ساتویں قسط

2K 102 33
                                    

"ارسلان میں شادی کے لئے تیار ہوں آپ گھر والوں سے بات کر لیں "
وہ نہیں جانتی تھی کے اس نے سہی کیا یاں غلط وہ صرف اتنا جانتی تھی کے اسے اپنا رشتہ بچانا تھا یاں یہ کہنا بھی بہتر رہے گا کے اسے اپنی محبت بچانی تھی ۔ ارسلان کے رشتہ ختم کرنے والی بات پر جو پریشے نے فیل کیا تھا اسے یقین ہو گیا تھا وہ ارسلان کے لئے کچھ فیل کرنے لگی ہے ۔ اس نے کہا تھا وہ اسے اپنا عادی بنا دے گا اور اس نے ایسا کر دیا لیکن پری  نے بھی تو کہا تھا اگر شادی سے پہلے محبت ہو بھی گئی تو یہ اظہار نہیں کرے گی اب اسے ایسا ھی کرنا تھا اس نے ارسلان کی بات نہیں سنی تھی بس اسے بتا کر کال اوف کر دی  اور فون بیڈ پر پٹھا ۔ کیوں کے اس وقت وہ خود میں ھی الجھی تھی اتنےسارے مسلے اسے سلجھانے تھے  ۔
بات اکثر پوھنچی ہے ترکِ تعلق تک
ہم نے محبت سے محبت کو بچا لیا ہے ۔
                   *****************
ارسلان نے گھر بات کی تھی اور جہانزیب صاحب نے جہانگیر صاحب سے بات کی انھوں نے گھر والوں کی را ئے پوچھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ جہانگیر صاحب تو چاھتے تھے پری کی شادی جلدی کر کے فرض ادا کر دیں مگر وہ ھی کہتی تھی جب تک اسٹڈی کمپلیٹ نہیں ہوگی شادی نہیں کرے گی ۔ ان منگنی کے دورانیے نے اسکی سوچ کافی حد تک بدل دی تھی یاں یہ کہنا مناسب رہے گا کے وہ سوسائٹی کے ساتھ موو اون کرنا چاہتی تھی ۔۔
دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زوروشور سے ہو رہی تھیں..شادی کی تاریخ تین ہفتے بعد کی رکھی گئ تھی..ارسلان کی مجبوری کی وجہ سے سب جلدی میں کیا گیا تھا ورنہ پریشے کی پڑھائ مکمل ہونے کے بعد ہی شادی کی جاتی۔ سب ارسلان کی عادت سے واقف ہو چکے تھے کے وہ کس قدر ضدی انسان ہے۔۔ ضدی تو پریشے بھی کم نہیں تھی مگر وہ خود کا مقابلہ ارسلان سے نہیں کرتی تھی   جب بھی ارسلان کا نام کسی کے منہ سے سنتی تو وہ ساتھ ھی پریشے کا ذکر بھی کرتے جیسے وہ صرف اور صرف ارسلان کے لیے بنی ہے۔۔ارسلان کو خود سے دور کرنے کا سوچ کر بھی وہ ڈرتی تھی اور ارسلان نے تو کہہ دیا تھا کے اگر شادی جلد نہ ہوئ تو وہ یہ رشتہ استوار نہیں رکھ سکتا۔۔اس نے اس بات کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کہ شاید وہ اسے منانے کے لیے یہ سب کہہ رہا ہے۔۔ وہ کبھی ارسلان کو سمجھ نہیں پاتی تھی کبھی اچھا اور کبھی برا۔ نا جانے کیسا شخص تھا جسے سمجھنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ مگر وہ خود کو یہ کہہ کر یقین دلاتی تھی کے وہ شادی کے بعد اسے سمجھ جاۓ گی اور ارسلان سے زیادہ محبت پریشے سے کوئ نہیں کر سکتا۔۔ وہ صرف ارسلان کی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔۔ اگر ان دونوں کے بیچ کبھی کوئ آیاتو وہ اسے کھینچ کر نکال دے گی مگر خود کو ارسلان سے الگ نہیں ہونے دے گی۔۔ ہاں یہ سب اب وہ سوچنے لگی تھی ۔
