زندگی موڑ لیتی ہے

122 10 29
                                    

عزہ کو لگا اس کا سانس ہی رک گیا۔ اس نے آنکھیں زور سے بند کی ہوٸی تھی.اس نے ڈر کے مارے آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا۔
جیسے ہی ہاتھوں کی گرفت ہلکی ہوٸی اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولی ناجانے کیا ہونے جا رہا تھا وہ اب تک اپنے حواس میں لوٹ نہیں پاٸی تھی۔ عجیب ڈراٶنی کیفیت میں اس نے آنکھیں کھولی تو سامنے مرحہ اور انعمتہ کھڑی تھی
مرحہ نے گرے کلر کا پاٶں تک آتا فراک پہن رکھا تھا اور اوپر سفید رنگ کا سلیقے سے حجاب لیا ہوا تھا وہ صحیح معنوں میں جنت کی حور لگ رہی تھی اس کے ساتھ انعمتہ نے بلکل مرحہ جیسا فراک پہن رکھا تھا اور ایک ہی انداز سےسفید رنگ کا حجاب لے رکھا تھا انعمتہ بھی کسی پری سے کم نہ لگ رہی تھی
عزہ نے جیسے ہی دونو کو دیکھا تینوں نے یک زبان ہو کر چیخ ماری اور ایک دوسرے کے گلے لگ گٸی
تینوں اپنے ہی ڈراموں میں مصروف تھی جب تمام مہمان تینوں کے ماں باپ سب دوڑے اندر آٸے
"کیا ہوا"
سب نے پریشانی سے استفسار کیا
تینوں حد درجہ کی شرمندہ ہوٸی خیر انعمتہ نے بات سنبھالی
"وہ۔۔۔۔ کاکروچ تھا کاکروچ"
مرحہ اور عزہ نے فوراً اس کی طرف دیکھا
"کوٸی حال نہیں ان لڑکیوں کا۔ ڈرا دیا سب کو آٸیے باہر چلتے ہیں"
سب باہر چلے گٸے۔ سب کے جاتے ہی عزہ بولی
"انو جھوٹ"
"ہاں تو اور کیا بولتی کہ ایک دوسرے کو اتنے عرصے بعد دیکھ کر ہم پاگل ہو گٸے"
انعمتہ نے جتانے والے انداز میں کہا
"عزو انو نے صحیح کیا ایسے ہی آتے ہی بستی ہو جاتی۔ اچھا چھورو کپڑے پہنو اور تیار ہو کر آٶ "
مرحہ نے بلکل اپنے جیسا فراک لاٸٹ سی گرین کلر میں اس کی طرف بڑھایا
"واٶٶ روحی its too pretty"
عزہ نے دیکھتے ہی کہا
"i know اب جاٶ تیار ہو کر آٶ لیٹ ہو رہے"
مرحہ نے کپڑے اس پر پھینکتے ہوۓ کہا اور وہ "اوکے اوکے" کہتی چینج کرنے گھس گٸی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان صاحب گھر پہنچے کے کپڑے بدل کر جلدی مسٹر حمدانی کی طرف پہنچیں۔
امی کو سلام کرتے سیدھے اپنے کمرے میں گٸے اپنا والٹ گھڑی اور کوٹ وغیرہ اتارا اور فریش ہونے چلے گٸے
جیسے ہی واش روم کا دروازہ بند ہوا ہلکی سے آہٹ سے دروازہ کھلا۔ حدید دبے قدموں اندر آیا اور آرام سے ان کے والٹ سے پانچ پانچ ہزار کے چار پانچ نوٹ نکال کے گننے لگا کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا
حدید گھبرا کے پلٹا پیچھے سفیان صاحب کھڑے تھے۔ حدید کو دیکھتے ہوٸے انہوں نے ہاتھ باندھے
"یہ کیا ہو رہا"
انہوں نے آنکھ سے نوٹوں کی طرف اشارہ کیا
"وہ بابا۔۔۔۔"
حدید نے حلق سے تھوک نگلا اور پھر احتیاط سے بولا
"وہ بابا میں سمجھاتا ہوں بس جو میں پوچھوں ایمانداری سے جواب دینا"
سفیان صاحب سب سمجھ تو گٸے تھے پر ہمیشہ کی طرح وہ اس کی نٸی کہانی نٸی وجہ سننا چاہتے تھے بیڈ پر بیٹھ گٸے
"بابا ایک بات بتاٸیں میری اساٸمنٹ اتنی ہٹ گٸی وہ اس لیے کیونکہ آپ نے بھی میری مدد کی تھی تو یہ میرے ساتھ آپ کی بھی کامیابی ہوٸی ناا؟
اس نے گہری سوچ سے نکلتے ہوٸے کہا
"ہاں بلکل میرے بیٹے کی ہر جیت میری جیت ہے"
سفیان صاحب نے فرطِ جذبات میں کہا
"تو بس پھر بات یہ ہے نااا کہ وہ دو لنگور ہیں ناا ارتضٰی اور مرتضٰی وہ اس کامیابی کی ٹریٹ مانگ رہے ہیں"
حدید کہتے کہتے کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف بڑھا
"تو جیسے کامیابی ہم دونو کی ہے تو خرچہ میں اکیلا کیوں کرو اس لیے میں یہ نکالے"
حدید نے کہتے ہی باہر کی طرف دوڑ لگاٸی اور سفیان صاحب دروازے کو تکتے ہی رہ گٸے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ جو بنا حجاب سونا لگتی تھی
حجاب نے تو اس کے ہیروں کو مات دی"

dosti aesa nataaWhere stories live. Discover now