مفاداتِ حیات
خوابوں میں کھوئے ہم نہ ملنے کے۔۔۔۔۔
بھولے سے بھی نہ اب پکارے جائے۔۔۔۔۔۔بڑی امی بڑے بڑے ڈب لیتی کہتی جا رہی تھی۔
جیسے جہنم سے بلاوا آ رہا اور اسکے دربان مجھے سر سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔یوں لگ رہا تھا کہ یہ آخری نیند ہے, آج کے بعد جیسے کبھی اٹھنے والی نہیں ہوں، عجیب سے درد سے دل اور دماغ افسردہ حال تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر کیا خبر کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔۔۔ شاید یہ تھکن ہے خواہشات کے بوجھ کی جو دل میں اٹھائے پھرتی ہوں۔۔۔ابھی اس بات کو لاشعوری سے شعور میں آنے میں کچھ وقت درکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
فکرمندی اور مامتا سے بھری ہوئی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔ اور خواب، نیند اور زندگی و موت کا تصور ایک بار پھر دنیا کی فکر میں کھونے لگا اور سارے خواب وخیال ماند پڑنے لگے ۔۔۔۔
"کالج کے لیئے دیر ہو رہی ہے آج اٹھ بھی جاؤ گی یا نہیں جانا آج رات کو تو کہہ رہی تھی کے صبح لازمی جائے گی۔۔۔۔۔مممم
کالج کسی سہیلی کی سالگرہ جو ہے۔" اتنا سننا تھا کہ وہ اچانک سے پلنگ سے اٹھی اور نائن ایم ایم کی گولی کی رفتار سے تیار ہوئی۔
" شکر ہے بڑی امی آپ نے یاد دلا دیا، بس کچھ رات کو دیر سے سوئی تھی تو اٹھا نہیں جا رہا تھا، چلیں آپ اب پاپا کو مت بتانا اوکے گڈ بائے".
بڑی امی دراصل اسکی دیکھ بھال کے لیئے رکھی گئی تھی مگر جب سے حرا کی امی چل بسیں وہ ہی ماں کی طرح اسکی دیکھ بھال کرتیں ہیں اور اسفند صاحب نے بھی انہیں حرا کی پوری ذمہداریاں دے رکھی ہے۔ خود تو وہ زیادہ تر بیرون ملک دوروں پے رہتے ہیں۔ آخر اتنے برے شہر کے میئر ہیں وہ مگر ہاں وہ اپنی بیٹی کے لئے خاصے پریشان رہتے تھے انھوں نے دو بوڈی گارڈ بھی رکھے تھے مگر پھر حرا کی ذِد کی وجہ سے نکال دیئے مگر اب بھی خفیہ ایجنڈ اسکی حفاظت کرتے ہیں۔ کیوں کے اچھے برے سب کے بہت سے دشمن انجان رستوں پے مل ہی جاتے ہیں۔ یہ وہ سال ہیں جب زندگی شروع کی انگڑائیاں لے رہی ہے۔ سب کچھ بہت آسان اور اپنی دسترس میں دکھائی دیتا۔ مگر کیا خبر کے اک دن یہ خواب زدہ زندگی ایسے اندھیرے موڑ کاٹے گی کہ حرا موت کی خواہش کو ایسے لبِ فریاد پے رکھے گی جیسے کوئی تسبیح کرتا ہے۔۔۔۔۔
زندگی اور، کئی اور رنگ بدلتی ہے۔۔۔
ہاں مگر، ہاں تم سے کم ستم کرتی ہے۔۔
ستم ظریفی پہ، ٹھوکروں پے،
دردِ زندگی پے۔۔
ہم کیسے نہ کرائیں؟ستم تو یہ ہے کہ بظاہر کوئی زخم نہیں ہے۔۔
لہو نہیں ہے، خراش نہیں ہے۔۔
چوٹ روح کی، روح آدمی کی اور۔۔۔
بھلا روح کو، وہ بھی آدمی کو،
ہم کیسے دکھائیں۔
ہم کیسے دکھائیں۔
دوکھے دے کہ پھر یہ جانے کہ۔
کسی کے دوکھے میں، ہم نہ آئیں۔۔
زندگی کو، زندگی کو بدعا بھی
ہم کیسے بنائیں۔۔۔دن کا آغاز اچھا تھا دوست کی سالگرہ منائی، خوب موج مستی کی سب کچھ جو اسکے دل کو سکون دے سکتا تھا سب کر لیا۔۔ گھر جانے کے انتظار میں بیٹھی کچھ سوچھ رہی تھی اور ساتھ ہی کالج کے وسیع صحن میں موجود لڑکیوں کو بھی دیکھ رہی تھی۔۔۔
اک خلا ہے جو پر ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔۔۔اسرا اسکی کلاس میٹ کچھ کہنے اس کے پاس آئی۔
کچھ ہچکچاہٹ سے بولنا شروع کیا کبھی اسکو دیکھتی کبھی دور کھڑی دوسری کلاس فیلوز کو۔۔"مجھے تم کچھ پریشان معلوم ہوتی ہو۔ کیا ہوا ہے"۔
"نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے، تم کیوں کہ رہی ہو؟"۔
"ایسے ہی۔ کیونکہ مجھے تماری آنکھوں میں اک خلا محسوس ہوتی ہے۔ کیا تم خود جانتی ہو ایسا کیوں ہے"۔
اسرا نے بنا سانس لیئے سب بول دیا جو وہ پچھلے دو سالوں میں محسوس کر رہی تھی۔ مگر کیونکہ حرا ایک امیر خاندان کی لڑکی ہے اور ہر وقت اسکے مریدوں سے گری رہتی ہے آج امتحانات سے پہلے انکا آخری دن ساتھ تھا سب ایک دوسرے سے گلے شکوے مٹا رہے تھے۔۔۔ اور آج کے بعد حرا کی سب دوستوں کو اسکی اور اسکے ہائی سوسائٹی اثرورسوخ کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی اسی لیئے کوئی نہ کوئی بہانا بنا کے سب جلدی چلی گئی یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج وہ دیر سے گھر جائے گی۔ کیونکہ اسکی ماں کا سال تھا آج۔۔۔آب و بارود بنے، نہ کوئی ذرا سی چنگاری جلائے اور آپ شرشری کی طرح اچھلتی کودتی آسمان سر پہ اٹھا لیں۔۔ دوسروں میں کچھ اچھائیاں ہیں کچھ برائیاں مگر وہ مکمل تور پر برے نہیں ہیں۔
The world is rather grey and dark.
أنت تقرأ
ذی روح Zee Rooh
Духовные- كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْت Kullu nafsin zaiqatul maut Every soul shall taste death.