احساس

6K 164 88
                                    

قسط نمبر 1:
اپنوں اور بیگانوں سے جڑے ارمان لکھتی ہوں
شوق ہے میرا میں جذبات لکھتی ہوں
تھی جو توقع اپنوں سے وابستہ
انکا ہوا کیا انجام لکھتی ہوں
کبھی جو کھل کر نہ برس پائے اشک
انکی دیکھی ہے جو برسات لکھتی ہوں
کر دیں ختم امیدیں تھیں جو دوسروں سے وابستہ
اپنے خالق و مالک پر کر کے  بھروسہ کچھ الفاظ لکھتی ہوں
میرے شوق کا موازنہ نا کرنا شعروشاعری سے
سادہ سی لڑکی ہوں گمشدہ سے الفاظ لکھتی ہوں
مجھے معلوم ہے عنوان الگ ہے میرا
تم سودوضیاں کا احساس اور میں احساس لکھتی ہوں
جو  لکھی ہر لڑکی کی داستاں تو بن گئی اک کہانی
رکھ کر اسکا اک عنوان نام "احساس " لکھتی ہوں  

"السلام عليكم"  سائرہ بھابی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں مگر بیڈ  پر نظر ڈال کر وہ آگے بڑھیں اور بے سد پڑی لڑکی پر سے کمبل ہٹایا "گڈ مارننگ "
"آہا۔۔۔ بھابی تھوڑی دیر اور پلیز " پریشے نے  کہہ کر دوبارہ کمبل اوپر لے لیا
"میری جان مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے پر آپ کے  بابا اور بھائی جان لیٹ ہو جائیں گے آپ تو جانتی ہیں وہ آپ کے بغیر ناشتہ نہیں کرتے " سائرہ نے کمبل کو کھنچا
"آپ چلیں میں آتی ہوں"  پریشے نے مسکرا کر کہا اور بال پونی میں باندھنے لگی 
پانچ منٹ میں تیار ہو کر وہ نیچے آ گئ۔ وہ سیڑییاں اتر رہی تھی جب جہانگیر صاحب جو ناشتے کے ٹیبل پر اسکا انتظار کر رہے تھے انکی نظر اپنی اکلوتی بیٹی پر پڑی اور انکی نگاہ اس پر ٹھہر سی گئی ۔۔ اس نے ریڈ کرتا اور بلیک ٹراوزر پہن رکھا تھا بالوں کی پونی بنا کر آگے کاٹے گئے پف کو وہ پن لگا کر پیچھے کر رہی تھی وہ ہمیشہ پمپس پہنتی تھی اور آج بھی اس نے ریڈ پمپس پہنے تھے ۔ اس کے سیاہ بال زیادہ لمبے نہیں تھے مگر کمر ڈھک دیتے تھے ۔۔ جہانگیر صاحب نے اپنی بیٹی کو ہر خوشی دی تھی بس ایک ماں کی کمی تھی جو اسکی زندگی میں وہ  کبھی پوری نہیں کر سکتے تھے ۔۔ وہ جب ہستی تھی، تو وہ ہستے تھے،دنیا ہستی لگتی تھی  اور روتی تھی..۔۔تو انکی زندگی تھم جاتی تھی
"السلام عليكم ایوری ون " پری نے بابا جان کو پیار دیا اور بدلے میں اپنا گال آگے کیا اور انہوں نے بھی اسے  پیار دیا۔ (پری ہمیشہ انکو پیار دے کر فوری طور پر اپنا گال بھی آگے کر لیتی تھی ) اور پھر اسنے  حسن کے ساتھ والی کرسی سمبھالی بیٹھنے کی دیر تھی کے پری کو اچانک اپنے بازو پر  چبھن محسوس ہوئی مگر اسنے اگنور کر کے بریڈ اٹھانے کے لئے ہاتھ آگے بڑایا ۔۔جب ایک بار پھر اسے چبھن محسوس ہوئی اب کی بار چبھن زیادہ تھی وہ  چیخ اٹھی ۔۔۔۔