”دلہن صاحبہ کیا کر رہی ہیں“پریشے ہال میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی عنایہ مسکرا کر کہتے ہوۓ ہال میں داخل ہوئ
”ارے آنی میں تم سے ملنا چاہ رہی تھی اور تم آ گئ واؤ“پریشے مسکرا کر اٹھی اور عنایہ کے گلے لگی
”ووووووواؤ دیکھ لو پھر دل  کو دل سے راہ ہوتی ہے“عنایہ اس سے الگ ہو کر صوفے پر بیٹھی
”ہاہاہاہا ہاں جی عنایہ اور پریشے کی دوستی ہی اتنی گہری ہے ایک ملنے کا سوچتی ہے اور دوسری آ بھی جاتی ہے“ایمن جو کب سے سائرہ کے ساتھ کچن میں تھی باہر آتے ہوۓ بولی
”ایمن تم کب آئ مجھے لگا تم گھر ہو“عنایہ خیران ہوئ
”بس آپی سے کا م تھا اس لیے“ایمن نے وجہ بیان کی
”بھئ ہماری ایمن تو نجانے کہاں رہتی ہے ہر وقت“پریشے نے اسے گھورا
”موبائل میں کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے بہت چپکی رہتی ہے موبائل سے“عنایہ نے اسے چھیڑتے ھوۓ کہا
”لیں یہ کیا موبائل پکڑو تو شک سٹارٹ ۔۔ بھابھی“ایمن نے مسکرا کر کہا
”میں تو بھائ کی شادی کے لیے آن لائن ڈریسز دیکھتی رہتی ہوں“ایمن نے کہا
”ایمن بات سنو“حسن اپنے روم سے نکل کر ان کی طرف آیا اور ایمن کے پاس آ کر رکا
”تم ٹھیک تو ہو نا“حسن نے ایمن سے کہا۔۔حسن کو دیکھ کر ایمن ویسے ھی گھبرا جاتی تھی
”ہاں کیوں کیا ہوا“ایمن نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔حسن ٹو دی پوائنٹ بات کرتا تھا اور آج ایمن کا ہال پوچھ رہا تھا ایمن کو بات ہضم نہیں ہوئ تھی
”اچھا پھر تم کل ہاسپٹل کیوں آئ تھی“حسن کی بات پر ایمن کے چہرے کا رنگ اڑ گیا
”آآ۔۔آ آپ کو کس نے بتایا“وہ  بوکھلا گئ
”مجھے ہادی نے بتایا کے تم کل آئ تھی اور میرا پوچھنے کے لیے ہادی سے بھی ملی تم تو جانتی ہو میری کل نائٹ ڈیوٹی تھی تو پھر دن کو جانے کا کیا مقصد تھا“حسن سنجیدگی سے بول رہا تھا ”اوو وہ..وہ میں بھول گئ تھی“ایمن نے جواب دیا
”پھر بھی تم نے وجہ نہیں بتائ جانے کی“حسن بھی بھولنے والوں میں سے نہیں تھا
”وہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی“ایمن نے کہا جس پر عنایہ فٹ سے بولی
”ایمن تمہیں کیا ہوا تھا تم تو یونی گئ تھی ہمیں کیوں نہیں بتایا“
”وہ یونی ہی خراب ہوئ تھی تو ڈرائیور کو کال کی اور واپسی پر ہاسپٹل چلی گئ“ایمن نے عنایہ کو بتایا
”اچھا ٹھیک ہے مگر جو بھی ہو مجھ سے پوچھ لیا کرو اگر کبھی آنا پڑ جاۓ۔۔ہادی کو ڈسٹرب مت کیا کرو“حسن سنجیدگی سے کہہ کر چلا گیا ایمن نے پریشے اور عنایہ کو دیکھا وہ آپس میں باتوں میں مگن ہو گئ تھیں تو وہ بھی خاموشی سے انکے پاس بیٹھ گئ
           ********************
"میں تو کچھ نہیں جانتی مجھے ڈھولک ابھی سے رکھنی ہے " مسز جہانزیب نے ضد لگائی تھی کے ابھی سے ڈھولکی شرو ع کر لیں .
"بیگم ابھی تو بہت دن ہیں شادی میں " مسز جہانزیب انہیں سمجھا رہے تھے
"ابا امی ٹھیک کہ رہی ہیں ارمان بھائی کی شادی پے بھی کھل کے انجواے نہیں کیا تھا تو اب آپ بھی اجازت دے دیں پلیز "ایمن نے اصرار کیا  ہنگامے اور مستی میں تو وہ ہمیشہ خوش رہتی تھی
"ہاں جی ابا جان اب آپ کو اجازت دینی ھی ہوگی کیوں کے آفٹر آل میری شادی کے بعد پہلی شادی ہے میرے سسرال میں " عنایا بولی جس پر جہانزیب صاحب مسکراے
"اچھا اب میری بیٹی نے بھی کہ دیا تو دے دی اجازت " جہانزیب صاحب کی بات پر ایمن نے اچھل کر عنایا کو گلے لگایا
"تھنک یو تھنک یو تھنک یو سووو ۔۔۔۔۔ مچ "
"ارے کس بات کی خوشی منائی جا رہی ہے " سائرہ نے ایمن کو دیکھ کر کہا آج جہانگیر صاحب کی فیملی کا ڈنر جہانزیب صاحب کے گھر تھا اسی سلسلے میں وہ سب ابھی آ گئے  تھے ۔
"اچھا ہوا آپ لوگ آ گئے ۔ " مسز جہانزیب نے انکا استقبال کیا
"میں سب کو بلا کر لاتی ہوں ۔" ایمن چلی گئی ۔
"السلام عليكم ۔۔۔" ارسلان نے  کمرے سے باہر آ کر سب کو سلام کیا "امی ہادی بھی کھانا ہمارے ساتھ کھائے گا اسکا فون آیا تھا کی میری طرف آ رہا ہے تو میں نے اسے بھی انوائٹ کر لیا " اس نے ماں کو بتایا
"اوکے میری جان " مسز جہانزیب کہ کر اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔ سب کھانے کے لئے اٹھ گئے اور ہادی نے آتے ہی سب کو سلام کیا اور ملا ۔
"چلو باقی باتیں بعد میں پہلے کھانا کھا لیں " سائرہ کے کہنے پر سب نے اپنی اپنی جگہ سمبھالی ۔
"ہادی بیٹا آپ کا پورا نام کیا ہے " سائرہ ،ایمن ،عنایا کھانا رکھ رہیں تھیں جب  مسز جہانزیب نے  ہادی سے پوچھا
"آنٹی عبدالہادی " مختصر سا جواب
"اچھا لیکن اپکا نام تو نورلھادی ہے نا " ایمن خیران ہوئی
"جی آنٹی وہ ایکچولی نام نورلھادی رکھا تھا امی نے لیکن بعد میں پتا چلا کی نورلھادی بلانا درست نہیں ہے اس لئے پھر عبدلھادی رکھ دیا امی نے چینج کر کے ۔۔ لیکن اب بھی وہ اکثر مجھے نورلھادی ہی کہتی ہیں ۔" جواب مسز جہانزیب کو دیا گیا تھا
"اوہ اچھا بہت پیارا نام ہے ماشاءالله ۔" مسز جہانزیب نے کہا
"جی شکریہ " سب کھانے میں مگن ہو گئے ۔۔
"اچھا بیٹا پھر شادی پر اپنی فیملی کو بھی لانا " جہانزیب صاحب نے ہادی سے کہا 
"جی انکل کس کی شادی " وہ خیران ہوا تھا
"ارے بیٹا ارسلان کی ارسلان۔۔ تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی تم نے ہادی کو نہیں بتایا "
"وہ ابا جان کل سے بات ہی نہیں ہوئی سوچا آج مل کے بتا دوں گا  ہاں ہادی تین ہفتے بعد میری شادی ہے اور تم نے ضرور آنا ہے " وہ مسکرا کر بولا
”ہادی بیٹا آپ تو کچھ بھی نہیں لے رہے کھاؤ نا کھانا“مسز جہانزیب نے کے کہنے پر ہادی نے انہیں دیکھا ۔۔ جھٹکا اتنا بڑا تھا وہ کھانا بھول گیا تھا
”نہیں آنٹی میں کھا رہا ہوں“
”ہادی شادی میری ہے ڈائٹ تم کر رہے ہو“ارسلان کسٹرڈ پلیٹ میں ڈالتے ہوۓ شوخ انداز میں بولا
”ہادی آپ بھی کسٹرڈ لو“مسز جہانزیب نے اسے کسٹرڈ کا باؤل پکڑایا۔۔وہ ایسی ھی تھیں سب کا خیال رکھنے والیں
"ارسلان مجھے کال کرنا۔۔ میں چلتا ہوں "وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اب نوالہ خلق سے اتارنا اسکے مشکل ہو گیا تھا 
"بیٹھ جاؤ چپ کر کے پہلے کسٹرڈ کھاؤ " ارمان نے اسے پھر بٹھا لیا  پریشے بھی ادھر ہی تھی ہادی پریشے کو دیکھتا نہیں تھا مگر اس کی موجودگی میں جب بھی ارسلان پریشے سے بات کرتا تھا وہ لمحہ ہادی کے لئے  بہت مشکل سے  گزرتا تھا  کبھی کبھی اسے لگتا تھا وہ جتنا ان دونوں سے دور بھاگتا ہے  ارسلان اتنا ہی اس کو اپنے ساتھ رکھنا چاہ رہا ہے ۔ کبھی کبھی ارسلان ہادی کو اپنا دشمن لگتا تھا۔۔
”ہادی بھائی  آپ کی منگنی ہوئ ہے“عنایہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا
”نہیں“اس نے ہمیشہ کی طرح  مختصر سا جواب دیا
”کیوں کوئ پسند نہیں آئ یاں ون سائڈڈ لؤ ہے“ایمن نے بھی  پوچھ لیا جیسے اسکا من پسند سوال ہو ۔۔اور اس کی بات ہادی کو بے حد چبھی۔اس نے چور نظروں نے پریشے کو دیکھا جو بےدھیانی سے چاول کھا رہی تھی
”ایمن یہ انکا پرسنل میٹر ہے تم انٹر فئیر مت کرو“ارمان نے سنجیدگی سے کہا شاید وہ جان گیا تھا کے ہادی لاجواب ہو گیا ہے ہادی ارسلان کی وجہ سے آتا جاتا رہتا تھا جس کی وجہ سے سب اسے اچھے سے جاننے لگے تھے وہ انکی فیملی کی طرح ہی بن گیا تھا
”ہادی بیٹا شادی پر اپنی فیملی کو ضرور ساتھ سے ملنے کا موقع چاہیے“مسز جہانزیب نے پھر سے کہا
”یہ اب میرے ساتھ بہانہ بناے گا اسی لئے کال کا کہ رہا ہے اس نے خود بھی نہیں آنا ۔ پریشے تم کہو نہ اسے کے آۓ شاید تمہاری مان لے“ارسلان بات کرتے کرتے پریشے کو دیکھ کر بولا جو چاول کھا رہی تھی  اس نے چاول کی پلیٹ پرے کی اور مسکرا کر ہادی کو دیکھا جو پہلے سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
”آپ ضرور آئیں ہم سب کو بہت اچھا لگے گا۔ “پریشے نرمی سے بولی ۔ ہادی کی آنکھیں یک دم بھر آئیں اس نے نیچے منہ کر لیا
”اچھا میں لیٹ ہو رہا ہوں “الوداعی کلمات کہہ کر ہادی وہاں مزید رکا نہیں اور کیوں رکتا اپنی محبت کو کسی اور کے حوالے کرنا آسان تھوڑی تھا
*****************************
"ہادی بیٹا اتنے غصے میں کیوں لگ رہے ہو " ہادی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا جب مسز تیمور نے اسے روکا
"امی میں ٹھیک ہوں مجھے نیند آئ ہے کوئی بھی آے اور میرا پوچھیں تو بتا دیں اسے کے میں گھر نہیں ہوں " کہ کر وہ کمرے میں چلا گیا
اسنے ارسلان کو فون ملایا
"ارسلان یہ کیا مذاق ہے تمہارا پہلا مسلہ حل نہیں ہوا اور تم شادی کرنے چلے ہو "وہ غصے سے بولا
"ہادی شادی ہو لینے دو میں ٹھیک کر لوں گا پھر سب ۔۔"
"تم کیسے ٹھیک کرو گے پریشے کو اپنے ساتھ باندھ کر ؟ ہاں ؟ میری بات کان کھول کر سن لو شادی سے پہلے اسے سب  بتاؤ  "
"اچھا میں بتا دوں گا تم فکر نا کرو "ارسلان نے کہ کر فون بند کر دیا
"پتا نہیں یہ انسان کیا چاہتا ہے ۔ ایک پرابلم سولو نہیں ہوئی اور شادی بھی کرنے لگا ہے ۔۔ اگر اس کے ماضی کی وجہ سے پری کو تکلیف ہوئی تو چھوڑوں گا نہیں اس کو میں " غصے سے اسکی آنکھیں سرخ ہی رہی تھیں اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر پیا ۔۔ اور صوفے پر بیٹھ کر ٹیک لگا لی
یک طرفہ محبت میں کتنی اذیت ہے ہادی جان گیا تھا 
*************************

احساس (completed) Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang