وہ ناول میں منہ ڈالے کب سے نمل پڑھنے میں مصروف تھی اب نیند کی وجہ سے اس سے کچھ پڑھا بھی نہیں جا رہا تھا رات ساری جاگ کے ناول ہی پڑھتی رہی تھی اور دن بھی کاموں میں گزرا آخر ہار مان کے سیدھی ہو کے لیٹ گٸی۔ چھت کی طرف دیکھتی اس کی سیاہ ماٸل آنکھیں نہایت موٹی ایک موتی کی طرح باہر نکلی ہوٸی اور ہونٹ سے تھورا اوپر داٸیں جانب اس کا وہ تل اس کے چہرے کو نہایت دلکش اور پرکشش بنا رہا تھا۔
اب وہ آنکھیں بند کیے آگے کی کہانی سوچ رہی تھی اس کی ہمیشہ سے عادت تھی ہر کہانی کی آگے سے اپنی ہی ایک کہانی سوچتی تھی اس نے ایف ایس سی کے امتحان دیے ہوٸے تھے اب رزلٹ کے انتظار میں تھی اور آجکل اس کی مصروفیت گھر کے کام دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ناول پڑھنا تھی
باہر مدیحہ بیگم بیٹھی اپنے سب سے چھوٹے بیٹے رمیل کی شکایتیں سن رہی تھی جو وہ اندر بیٹھی مرحہ کے بارے میں لگا رہا تھا۔ وہ مسلسل مدیحہ بیگم کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا وہ اس کی نیت بھانپ گٸی تھی اس لیے ساری شکایتیں اچھا اچھا کہ کے ہوا کی نظر کر رہی تھی۔۔
اب تو رمیل بھی اکتا گیا۔ اور بھرک پڑا
"ایک تو میں کب سے بولی جا رہا ہوں اور آپ اپنے کاموں میں مصروف ہیں میری بات کو مکمل اگنور کر رہی ہیں۔آخر میری کوٸی عزت ہے بھی یا نہیں اس گھر میں"
ااس کی بات سن کر مدیحہ بیگم اور محظوظ ہوٸیں ان کو مسکراتے دیکھ کر رمیل پاٶں پٹختا اندر مرحہ کے کمرے میں چلا گیا۔
وہ جو ابھی ابھی نیند کی وادی میں پہنچی تھی بہت ہی پرسکون نظر آ رہی تھی اور ایسا کیسے ممکن تھا مرحہ سکون میں ہو اور رمیل اس کا سکون برباد نا کرے۔ فوراً بستر پر چڑها اور اچھلنا شروع کر دیا
"مرحہ کاکروچ مرحہ کاکروچ"
وہ جسکی ابھی ابھی آنکھ لگی تھی ہڑبڑا کے اٹھی "کہاں کہاں"
رمیل اس کا ڈرا ہوا چہرا دیکھ کر بہت محظوظ ہوا اور کھلکھلا کے بولا۔۔ "تمہاری سوچ میں"
مرحہ کو کچھ سیکنڈ لگے اس کی شرارت سمجھنے میں پھر کیا تھا آگے آگے رمیل پیچھے پیچھے مرحہ
"رمیل کے بچے آج لگو ہاتھ آج تو تم بچو مجھ سےآج یا تم یا میں"
رمیل بھاگتا ہوا مدیحہ بیگم کے پیچھے چھپا "امی بچاٸیں امی بچاٸیں"
"کیا ہو رہا ہے یہ مرحہ کیوں بھاٸی کی دشمن بنی ہوٸی ہو کیا کیا ہے اس نے"
مدیحہ بیگم نے انہیں روکتے ہوٸے کہا"امی پلیز آج تو آپ مجھے نہ روکنا ابھی ابھی میری آنکھ لگی تھی اس نے اتنا برا ڈرایا"
مرحہ نے رونے والی شکل بنا کے امی کو بتایا
"کیا بدتمیزی ہے رمیل بڑی بہن ہے تمہاری تھوری شرم کر لو"
