلی بیڈ پے نیم نیند کی حالت میں سو رہی تھی۔ کہ اچانک کسی نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کھینچتا ہوا دور کے صحن میں کے آیا۔ میں تو بے زار اور دل کی گہرائیوں سے مایوس اک زندہ لاش کے جیسی بستر پے پری تھی کے اس زندگی کہ بوجھ نے مجھے توڑ ڈالا ہے ۔۔۔ آہ کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیوں میں اس دنیا میں آ گئی، جو میرے مزاج سے بلکل نہیں ملتی۔۔۔

خیر وہ بولے کے اندر کیوں گرمی میں جل رہی ہو دیکھوں باہر بارش ہو رہی ہے کتنی تاذہ اور ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔
مینے آہ بھری اور اس چہرے کو پہچاننے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکی۔۔۔ نہ جانے جون تھا جانا پہچانا اجنبیوں سا۔۔۔۔ کہنا مشکل ہے۔۔۔۔ کس کو مجھ سے زار انسان کی اتنی فکر لاحق ہوئی اخر یہ ہے کون۔۔۔۔۔۔
-------------------------------------------

ایک جِلملاتی صبح کا آغاز کچھ اچھا نہیں رہا۔ مگر نہ جانے کیوں اک امید سی دل میں جاگی تھی، کچھ سیاسی اور کچھ پرسنل حالات و واقعات نے دل کو مہو حیرت و استعجاب رکھا ہوا تھا، سانس لیتے بھی گُٹھن سی محسوس ہو رہی تھی۔ آنکھیں کچھ نمی اور کچھ خشک سالی کا شکار تھی۔ نہ وقت کی کچھ خبر نہ حالات کی۔
حرا ایک اسکول میں پڑھایا کرتی تھی، چونچہ رات کے خواب کے کچھ حصے اپنی سوچ میں لپیٹے، ناشتہ کیا اور اسکول کی جانب روانہ ہوئی۔ امی نے سلام دعا دیتے رخصت کیا۔
راستے میں وہ کبھی نظر جھکائے کبھی چلتی ہوئی زمین کی جانب دیکھتی رہتی تھی۔ سوچ کے گھڑے پر انگنت معاملات دوڑاتی ہوئی وہ اسکول پہنچ گئی اور اپنی درس و تدریس کی ڈیوٹی انجام دیں۔

بریک کے دوران جب کے ہر طرف چہل پہل ہوتی ہے ایک انسان ہے کے جس کے اندر تک خزاں کا موسم چھایا ہوا ہے۔

کچھ وقت اوف وائٹ رنگ کی دیواروں خالی ذہن سے دیکھنا، اور کچھ کچھ سٹاف ممبرز کی باتیں سننا اور کچھ جواب دینے کی کوشش کرتی رہی، انکے مسائل مثلاً گھر کے مسائل، شادی شدہ زندگی کے، بچوں کے اور بہت سے ایسے مسائل جن کو وہ ابھی تک جان پائی تھی۔ ہر طرف خوشی کا سماں تھا عید کی آمد آمد تھی اور سب اس کی تیاری کے متعلق بات کر رہے تھے، وہ سب کو سنتی رہی اور کچھ ہاں ہوں بھی کرتی رہی، شاید اسکا ذہن ابھی حقیقت اور تصور کو ملائے چل رہا تھا وہ کچھ سوچ رہی تھی کچھ ایسا کے جس کی سوچ کے کرب نے اس کی سانسیں اکھڑی ہوئی محسوس ہوہی، اسکی آنکھوں میں نمی برقرار رہی، مگر کسی نے اس بات کو محسوس نہ کیا کہ اب تو وہ اس عمل میں ماہر ہو چکی تھی، اس بات کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے مگر ابھی بھی کچھ سوال تھے جو اسے کرب میں مبتلا رکھے ہوئے تھے کچھ آواز کی لہریں اور کچھ ناگزیر الفاظ جو اسکی ذات کے حصّے بن چکے تھے ایک ناسور کی طرح دن رات اسے کرب میں مبتلا رکھتے تھے۔ مگر اس بار کا اندازہ شاید اسے خود بھی نہیں تھا۔

ایک کونے میں بیٹھی تھی کہ کہیں دور نکل گئی۔

" میں یہ جانتی ہوں کہ میں غلط نہیں تھی۔ میں نے کچھ غلط نہیں کیا، نہ کبھی اس نے مجھے کچھ غلط کرنے کا کہا، اگر ایسا تھا تو غلطی کہاں تھی؟، کون جھوٹا تھا؟ اور کون آگاز سے ہی مخلص نہیں تھا؟ شاید اللّٰہ نہ مجھے کچھ بتانا تھا ہاں وہ ایک قسم وہ ایک واعدہ جو میں نے اللّٰہ سے کیا تھا شاید۔۔۔۔۔
مگر ایسا تھا تو جو ہوا ایسا کیوں کر ہوا، اگر اللّٰہ کی مرضی تھی کہ وہ میری زندگی کا حصّہ بنے، تو پھر وہ الگ کیسے ہو گیا، کیا اسے اپنے عہد کا پاس نہیں تھا، اگر وہ واقعی اتنا گرا ہوا اور مکار تھا تو میرے دل نے اس کے حق میں گواہی کیوں دی تھی، کیوں اللّٰہ جی اسے میری زندگی میں لائے۔۔۔۔ میں اس درد سے آرام چاہتی ہوں یارب۔ مجھے بھی اس دنیا جیسی مکاری اور ریاکاری سکھا دے یا اللہ جی"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی کشمکش میں اسیر تھی کے عائشہ نے اچانک سے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولی۔ "کن سوچوں میں گم ہو چلو بازار چلتے ہیں شوپنگ کے ساتھ گول گپے بھی کھائیں گے"۔......

ذی روح Zee Roohحيث تعيش القصص. اكتشف الآن