آخری قسط

4.2K 183 162
                                    

آج بیٹھے بیٹھے اک خیال آیا
تجھ سے اظہار کا وہ لمحہ یاد آیا
وہ تیرا مجھ سے پوچھنا اور پھر
میرا تم سے اظہارِ محبت کرنا یاد آیا
کیا عجب بات ہے اس اظہار میں
اور تمہارے لب پر اک اقرار تک نہ آیا
لوگ نہیں کرتے یقین محبت پر اب
یہ خیال مجھے پہلے کیوں نہ آیا
اس رشتے میں ہیں بسں غلط فہمیاں
یہ سوچ کر مجھے بچھڑنے کا لمحہ یاد آیا
پھر آئی لب پر مسکراہٹ جب
تیرا روٹھنا اور منانا یاد آیا
(ایمان محمود)
وہ اپنے خیالوں میں ڈوبی بیٹھی تھی جب یک دم اسے بالکونی میں کوئی آواز محسوس ہوئی۔
"کون ہے ۔۔" پریشے نے ڈرتے ہوئے پوچھا
"بولو بھی کون ہے ۔۔" وہ بیڈ سے نیچے اتر کر بالکونی کی طرف جانے لگی کے ایک دم سے رُکی
"اگر ارسلان ہوا تو " اسے خیال آیا
"اگر وہ ہوا تو مجھے لے جائے گا اپنے ساتھ اور پتا نہیں  اب کی بار کیسا سلوک کرے گا ۔۔ نہیں میں نہیں جاؤں گی " وہ جو اپنے قدم بالکونی کی طرف بھڑا رہی تھی دو قدم  پیچھے ہوئی ۔۔اور پھر اچانک دروازے کی طرف لپکی ۔۔ دو سیکنڈ کے اندر وہ اپنے کمرے سے بھاگ کر باہر نکلی
"حسن بھائی ۔۔ بابا ۔۔۔۔ "وہ بھاگتی ہوئی آوازیں دیتی  حسن کے کمرے کے پاس جا کر رکی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی
" دروازہ کھولیں پلیز بھائی جلدی " وہ اونچا اونچا بول رہی تھی۔۔ جیسے کوئی اس کے پیچھے لگا ہو 
"کیا ہوا  پری " دو منٹ میں حسن نے دروازہ کھولا
"بھائی میرے روم میں ارسلان آیا ہے وہ مجھے لے جائے گا پلیز جلدی ساتھ چلیں میرے " وہ بات کرتے ہوئے اسکا بازو پکڑ کر ساتھ لے جا رہی تھی
"پری میری بات سنو ارسلان  کل سے آوٹ آف کنٹری گیا ہے وہ کیسے آ سکتا ہے " حسن چلتے ہوئے بولا
"نہیں آپ چلیں میں جانتی ہوں وہ ھی ہے " وہ دونوں پری کے کمرے میں داخل ہوئے ۔ کمرہ بلکل خالی تھا ۔حسن نے آگے بڑھ کر بالکونی چیک کی ۔
"پریشے تم بھی نا بچکانا حرکتیں کرتی ہو باہر بارش کا موسم بنا ہوا ہے کھڑکی کھلی ہے تو تمھیں ہوا سے ہلتی ہوئی کھڑکی کی آواز آ رہی ہوگی  " حسن نے اسے سمجھایا
"اوہ ۔۔اچھا " پری شرمندہ ہوئی
"اچھا اگر تم ڈر رہی ہو تو میں تمہارے ساتھ رُک جاتا ہوں " حسن نے اسے  کہا
"نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں آپ جا کر ریسٹ کریں " وہ بمشکل مسکرائی ۔۔ حسن کمرے سے چلا گیا
پری نے آگے بڑھ کر پھر بالکونی دیکھی اور کسی کو بھی نا پا کر واپس آئ اور آ کر کھڑکی بند کی ۔۔ وہ بیڈ پر لیٹنے ھی لگی تھی  کے اسکی نظر بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اپنے موبائل پر پڑی ۔۔ جب سے وہ ہسپتال گئی تھی اسے اپنے فون کی ہوش نہیں تھی آج واپس آ کر بھی اس نے پورا دن فون نہیں دیکھا شائد سائرہ ھی اسکا  فون ادھر  رکھ گئی تھی ۔۔ اس نے کانمپتے ہاتھوں سے فون اٹھایا ۔۔
میسج چیٹ میں اس نے ارسلان کی چیٹ نکالی
"ارسل " اسکا نمبر جس نام سے پری نے سیو کیا تھا وہ ہلکا سا بولی
اب وہ اس کے میسیجز ریڈ کر رہی تھی۔ شرو ع دن سے آج تک جب بھی ارسلان نے اسے میسیجز کیے تھے پری نے ڈیلیٹ نہیں کیے تھے وہ جب بھی بور ہوتی تھی ان میسیجز کو پڑھ لیتی تھی ۔ جن سے صاف معلوم ہوتا تھا کے وہ شخص اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا تھا ۔۔اس کا اظہار محبت کرنا پری کو پسند تھا ۔
"جانتی ہو میرے دوست بھی مجھے اکثر ارسل کہتے ہیں لیکن جتنا یہ لفظ تمہاری زبان پر خوبصورت لگتا ہے کبھی کسی کے منہ سے نہیں لگ سکتا " ارسلان کا پرانا میسج پڑتے ہوئے اسکی آنکھیں بھر آئیں
"میں تم  سے محبت کرتا ہوں پریشے جانتا هوں کبھی کبھی تمھیں تنگ کرتا ہوں لیکن میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ہمیشہ یاد رکھنا  اور جب تم مسکراتی ہو نا تو میری دنیا وہیں رُک جاتی ہے " ارسلان کا یہ میسج پڑھ کر اب اس میں مزید پڑنے کی ہمت نہیں تھی ۔۔ اس نے جلدی سے چیٹ کلیر کر دی ۔ وہ اب ہر اس چیز سے بچنا چاہتی تھی جو اسے ارسلان کی یاد دلائے ۔ جب سے انکی منگنی ہوئی تھی اور وہ  اسکا فیونسی بنا تھا آج تک ایسا نہیں ہوا تھا  کے اتنے دن ارسلان نے اس سے رابطہ نا کیا ہو یہ ھی وجہ تھی پری کو اسکی عادت ہو گئی تھی مگر اب اسے اس عادت کو چھوڑانا تھا اسے دن رات ارسلان کی طرف سے آنے والے میسیجز کا انتظار نہیں کرنا تھا کیوں کے اب اسے کوئی میسج نہیں آنا تھا ۔۔
خود کو سمجھاتے ہوئے اس نے اپنا فون دراز میں رکھا
"کیوں میں اسے نہیں بھول پا رہی۔ کیوں اس شخص سے نفرت نہیں ہو رہی جو میری نفرت کے لائق ہے میری حد درجے کی نفرت کے قابل وہ شخص کیسے اب تک مجھ پر حکومت کر سکتا ہے  ۔۔۔" وہ سوچتے ہوئے بیڈ   کی طرف جا رہی تھی  کے اسے لگا اب وہ ایک قدم بھی نہیں چل پائے گی جیسے اس کی ٹانگوں میں فل وقت ایک قدم بھی چلنے کی ہمت نہیں رہی تھی 
"یا اللہ‎ ۔۔ مجھے اس درد سے نکالیں " وہ وہیں زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو جھکڑ لیا جو بہت زور سے درد کر رہا تھا
"اللہ‎ تعالیٰ میری مدد کریں پلیز۔۔ میں کیا کروں مجھے سمجھ نہیں آ رہا " اسی حالت میں بیٹھی وہ زور زور سے روتے ہوئے بول رہی تھی
"مجھے سکون چاہیے ۔۔ مجھے سکون کیوں نہیں ملتا ۔۔۔میرے اندر بے چینی کیوں ہے آپ تو جانتے ہیں نا میں نے غلط نہیں کیا ۔۔ کیوں آیا تھا وہ میری زندگی میں اگر اس نے جانا ھی تھا تو ۔۔ کس سے حساب مانگوں میں آخر  کون میرے درد میں شریک ہے ۔کوئی بھی نہیں سب نے مل کر مجھے اس کے ساتھ رشتے میں باندھا اور اب مجھے اس اذیت میں اکیلا چھوڑ دیا، کیوں میں ھی کیوں ملی اس انسان کو اپنا بدلہ پورا کرنے کے لئے۔ آج میرا دل کر رہا ہے کے ہر اس ایک ایک فرد کا گریبان پکڑوں جو کہتے تھے کے ارسلان سے بہتر مجھے کوئی نہیں مل سکتا  اور پوچھوں کے آپ لوگوں نے تو کہا تھا نا وہ بہتر ہے میرے لئے تو کیوں کآج اس نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے ۔۔ آج میں پوچھنا چاہتی ہوں ان سے جو مجھے کہتے تھے کے سوسائٹی کے ساتھ موو کرو ارسلان تمہارا  منگیتر ہے ٹھیک سے بات کیا کرو  اس سے کے کیا ملا آج مجھے اس سوسائٹی کے ساتھ  موو کر کے ۔۔ اس شخص کو جب میں نے خود پے ہاوی کر لیا تو وہ مجھے چھوڑ گیا ۔ لیکن میں کسی سے جواب نہیں مانگ سکتی میں کتنی مجبور ہوں ۔۔ یا اللہ‎ میری مدد کر ۔ مجھے سکون عطا کر    " روتے روتے اس نے اپنے آنسو صاف کیے  اور اٹھ کر وضو کرنے چلی گئی واپس آ کر اس نے قبلہ رخ جائے نماز بچھایا اور تہجّد کی نماز کی نیت کی ۔ نماز پڑتے وقت بھی اسکی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں ۔۔ نماز پڑھ کر اسنے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور جو آنسو آنکھوں میں بھرے پڑے تھے یک دم کسی بوچھاڑ کی طرح ٹپکے
"یا اللہ‎ میں آپ سے کیا مانگوں میں نہیں جانتی ۔ یا اللہ‎ مجھے کچھ نہیں چاہیے اس دنیا میں ،بس اس دنیا اور اس کے لوگوں کی محبت میرے اندر سے ختم کر دیں ۔ اس نا محرم کے لئے اگر میرے اندر محبت ہے تو اسکو ختم کر دیں اور اگر وہ محض عادت ہے تو اسے بھی ختم کر دیں ۔ مجھے معاف کر دیں  اللہ تعالیٰ ‎ مجھے معاف کر دیں۔ نہیں جانتی کس کس چیز کی معافی مانگوں آپ سے بس آپ میرے صغرہ کبیرہ ، ظاہر اور پوشیدہ گناہ معاف کر دیں اور مجھے اس دنیا سے بے رغبت کر دیں ۔ مجھے اتنا مضبوط بنا دیں کے میرا کوئی بھی رشتہ جب مجھ سے بے وفائی کرے تو مجھے دکھ نا ہو ۔میں ارسلان کو کوئی بد دعا نہیں دوں گی بس زندگی میں کبھی بھی کسی پریشے کی زندگی میں ارسلان نا آئے ۔ یا اللہ‎ مجھے سکون دے دیں مجھے سکون عطا کریں۔ مجھے سکونِ قلب عطا کریں " وہ  روتے ہوے دعا کر رہی تھی  ۔۔ اس نے اپنے ہاتھ دعا کرتے ہوئے منہ کے آگے رکھے اور روتی رہی جیسے ایک بچہ   والدین کے سامنے رو رو کر کسی کی شکایت لگاتا ہے وہ بھی  اس وقت بچی ھی لگ رہی تھی ۔ اور کون تھا اس کے پاس جس کے  سامنے وہ روتی سب سوال نا بھی کرتے لیکن سوچتے تو ضرور کے خود ھی اس نے ارسلان کو چھوڑا ہے  اور اب کیوں رو رہی ہے ۔ یہ تو بس اللہ‎ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جو ہر چیز سے با خبر ہے جسے ہر شے کی خبر ہے  جو ہم ظاہر اور پوشیدہ رکھتے ہیں اللہ‎ تعالیٰ جانتا ہے ۔ اللہ‎ تعالیٰ  ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ بغیر کچھ بولے وہ اسی طرح منہ کے آگے ہاتھ رکھے روتی رہی اور جب دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اسنے دعا مانگ کر جائے نماز اٹھایا ۔۔ فجر کے لئے ٹائم تھوڑا ھی رہ گیا تھا اس لئے اب وہ سونا نہیں چاہتی تھی نماز کے بعد  عجیب سا سکون اس کے اندر  اترا تھا ۔ جیسے اسکا بوجھ کم ہو گیا ہو ۔۔  اب وہ قرآن پاک لے کر صوفے پر پڑنے بیٹھی ۔ تعوذ ، تسمیہ پڑھ کر اس نے قرآن مجید کھولا ۔۔ سوره فاتحہ پڑھ کر اس نے صفے آگے کیے ۔۔۔ اور سوره یوسف کھولی اچانک اسکی نظر ایک آیت پر ٹھہری ۔ قرآن مجید ترجمے والا تھا ۔۔ پری نے اس آیت کا ترجمہ پڑھا
"میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ‎ سے کرتا ہوں " یہ آیت پڑھ کر اسے خوشی ہوئی کے اس نے بھی آج یہ ھی کیا تھا جب دنیا کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں تو وہ ایک ذات پاک ہے جو کبھی اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا وہ ذات  اللہ‎ کی ذات ہے ۔ جس کے سامنے روتے ہوئے شرمندگی نہیں ہوتی ۔ اللہ‎ ھی ذات پاک ہے جس کو کچھ بتانا نہیں پڑتا وہ بن بتائے سب جان جاتا ہے۔ یہ تو ہم انسان ھی ہیں جو اوروں کے آگے روتے ہیں اپنے دکھڑے لوگوں کو سناتے ہیں جب کے لوگ اگر اس وقت آپ سے ہمدردی بھی کریں گے تو کبھی نا کبھی آپ کا مذاق بنائیں گے جب کے اللہ‎ تعالیٰ تو اپنے بندے کے آنسوؤں کا مذاق نہیں بناتے اور اس کا مسلہ اس طرح حل کرتے ہیں کے نا ممکن کو بھی ممکن بنا دیتے ہیں ۔  وہ قرآن مجید پڑھ رہی تھی جب فجر کی آذان ہونے لگی اس نے قرآن مجید کو الماری کے اوپر رکھا اور نماز پڑنے  چلی گئی ۔ نیند اسکی آنکھوں سے بہت دور جا چکی تھی ۔ ۔۔
***********************
"بھابی حسن کی فائل جلدی دے دیں "ہادی ہسپتال سے حسن کی فائل لینے اسکے گھر آیا تھا حسن کی ڈے ڈیوٹی تھی سو وہ کل کچھ رپورٹس چیک کرنے کے لئے رپورٹس فائل گھر لے آیا تھا اور آج جاتے ہوئے گھر ھی بھول گیا تھا اب ہادی وہ ھی لینے آیا تھا
"میں آتی ہوں آپ بیٹھو " سائرہ اسے ہال میں بٹھا کر چلی گئی
پری کچن سے چائے لے کر باہر آئ اور ہال میں آ کر ہادی کو چائے دی
"کیسی ہیں آپ " ہادی نے چاۓ پکڑتے ہوئے پوچھا
"الحمداللہ ٹھیک آپ کیسے ہیں " پری اس کے سامنے والے صوفے پر  بیٹھ گئی
"میں بھی ٹھیک ہوں۔ لگتا ہے آپ نے ابھی تک ریکوور نہیں کیا کیوں کے آپ آگے سے زیادہ ویک ہو گئی ہیں " ہادی نے چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا جو اس نے پری سے پکڑ کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا
"جس انسان کا اندر ختم ہو چکا ہو اسکا وجود ختم ہونے میں وقت ھی کتنا لگتا ہے ڈاکٹر ہادی "
"تو آپ بھی ان ٹیپیکل لوگوں میں سے ہیں جو ایسی باتوں پر روگ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں " ہادی نے جان بوجھ کر یہ بات کی تھی وہ دیکھنا چاہتا تھا پری اس بات پر غصہ کرے گی یاں نارمل ایکٹ کرے گی لیکن پری کی آنکھوں سے یک دم  آنسو ٹپکے
"مجھے کوئی روگ نہیں ہے ایسے لوگ مجھے اپنی زندگی میں چاہیے بھی نہیں ۔ میں نے شکر کیا ہے اس کی اصلیت میرے سامنے آئ ہے ۔ مجھے تو ان سب سے شائد کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کے وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا تھا ۔" وہ کہہ  رہی تھی مگر اسکی آنکھیں اسکی زبان کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں
"آپ ٹھیک ہیں " ہادی نے  اس کے آنسو دیکھ کر کہا
"یس میں بلکل ٹھیک ہوں انفیکٹ میں بہت خوش ہوں ہادی " آنکھوں میں آنسو لئے وہ کہہ رہی تھی میں خوش ہوں ہادی کو لگا وہ شائد اب اس کو کبھی مسکراتا ہوا نہیں دیکھ سکے گا کیوں کے ارسلان کی حقیقت پتا چلنے کے بعد سے وہ شائد مسکرائی ھی نہیں تھی ۔ چھوٹی سی بات پر  بھی اسکی آنکھیں بھر آتی تھیں ۔۔ ہادی نوٹ کر رہا تھا وہ اپنے ہاتھ مروڑ رہی تھی جیسے وہاں بیٹھنا اسکے لئے بوجھ تھا ۔۔
"ہفففف " پری نے کھڑے ہوتے ہوئے لمبی سانس لی ۔۔
" کیا ہوا آپ ٹھیک تو ہیں " ہادی بھی کھڑا ہو گیا ۔۔ پری کا منہ پسینے سے بھر گیا تھا
"پانی۔۔ یہ لیں پانی " ہادی نے جگ سے پانی ڈال کر اسے دیا
جو پری نے کانمپتے ہاتھوں سے پکڑا اور دو گھونٹ لے کر ہادی کو دے دیا
" آپ بیٹھ جائیں " ہادی نے پری کی حالت دیکھ کر کہا
"نن نو ۔۔۔ مم میں ٹھیک ہوں " سرخ ہوتی آنکھوں سے وہ بولی ۔۔ اب وہ تھوڑی نارمل ہو گئی تھی مگر اسکے ہاتھ اب بھی کانمپ رہے تھے۔۔ پری نے خود پر  کنٹرول کرتے ہوئے  صوفے پر پڑے کشن کو ہاتھ سے  دبایا
"آپ نے کچھ کھایا ہے کیا مجھے لگ رہا ہے آپ کا بی پی لو ہے " ہادی نے اسکو دیکھ کر کہا
"نہیں میں ٹھیک ہوں اب ۔۔ یہ میرے ساتھ دوسری بار ہوا ہے ۔۔ کل بی پی لو  سمجھ کر چیک کیا مگر نارمل تھا ۔۔
"کل کس وقت "
"کل رات وہ میں اپنی منگنی کا البم جلا رہی تھی تب "
ہادی سمجھ گیا تھا ۔۔ ارسلان کی بات سٹارٹ ہوتے ھی اسکی  کنڈیشن ایسی ہو جاتی تھی ۔ ۔
"آپ ریسٹ کریں اور اپنے کھانے پینے کا دھیان رکھیں " ہادی بات کر رہا تھا کے وہ اٹھ کھڑی ہوئی
"سوری ڈاکٹر ہادی مجھ سے یہاں بیٹھا نہیں جا رہا میں جا رہی ہوں " تیزی سے کہتی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔ اور ہادی اسے جاتا دیکھتا رہا
************************
میرے مہرباں ، میرے ہمنوا
جو تو ملا تو جہاں ملا
تم سے محبت کب ہوگئی
اب تک نہ یہ جواب ملا
تیری ہنسی اتنی خوبصورت ہے
جیسے چمن میں ہر اک پھول کھلا
تیری یاد میں جاگوں رات بھر
میرے چاند تو مجھ کو صبح ملا
جانے کیوں پرواہ ہے تیری مجھے
اور تو جب بھی ملا بس خفا ملا
میری چاہتیں بے مول ہیں فقط اک تیرے لیے
اور مجھے تجھ سے ہی تو  جینے کا مقصد ملا
تو اب بیشک مجھ سے محبت نہ کر
بس قدر کر جو میرا پیار ملا
(ایمان محمود )
"عجیب مقام پر ہوں میں اس وقت کیسے پری کو اپنی زندگی میں لے کر آوں اب جب کے اسکی زندگی میں اس کے اپنوں نے اسکا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو وہ کسی غیر پر کیا اعتبار کرے گی ۔ ہاں غیر ھی  ہوں میں اس کے لئے ۔ میں کیسے اسکی تکلیف کو کم کروں میں اسکے آنسو پونچھنا چاہتا ہوں مگر کیسے یہ سب کیسے ممکن ہوگا ۔ وہ کبھی کسی  سے شادی نہیں کرے گی ۔ صرف مجھ سے کیا وہ کسی سے بھی شادی کے لئے اتنی جلدی تیار نہیں ہوگی لیکن مجھے اس سے جلدی شادی کرنی ہے تا کے میں اسکا دکھ بانٹ سکوں وہ بہت اکیلی ہے میں اسے ایسے نہیں دیکھ سکتا ۔ میرے بس میں ہوتا تو ارسلان کا وجود ھی ختم کر دیتا لیکن میں مجبور ہوں  میں کچھ نہیں کر سکتا ۔۔" وہ ڈائری لکھ رہا تھا کے مسز تیمور نوک کر کے کمرے میں داخل ہوئیں  ہادی نے ڈائری بند کر دی
" ہادی پریشے کی طبیعت کیسی ہے اب بیٹا "
" ٹھیک ہے امی "
"اچھا چلو میں یہ ھی پوچھنے آئ تھی سو جاؤ اب تم پھر " وہ کہ کر جانے لگیں کے ہادی نے  انہیں روکا