مدیحہ بیگم نے اسے گھوری دی۔ مرحہ کے دل کو ٹھندک پڑی ۔ اور رمیل کو جیسے کسی نے کریلے کا شربت پلا دیا ہو بھڑک کر بولا
"کوٸی بڑی وڑی نہیں ہے ایک سال چھ ماہ ہی بڑی ہے"
مرحہ کو تو جیسے موقع مل گیا جلتی میں تیل چھرکنے کے لیے فوراً بولی
"دیکھا امی دیکھا ایسے بولتا ہے یہ آپ کے سامنے بھی"
مدیحہ بیگم نے کہا۔۔" آج تمہارے ابو کو بتاتی ہوں اس کو تمیز کی دوا وہ خود دیں گے تم جاٶ جا کے اپنا کام کرو"
مدیحہ بیگم کے کہنے کی دیر تھی مرحہ رمیل کو منہ چڑھاتی بڑے مزے سے اپنے کمرے میں چلی گٸی اور رمیل بےچارہ منہ بسور کے رہ گیا
مرحہ نے کمرے میں آتے ہی فون اٹھایا اور کسی کا نمبر ملا کے انتظار کرنے لگی۔۔ جیسے ہی فون اٹھایا گیا تو چہچہا کے بولی
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم کدھر ہو جلدی پہنچو پھر آپو کی طرف چلتے ہیں"
پھر اگلے کی بات سننے کے لیے رکی اور پھر بولی
"اوکے پھر کل جلدی آ جانا i will wait "
اور پھر بستر پر گرنے کے سے انداز میں لیٹ گٸی
سکندر صاحب اپنی ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے والدین کی وفات کے بعد اب ان کے گھر میں ان کی بیوی مدیحہ اور چار بچے تھے دو بیٹیاں اور دو بیٹے سب سے بڑی بیٹی منہا جس کی ابھی کچھ ماہ پہلے مامو کے بیٹے سے شادی ہوٸی تھی اس سے چھوٹا بیٹا کمیل جو کہ اب بی بی اے کرنے کے بعد سکندر صاحب کے ساتھ ان کے بزنس میں مدد کر رہا تھا اس سے چھوٹی مرحہ جس نے ابھی ایف ایس سی کے امتحان دیے تھے اور اس سے چھوٹا رمیل جو ابھی فرسٹ اٸیر میں تھا۔
سکندر صاحب کا گھر ایک مکمل گھر تھا جہاں نوک جھونک کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے انتہا کا پیار تھا۔ہر طرح کا بندہ موجود تھا اس فیملی میں شاید اسی وجہ سے یہ پرفیکٹ فیملی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدید لیپ ٹاپ پر سر جھکاٸے کب سے اپنی پریزنٹیشن تیار کر رہا تھا ایک جگہ اٹکا اور لاکھ کوشش کے بعد بھی وہی پھسا ہوا تھا جب دروازے پہ دستک ہوٸی۔ حدید نے مصروف سے انداز میں کہا "آجاٶ"
سفیان صاحب کو اندر آتے دیکھ کے ادب سے کھڑا ہو گیا
"ارے بابا آپ آٸیے"
حدید اپنے بابا سے بہت فرینک تھا ہر بات آسانی سے کر لیتا کافی تنگ بھی کرتا پر آج تک ان کی عزت میں کوٸی کثر نہیں کرتا تھا اس کو سفیان صاحب کو چھیرنے میں الگ ہی مزا آتا تھا بالخصوص ان کی چیزیں چرانے میں ان کی تمام پرفیوم اور بٹوے ان کے پاس دو دن سے زیادہ نہیں رہتے تھے انکی ٹاٸیاں اور موزے بھی اللہ جانے اسے کیا لطف آتا تھا شروع شروع میں تو سفیان صاحب پوچھتے تھے پر اب تو جیسے انہیں بھی عادت ہو گٸی تھی۔
"کیا ہوا میرا بیٹا کچھ پریشان لگ رہا ہے"
سفیان صاحب نے حدید کے چہرے پر پھیلی پریشانی دیکھ کر دریافت کیا
"نہ پوچھیے بابا اس بار آپ کا بیٹا پرزنٹیشن میں پکا فیل ہے"
حدید نے روتی سی شکل بنا کر بولا تو سفیان صاحب ہسنے لگے
"کیا بابا آپ ہس رہے ہیں"
حدید نے اور دکھی ہونے کی کمال ایکٹنگ کرتے ہوٸے پوچھا
"ہاہا ہاں ناااا جب میرا ایک اکلوتا بیٹا لڑکیوں کی طرح پڑھاٸی پہ روٸے گا تو مجھے تو ہسی ہی آٸے گی نااا"
"ہاں ہاں اب تو آپ کو ہسی ہی آٸے گی نا آپ نکل جو آٸے ہیں اس وقت سے"
حدید نے منہ بسور کر کہا
"اچھا اچھا اب زیادہ منہ نہ بناٶ بتاٶ کہاں پھسے ہو"
سفیان صاحب نے بات سنبھالی
"آپ رہنے دیں آپ کے بس کی بات نہیں بزرگ ہو گٸے آپ"
حدید نے انہیں جتاتے ہوٸے کہا
"اوہ اچھا جی میرے شیر جوان تو اب بابا بوڑھے ہو گٸے تم نے میری عمر اور زہانت کو چیلنج کر کے اچھا نہیں کیا اب تو بتاہی دو کیا مسٸلہ"
سفیان صاحب نے اپنے کُرتے کے بازو اوپر کرتے ہوۓ کہا
"اوووہ ریٸلی تو یہ لیں"
حدید نے ہس کر لیپ ٹاپ کی سکرین سفیان صاحب کی طرف کی
"لو بس اتنا سا مسٸلہ" سفیان صاحب نے لیپ ٹاپ پکڑا اور کچھ ٹاٸپ کرنے لگے کچھ دیر بعد لیپ ٹاپ دوبارہ حدید کی طرف کیا جو تقریباً سو چکا تھا
"لو جی ہو گیا"
"ہییییںں لاٸیک سچ میں "
حدید نے فوراً لیپ ٹاپ پکڑا اور دیکھنے لگا جبکہ سفیان صاحب نظر اپنے بیٹے پر اٹکاٸے مسلسل اس کے بدلتے تاثر دیکھ رہے تھے
"بابا یہ آپ نے کیسے کیا"
حدید نے حیرت کی انتہا کو چھوتے ہوٸے پوچھا
"ہاہا بیٹا باپ ہوں آپ کا "
سفیان صاحب نے کالر کو اوپر اٹھاتے ہوٸے بولا
"ارے واہ بابا u r great u r amazing i really love u"
حدید فرط جزبات میں کہتا ہوا ان کے گلے لگ گیا سفیان صاحب اس کی کمر تھپتھپاے ہوٸے بولے
"love u more چلو اب سو جاٶ رات کافی ہو گٸی ہے"
"جی بابا میں سوتا ہوں آپ بھی سو جاٸیں شب باخیر"
"شب باخیر"
سفیان صاحب اپنے کمرے میں چلے گٸے اور حدید بار بار بے یقینی سی لیپ ٹاپ پر نظریں گھماتا آخر سو گیا۔
عرمینہ بیگم کے دو بچے تھے سفیان اور صدف سفیان صاحب کی شادی عاٸشہ بیگم سے ہوٸی تھی جو حدید کی پیداٸش کے دو سال بعد ہی وفات کر گٸی اس لیے اب حدید کے لیے اس کے والد ہی سب کچھ تھے اور وہ اپنی دادی سے بھی بہت پیار کرتا تھا وہ بھی اس پہ جان چھرکتی ۔ صدف کی شادی اس کے مامو زاد بیٹے نبیل سے ہوٸی ان کے دو بچے تھے ارحم اور حنین۔۔
حدید اور حنین میں کتے بلی والا ویر تھا صدف بیگم کی ہزار کوششوں کے باوجود دونو ایک دوسرے کے نام سے بھی چڑھتے تھے جبکہ ارحم اور حدید میں بہت گہری دوستی جان چھرکتے تھے دونوں ایک دوسرے پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحہ کے فون کی گھنٹی بجی تو فوراً سے اپنا بیگ لٹکاتی نیچے دروازے کی طرف بھاگی
"اچھا امی انعمتہ آ گٸی ہے ہم آپو کی طرف جا رہے ہیں"
مرحہ نے چلتے چلتے آواز لگاٸی
"دھیان سے جانا اور پہنچتے ہی میسج کر دینا اور ہاں جلدی واپس آجانا تمہیں پتہ ہے کمیل آتے ہی تمہارا پوچھتا ہے"
مدیحہ بیگم نے کچھ آیات پڑھ کر اس پر پھونکتے ہوٸے اسے تنبیہہ کی
"جی جی میری پیاری اماں اب جانے دیں اس کا پارہ ہاٸی ہو رہا ہو گا"
مرحہ کہتی نکلنے لگی
"اس کو اندر تو بلاتی مل ہی لیتی"
مدیحہ بیگم نے پوچھا
"وہ واپسی پہ آٸے گی امی الله حافظ"
"ایک تو یہ لڑکی بھی نااا اللہ نگہبان"
مرحہ جیسے ہی گھر سے باہر نکلی انعمتہ بیک سیٹ پہ منہ بنا کر بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھی
"یہ کیا بدتمیزی ہے مرحہ تمہارا ہمیشہ کا معمول ہے ہمیں باہر کھڑا کر کے اندر سب سے ملتی رہتی ہو"
مرحہ کو دیکھتے ہی انعمتہ برس پڑی
"جیسا کے ابھی تم نے کہا کے ہمیشہ کا معمول ہے تو تمہارا غصہ بنتا نہیں ہے اور اگر اب تم غصہ کر ہی رہی ہو تو میں تمہیں بتانا چاہوں گی کہ سانوں کی۔۔ کرتی رہو"
مرحہ نے محظوظ ہوتے ہوٸے کہا
"مرحہ وہ دن دور نہیں ہے جس دن مجھے ملنے آٶ گی اور تمہاری لاش واپس جاۓ گی"
"اسی لیے میں تم سے ملنے آتی بھی نہیں۔ چلیں مبشر بھاٸی اس کی تو باتیں نہیں ختم ہونی "
مبشر بھاٸی جو کہ انعمتہ کے ڈراٸیور تھے ہمیشہ کی طرح خاموشی سے دونو کی نوج جھوک سن کر محظوظ ہو رہے تھے۔مرحہ کے کہنے پر انہو نے گاڑی آگے بڑھاٸی
مرحہ عزہ اور انعمتہ بچپن کی دوستیں تھی اور ان کے خاندانوں میں بھی بہت گہری دوستی تھی اس لیے وہ بلا جھجک ایک دوسرے کے ساتھ چلی جایا کرتی تھی۔ عزہ ان دنوں عمرہ پر گٸی ہوٸی تھی اس کی واپسی میں ایک ہفتہ رہتا تھا اس لیے اب مرحہ اور انعمتہ اس کے استقبال کی تیاری کے لیے آپو کے گھر جا رہے تھے۔
سارا راستہ مرحہ اور انعمتہ اپنی ہی اوٹ پٹانگ باتوں سے ہمیشہ کی طرح مبشر بھاٸی کا سر کھاتی آخر کار منہا کا گھر آیا تو اس نے بھی سکون کا سانس لیا اور گاڑی روکی۔
"چلو جی بھاٸی آپ اندر آٸیں گے نا"
"نہیں مرحہ مجھے ابھی ایک کام ہے پھر کبھی منہا کو سلام کہنا"
"اوکے جیسے آپ کی مرضی"
مرحہ منہ بنا کر دروازے کی طرف بڑھی مبشر بھاٸی کو واپسی کا ٹاٸم بتا کر انعمتہ بھی مرحہ کے پیچھے ہو لی
دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد مرحہ نے انعمتہ کے کان میں بولا
"دعا کرو معیز بھاٸی گھر نہ ہوں"
"ایک تو روحی تمہاری یہ بےوجہ کی چڑھ"
انعمتہ نے ہستے ہوٸے بولا
"انو تجھے نہیں پتا بےوجہ نہیں ہے"
مرحہ نے انتہاٸی سنجیدگی سے کہا
"اووہ ریٸلی تو کیا وجہ ہے"
اس سے پہلے کے وہ کچھ جواب دیتی دروازہ کھلا اور سامنے معیز ہی کھرا تھا ٹی شرٹ اور ٹراٶزر میں ملبوس نٹکھٹ سا مرحہ کو دیکھ کر ہسا مرحہ پیچ رنگ کی شورٹ شرٹ اورسکن کیپری کے ساتھ اوپر سلیقے سے سٹالر لیے انہیں دیکھ کر بولی
"آپ آفس کیوں نہیں جاتے جب آٶ گھر ہی ہوتے ہیں ہٹیں راستہ دیں"
مرحہ معیز کو ہاتھ کے اشارے سے پیچھے ہٹنے کا حکم دے کر اندر کی طرف بڑھ گٸی معیز نے انعمتہ سے حال احوال پوچھا اور اندر آنے کا کہا
معیز اور مرحہ کی یہ لڑاٸی تب سے تھی جب سے منہا کا رشتہ معیز سے ہوا تھا اس سے پہلے تک معیز اس کا پسندیدہ کزن سے بڑھ کر اس کا بھاٸی تھا پر جب سے منہا کے ساتھ رشتہ ہوا معیز اور مرحہ میں صرف سلام دعا رہ گٸی اور اب جب سے شادی ہوٸی سلام دعا بھی مکمل طور پر لڑاٸی میں بدل گٸی
منہا اور معیز کی لاکھ کوشش کے باوجود مرحہ نے نہ اپنا مسٸلہ بتایا نہ حل کیا اس لیے اب سب ایسے ہی عادی ہو چکے تھے
مرحہ جا کے منہا سے ملی رسماتی کلام کے بعد مرحہ بولی
"آپو آپ نے کیوں بتایا اپنے شوہر کو کہ میں آرہی ہوں جب آنا ہو چھٹی کر کے بیٹھ جاتے ہیں ایک دن فاقے آجانے ہیں آپ کے گھر میں بتا رہی ہوں"
"روحی کیا ہو گیا ہے"
منہا کچھ بولنے لگی تھی جب معیز نے اسے روکا
"کوٸی بات نہیں اپنی بہن کے لیے فاقے بھی سہ لیں گے"
"ہوں اتنا سہنے والے آپو آپ انو سے پلین ڈسکس کریں میں مامو ممانی سے مل کر آٸی"
مرحہ کہتے ہی کمرے سے نکل گٸی اور معیز نے برا سا منہ بنایا
"آپ نے اس کی آپو کو چھینا ہے برداشت کیجیے اب"
انعمتہ نے اس کا مسٸلہ بتایا منہا بھی ہسنے لگی
"یار چھینا کہاں ہے جب کہتی ہے لے جاتا ہوں جب دل کرتا ہے آ جاتی ہے"
منہا نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا
"پر اس کو تو ہر وقت چاہیے ہوں میں اس لیے پر آپ فکر نہ کریں سیٹ ہو جاٸے گی"
"ہاں وہ تو ہونا ہی پڑے گاا اس چڑیل کو"
پیچھے سے مرحہ آٸی چریل کس کو بولا
"تمہیں" معیز نے اس کے ناک پر انگلی لگا کر کہا
"آپ کو کوٸی حق نہیں مجھے ایسے بولنے کا اور جاٸیے میں یہاں کسی کام سے آٸی ہوں مجھے واپس بھی جانا ہے"
"لو جی اب ہمارا کوٸی حق بھی نہیں سہی ہے پھر منا میرے کپڑے نکال دو میں آفس ہی جاتا ہوں"
معیز منہ بسورے کہہ کے نکل گٸے
پیچھے مرحہ جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو اپنی باتوں میں لگ گٸی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدید یونیورسٹی کے لیے نکلنے سے پہلے ہمیشہ کی طرح بابا اور دادو سے پیار سمیٹ کر باہر کی طرف بڑھا جب پیچھے سے بابا نے اپنا بٹوا نکالتے ہوٸے آواز لگاٸی
"حدید یہ کچھ پیسےرکھ لو"
حدید نے بڑے سکون سے بغیر مڑے کہا
"جی بابا وہ آپ کا کریڈٹ کارڈ نکال لیا تھا صبح"
اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتے اور جواب دیتے حدید نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی
اور پیچھے سفیان صاحب اسی سوچ میں تھے کہ اس نے نکالا کب ہے ۔۔
دادی ہمیشہ کی طرح اپنے بیٹے اور پوتے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور دل ہی دل میں ہمیشہ خوش رہنے کی دعاٸیں بھی دے رہی تھی۔
حدید گاڑی ڈرایٸو کرتے ہوٸے مسلسل ارتضٰی اور مرتضٰی کو کال ملا رہا تھا تینو ہمیشہ یونی اکھٹے جاتے تھے سواٸے اس دن کے جس دن کوٸی اساٸمنٹ یا کوٸز ہو کیونکہ اس دن دونو بھاٸی نے چھٹی کرنی ہوتی تھی
ارتضٰی اور مرتضٰی دونو جڑوا بھاٸی تھے اور حدید کے لنگوٹیا یار بھی
حدید زیادہ دوست نہیں بناتا تھا بولتا بھی کم تھا پر ان دونو کے سامنے وہ الگ ہی انسان تھا۔
کافی فون کرنے کے بعد آخر حدید کی قسمت کھل ہی گٸی اور ارتضٰی نےفون اٹھا لیا
"نکلتے ہو باہر یا میں خود آکر دونو کو اوپر سے نیچے پھینکو"
حدید نے دروازے کے آگے غصے سے گاڑی روکی اور سنجیدگی کے تمام ریکارڈ تورتے ہوٸے انہیں وارننگ دی
پر آگے بھی ارتضٰی تھا کہاں اثر لینے والا تھا چہک کے بولا
"ہاں یار پلیز آجا زمین پر پیر رکھنے کو دل نہیں کر رہا اور ہاں پھینکنا ایسے کہ سیدھے ترکی پہنچیں"
حدید کو پارہ چڑھتا جا رہا تھا آخر غصے سے ہارن بجایا دروازہ فوراً کھل گیا حدید نے گاڑی اندر کی گارڈ نے آکر سلام کیا پیار سے اس کے سلام کا جواب دے کر بمشکل دوبارہ غصہ منہ پر دھر کے اندر کی طرف لپکا
"کدھر ہے آنٹی آپ کی گندی اولاد"
نہ سلام نہ دعا آنٹی کو دیکھتے ہی پوچھ پڑا اس سے پہلے وہ کچھ جواب دیتی خود ہی بول پڑا "آنٹی پلیز ابھی کوٸی بات نہ کرنا آپ بات کریں گی اور میرا غصہ اتر جاٸے گا جو نہیں ہونا چاہیے"
پلوشہ بیگم ہستے ہوٸے کمرے کی طرف بس اشارہ ہی کر پاٸی۔
اور حدید پاٶں پٹختہ اندر گیا اور دھرااام سے دروازہ کھول کے بستر پر چھلانگ لگاٸی پر یہ کیا بیڈ ٹوٹا اور حدید صاحب نیچے اور وہ دونو وہاں ہیں ہی نہیں اس سے پہلے کہ وہ کچھ سنبھل پاتا فضا میں ایک ہوا شگاف قہقہ گونجا ۔۔ حدید سے اٹھا تو جا نہیں رہا تھا بیچارہ وہیں سے انہیں گھور کر رہ گیا جو پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہس رہے تھے۔