وہ تینوں وہاں سے نکلی تو مبشر بھاٸی گاڑی کے ساتھ کھڑے انہیں کا انتظار کر رہے تھے
”ارے بھاٸی آپ کب سے کھڑے ہیں“
عزہ نے آگے آ کے پوچھا
”ابھی کچھ ہی دیر ہوٸی جلدی فری ہو گیا تو سوچا لے کر ہی جاتا ہوں“
مبشر بھاٸی نے جواب دیا
”تو اندر آ جاتے باہر کیوں“
مرحہ نے پوچھا
”آنے لگا تھا پھر دیکھا آپ لوگ بچوں کے ساتھ لگی ہو تو یہی انتظار کرنے لگا“
”اوہہ چلیں کوٸی نہیں آٸیں آٸسکریم کھا کے جاتے ہیں ویسے بھی ہم نے صحیح سے کچھ نہیں کھایا“
انعمتہ نے اپنا حصہ ڈالا
”نہیں ابھی گھر چلو نہیں تو ڈانٹ پڑے گی“
مبشر بھاٸی کہتے ہی گاڑی کی طرف بڑھے
”وہ تو ویسے بھی پڑنی ہی ہے“
مرحہ نے سرگوشی کی اور ےینو ہس پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمدانی صاحب سکندر صاحب اور معیز صاحب کے ساتھ بیٹھے مکہ مدینہ کے قصے سنانے میں مصروف تھے جب سفیان صاحب اللہ حافظ کرنے آۓ
”کدھر سفیان صاحب ہم تو بیٹھے بھی نہیں“
معیز صاحب نے کھڑے ہوتے ہوۓ کہا
”ابھی کام ہے ہم کل مل کے بیٹھ جاٸیں گے ہم نے تو روز ملنا ہے“
سفیان صاحب نے خوش اسلوبی سے کہا
”جی انشإ اللہ خیر میں تعارف تو کروا دوں“
حمدانی صاحب سکندر صاحب اور معیز صاحب کی طرف متوجہ ہوٸے
”ان سے ملیے یہ دونو میرے نچپن کے دوست ہیں سکندر اور معیز“
دونو نے باری باری آگے بڑھ کر مصافحہ کیا
”کیسے مزاج“
سفیان صاحب نے پوچھا
”الحمداللہ اللہ کا شکر“
دونو نے جواب دیا
”چلیں پھر ملاقات ہو گی انشإ اللہ“
تینو نے عزت اور احترام سے انہیں رخصت کیا اور پھر اپنی باتوں میں لگ گٸے
...................
مبشر بھاٸی نے گھر کے آگے گاڑی روکی تو مرحہ انعمتہ اور عزہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے ایت الکرسی پڑھ کر اپنے اپنے اوپر پھونکا مبشر بھاٸی انہیں دیکھ کر ہس رہے تھے
تینوں نے آہستہ آہستہ اندر کی طرف قدم بڑھاٸے اور سیدھا عزہ کے کمرے کی طرف رخ کیا کہ پیچھے سے آواز آٸی
”آگٸی سواری“
مرحہ انعمتہ اور عزہ تینوں نے باری باری منہ مورا اور شرمندگی سے بس ہاں میں سر ہلایا
اب شروع ہونی تھی تینوں کی شامت۔۔۔ گھنٹے کا کہہ کے نکلی ٣ گھنٹے بعد آٸی تھی
شامت کی شروعات عزہ کی والدہ نے کی
”ٹاٸم دیکھا ہے آپ تینوں نے۔۔ آپ کو اندازہ بھی ہے آپ لوگوں کی وجہ سے کتنی شرمندگی ہوٸی ہم سب کو مہمانوں کے سامنے“
”بھابی آپ بھی کن کے آگے کھپ رہی ہیں ان کو کیا پرواہ باتیں تو ہم سنتے ہیں ناا۔۔ بلکہ بیٹا آپ لوگ جاٶ اور جو باتیں رہ گٸی وہ بھی کر لو “
انعمتہ کی والدہ نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا
مرحہ صاحبہ ٹھہری منہ پھٹ اسے اجازت سمجھ کے بولی
”اوہ ہاں عزو میں تو میم شمیم کی بات بتانا۔۔۔۔۔“
اور یہ عزہ نے اس کے پاٶں پر پاٶں مار کر چپ کرایا اور دوسری طرف مدیحہ بیگم نے اپنا ہاتھ جوتی تک لے جا کے بمشکل روکا
مرحہ نے جب سب کے تاثرات نوٹ کیے تو کافی شرمندہ ہوٸی
سکندر صاحب معیز صاحب اور حمدانی صاحب بھی آ گٸے اور آتے مرحہ انعمتہ ار عزہ کی طرف افسوس سے دیکھا اور جانے کی اجازت لی
انعمتہ اورمرحہ نے عزہ کو گلے لگایا اور بولی
”باقی باتیں فون پہ کرتے ہیں “
سب نے تینوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا
دونوں منہ نیچے کیے گاڑی کی طرف بڑھ گٸی اور عزہ ہسی روکتی اپنے کمرے کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