"امی مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے "
"بولو میری جان۔۔ " 
"امی آپ چاہتی ہیں نا میں شادی کر لوں تو مجھے ایک لڑکی پسند ہے۔ آپ اس سے میری شادی کروا دیں گیں  " ہادی انکے پاس آ کر رکا
"میری جان یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے تم نام بتاؤ میں کل ھی رشتہ لے کر چلی جاؤں گی " وہ تو خوشی سے وارے نیارے جا رہی تھیں
"امی وہ لڑکی جانتی ہیں کون ہے ۔۔" ہادی مسکرا کر بولا
"کون "
"پریشے " ہادی دھیمی آواز میں بولا
"سچ میں " وہ ارسلان اور پریشے کی منگنی ٹوٹ جانے کے بارے میں جانتی تھیں مگر تھ نہیں جانتی تھیں کے وجہ کیا ہے
"ہاں امی آپ اس کے گھر والوں سے بات کریں " ہادی نے کہا جس پر مسز تیمور نے اسے خوشی سے اپنے ساتھ لگایا
*****************
"آنٹی پلیز کچھ تو لیں نا " سائرہ نے نگٹس کی پلیٹ اٹھا کر مسز تیمور کو پکڑائی
"ہادی آپ لوگوں کی بہت تعریف کرتا ہے اور پھر پریشے کی بیماری کا بتایا تو سوچا طبیعت کا پوچھ لوں آ کر " مسز تیمور نے سائرہ کو بتایا
" اچھا ہادی بھی بہت اچھا ہے پتا ھی نہیں چلتا کے یہ ہمارا فیملی ممبر نہیں ہے " حسن نے مسکرا کر کہا
" ہاں جی اور حسن کی اور میری تو کافی حد تک  فرینڈشپ بھی ہو گئی ہے "  ہادی بھی بول ھی پڑا تھا جو نا جانے کب سے خاموش تھا
"پری زیادہ خاموش طبیعت کی ہے نا " مسز تیمور نے پری کو دیکھ کر کہا جو ٹیبل کو گورتے ہوئے نا جانے کن سوچوں میں گم تھی
"نن نہیں آنٹی وہ بس یوں ھی " پری سے بات نا بن پائی
" ہیلو ایوری ون " ایمن مسکراتی ہوئی ہال میں داخل ہوئی
" ایمن تم " سائرہ  نے کہا سب گھر والے خیران ہوئے تھے کیوں کے پری اور ارسلان کی منگنی ٹوٹ جانے کے بعد سے کوئی بھی ان  کے گھر سے جہانزیب صاحب کے گھر  اور جہانزیب صاحب کے گھر سے جہانگیر صاحب کے گھر نہیں آتا تھا صرف پری جب ہسپتال سے واپس آئی تو عنایا اس کی تیمار داری کرنے آئی تھی
"ہاں جی کیوں زیادہ خوشی نہیں ہوئی دیکھ کر " ایمن مسکرا کر بولی
"اچھا یہ ہادی کی امی ہیں " سائرہ نے مسز تیمور کی طرف اشارہ کر کے کہا تو ایمن ان سے ملی
"اچھا میں یہ شادی کے کارڈز دینے آئ تھی " ایمن نے کارڈ پری کی طرف بڑایا
"کس کی شادی کا " سائرہ بولی
"ارسلان بھائی کی " ایمن نے پری کو دیکھتے ہوئے کہا پری نے خیرانگی سے ایمن کو دیکھا
" واٹ کس سے کب ۔۔ " سائرہ خیرانگی سے بولی
"ایکچولی بھائی آوٹ آف کنٹری گئے تھے وہاں جا کر انھوں نے اپنی اولڈ فرینڈ سے شادی کر لی کیوں کے امی کی طرف سے اجازت تھی کے وہ اب اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں ورنہ امی اپنی مرضی سے انکی شادی کریں گی لیکن شادی اسی ڈیٹ پر ہوگی تو بھائی کو وہاں اپنی فرینڈ پسند تھی اور انھوں نے شادی کر لی ۔۔ اب آج بھائی واپس آ گئے ہیں تو  ہم نے اپنی بھابی کے آنے کی خوشی میں کل انکی ولیمہ پارٹی رکھی ہے جس پے آپ سب لوگ بھی انوائٹڈ ہیں " ایمن نے جلدی سے ساری بات بتائی
"ہم لوگوں میں سے کوئی نہیں آ رہا یہ کارڈ لو اور بتا دینا سب کو جا کر " سائرہ نے ایمن کو کارڈ پکڑایا
"عجیب لوگ ہو۔۔خود اپنی من مرضی کر کے خود ھی ناراضگی بنائی ہوئی ہے "ایمن نے منہ بنا کر کارڈ اٹھایا
"رکو یہ مجھے دو " حسن نے اس سے کارڈ لیا
"ہم لوگ ضرور آئیں گے " حسن کی بات مکمل ہوتے ھی ایمن چلی گئی . 
"یہ چال چلی ہے ارسلان نے شادی پہلے سے کر کے کس چالاکی سے وہ اس لڑکی کو گھر میں لے کر آیا ہے "ہادی نے سوچتے ہوئے پری کو دیکھا جو بےچینی سے ہاتھ مروڑ رہی تھی ۔۔۔اسکا منہ پر  پسینہ آ رہا تھا ۔۔
"پری آر یو اوکے " ہادی نے کہا جس پر سب نے پری کو دیکھا
"پری کیا ہوا ہے " حسن اٹھ کر پری کے پاس گیا وہ کھڑی ہو گئی ۔۔اور اونچے اونچے سانس لینے لگی
"یہ کیا ہو گیا ہے اسے " سائرہ نے تیزی سے پانی لا کر پری کو پلایا ۔۔حسن نے اسے اپنے ساتھ لگایا
"حسن بھائی ۔۔۔۔ "وہ لرزتی آواز سے بولی  سرخ آنکھوں سے بس آنسو آنا باقی تھے اسکی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔۔ 
"چپ میری جان سب ٹھیک ہو جائے گا " حسن نے اسکے سر پر پیار دیا
"چلو کمرے میں جا کر ریسٹ کرو  " حسن اسے لے کر چلا گیا ۔۔۔
"سوری وہ ذرا اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے " سائرہ شرمندہ ہو کر بولی
" آپ پری کو کل ہسپتال لے کر آئیں اسکے سب ٹیسٹ کروائیں ایک بار " ہادی نے سائرہ سے کہا
****************************
"پریشے تمھیں اگر لگتا ہے تم نہیں جا سکتی تو نا جاؤ شائد وہ سب دیکھناتمھارے لئے مشکل ہو " سائرہ پری کو سمجھا رہی تھی
"آپ کو ایمن کی بات یاد ہے نا ۔۔میں نے رشتہ ختم کیا ہے تو میری کسی سے ناراضگی نہیں بنتی سب اگر مجھ سے ناراض ہوں گے تو یہ انکا رائٹ ہے ۔ " پری نے دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے کہا
"میرا بہادر بچہ " سائرہ مسکرا کر بولی
"ولید بھائی کو منا لیں آج شائد گھر آ جائیں " پری نے کہا
"انہیں بابا ھی منا کر لیں کر آئیں گے " سائرہ کہہ کر باہر نکل گئی ۔۔ وائٹ شلوار کمیز کے اوپر اورینج دوپٹہ اسنے کندے پر پھیلا کر لیا تھا ۔ میک اپ بلکل بھی نہیں تھا بس ہلکی سی لیپ سٹک تھی ۔ بالوں کی چٹیا بنا کر سائیڈ پر کر کے کانوں میں ہلکی ہلکی بالیاں پہنی تھیں ۔۔ سمپل سے حلیے میں بھی وہ خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ انگھوٹھی پہننے لگی جب اسکی نظر اپنے ہاتھوں کی مہندی پر گئی۔۔ ہاں یہ وہ ھی مہندی تھی   جو ارسلان کے کہنے پر اسے لگائی گئی تھی جس کا رنگ اب بلکل ڈم ہو گیا تھا۔۔ آج کے دن انکی بارات کی تاریخ طے  پائی تھی اگر آج انکی شادی ہوتی تو اسے پھر سے آج ارسلان کے نام کی مہندی لگتی ۔ اسکے لئے پریشے کو سجایا جاتا ۔۔
"نو۔۔ نو پریشے آج نہیں پلیز آج نہیں " اس نے اپنی آنکھ کے کونے میں آیا ہوا ننھا سا آنسو صاف کیا ۔۔ انگوٹھی وہیں چھوڑ کر وہ جانے لگی جب اسکا فون بجا ۔ ڈریسنگ پر سے فون اٹھا کر کال یس کر کے اسنے کان سے لگایا
"ہیلو " پری آہستگی سے بولی
"آپ جا رہی ہیں ولیمہ پر " ہادی نے پوچھا
"ہاں جی اور آپ "
"ہاں کیوں کے میں آپ کو ادھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا " ارسلان نے ہادی کو بھی انوائٹ کیا تھا ۔۔ اور ہادی سچ میں بس پریشے کے لئے ھی جا رہا تھا۔ تا کے اسے اکیلے سب فیس نا کرنا پڑے
"اپنا خیال رکھیں باے" پری نے اسکی بات پر غور نہیں دیا اور فون رکھ کر چلی گئی
********************
فیملی کے لوگ ھی تھے اس لئےہال اکٹھا ھی تھا ۔۔ پری ، سائرہ کے ساتھ ایک سائیڈ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔ ابھی تک دولہا اور دلہن نہیں آئے تھے ۔۔
"مجھے لگتا ہے حسن اور بابا ولید کو گھر آنے پر راضی کر رہے ہیں " سائرہ نے ولید ،حسن اور جہانگیر صاحب کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر کہا
"ہاں شائد " پری نے کہہ کر منہ نیچے کر لیا پتا نہیں کن سوچوں میں ہر وقت وہ ڈوبی رہتی تھی
"اچھا میں بھی جاتی ہوں "سائرہ بھی کہہ کر چلی گئی ۔۔
"ہیلو کیسی ہو " ایمن فٹ سے اسکے پاس آئ
" ٹھیک ہوں تم کیسی ہو " پری نے بغیر مسکرائے جواب دیا
"ٹھیک ہوں " ایمن نےکہا پھر پری کی طرف سے کوئی جواب نا سن کر بولی
"ویسے یہ سب ہسپتال والا ڈرامہ کیوں کیا تھا  تم نے ۔ مطلب مرضی اپنی کر کے آخر میں  روگ لگا لیا " ایمن ہنس کر بولی
"دیکھو تمہارے بھائی کا میں نے روگ نہیں لگایا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ نا ھی اس جیسا انسان میری فیلنگز کے لائق ہے " پری نے  سنجیدگی سے کہا
" ہہہ"ایمنمنہ بنا کر  اٹھ کر چلی گئی۔۔ اسے ایمن سے یہ امید نہیں تھی کے  وہ بھی بدل جائے گی ۔ اس لئے اب وہ بھی پروا نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ عادت سے مجبور تھی لاپرواہ شو کروا کر بھی اسے پروا تھی ۔۔ ۔وہ اپنے دھیان بیٹھی تھی کے اچانک سب ہال کے دروازے کی طرف متوجہ ہوئے پری نے بھی دیکھا ۔۔ ارسلان اور مشال ایک دوسرے کے بازو میں بازو ڈالے ہال میں داخل ہو رہے  تھے ۔۔ وہ دونوں بہت خوش لگ رہے  تھے ۔۔ پری کی نظر ان پر ٹھہر گئی
کیسے دیکھ لوں اس شخص کو کسی اور کے ساتھ
جس کی الفتوں اور رفاقتوں پر صرف میرا حق تھا
جو بولتا تھا تو رکتا تھا جہاں سارا
جوہنستا تھا تو بنتا تھا سماء سارا
جس کو دیکھ کر ہوتی تھی صبح میری
جس کو محسوس کر کے گزرتی تھیں شامیں میری
کیا چاہت کی میری اس نے یہ مول لگایا
اپنا سب کچھ گنوایا اور مجھے مار ھی ڈالا
(ایمان محمود )
"جس شخص کا نام ہمیشہ اس نے اپنے ساتھ سنا تھا آج اسے کسی کے ساتھ دیکھ کر پری کو لگ رہا تھا وہ پاگل ہو جائے گی ۔۔
وہ دونوں اسٹیج پر جا کر بیٹھے پری نے نظر جھکا لی مگر لمحے لمحے بعد وہ ان کی طرف دیکھتی تھی ۔۔ مشال اور ارسلان نے کیک کاٹا اب وہ دونوں ایک دوسرے کو کیک کھلا رہے تھے .  ۔
پری کو پسینے آنے لگے وہ فورًا اٹھی اور ہاتھوں کو آپس میں مسلتی ہوئی خود کو نارمل کرتے ہوئے باہر نکلی ۔۔ ہال سے باہر نکلتے ھی اسے معلوم ہوا کے باہر بہت تیز بارش شرو ع ہے اور ساتھ  ھی اسکی آنکھوں سے بھی برسات جاری ہو گئی ۔۔ ہال سے وہ گھر تک مشکل سے پوھنچی گاڑی کھڑی کر کے وہ بھاگتی ہوئی اندر جانے کے لئے جا رہی تھی۔  ۔۔ گارڈن میں سے وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی گھر کی طرف جانے لگی ۔۔۔ جب وہ  کسی سے ٹکرائی ۔۔۔۔ وہ کس سے ٹکرائی تھی  دیکھے بغیر پھر سے تیزی سے اندر جانے لگی جب اسی شخص نے اسکا بازو پکڑا ۔۔پری نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔
"ہادی " پری لرزتی آواز سے بولی
"کیا ہوا " اس نے پری کو دیکھ کر کہا
"ہادی مجھے جانے دو پلیز " وہ منت کر رہی تھی
"مجھے جانے دو ہادی پلیز مجھے جانے دو ۔۔۔ " وہ وہیں بارش میں گھٹنوں کے بل گارڈن میں بیٹھ  گئی
"میری زندگی اجیرن کر دی ہے اس انسان نے جتنا اس سے دور بھاگتی ہوں میرے اتنا ھی سامنے آتا ہے ۔۔ وہ چلا کیوں نہیں جاتا یاں میں کہی دور کیوں نہیں چلی جاتی سب کی نفرت کم ہے جھیلنا جو اب اسے کسی اور کے ساتھ دیکھوں گی میں مر جاؤں گی ۔۔ میں کیوں نہیں سمبھل پا رہی کیوں اسے بھولتے بھولتے جب وہ ایک بار میرے سامنے آتا ہے تو اسی جگہ آ کھڑی ہوتی ہوں جہاں وہ مجھے چھوڑ کر گیا تھا ۔ جسے کسی کے ساتھ سوچنا بھی تکلیف دیتا تھا آج اسے کسی اور کے ساتھ دیکھ رہی هوں میں ۔۔ میں کیا کروں مجھے اپنا آپ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے "وہ سر کو ہاتھوں سے تھامے رو رو کر بول رہی تھی ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی اس وقت اس کے سامنے کون کھڑا تھا بس اتنا جانتی تھی کے وہ دکھ میں تھی ۔۔
"پریشے سب ٹھیک ہو جائے گا صبر کرو " ہادی اتنا ھی بول پایا
"صبر ۔۔ آپ نے کبھی اپنے پیار کو کسی اور کا ہوتا دیکھا ہو تو میں آپ سے پوچھتی کے صبر کرنا آسان ہے "پری نے سر اٹھا کر اسے دیکھ کر کہا ۔۔ ہادی چپ ہو گیا اس نے تو ہمیشہ سے ھی   اپنے پیار کو کسی اور کے ساتھ دیکھا تھا وہ جانتا تھا اسکی تکلیف کیا ہوتی ہے ۔ ۔۔ ہادی حسن کی گاڑی اسکے گھر چھوڑنے آیا تھا کیوں کے  وہ ہسپتال سے واپسی پر اپنی گاڑی کے خراب ہونے پر حسن کی لے گیا تھا اور اب چھوڑنے آیا تھا  وہ  ہال جانے ھی لگا تھا جب اسنے پری کو آتے دیکھا اور وہ رُک گیا تھا ۔۔
"پریشے اندر چلیں " ہادی نے اسے کہا جو اسی حالت میں تھی پتا نہیں اسے اب اچانک کیا ہو جاتا تھا اس کے لئے خود پر قابو پانا بہت مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔۔
"ہادی آپ جاؤ " اسنے سر جھکائے ہوئے اسے جانے کا اشارہ کیا
"پریشے اندر چلیں باہر بہت ٹھنڈ ہو رہی ہے اور بارش بھی بہت تیز ہے " ہادی نے اسے سمجھایا
"گو پلیز " پری کی بات پر اسے مجبورًا جانا پڑا ۔۔
گیٹ کے پاس جا کر اس نے پھر مڑ کر دیکھا وہ ادی طرح بیٹھی تھی ۔۔ ہادی کو اس پر بہت ترس آیا
***********************
"بابا آپ نے بلایا تھا مجھے " حسن ہال میں آ کر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا
"ہاں مجھے آپ لوگوں سے  ضروری بات کرنی ہے " جہانگیر صاحب سنجیدگی سے بولے ۔ وہ صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے
"بابا کیا بات ہے آپ نے ہم سب کو ایسے بلایا ہے " سائرہ پریشانی سے بولی
"نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بس بات ایسی ہے اس بار میں خود آپ لوگوں سے کرنا چاہتا ہوں پہلے میں ولید کو ھی کہتا تھا سارے معاملات سمبھالنے کے لئے لیکن اب میں خود بھی سمبھالوں گا "
"بابا جان ولید بھائی آفس آتے ہیں نا " حسن نے پوچھا
"ہاں وہ آتا ہے ۔ لیکن کل تم نے دیکھا ہے وہ گھر آنے کے لئے راضی نہیں ہوا اس لئے اب کوئی اسے گھر آنے کا نہیں کہے گا اسے جب احساس ہوگا کے اسنے غلط کیا تو وہ خود ھی آ جاۓ گا خیر مجھے آپ لوگوں سے یہ بات کرنی تھی کے ہادی کے گھر والے ہمارے گھر جس وجہ سے آئے تھے حسن کے علاوہ شائد کوئی وجہ نہیں جانتا اس گھر میں " جہانگیر صاحب سائرہ سے بول رہے تھے پری پاس بیٹھی خاموشی سے سن رہی تھی وہ اب ببت خاموش ہو گئی تھی
"بابا جان وہ پری کی تیمار داری کرنے آئے تھے نا " سائرہ بولی
"ہاں لیکن تیمور صاحب میرے ساتھ دوسرے روم میں جب بیٹھے تھے تو انھوں نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی تھی " جب ہادی کی فیملی آئ تو تیمور صاحب اور جہانگیر صاحب کمرے میں بیٹھے تھے ادھر ان کی کیا باتیں ہوئیں سائرہ اور پریشے نہیں جانتی تھیں
"کیا بات ہوئی بابا " سائرہ نے پوچھا
"وہ پریشے کا ہاتھ ہادی کے لئے مانگ رہے ہیں " جہانگیر صاحب کی بات پر پری اور سائرہ کو شوک لگا
"اور ہادی کو میں جانتا ہوں وہ بہت ھی اچھا لڑکا ہے ۔ ارسلان مجھے شرو ع سے پسند نہیں تھا لیکن میں نے ولید بھائی کا مان رکھا تھا ۔ ہادی کو میں بہت اچھے سے جانتا ہوں ہماری بہت اچھی فرینڈشپ میں ۔ "حسن نے بھی بتایا ۔۔ پری بس خیرانگی سے سن رہی تھی کے یہ سب ہو کیا رہا ہے کیا اتنی جلدی ضروری تھا کے وہ کسی اور کے ساتھ رشتے میں باندھ فی جائے ۔
"مجھے شادی نہیں کرنی ، نا آج نا کل نا پوری زندگی۔ اگر اب کسی نے میرے ساتھ یہ بات کی تو میں بہت دور چلی جاؤں گی " پری غصے سے بولی
"میری جان پوری زندگی ایسے نہیں گزرتی پری "  سائرہ نے کہا
"بابا آپ کیسے کر سکتے ہیں یہ سب آپ جانتے ہیں نا پہلے بھی آپ سب کی وجہ سے میں نے یہ قدم اٹھایا تھا اب پھر آپ سب مجھے مجبور کر رہے ہیں " پری سنجیدگی سے بولی
"پریشے ہادی اچھا لڑکا ہے میری بات مانو تم جانتی ہو میں اور تم بیسٹ فرینڈز جیسے ہیں میں تمہاری نیچر کو بہت اچھے سے جانتا ہوں ۔۔ تمھیں ہادی سے اچھا لڑکا نہیں ملے  گا یاد رکھنا " حسن اسکے پاس آیا
"آپ لوگ زبردستی کر رہے ہیں " پری سے بات نا بن پائی اور وہ  رونے لگی
"میری جان کوئی نہیں کر رہا زبردستی ہم بس بات کر رہے ہیں " سائرہ اسکے پاس آ کر بیٹھی
"تو پھر نا کریں بات مجھ سے یہ "
"ہاں ٹھیک ہے نہیں کرتے ۔ کس چیز کی سزا دے رہی ہو ہمیں ۔ کیا تمھیں نہیں لگتا جس طرح کی تمہاری کنڈیشن ہے ہم تمھیں دیکھ کر پریشان ہوں گے۔  پوری زندگی مت کرنا شادی اور  پوری زندگی ہمیں اس چیز کی سزا دینا کے ہم نے تم پر یقین کر کے ارسلان سے تمہارا رشتہ ختم کر دیا یہ سوچے بغیر کے ابا جان کی فیملی سے ہمارے تعلقات کس قدر خراب ہو جائیں گے ۔آج تمہاری وجہ سے بھابھی اپنے گھر والوں سے ملنا نہیں چاہتیں  ولید بھائی گھر نہیں آنا چاہتے ۔ اگر تمہاری شادی ہو جائے گی تو شائد سب ٹھیک ہو جاۓ  مگر نہیں تمھیں صرف اور صرف اپنی  فکر ہے صرف اپنا سوچنا تم ۔ پہلے اپنا سوچا اور ارسلان کو چھوڑ دیا اور اب ہم سب کو پوری زندگی اسی حالت میں رکھنا کے ہم اپنی اکلوتی بہن کو یوں دیکھ کر پریشان ہوتے رہیں وری نائیس بہت اچھے ۔۔" حسن غصے سے بولا پریشے کے لئے حسن کا رویہ نارمل نہیں تھا کیوں کے وہ ایسی باتیں نہیں کرتا تھا
"اچھا میں سلفش ہوں سچ میں جانتے کیا ہیں آپ " پری کو برا لگا اس نے ارسلان کی حقیقت اس لئے نہیں بتائی کے وہ سب سے  دور نا ہو جائے اور اب سب اسے سلفش کہ رہے تھے ۔ اس شخص کی وجہ سے وہ دو دن ہسپتال رہی اور وہ سلفش تھی اس شخص کو ان سب سے ملانے کے لئے وہ رشتے کے لئے مانی اور وہ سلفش تھی ۔۔ جیسے بہت کچھ ٹوٹا تھا اس کے اندر رہا سہا مان جو وہ اپنی فیملی پر کرتی تھی وہ بھی اسے لگ رہا تھا اب ختم ہو گیا ہے جو سب اسے سمجھنے کا دو کرتے تھے آج کوئی اسے نہیں سمجھا تھا ۔۔
"میرا بیٹا اس بار آپ اپنی مرضی کرو ۔۔ جو آپ کو ٹھیک لگے " جہانگیر صاحب نے پری کو سمجھتے ہوئے کہا
"مجھے بھی ہادی پسند ہے آگے پری کی مرضی " سائرہ نے کہا
"اگر آپ سب کو لگتا ہے کے وہ میرے لئے اچھا انسان ہے تو ٹھیک ہے میری طرف سے ہاں ھی سمجھ لیں " وہ کہ کر رکی نہیں اور ایک بار پھر اس نے سب کی خوشی کے لئے کمپرومائز کیا تھا یاں یہ کہنا بہتر تھا کے خود کو ان سب سے دور کرنے کے لئے اسنے یہ سٹیپ اٹھایا تھا  وہ  تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی ۔۔۔
سب کے چہرے پر ایک خوش گوار مسکراہٹ آئ
***********************
"آنٹی مجھے ہادی بہت پسند ہے پریشے اور ہادی کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا لیکن اب یہ سب ہو رہا ہے تو بس لگ رہا ہے کے پریشے کے لئے ہادی سے بیسٹ کوئی بھی نہیں " سائرہ مسز تیمور سے بات کر رہی تھی ۔۔ آج ہادی اور اسکی فیملی پھر آئے تھے ۔ اس سے پہلے سائرہ اور باقی ساری فیملی بھی ہادی لوگوں کے گھر گئے تھے اور آج وہ لوگ پھر اے تھے
"میں چاہتی ہوں ایک بار ہادی اور پریشے بات کر لیں ۔ جو کچھ پریشے نے پوچھنا ہے وہ پوچھ لے اور ہادی نے پوچھنا ہے پوچھ لے تا کے کل کو کوئی پرابلم نا ہو " مسز تیمور نے سائرہ سے کہا ۔۔حسن ،تیمور صاحب ، جہانگیر صاحب ہال کی دوسری سائیڈ بیٹھے تھے ہال کافی بڑا تھا مسز تیمور اور سائرہ ایک طرف بیٹھی باتیں کر رہی تھیں
"آنٹی میں پریشے کو بلاتی ہوں " سائرہ اٹھ کر پری کے کمرے میں چلی گئی جب سے یہ لوگ آئے تھے پری باہر نہیں نکلی تھی ۔۔دو منٹ بعد سائرہ پریشے کے ساتھ ہال میں آئی ۔۔ پریشے مسز تیمور سے مل کر بیٹھنے لگی جب مسز تیمور کے کہنے پر بیٹھتے بیٹھتے رک گئی
"بیٹا ہادی باہر گارڈن میں ہے ہم چاہتے ہیں کے آپ دونوں ایک بار آپس میں بات کر لو "
"انٹی میں نے ہاں پہلے سے کر دی ہے " پری آہستگی سے بولی کوئی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نہیں تھی
"بیٹا پھر بھی ایک بار آپ لوگ بات کر لیں " مسز تیمور کی بات پر وہ باہر کی طرف چلی گئی ۔۔ باہر نکل کر اس نے گارڈن کی طرف دیکھا جہاں ہادی بینچ کے پاس کھڑا اسی کا انتظار کر رہا تھا
"جی "وہ اس کے پاس جا کر رکی اور بولی ۔۔ ہادی نے مڑ کر دیکھا ۔۔پنک کرتا وائٹ کیپری اور پھیلا کر شولڈرز پر اس نے دوپٹہ لے رکھا تھا بال ڈھیلی پونی میں باندھے ہوئے تھے ۔۔ دو تین لٹیں منہ پر آ رہی تھیں ۔۔ وہ ہمیشہ کی طرح سادگی میں بھی کمال لگ رہی تھی
"کیسی ہیں آپ " ہادی نے مسکرا کر کہا جس پر پریشے نے اسکو نظر اٹھا کر دیکھا آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھیں جن میں آنسو بس گرنے والے تھے
"ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں " پری مسکرائی لیکن اسکی مسکراہٹ کا ساتھ اسکی آنکھیں نہیں دے رہی تھیں اور ہادی جتنی اس سے محبت کرتا تھا وہ کچھ نا بھی بولے تو وہ سمجھ سکتا تھا کے اس کے لئے یہ سب کتنا مشکل تھا۔ ہاں کسی اور کو اپنی زندگی میں لانا
"پریشے آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں "
"میں ٹھیک ہوں ہادی " اس نے نظریں چرائیں
"پریشے میں آپ کے پاسٹ کے بارے میں سب جانتا ہوں تو آپ یہ نا سوچیں ہمارے فیوچر پر اسکا کوئی اثر پڑے گا میں دعوے نہیں کرتا لیکن آپ خود دیکھ لیں گی مجھ سے اپکو شکایت نہیں ملے گی "ہادی اسے دیکھ کر بول رہا تھا ۔
"ہمم ٹھیک ہے میں جاؤں " پریشے نے ہادی کو دیکھ کر کہا وہ لگاتار کبھی ایک طرف دیکھتی تو کبھی دوسری جیسے اس کے لئے ادھر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا ۔ ابھی تو آئ تھی لیکن شائد وہ کمفرٹیبل نہیں تھی اس لئے ہادی نے اسے نہیں روکا تھا
"ہاں چلیں "ہادی بھی اسکے ساتھ جانے لگا وہ دونوں ہال میں داخل ہوئے پانچ منٹ کی سب کی آپس میں مزید بات چیت کے بعد جہانگیر صاحب کی طرف سے ہاں  ہونے پر سب آپس میں  گلے ملے اور ایک دوسرے کو مبارک بعد دی ۔۔ پریشے کو بھی سائرہ نے گلے لگا  کر مبارک دی وہ مشکل سے مسکرا رہی تھی وہ جانتی تھی اس وقت اس پر کیا گزر رہی تھی ۔
"اچھا میں چاہتی ہوں بچوں کا نکاح ھی کریں ہم لوگ ڈائریکٹ رخصتی بیشک آپ لوگ اپنی مرضی سے کر لیں " مسز تیمور نے جہانگیر صاحب سے کہا اب وہ سب اکٹھے ھی برتھ گئے تھے
" ہاں جیسے آپ لوگوں کو ٹھیک لگے ۔لیکن آنٹی رخصتی کب تک کرنا چاہتے ہیں " حسن نے پوچھا
"ہماری طرف سے تو کوئی ایشو نہیں ہے میں تو جلد از جلد اپنی بیٹی کو اپنے گھر لے کر جانا چاہتی ہوں "
"ٹھیک ہے ہم بھی شادی جلدی ھی کرنا چاہتے ہیں آپ ڈیٹ فکس کر لیں "حسن کک بات اور پری نے اسکی طرف دیکھا وہ ایسا کیوں کر رہا تھا وہ تو اسکا بھائی تھا جو اسے سمجھتا تھا ۔۔ پھر آج وہ کیوں نہیں سمجھ رہا تھا
"ہم ایک مہینے کے اندر اندر شادی کرنا چاہتے ہیں "تیمور صاحب نے کہا
"جیسا آپ کو ٹھیک لگے ہمیں کوئی اعتراض نہیں "جہانگیر صاحب نے جواب دیا
"واؤ گریٹ پھر دون ہو گیا "سائرہ مسکرائی
"انشااللہ ایک مہینے بعد میری بیٹی میرے گھر ہوگی "مسز تیمور نے پری کے ماتھے پر پیار دیا
"اچھا اب منگنی تو ہوگی نہیں لیکن میں یہ انگوٹھی شگن کے لئے لائی تھی اگر اجازت ہو تو پری کو پہنا دیں " مسز تیمور نے مسکرا کر کہا
"جی انٹی " سائرہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔ مسز تیمور نے ہادی کو انگوٹھی پکڑای ۔۔ سائرہ کے کہنے پر پری نے ہاتھ آگے بڑایا  پری نے  ہاتھ آگے کیا ہادی نے محسوس کیا پریشے کے ہاتھ کانمپ رہے تھے ۔۔آج پری کے سامنے وہ منظر آ رہا تھا جب ارسلان سے اسکی منگنی ہوئی تھی ۔۔ اسکے لئے خود پر قابو پانا بہت مشکل تھا ۔۔ ہادی نے پری کو انگوٹھی پہنائی پری نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کر لیا
"مم میں جاؤں " پری نے سائرہ سے کہا ۔۔ ہادی صرف پری کو دیکھ رہا تھا اسے پسینہ آ رہا تھا وہ کیوں ایسا کرتی تھی ۔۔ ہادی کے کہنے پر حسن نے اسکے ٹیسٹ کروائے تھے  تو بھی سب نارمل تھا پھر یہ کیا ہو جاتا تھا اسے۔ ۔ پری کمرے میں چلی گئی اور  ہادی گہری سوچ میں تھا
*********************
"ہادی میری جان سوئے نہیں ابھی تک " مسز تیمور ہادی کے پاس آ کر بیٹھ گئیں جو شائد کوئی بک پڑھ رہا تھا
"امی بس نیند نہیں آ رہی تھی " اسنے مسکرا کر جواب دیا
"میری جان اب آنی بھی نہیں نیند پریشے جو ایک مہینے بعد اس گھر میں انے والی ہے " مسز تیمور نے کہا جس پر ہادی بے اختیار مسکرایا
"اچھا ہادی اب مجھے اپنے دوستوں کی لسٹ دے دینا جن کو انویٹیشن دینے ہیں "
"اوکے امی "
"پری سچ میں بہت خوبصورت ہے لیکن اب وہ پہلے جیسی مسکراتی نہیں نا جانے کیوں ۔۔ خالانکہ ارسلان سے رشتہ بھی اس کے خود ختم کیا پھر بھی پتا نہیں کیوں "
"امی تھوڑا ٹائم لگے گا ۔ وہ بلکل ٹھیک ہو جائے گی بلکل پھلے جیسی ہستی مسکراتی آپ کو اپنے بیٹے اور یقین ہے نا "
"ہاں ۔۔ میری جان "
"چلیں ہر دو کپ چاۓ بنا لائیں "
"ہاہا ہاں بس ماں کو دیکھ کر کام ھی یاد آ جاتے ہیں " وہ مسکرا کر کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں
************************
ہادی اور پریشے کی فیملیز اب شادی کی تیاریوں میں لگیں تھیں ۔ اسی لئے آج مسز تیمور پریشے کو اپنے ساتھ شاپنگ پر لے کر گئیں تھیں پریشے ہرگز نہیں جانا چاہتی تھی مگر مسز تیمور کو وہ نا نہیں کر سکتی تھی وہ ایک بہت خوش اخلاق خاتون تھیں مگر پریشے شائد ابھی یہ سب فیل نہیں کر رہی تھی کیوں کے وہ خود میں ھی بہت الجھی ہوئی تھی ۔۔
"ہادی بیٹا ہمیں گھر اتار دو اور پریشے کو گھر چھوڑ دو ۔۔ کیوں کے رات ہونے والی ہے اور سائرہ سے میں نے تھوڑی دیر کا ٹائم ھی لیا تھا " مسز تیمور نے ہادی سے کہا
"اچھا "ہادی نہ کہا پری نے خیرانگی سے مسز تیمور کو دیکھا
"آنٹی آپ اتر جائیں گی میں اکیلی گھر جاؤں گی کیا "وہ ایسے بول رہی تھی جیسے وہ بلکل اکیلے گھر جانے لگی ہو
"ہاں بیٹا لیکن ہادی آپ کو چھوڑ کر آئے گا " ہادی نے گاڑی روکی اور مسز تیمور کہ کر نیچے اتر گئیں
"اپنا خیال رکھنا " وہ کہ کر چلی گئیں ۔۔
"میں اس کے ساتھ اکیلی جاؤں گی نہیں کبھی نہیں ۔۔ ایسا کیسے مجھے بتانا چاہیے تھا نا کے واپسی پے مجھے اکیلے ہادی کے ساتھ آنا ہوگا تا کے میں کبھی آتی ھی نہیں۔۔ میں کیا کروں اب " پری کو پسینہ آنے لگا
"ڈونٹ وری آپ مجھ پر اتنا تو ٹرسٹ کر سکتی ہیں "ہادی نے بیک ویو مرر میں پری کو دیکھ کر کہا اور پھر گاڑی چلانے لگا پری ایک ذرا ڈھیٹ نہیں ہوئی تھی ۔۔ ہادی نے گاڑی میں سونگ چلا دیا اور والیوم لاوڈ کر دیا تا کے پری کمفرٹیبل رہے

Du hast das Ende der veröffentlichten Teile erreicht.

⏰ Letzte Aktualisierung: Jun 23, 2019 ⏰

Füge diese Geschichte zu deiner Bibliothek hinzu, um über neue Kapitel informiert zu werden!

احساس (completed) Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt