مرحہ یونی سے گھر آٸی تو انعمتہ اور عزہ بھی ساتھ ہی تھی
مدیحہ بیگم نے تینوں کے لیے کھانا لگایا۔ سکندر صاحب نے مدیحہ بیگم کو بھی ساری بات بتا تھی وہ بھی کافی کنفیوز تھی۔
دراصل مرحہ کے بارے میں ابھی تک کسی نے ایسا نہ سوچہ تھا تو یہ ایک دھجکے کی طرح تھا
وہ ڈایننگ ٹیبل پر بیٹھی تینوں کھانے میں مصروف تھی مدیحہ بیگم نے بات کرنے کی کوشش کی پھر کسی خیال سے خاموش ہو گٸی۔ مرحہ نے دن کی پوری روداد مویحہ بیگم کو سنائی آج یونی میں کیا کیا کیا کہاں پنگے لیے کہاں سے بچے سب کچھ مدیحہ بیگم نے سب بظاہر بہت غور سے سنا اور وقتاً فوقتاً مسکراتی اور جواب بھی دیتی رہی پھر انعمتہ اور عزہ دونو مرحہ سے اجازت لینے کے بعد گھر کو نکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر اتوار کا دن آن پہنچا سکندر صاحب اور کمیل کا خیال تھاکہ ابھی مرحہکو کچھ نہ بتایا جاۓ کیا پتہ انہیں بھی پسند آتا ہے یا نہیں وہ پہلے سے ہی مرحہ کو ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتے تھے
مرحہ کا انعمتہ اور عزہ کے ساتھ پلین تھا اس لیے اسے شک بھی نہ ہوا
رمیل کو اس سب کھچری کا پتہ لگا تو اس نے بھی ساتھ جانے کی ضد کی کمیل کی سفارش پر اسے بھی ساتھ لے جایا گیا
ادھر سفیان ولا میں جب سے ان کے آنے کی خبر ملی تھی ہر بندہ اپنے خیالات میں مگن تھادادی کنفیوز سی تھی کیونکہ انہوں نے اب تک مرحہ اور اس کے گھر والوں کے بارے میں صرف سفیان صاحب سے سن رکھا تھا وہ ساتھ ساتھ مہمانوازی کی تیاریوں یں بھی مشغول تھی
سفیان صاحب بہت خوش اور پرجوش تھے وہ بھی وقتااً فوقتاً تمام تیاریوں کا پوچھ رہے ھے
اور ایک تھے حدید صاحب جن کا چہرہ مبارک سیدھا ہونے کو ہی نہیں آ رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا یہ ہو کیا رہا ہے لیکن وہ اپنے بابا کے مان کی وجہ سے کچھ بول نہیں سکتا تھا سو خاموش تھا
4 بجے کے قریب مرحہ کی فیملی سفیان ولا میں پہنچی
سفید ٹاٸلوں سے بنا گھر جس کی بیرونی دیوارپر بہت خوبصورت اور نمایا انداز میں سفیان ولا لکھا تھا دروازے سے اندر آٶ تو ایک خوبصورت باغ جس کی چنبیلی اور گلاب کے پھولوں سے چاردیواری کی ہوٸی تھی بس تھوڑی سی اندر جانے کو جگہ خالی تھی تھوڑا سا اور اندر جاٶ تو بہت بڑا اور کشادہ لاٶنج تھا جہاں نہایت خوبصرت صوفے پڑے تھے سامنے ایل ای ڈی لگی تھی اس سے تھوڑا آگے جاٶ تو سامنے ایک بڑا اور اوپن کچن تھا جہاں ہر چیز بڑی نفاست سے پڑی تھے اس کے بلکل ساتھ دو کمری تھے جن میں سے ایک سفیاں صاحب اور دوسرا دادو کا تھا ساتھ ہی سیڑھیاں اوپر کو جاتی تھی وہاں حدید کا بکھرا ہوا کمرا تھا
پورے گھر کو نہایت نفاست سے سجایا گیا تھا اور یہ کام سفیان صاحب کا تھا ہر طرف خوبصورت رنگارنگ تصویریں دیوار پر آویزاں تھی
