پانچواں قسط

26 1 0
                                    

حرا

"کیا رونے سے درد کم ہو جاتا ہے؟"
"رو رو کے آنکھوں کی بینائی کھو دی جائے تو شاید ایسا ممکن ہے" انجانی آواز۔۔۔۔۔
جب چوٹ لگتی ہے تو درد ہوتا ہے، ہم روتے ہیں کبھی آہستہ کبھی واویلا کرتے ہیں، مگر ہم روتے ہیں یا یہ آنسوں خود ہی نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔
مگر ہم رو کر چپ کر جاتے ہیں اور ہلکا محسوس کرتے ہیں۔
درد کم ہوا کے نہیں مگر ہم رو کر کچھ اچھا محسوس کرتے ہیں۔
شاید اس لئے بھی کہ ہمارے مردہ دل اس زہر سے آزادی حاصل کرکے زندہ ہو جاتے ہیں۔ ہاں شاید یہی وجہ ہے۔ کاش کے آج بھی دن ویسے ہی رنگوں بھرے ہوتے۔۔۔ نہ یہ زندگی اتنی بوجج معلوم ہوتی۔ وہ اپنے آپ ہی ذہن میں اس ساری کشمکش کو سلجھا رہی تھی۔ پھر اسے یاد آیا کہ اب اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی باقی نہیں رہا۔۔۔ زندگی اجیرن ہو جائے مگر مرتے دم تک ہمیں جینا تو ہے۔۔ 

بغیر گھر والو کے رہنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا سمندر کی گہرائی میں سانس لینا۔
ماضی کی یادیں ناسور کی طرح چبتی رہتی ہیں۔۔۔۔
کس طرح سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی ہوائیں در و دیوار کو ٹٹولنے لگی دن گزرتے گئے اور ماضی پیچھے چھوٹتا گیا۔۔۔
سکول جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی جب اسے ایک میسج موصول ہوا۔

"جب دین وراثت میں ملتا ہے تو اسمیں ثقافت کی ملاوٹ بھی شامل ہوتی ہے۔۔"

دن اجلا تھا مگر دل بُجھے تھے ماضی کی یادیں کچھ باتیں، وہاں پر موجود لوگوں کی آوازوں میں سنائی دے رہی تھی۔۔

" ہاں ایسی اولاد بھی الل٘ہ کسی کو نہ دے، جو پیدا ہو تو ماں ہی مر جائے۔"
ایک چرب زبان عورت سکن کلر کے برینڈڈ سوٹ میں ملبوس، عورتوں کے درمیان بڑبڑا رہی تھی جب کے سب گونگوں بہروں کے جیسے اس کی ہاں میں ہاں ملائی جارہی تھی۔۔
جب اسے دیکھا تو مایوس سی شکل بنا کر، آہ بھری اور بولی۔

"گھر میں قرآن خوانی رکھوائی ہے تمہاری امی کے لیے۔ مسجد کے بچوں نے دس قران مجید مکمل کئے ہیں تمہاری امی کے لئے۔"
اس نے بات سنی ان سنی کر دی۔

اس کی نظر پھوپھی پر پڑی جو آج گھر میں موجود تھی مگر انکی ڈریسنگ دیکھ کے لگتا تھا کسی شادی میں آئی ہیں۔ بلو اور گرے کلر کا expensive سوٹ۔ فل میک اپ۔ اور خوش گپیاں۔۔

اس سے اچھا تھا کے میں مر جاتی۔ کم سےکم ان نمونوں کو سکون تو آ جاتا، مگر تب بھی یہ میری ماں کو نحوسیت کے درجے پر فائز کر دیتے۔ دل میں بھڑبھڑاتی ہوئی گھر سے باہر جانے لگی تھی کے اسکا کزن آگے سے آ رہا تھا گنگناتے ہوئے۔
اس نے اسکی طرف دیکھا اور منہ چڑاتی باہر آئی کچھ اور تماش باز انکھوں سے گزرے۔
"بس اسی کی کمی تھی۔"

یہ تام جام یہ خوش گپیاں، یہ رنگین مزاجی کیا ہے ماتم کی جگہ ہے یا شاد خانہ 
آج تو میں لیٹ ہی واپس آہوں گی۔ ویسے ہی آج آخری دن ہے کالج کا۔ وہ سوچتی ہوئی کتابیں ہاتھ میں زور سے دبائے گاڑی میں بیٹھی، اور ڈرائیور گاڑی سٹارٹ کر کہ لے گیا۔
سکول کے مناظر وہ ڈسک، وہ کینٹن، وہ مستیاں، دوستوں کی باتیں، وہ ٹیچرز کی ڈانٹ اور کچھ اپنوں کا ساتھ۔ یہ وہ دن تھا جب اس کی کالج لائف کا اختتام تھا۔

سب کے سب اسکی بے حس خالی آنکھوں سے گزرے رات کا وہ پہر ہے جس میں شاید پاگل یا دیوانے ہی جاگتے ہوں۔۔۔۔۔ وہ دوبارہ اسی کمرے میں کھڑی ہے دیوار سے ٹیک لگائے، ماضی کو جھاڑتی ہوئی۔  

ہر طرف سکوت اور خامشی کی چادر ہے زندگی کچھ زندہ مردہ سی محسوس ہورہی ہے۔ بالکنی میں کھڑی وہ ماضی، حال اور مستقبل کے چند نقات پر خالی ذہن سے کرید رہی ہے۔ گرمی کا موسم ہے مگر اس وقت تاروں کے جھرمٹ سے ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔۔۔ مایوسی، بے بسی، مشکلات اور اکیلا پن اسکے ساتھ ٹہل رہے ہیں۔۔۔
کچھ دیر بعد اپنے کمرے میں جا کے سو گئی۔ اور دنیا سے بے نیاز ہو گئی۔

لقد وصلت إلى نهاية الفصول المنشورة.

⏰ آخر تحديث: Feb 25, 2021 ⏰

أضِف هذه القصة لمكتبتك كي يصلك إشعار عن فصولها الجديدة!

ذی روح Zee Roohحيث تعيش القصص. اكتشف الآن