"حسن بھائی بس کریں حد ہو گئی ہے " وہ جانتی تھی یہ حرکت اسی کی تھی کیوں کے وہ آتے وقت سیفٹی پن اسکے ہاتھ میں دیکھ چکی تھی
"دیکھا بابا جان آتے ہی انکی فائٹ سٹارٹ ہو گئی ہے " سائرہ نے مصنوئی غصے سے کہا کیوں کے ناشتے کے ٹیبل پر انکی مارننگ۔۔ گڈ تب تک نہیں ہوتی تھی جب تک پری اور حسن کی لڑائی نا ہو جائے ویسے تو ان  میں پانچ سال کا فرق  تھا مگر لگتا نہیں تھا
"حسن اب تو باز آ جاؤ ڈاکٹر بن گئے ہو ۔۔اور خبردار میری پرنسیس کو کچھ کہا تو " ولید نے بھی اپنا حصّہ ڈالا
"بھائی آپ کو تو بس پری سے پیار ہے نا مجھ سے  تو بس بابا محبت کرتے ہیں " حسن نے معصوم شکل بنائی کیوں کے ولید ہمیشہ پری کی سائیڈ لیتا تھا
"ہاں بابا جانتے ہیں نا انکا بیٹا اب پاگل ہو چکا ہے۔۔پڑھ پڑھ کر ۔۔" پری آنکھیں مٹکا مٹکا کر بولی جس پر سب ہنس دئیے حسن اور کسی کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اسنے اسامہ کو شکار بنا لیا جو ناشتہ کرتے وقت بحث کو انجوائے کر رہا تھا
"اوہ تمھیں زیادہ ہنسی آ رہی ہے " حسن اسامہ سے مخاطب ہوا
"چاچو آپ اور پھوپو ٹوم اینڈ جیری کی طرح لڑتے ہیں " اس سات سال کے بچے کی اس بات پر سب  کھلکھلا  کر ہنسے۔۔
"بیٹا تیری بہن نہیں ہے نا جب وہ آ کر تیرے حق پر ڈھاکہ مارے گی نا تو تم سے پوچھوں گا "حسن نے معصوم شکل بنائی ۔۔ اور جہانگیر صاحب نے اپنی اس خوش حال فیملی کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ  بھری ***********************************
"آنی میں نے تم سے کتنی بار کہا ہے اپنے منگیتر کو کہا کرو تمھیں لینے نا آیا کرے " یونیورسٹی سے نکل کر پری کی نظر عنایہ کے منگیتر پر پڑی جو اسے لینے آیا تھا اور پری کا پارا ہائی ہو گیا
"یار پری اگر تم میری بیسٹ فرینڈ نا ہوتی تو تمھیں بتاتی میں ۔جو تم ہر وقت میرے منگیتر کے پیچھے پڑی رہتی ہو" عنایہ نے ہنسی دبا کر کہا
"ہاں ہاں میری جان جیسے تم بڑے قصیدے پڑتی ہو نا اس کے "وہ باتیں کرتی  ہوئیں عنایہ کے منگیتر کے پاس آ کر رکیں
"السلام عليكم "عنایہ نے انتہائی نرم لہجے میں کہا
"یار میں گھنٹے سے تمہارا ادھر انتظار کر رہا ہوں اور تم ہو کے آرام آرام سے آ رہی ہو ۔ادھر میرے گھر والے تمھارے گھر تمہارا انتظار کر رہے ہیں " وہ  بھڑک اٹھا
"اوہ ہیلو مسٹر آرام سے بات کرو تمہارا گھر نہیں ہے یہ سمجھے " پری روڈلی بولی
"یار تم تو میرے منہ مت لگا کرو " اسنے پری کو کہا
"ہو کیا چیز تم ۔۔(پری نے کندھے اچکا ئے)  جو تمھیں منہ لگاؤں ۔ " پری کے ماتھے پر شکن آئ
"میں فضول بحث نہیں کرنا چاہتا "
"وہ تم سے پیار سے بات کر رہی تھی تم ویسے ہی جواب دیتے نا ۔ اسی طرح میں ہر انسان سے تمیز سے بات کرتی ہوں پر تمھیں مجھ سے تمیز نہیں دینے ہوتی کیوں کے تم ڈیزرو نہیں کرتے " پری نے غصے سے کہا عنایہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا جو اس بات کا اشارہ تھا کے بس کرو ۔۔پری کی آواز اونچی تھی مگر  وہ جتنا بھی غصے سے بول لے مگر اسکی  آواز نرم ھی رہتی تھی۔۔
"چلیں ہمیں دیر ہو رہی ہے نا " عنایہ نے بچتے ہوے کہا
"میں بھی جا رہی ہوں " پری  عنایہ کو دیکھ کر بولی  اور اس کے منگیتر کو ایک گوری سے  نوازتے  ہوے  چلی گئی
************************************
"بھابی۔۔ بھابی کہاں ہیں "آج اتوار تھی تو پری لیٹ اٹھی تھی اور اب دوپہر ہو چکی تھی وہ کمرے سے نکل کر نیچے آئ جب بھابی کو آواز لگائی
"خالدہ آپا بھابی کدھر ہیں " خالدہ (خانساماں ) کچن میں برتن دھو رہی تھیں جب پری کی آواز پر کچن کے دروازے کی طرف دیکھا
"وہ جی ارمان صاحب آئے ہیں انکے ساتھ باہر بیٹھی ہیں .  . . . . " اس سے پہلے کے وہ اور کچھ کہتی ارمان کا نام سن کر وہ باہر کی طرف بھاگی
"چوّل انسان تم کب آئے انگلینڈ سے۔۔ ایسے چھو منتر ہو گئے تھے "پری کی آواز پر وہ دونوں جو بات کر رہے تھے انہوں نے پری کو دیکھا جو دور سے بولتی آئ تھی اور ان کے پاس پوھنچنے تک اپنی بات مکمل کر چکی تھی
"استغفار آپی اسکو کوئی اخلاقیات کا درس بھی دیں۔ ایسے بات کرتے ہیں؟ " ارمان نے ہنس کرپری کی طرف اشارہ کر کے  سائرہ کو کہا
"میں جانتی ہوں یہ صرف تمھارے ساتھ ھی فری ہے اب چچا کی بیٹی کے ساتھ ساتھ بیسٹ فرینڈ بھی ہے تو بس بھگتو " وہ مسکرا کر بولیں
"آپی پکوڑے کیوں نہیں آئے ابھی تک "ارمان نے یاد آنے پر کہا
"اوہ خالدہ آپا بھی نا بہت لیزی ہیں میں دیکھتی ہوں " وہ کہہ  کر اٹھ گئیں
"موٹے آلو تم یہاں ٹھوسنے آتے ہو " پری اب اسکی ٹانگ کھینچ رہی تھی آخر وہ  کافی دنوں بعد ملے تھے
"میرے چچا کا گھر پلس میری  بہن کا سسرال ہے " ارمان  نے شوخ انداز میں کہا
"اور بھولو مت اس وقت تمھارے سامنے تمھاری بہن کی نند بیٹھی ہے " پری نے مذاق سے آنکھیں پھیریں
"ہاں پر تم ہو بہت غریب دیکھو تو کپڑا  نہیں بچا جو بازو برائے نام لگائے ہیں"ارمان نے اسکی ہاف سے بھی  سلیوز والی شرٹ کا مذاق بنایا
"حد ہو گئی ہے اور تم جو پھٹی پنٹ پہن کے آ گئے ہو وہ کیا "پری نے بھی اسے نہیں بخشا تھا
"مائی ڈیر اٹس فیشن "  ارمان نے مسکرا کر فخر سے کہا
"ریلی ہمارا کتا ،کتا اور آپ کا کتا ٹومی "  پری نے اس انداز سے کہا کے ارمان نے قہقہ لگایا
************************************

احساس (completed) Where stories live. Discover now