رمیل نے پورے گھر کا جاٸزہ لیا اور اس کے منہ سے بے اختیار واٶ نکلا کمیل نے اسے کوہنی مار کر روکا
سفیان صاحب اور دادی نے ان کا خوش اسلوبی سے استقبال کیا
سلام کے بعد چند رسمی کلمات کا تبادلہ ہوا۔
سکندر صاحب سفیان صاحب اور حمدانی صاحب اپنی ہی سیاست اور کاروباری باتیں لے کر بیٹھ گٸے
مدیحہ بیگم دادی سے باتوں میں لگ گٸی کمیل اور رمیل ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے جب حدید دروازے سے اندر آتا دکھاٸی دیا۔
ایک منٹ کو حدید بھی چونکا اسے حقیقتاً بابا کی اس جلد بازی کی سمجھ نہیں آٸی تھی
خیر اپنے تاثرات چھپاتا اندر آیا سب کو سلام کیا کمیل نے کھڑے ہو کر اسے گلے لگایا پھر سکندر صاحب نے بھی کھڑے ہو کر سلام کیا
علیک سلیک کے بعد سفیان صاحب نے حدید کے بارے میں بتانا شروع کیا
”اس کا بی بی اے کا لاسٹ سمسٹر ہے اس کے بعد میرا بزنس اسی کا “
حدید کو اپنا آپ سچ میں لڑکی محسوس ہو رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کمیل شاید اس کے دل کی حالت سمجھ چکا تھا اس لیے وہ اس کے چہرے پر نظر ٹکاۓ مسلسل اپنی ہسی روکنے کی کوشش کر رہا تھا
حدید اپنے جوتے کو گھورتا بمشکل ضبط کر کے بیٹھا تھا
کمیل کو بے چارے پر ترس آیا تو خود ہی بولا
”حدید اف یو ڈونٹ ماٸنڈ باہر چلیں ان سب بڑوں کو اپنی باتیں کرنے دیتے ہیں“
کمیل ایسا ہی تھا سب کو سمجھنے والا سب کی ساتھ دوستانہ
حدید نے تشکر بھری سے اسے دیکھا اور دونوں اٹھ کر لان میں آگٸے
حدید اور کمیل کے جاتے ہی حمدانی صاحب بولے
”چلیں ہماری یہ باتیں تو اب ساری زندگی چلنی جس کام کے لیے مل کر بیٹھے ہیں پہلے اس پر بات کر لی جاۓ“
”جی میں بھی یہی کہنا چاہ رہا تھا پر بیٹی کا باپ ہوں آپ کے کہنے پر آ توگیا ہوں پر۔۔۔“
سکندر صاحب کی بات ادھوری رہ گٸی سفیان صاحب نے بات کاٹی
”کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ بیٹی کے باپ ہیں زیادہ عزت واکے ہیں بیشک لینے والا ہاتھ دینے والے سے بہتر مجھے خوشی ہے آپ آۓ اور ہمیں عزت دی بس میری خواہش ہے کہ میرا گھر مرحہ جیسی بیٹی کے ہاتھ جاۓ“
سکندر صاحب خاموش رہے منہا کی بار تو ان سب سے بچ گٸے تھے خاندان میں ہونے کا فاٸدہ ورنہ ایک باپ کے لیے اپنے کلیجے کا ٹکڑا کسی اور کو دینا سوچ سے ہی کانپ جاتا ہے انسان
”آپ کو کیسا لگا ہمارا گھر ہم لوگ اور حدید“
سفیان صاحب نے جب کوٸی جواب نہ پایا تو خود ہی پوچھ لیا
”ماشإاللہ سب بہت اچھے ہیں ہماری خوش قسمتی ہو گی اگر ہماری بیٹی آپ کے گھر کی رونق بنے“
سکندر صاحب نے آگے کو ہو کرکہا
”لیکن ہم نے ابھی مرحہ سے بات نہیں کی میں چاہتا ہوں اس سے پوچھ کے فیصلہ لیا جاۓ زندگی تو بچوں کی ہے“
”جی بلکل آخری فیصلہ بچوں کا ہی ہو گا“
سفیان صاحب نے بھی ہامی بھری
کمیل جو کافی دیر سے خاموشی سے بیٹھا سب سن رہا تھا فوراً لان کی طرف بھاگا
”میں آتا ہوں“