دونوں ہاتھوں پر ہاتھ مار کر پاگلوں کی طرح ہس رہے تھے حدید بیچارا بڑی مشکل سے اپنے ہسی روکے انہیں گھوری جا رہا تھا
"بےغیرتو اب اٹھاٶ گے بھی یا بس دانت ہی نکالتے رہو گے"
آخر حدید بول ہی پڑا اس کی بات سن کر دونو کی ہسی رکی اور مل کر بولے
"کیوں نہیں یار تو تو جگر ہے لے آجا"
اور دونو نے ہاتھ آگے بڑھاٸے
حدید نے دونو کو نیچے کی طرف کھینچ کر اچھلنے کے انداز سے کھرا ہوا اور پھر ایک اور زور دار دھماکے کی آواز ہوا میں گونجی اور یہ کیا اب کی بار مرتضٰی اور ازتضٰی دونو نیچے
حدید نے اٹھ کر بڑے مزے سے ہاتھ جھاڑے اور مسکرا بولا "میں آنٹی سے ناشتے کا کہتا ہوں تم لوگ جلدی اترو نیچے"
وہ نکلنے لگا تھا کہ آگے سے فریحہ بیگم خود آ گٸی
"یا میرے خدایا یہ کیا کیا تم لوگوں نے"
اس سے پہلے مرتضٰی اور ارتضٰی کچھ بولتے حدید فوراً بولا
"آنٹی آپ ٹینشن نہ لیں یہ صفاٸی کر کے آ رہے ہیں میں آپ کے ہاتھ کے پڑاٹھے کھانے ہیں وہ کھلاٸیں"
"لیکن یہ بیڈ"
"وہ امی حدید نیا گفٹ کر رہا ہے اس نےجو توڑا ہے ہم نے منا تو بہت کیا پر آپ کو تو پتا ہے نا اس کا"
اب ارتضٰی نے اپنا پتا پھینکا
"جی جی ضرور "
حدید نے دانت دبا کر کہا
"چلو اب باقی ڈرامے بعد میں آدھا گھنٹا ہے تمہارے پاس جلدی کرو کلاس کا ٹاٸم ہو رہا ہے"
حدید نے جیسے یاد دہانی کراٸی
"امی میری تو کمر ٹوٹ گٸی ہے میں تو یونی نہیں جا رہا" ارتضٰی نے فوراً بہانا بنایا
"ہاں امی میری بھی" مرتضٰی نے بھی کمر پر ہاتھ رکھا
"بندکرو یہ ڈرامے آنٹی آج پریزینٹیشن ہے اس لیے یہ نہیں جا رہے"
حدید نے آنٹی کو شکایت لگاٸی
"نہیں امی سچ میں"
اس سے پہلے کہ ازتضٰی اپنی بات مکمل کرتا فریحہ بیگم نے بات کاٹی
"بہت ہو گیا آدھے گھنٹے کے اندر نیچے آٶ اور یونی پہنچو ورنہ نہ کھانا مانگنا نہ خرچہ"
"یار امی" ارتضٰی بولا
"اچھا امی ہم آتے ہیں آپ چلیں"
مرتضٰی نے بات سنبھالی
فریحہ بیگم کے جاتے ہی دونو نے حدید پر دھابا بول دیا
"کمینے تیرے جیسے دوست ہوں تو دشمن کسے چاہیے"
"بہت شکریہ ابھی جلدی آٶ دیر ہو رہی"
حدید نے کہا اور نیچے چلا گیا
تینو نے ناشتہ کیا اور یونی کے لیے نکل پڑے یونی پہنچتے ہی دونو گاڑی سے نکلے اور غاٸب حدید نے کچھ دیر ڈھونڈھا پھر کلاس کے نکل جانے کے ڈر سے کلاس کی طرف بڑھ ہمیشہ کی طرح وہ کالج تو پہنچ گٸے تھے پر کلاس کہاں لینے والے تھے۔۔
حدید سے پہلے چند اور لڑکے لڑکیوں نےاپنی اپنی پریزنٹیشن دی اور پھر حدید نے اپنی پریزنٹیشن دی
سر نے حدید کو اتنی اچھی پریزنٹیشن پر خوب سراہا
"ویل ڈن ماۓ چاٸلڈ M impressed"
"thanks alot sir"
حدید نے بھی مسکرا کر کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلاس ختم ہونےکے بعد جب حدید باہر نکلا تو مرتضٰی اور ارتضٰی دونو اسی کے انتظار میں کھرے تھے
"واہ ہمارے چیتے proud of u yrrr"
ارتضٰی نے حدید کا کندھا تھپتھپاتے ہوۓ کہا
حدید نے غصے سے ہاتھ جھٹکا
" زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ یار تم لوگ کب سیریس ہو گے"
"جب تو ہمیں اتنی اچھی پریزنٹیشن کی ٹریٹ دے گاا تب"
مرتضٰی نے فوراً سے اپنی مانگ رکھی
اور ارتضٰی نے بھی خوب ہاں میں ہاں ملاٸی
"کوٸی ٹریٹ وریٹ نہیں خود تو تم دونو نے سیریس ہونا نہیں ہیں مجھے لوٹتے جاٶ"
حدید نے نفی میں سر ہلاتے ہوٸے صاف انکار کیا
"بیٹا ٹریٹ تو آپ کے فادر جی بھی دیں گے"
ارتضٰی نے بازو اوپر چڑھاتے ہوٸے کہا
حدید کو اندازہ ہو گیا تھا اب اس کی خیر نہیں اس لیے "ہاں تو ان سے لے لینا" کہتے ہوٸے فوراً گاڑی کی طرف بھاگا
وہ دونو بھی اس کے پیچھے بھاگے
"وہ تو ہم دیکھ لیں گے تو تو رک ہمیں تو لے کے جا"
"اللہ نے اتنی لمبی لمبی دو ٹانگوں سے نوازا ہے ناا خود آجانا"
حدید نے کہتے ہی گاڑی چلا دی اور وہ دونو بیچارے منہ دیکھتے رہ گٸے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحہ منہا کے گھر سے سیدھے انعمت کے ساتھ بازار چلی گٸی اور پھر ضروری سامان کی شاپنگ کر کے گھر پہنچی تو انعمتہ نے دروازے سے ہی معزرت کر لی
"یارا آنٹی کو بولنا میں پھر آٶں گی ابھی بہت دیر ہو گٸی ہے"
"چل صحیح ہے ویسے بھی تو کل آرہی ہے ناا"
"ہاں یار آنا ہی پڑے گا یہ سارا کام ختم ہو دن کتنے رہ گٸی"
"ہاں چل پھر ملتے ہیں اللہ حافظ"
گاڑی آگے کو چلی تو مرحہ اچھلتی کودتی اندر کی طرف بڑھی اور ایک دم ٹہری
کمیل تیز تیز لان کے چکر کاٹ رہا تھا مرحہ نے پکا سوچ لیا آج الگ کلاس لگنی بھاٸیو جلدی کیسے آگٸے
کمیل کی نظر مرحہ پر پڑی تو وہیں رک گیا مرحہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اندر آٸی اور قریب پہنچتے ہی کمیل کے سینے سے لگ گٸی
"اَلسَلامُ عَلَيْكُم بھاٸی آپ آج جلدی خیریت"
بہت ہی لاڈوں والے انداز سے پوچھا گیا
اتنے ہی پیار سے کمیل نے سر پر ہاتھ پھیرا اور سیدھا کان پکڑا
"جی الحمداللہ سب خیریت آپ بتاٶ اس وقت کہاں سے واپسی ہے"
"آاااا بھاٸیو کان چھوڑیں پھر بتاتی ہوں"
"ہاں جی بتاٶ"
کمیل نے آرام سے کان چھوڑا اور پھر سے پوچھا
"وہ ناا بھاٸیو عزہ آ رہی ہے پرسوں عمرہ سے سو اس کی تیاری کے لیے آپو کی طرف گٸی تھی انو کے ساتھ وہاں سے بازار آٸی اور اب سیدھے گھر"
مرحہ نے کمیل کا ہاتھ پکڑے چلنا شروع کر دیا
"اوہ مطلب آج تو میری بہن تھک چکی ہے اور مجھے چاٸے بھی نہیں ملے گی"
کمیل نے نہایت نرمی سے بولا
"ایسے ہی نہیں ملے گی ابھی لاٸی آپ میرے روم کے ٹیرس پر جاٸیں میں وہی لاتی"
مرحہ نے پرجوش ہو کر کہا
"نہیں یہیں لے آٶ یہیں بیٹھ کر پیتے ہیں"
کمیل نے پیچھے سے آواز لگاٸی
"اوکے As u say"
مرحہ نے بغیر مڑے کہا اور اندر چل دی
کچھ دیر بعد وہ چاٸے کے دو کپ ٹرے میں اٹھاٸے لاٸی اور بولی
"here we represent mirha's special chaye"
کمیل نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اپنا کپ اٹھایا اور ہمیشہ کی طرح پہلی چسکی لے کر بولا
"یممممم"
مرحہ ہسنے لگے
"اور بتاٶ پھر کیا کیا سوچا عزہ کے لیے اور کتنی تیاری ہو گٸی"
"بہت کچھ سوچا ہے ہااں سب سے امپورٹنٹ ہم نے میرے انو اور عزو کے لیے same dresses دیزاٸن کرواٸے ہیں آپو سے بس کلرز دفرنٹ"
"ارے واہ دیٹس کول"
"جی اب آپ اصل وجہ بتاٸیے جلدی آنے کی"
مرحہ نے کپ اٹھاتے ہوٸے پوچھا
"کچھ خاص وجہ نہیں بس سر میں پین تھا"
"اوہ آٸیے میں تیل کی مالش کرتی ہوں"
"ارے نہیں اب تو سیٹ ہے"
کمیل نے اس کا ہاتھ پکڑ کر منع کیا
"ایسے ہی ٹھیک ہے آٸیں آرام"
مرحہ نے روب سے کہا تو کمیل ناچار آگے گھاس پر بیٹھ گیا اسے بیٹھا کر مرحہ اندر تیل لینے چلی گٸی
واپس آٸی تو بابا بھی آ کر وہیں بیٹھ چکے تھے
"اسلام و علیکم بابا"
مرحہ نے جھک کر سر پر پیار لیا
"وعلیکم سلام میرا بیٹا بھاٸی کی خدمتیں ہو رہیں ہیں"
انہوں نے کھڑے ہو کر سر پر پیار دیا اور پھر بیٹھ ان کی ہمیشہ سے عادت تھی بیٹیوں سے ہمیشہ کھڑے ہو کر ملتے
"خدمتیں نہیں مکھن لگایا جا رہا ہے نمبر نہیں بنانے سب کے سامنے"
اس سے پہلے کہ مرحہ جواب دیتی رمیل آتے ہوٸے بولا
"اوہ ہوو رمیل"
"نمبر وہ بناٸیں جو زیرو ہیں ہم تو الحمداللہ پہلے سے ہیرو ہیں"