چھٹی قسط

2.4K 104 34
                                    

پریشے سوئ ہی تھی کے کسی نے اسکے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔۔وہ نیند سے بیدار ہو کر بیڈ سے اتری اور دروازہ کھولا۔۔

   “Happy birthday to you٬happy
    birthday٬happy birthday,happy
    birthday to you”
دروازہ کھلنے پر سائرہ ٬ولید٬جہانگیر صاحب اور حسن نے اونچی آواز سے کہا
”ہا...“پریشے کا منہ کھل گیا
”تھینک یو، تھینک یو ،تھینک یو سو مچ“وہ بچوں جیسا خوش ہوئ۔۔
پریشے دروازے کے آگے سے ہٹ گئ توسب کمرے میں داخل ہوۓ ۔۔سائرہ اپنے ہاتھ میں کیک کے ساتھ روم میں داخل ہوئ
”دِس اِز فار می“پریشے نے سائرہ سے پوچھا اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا اور پری بچوں جیسا کھل اٹھی ۔ وائٹ کھلی شلوار اور شارٹ شرٹ بھی وائٹ کلر کی تھی بال سوتے ھوۓ اسنے کھولے تھے تو اب تک کھلے ھی تھے ۔ وہ کھلکھلاتی ہوئی بیٹھی ۔ حسن نے ایک نظر اپنی بہن کو دیکھا ۔۔ نا جانے کیوں وہ پری کی طرف سے سیٹیسفائیڈ نہیں تھا ارسلان اچھا لڑکا تھا جتنا اسے حسن جانتا تھا اسے ارسلان پسند تھا مگر پھر بھی وہ ارسلان کو پری کے لئے پسند نہیں کرتا تھا ۔ پریشے نے کیک کاٹا اور سب نے رات بارہ بجے پریشے کی سالگیرہ منائ۔۔یہ پہلی بار نہیں تھا۔ اکلوتی بیٹی کی وجہ سے وہ سب کی لاڈلی تھی۔ ہر بار اسکی سالگیرہ پر سب گھر والے اسے رات بارہ بجے وش کرتے اور سیلی بریٹ کرتے۔۔ سب اسے گڈ نائٹ کہہ کے چلے گیے اسنے بیڈ پر لیٹتے ہوۓ اپنا موبائل پکڑا۔۔ہمیشہ کی طرح سب کزنز اور فرینڈز نے وش کیا تھا مگر جس کا میسج  آنا چاہیے تھا اور شائد  جس کے میسج کا اسے انتظار بھی  تھا  اسکا نہیں آیا تھا..جانے کیوں اسے اب ارسلان کی  پروا ہونے لگی تھی۔ دن رات میسج پر اپنی چھوٹی چھوٹی بات وہ اسے بتاتا تھا۔ وہ اسے جواب نہیں دیتی مگر اسکےمیسیجز  بہت دلچسپی سے پڑھنے لگی تھی۔۔ اسے ارسلان کے میسج کا انتظار تھا۔۔
”یہ ایمن بھی نہ ویسے چپڑ چپڑ کرتی ہے مگر میری برتھ ڈیٹ کا نہیں بتایا “اسے بلا وجہ ایمن پر غصہ آیا۔ پری کوہمیشہ سے  سب کی  اٹینشن ملی تھی اور وہ اسی چیز کی عادی ہو چکی تھی ۔ یہ ھی وجہ تھی کے اسے بہت جلد اگنورینس فیل ہو جاتی تھی اور یہ چھوٹے چھوٹے ایوینٹس برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا اور کون اسے وش کرتا ہے اس کے لئے بہت اہمیت رکھتے تھے ۔ کہی نا کہی نہیں بلکے بہت حد تک اس میں اب بھی بچپنا تھا ۔ انسان ایکسپیریینس سے سیکھتا ہے مگر پری کا ابھی تک ایسے لوگوں سے واسطہ ھی نہیں پڑا تھا ۔۔۔  سوچوں میں گم اس نے موبائل رکھ دیا اور پتا نہیں کب وہ گہری نیند میں چلی گئی
*****************************
دوپہر میں عنایا پری کو ملنے آئ تھی سنڈے تھا اور یونی اوف تھی عنایا نے اسے میسج پے وش تو کر دیا مگر اب وہ اس کو خود ملنے آئ تھی وہ دونوں باتیں کر رہی تھیں جب عنایا نے یاد آنے پر پوچھا
”اچھا ارسلان  نے وِش کیا تھا“عنایہ نے اس سے پوچھا
”نہیں اسے کسی نے بتایا جو نہیں ۔۔ ویسے پٹرپٹر کرتی ہو بتایا ہی نہیں  تم نے یا ایمن نے“ پریشے نے عنایا کے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ مار کر  منہ بنایا
”مطلب سارا دن بھی گزر گیا اس نے تمہیں وش نہیں کیا پریشے“عنایہ حیران ہوئ کیوں کے وہ بھی جانتی تھی یہ سب پری کے لئے کتنی اہمیت رکھتا تھا
”نہیں اسے پتا نہیں ہوگا“پریشے نے کندھے  اچکاۓ۔
عنایہ گہری سوچ میں ڈوب گئ۔ اس نے تو کل دوپہر کو ہی ارسلان
کو بتایا تھا پریشے کی برتھ ڈے کا۔ مگر اس نے ابھی تک وش نہیں کیا تھا۔عنایہ کو خاصا برا لگا۔
”پری مجھے گھر کام ہے پھر آؤں گی“عنایہ کہہ کر  چلی گئ
*****************************
عنایہ گھر آتے ھی ارسلان کے روم کی طرف بھڑی کیوں کے وہ آفس سے آ چکا تھا وہ ارسلان کے روم میں داخل ہونے ھی  لگی کے اسکے قدم ارسلان کی آواز سن کر ادھر ہی رک گیے۔
”تو کیا ہو گیا ہے امّی اگر آپکی شہزادی کو وش نہیں کیا میں نے ۔ مطلب حد ہے امی وہ کوئی بچی تھوڑی ہے جو اتنی سی بات کو دل پے لے لے گی کے ارسلان نے مجھے وش نہیں کیا “
ارسلان نے چڑ  کر کہا
”ارسلان کیا ہو گیا ہے بیٹا تم آجکل کی جنریشن ہو۔تمہاری منگیتر ہے وہ۔ بیٹا یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ھی ہوتی ہیں جس سے آپ کو محسوس ہوتا ہے کے کوئی آپ کی کتنی پروا کرتا ہے “مسز جہانگیر خیرت سے بولیں
”جانتا ہوں۔سو کام ہوتے ہیں امی میں بھول گیا تھا ۔ اتنا بھی کیا ہو گیا ہے پہلے ایمن سنا کر گئ اب آپ۔ امی آپ سب نے اسے اتنا لاڈ دے دے کر اسے  بچی ھی رهنے دیا ہے اب اسے پلیز تھوڑا سا میچور ہونے دیں ۔ آپ سب کی ھر وقت کی کیئر سے وہ اپنے مسلے خود سولو نہیں کر پائے گی ۔۔“ارسلان کا لہجہ عنایہ کے لیے نا قابلِ یقین تھا۔
”اور ویسے بھی وہ لڑکی میری بات کا سیدھے منہ جواب نہیں دیتی میں کیا کروں۔“وہ تھکا سا لگ رہا تھا
”امّی آپ سب کے لیے وہ بہت خاص ہے آپ اسے ماں کی کمی محسوس  نہیں ہونے دینا چاہتیں مگر اب آپکا اپنا بیٹا بھی ہے آپ مجھ سے زیادہ اسے اہمیت دیتی ہیں وہ بہو ہو گی اور میں بیٹا۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ میرا  ساتھ دیں گی میرا اب ایسا کیوں“ارسلان نے مسز جہانزیب سے  کہا
”اچھا اسے مت بتانا تم بزی تھے یا یاد نہیں رہا کہنا مجھے پتا ھی نہیں تھا  ۔۔ “مسز جہانزیب نے ارسلان کو کہا ۔ اب عنایہ مزید کھڑی نہیں ہو سکتی تھی وہ اندر گیے بغیر واپس مڑ گئ
”اب ان میں مقابلہ ہو گا؟ارسلان سچ میں پریشے سے محبت
کرتا ہے؟کہیں وہ پریشے..“اس سے جملہ مکمل نہ ہو سکا ۔ اسے ارسلان کا اس طرح پڑی کی پروا کرنا اچھا بھی لگا تھا مگر کہیں کہیں اسے یہ بات بھی بری لگی تھی کے ارسلان سب پری سے مقابلہ کرنے لگا تھا پتا نہیں یہ اس کا وہم تھا یاں سچ میں ایسا تھا عنایا سر جھٹک کر چلی گئ
*****************************
”پری پھوپو...پھوپو..“اسامہ ہال میں داخل ہوتے ہی پریشے کو آوازیں دینا شروع ہو گیا۔
”اسامہ بیٹا پاس آ کے بولتے ہیں“پریشے نے موبائل  ٹیبل پر رکھا اور اسامہ کے پاس آئ..حسن اور وہ دونوں ہال میں ہی بیٹھے
تھے۔ حسن اپنے لیپ ٹاپ پے کام کر رہا تھا اور پری موبائل پے فرنڈز سے چیٹ کر رہی تھی
”آپکے لیے باہر کوئریر آیا ہے۔“اسامہ نے اسے آوازیں لگانے کی وجہ
بتائ
”اچھا۔۔۔۔“وہ باہر کو بھاگی۔۔
۔کوریئر والے سے کوریئر لے کر وہ مڑی. اس نے جلدی سے اوپر سے پیکنگ اتاری اندر ایک بہت خوبصورت سرخ پھولوں کا بکے  تھا۔۔مگر کوئ خط وغیرہ نہیں تھا۔۔
"Happy birthday Princess"
صرف ایک چھوٹا کارڈ تھا ۔ کارڈ پڑھ کر پری مسکرائی
”اٹس بیوٹی فل“اس نے پھولوں کے اوپر اپنے نازک ہاتھ پھیرے
پھول آرٹی فیشل تھے مگر اس کے لیے یہ پھول بہت اہمیت رکھتے تھے۔
"واہ منگیتر جی میسج نہیں کیا ڈائریکٹ فلاورز۔۔۔ وہ بھی بغیر نام لکھے۔ لیکن پرنسیس کو یہ بہت پسند آیا ہے میں جانتی تھی آپ بھول نہیں سکتے آفٹر آل آپ اپنی پرنسیس سے بہت پیار کرتے ہیں ۔لیکن اب لگ رہا ہے پتا نہیں  میں آپ کو کیسے سمجھوں گی۔ کبھی اتنے روڈ ہوتے ہیں کبھی مہربان افف ۔۔ " وہ خود کلامی کرتے ھوۓ اندر کی طرف بھڑ ی وہ بکے  سنبھالتے ہوۓ ہال میں داخل ہوئ
”کس نے بھیجا ہے“حسن نے پھولوں پر نظر ڈالی۔ حسن جانتا تھا پری ارسلان سے فرینک نہیں تھی اور وہ یہ ھی چاہتا تھا کے پری کا ارسلان سے لگاؤ ہو بھی نا ۔
”مم مجھے نہیں پتہ۔ نام نہیں لکھا “وہ بوکھلا گئ ۔
اپنے بھائ کو وہ کیا جواب دیتی۔ ارسلان اسکا منگیتر اور کزن تھا مگر وہ حسن کو ہرگز نہیں بتا سکتی تھی ۔حسن نے معنی حیز نظر اس پہ ڈالی وہ ایک منٹ بھی کھڑی نہ رہی اور اپنے روم کی طرف چلی گئ۔
*****************************
”میں اندر آ سکتا ہوں“ارسلان نے کچن کا دروازہ ناک کیا
”لو تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہے“سائرہ مسکرائ ۔پاس کھڑی پریشے بظاہر اپنے دھیان چاۓ بنا رہی تھی مگر وہ سن ان دونوں کی بات رہی تھی۔ آج ارسلان کی موجودگی میں نہ جانے کیوں اسے شرم آ رہی تھی یہ ایک  نئے احساس نے اسکے اندر جنم لیا تھا ”ہیپی برتھ ڈے “ارسلان اندر داخل ہوا اور پریشے کو مبارک دیتے ہوۓ اپنا ہاتھ آگے پڑھایا..پریشے نہیں جانتی تھی اسے کیا کرنا چاہیے اس نے سائرہ کی طرف دیکھا جو مسکرا کر ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ قصور سائرہ کا نہیں تھا انکی فیملی میں منگنی
کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔
”تھینک یو“اس نے ہاتھ نہیں ملایا اور چاۓ کپ میں ڈالنے لگی ارسلان نے شرمندہ ہو کر ہاتھ نیچے کر لیا۔
”میں اسامہ کو بلا لوں کھانا نہیں کھا رہاتھا۔“سائرہ نے مسکرا کر کہا اور ہال کی طرف چلی گئ۔
”چلیں میں آپکے لیے چاۓ لاتی ہوں“پریشے کچن میں اکیلی تھی اس وقت گھر میں کوئ اور  موجود نہیں تھا ۔ ہال میں بھابھی تھی اور ہال میں ہی کچن بنا  تھا وہ بھابھی کو با آسانی دیکھ سکتی تھی۔
”ویسے تو میں چائے پی کر آیا ہوں مگر تمہیں نا نہیں کر سکتا اور تمھارے ہاتھ کی بنی ہوئ تو ضرور پیوں گا“ارسلان نے ہنس کر کہا ۔۔
”ہفف ۔۔ یہ کبھی کمنٹ پاس کرنے کے بغیر  کیوں نہیں رہ سکتا ۔ ابھی ہاتھ نہیں ملایا تو ناراض بھی نہیں ہوا“پریشے نے سوچا
”آ.. آپ کے پھول مل گئے  شکریہ“پریشے نے یاد آنے پر بولا
”کون سے پھول“ ارسلان نے ناسمجھی ظاہر کی
”جو آپ نے آج میرے لیے بھیجے تھے۔“پری نے وضاحت کی۔
”پریشے چاۓ بنا دو ارسلان کو “سائرہ ہال  سےاونچی آوازمیں
بولی
”مجھے نہیں پینی“ارسلان سنجیدگی سے بولا
”پریشے میں آج تمہارے لیے آیا ہوں تم مجھے اس قدر اگنور کیوں کرتی ہو ۔ میں بھی اب تمہاری زندگی کا حصہ ہوں مگر
تم ہو کے میری بات کا سیدھے منہ ایک جواب بھی دینا پسند نہیں کرتی۔ کیا مسئلہ ہے مجھ میں؟میں پیارا
نہیں ہوں۔“ارسلان  غصے سے بولا۔پریشے حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی
”میں نے تو کچھ نہیں کہا“ پریشے نے کہا
”ہاں مگر میں تمہیں ڈنر کے لیے بلانے آیا تھا مگر تم میرے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کرتی ۔ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتی کھانا دور کی بات۔۔۔تم سے بے عزت ہونا میری عادت ہو گئی ہے ۔۔“وہ بات مکمل کر کے غصے سے نکل گیا۔میں نے کیا کِیا؟میں تو نارمل تھی آج۔ بلاوجہ غصہ کیوں کیا  ارسلان نے؟اور اس نے سوچ بھی کیسے لیا کے وہ میری لائف میں اہمیت نہیں رکھتا؟وہ خود سے ہی سوچوں میں سوال پوچھ رہی تھی ہاتھ میں پکڑی چاۓ
اسی طرح ٹھنڈی ہو رہی تھی۔
*****************************
”پتہ نہیں کل کیوں میں نے پریشے کو ڈانٹ دیا “ارسلان اپنے  کل کے رویے پر شرمندہ تھا۔ ہادی کے کمرے میں بیٹھا وہ اسے بتا رہا تھا ۔ ارسلان کی بات پر ہادی نے ارسلان کی طرف دیکھا۔کتنا ظرف چاہیے ہوتا ہے کسی دوسرے کے منہ سے اپنی محبت کا نام سننا۔ وہ بھی ایک طرفہ محبت جس میں درد بس ہادی کو ہی ملا تھا ایک طرفہ محبت کی  تھی تو اب سزا بھی تو صرف اسے ھی ملنی  تھی ..
”کن سوچوں میں گم  ہو“ارسلان نے ہادی سے کہا
”اچھا سوچ سے یاد آیا پتہ نہیں کس نے کل پری کو پھول بھیجے اسے لگ رہا تھا میں نے بھیجے ہیں اور بھیجنے والے نے اپنا نام بھی
نہیں لکھا تھا۔“ارسلان نے ہادی سے سوال پوچھ کر پھر خود ھی اگلی بات شروع کر دیا۔  ہادی نے بے یقینی سے ارسلان کو دیکھا
”کیا پریشے نے سمجھا کے تم نے پھول۔۔“اس نے بات مکمل نہ کی ارسلان نے  اثبات میں سر ہلایا۔
اووو تو اس طرح اسکی محبت کا مزاق بنایا گیا تھا۔ حسن نے کل
ہادی کے ساتھ جا کر پریشے کے لیے گفٹ لیا جس سے اسے بھی علم ہوا کے پریشے کی سالگیرہ ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر اس نے بغیر اپنا نام لکھے پری کو پھول بھیجے اور اسنے سمجھا کے وہ ارسلان نے بھیجے ہیں۔اس ارسلان نے جس نے پریشے کو اس سے چھینا تھا۔ ہادی کو اس وقت خود پر بے انتہا ترس آیا۔
*****************************
”ولید مجھے آپ سے ایک بات کرنی تھی“ولید بیڈ پر لیٹے ٹیک لگاۓ لیپ ٹاپ گود میں رکھے آفس کے کام میں مگن تھا جب سائرہ اس کے پاس آ کر بیٹھی اور آہستہ سے بولی
”ہاں بولو“وہ لیپ ٹاپ سے نظر ہٹاۓ بغیر بولا
”نہیں آپ  کر لیں کام۔ یہ ہی آپکی زندگی میں ضروری رہ گیا ہے۔ گھر بھی آفس کا کام لے  آتے ہیں“وہ غصے سے کہہ کر اٹھنے لگی
”اچھا جناب یہ لیں اب خوش“ولید نے جھٹ سے لیپ ٹاپ بند کر کے رکھا وہ دوبارہ بیٹھ گئ
”ولید پری سے آپ  نے ارسلان سے  منگنی کی بات کی تھی۔ آپ کا فیصلہ اچھا ہے مگر کیا آپ  نے پری پر کوئ زبردستی تو نہیں کی؟“سائرہ ولید کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی
”نہیں میں نے زبردستی نہیں کی مگر کرنی پڑتی تو کر بھی لیتا مگر ارسلان کے علاوہ اسکی زندگی میں کسی کو نہیں آنے دیتا“وہ اطمینان سے بولے
”مجھے لگتا ہے پری ارسلان کو پسند نہیں کرتی وہ بہت کم بات چیت کرتی ہے اس سے۔ “سائرہ پریشان تھی
”نہیں تم پریشے کی وجہ سے پریشان مت ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے “ولید نے اسے تسلی دی
”سائرہ اگر پریشے ارسلان کو ناپسند کرتی ہوتی  تو وہ کبھی ہاں نہیں کہتی۔ ا س نے کہا تھا وہ ارسلان کو ابھی ٹھیک سے جانتی نہیں ہے مگر ناپسندی کا نہیں کہا تھا اور وہ کرے بھی کیسے اسکا بھائ اس کے لیے کبھی غلط فیصلہ نہیں کر سکتا ارسلان اچھا لڑکا ہے میں جانتا ہوں پری ناسمجھ ہے مگر جلد سمجھ جاۓ گی “ولید نے اسے بھر پور تسلی دی سائرہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔۔ولید جہانزیب صاحب سے زیادہ اٹیچ منٹ کی وجہ سے ارسلان سے بھی اٹیچ تھا۔ اسے اپنا فیصلہ جلد بازی کا نہیں لگتا تھا بلکہ اسے بھروسہ تھا کے اس نے اپنی بہن کے لئےاچھا فیصلہ کیا ہے
*****************************

احساس (completed) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang