چِڑیوں کی چہچہاہٹ اور پرندوں کے سُریلے گیتوں نے ایک نئی صبح کا آغاز کیا ۔کل رات کی موسلادھار بارش کے بعد موسم نہایت خوشگوار ہوگیا تھا۔ سورج کی کِرنیں اپنی روشنی ہر سو پھیلا رہی تھیں۔ دِسمبر کی سرد ہوائیں ایک خوبصورت احساس کی طرح ہر شے کو حسین اِمتزاج بخش رہی تھیں۔ لان میں لگے لہلہاتے پھول اور پتّے مسکراکر اپنے نکھرنے کی نوید دے رہے تھے۔
موسم میں خُنکی شامل ہو گئی تھی۔ کھوئی کھوئی سی عرشیہ اپنے ٹیرس پہ کھڑی کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔اپنے شانے پرکسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کرکے وہ چونکی۔
کہاں کھوئی ہوئی ہو ٗ کن سوچوں میں گم ہو؟" وہ اُسکے چہرے کو بغور دیکھتا ہوا بولا"
ارے آپ کب آئے ؟ ناشتا کرلیا کیا؟" عرشیہ نے پردے برابر کرتے ہوئے پوچھا۔ وہ ابھی ابھی جوگنگ کرکے واپس لوٹا تھا"
ہم ناشتا آپ کے بغیر کرلیتے؟" اُس نے اُسکے بالوں کو نرمی سے چھوا"
میں تو بس موسم کا جائزہ لینے یہاں آگئی تھی ٗ کتنا خوبصورت موسم ہورہا ہے نا !!" کِھلی ہوئی مسکراہٹ عرشیہ کے چہرے" سے ظاہر تھی۔ صبح کی مدھم روشنی، پھولوں کی دھیمی خوشبو اور گیت گاتے پنچھی اُسے اپنی کمزوری لگا کرتے تھے۔اُسے ہمیشہ سے ایسا موسم بہت دلکش لگتا تھا۔
"تو کیا خیال ہے پھر؟ کیوں نہ ایسے خوبصورت موسم سے لُطف اُٹھائیں اور کہیں ایسی جگہ چلیں جہاں بس میں اور تم۔۔۔۔"
"شارق۔۔!! میں آپکی شرارتیں خوب سمجھتی ہوں، موسم کا مزہ بھی لیں گے فالحال تو آپ ڈائننگ ٹیبل پر چلیں امّی ہمارا انتظار کررہی ہونگی، آپ نے مجھے بھی باتوں میں لگا لیا."
"جو حُکم ملکۂِ عالیہ کا۔" شارق نے سر کو ہلکا سا خم دیا اور محبت سے اُسکا ہاتھ تھام کر باہر کی جانب بڑھ گیا****ٌ******************************
سُمیر یزدانی اور حیدر یزدانی دونوں بھائی تھے۔ دونوں 'یزدانی پیلیس' میں نیچے اوپر کے پورشنز میں رہتے تھے ۔ سُمیر یزدانی، حیدر کے بڑے بھائی تھے اور وہ اوپر والے پورشن میں اپنی بیوی زُنیرہ اور بیٹی عرشیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ اُنکی تین ہی بیٹیاں تھیں جسمیں عرشیہ کا نمبر سب سے آخری تھا۔ وہ اُنکی سب سے چھوٹی اورلاڈلی بیٹی تھی۔ اُنکی بڑی دونوں بیٹیاں آئزہ اور مہوش شادیوں کے بعدکینیڈا میں مُقیم تھیں۔ جبکہ حیدر یزدانی نیچے والے پورشن میں اپنی بیوی انیلہ اور بیٹے شارق کے ساتھ رہتے تھے۔ شارق اُنکا اِکلوتاسپوت تھا۔ دونوں گھرانوں کے آپس میں بہت اچھے تعلُقات تھے۔ اِن سب نے اپنا آشیانہ بہت خوبصورتی اورڈھیر ساری مُحبتوں سے سجایا تھا۔اِنکا شُمار نہایت سُلجھے ہوئے گھرانوں میں ہوتا تھا۔
عرشیہ اور شارق ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم تھے۔اُن دونوں کی مُحبت کسی سے چُھپی ہوئی نہیں تھی۔ وہ دونوں بچپن سے ساتھ ساتھ ہی رہے تھے اور ہم عُمر ہونے کے باعث دونوں کی اسکولنگ بھی ایک ہی جگہ سے ہوئی تھی۔ دونوں نے ساتھ ہی ایم۔بی۔اے کیا تھا۔وہ دونوں زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوجے کے سنگ رہے تھے۔
شارق کے ایم۔بی۔اے کرنے کے دوران ایک دِن اچانک حیدرصاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جسے وہ برداشت نہ کر پائے اور اِس دارِ فانی سے رُخصت ہوگئے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی شارق اور عرشیہ کی منگنی کر گئے تھے۔ اُنکا سارا بزنس اب شارق بخوبی سنبھال رہا تھا۔ کُچھ عرصے بعد دونوں کی شادی کردی گئی اور اب اُنکی شادی کو ایک ماہ ہو چلا تھا۔ عرشیہ شارق کے ساتھ بہت خوش تھی، یہ زندگی کا وہ خواب تھا جو دونوں نے ساتھ مِل کر دیکھا تھا۔لیکن کبھی کبھی نجانے کونسی ایسی بات تھی جو عرشیہ کو ایک انجانی سی پریشانی میں مُبتلاکر دیتی تھی۔ شارق محسوس کرتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ عرشیہ خود اُسے اپنی پریشانی بتائے۔
****ٌ********************************
CZYTASZ
اَشکِ وفا
Romans!سفرِ حیات کی کٹھن راہ گُزر سے محبت کی نگری میں ایک قدم ،روح پر نقشِ لازوال ہے تو ،اب خیالوں میں ایک خیال ہے تو ،تیرے جیسا کوئی نہ دیکھا ،تو ہے انمول، بے مثال ہے تو ،مجھ کو پاگل بنادیا تو نے ،عشق کا کیسا یہ کمال ہے تو ،تو محبت ہے ، آرزو ہے میری ،میر...