شام کے وقت صادم بینک سے گھر آنے کے لیے نکلنے والا تھا کہ اس کے موبائل کی ٹون بجی ۔اس نے جب موبائل کھولا تو غم وغصے کی حالت میں آگیا ۔بہت ظبط کے بعد وہ گھر پہنچا جہاں علی احمد گھر میں موجود تھے جلدی گھر آنے کی وجہ سے ،صالحہ علی احمد کے لیے چائے بنارہی تھی جب صادم گھر کے اندر داخل ہوا اور زور سے صالحہ کو آواز لگائی ۔
صالحہ۔۔صآلحہ ..وہ اتنی زور سے چیخا کہ صالحہ کے ہاتھ سے کپ گرگیا وہ بھاگتی ہوئی آئی ۔۔
کیا ہوا ..اس کا سانس پھولا ہوا تھا ۔علی احمد بھی گھبرا گئے۔سب وہاں موجود تھے جب..
چٹاخ___ صادم نے صالحہ کے تھپڑ لگایا ۔تھپڑ اتنی زور کا تھا کہ صالحہ لڑکھڑا گئی ۔
صادم ..علی احمد نے صالحہ کو پکڑا اور صادم پر چیخے
یہ کیا حرکت ہے؟
مجھ سے پوچھ رہے ہیں آپ اس سے پوچھیں کیا کرتی پھر رہی ہے یہ ۔۔صالحہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
کیا کیا ہے میں نے ؟صالحہ نے روتے ہوئے کہا
کیا کیا ہے ۔۔۔۔یہ دیکھیں
اس نے موبائل علی احمد کی طرف بڑھا دیا ۔جب انھوں نے دیکھا تو صالحہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولے
کیا یہ سچ ہے ؟انھوں نے صالحہ سے تصدیق چاہی .
آپ اب بھی پوچھ رہے ہیں ---صادم بولا تو علی احمد نے اسے ہاتھ کے اشارے سے چپ کروادیا
صالحہ نے جب موبائل دیکھا تو اس میں صالحہ اور شیرا کی تصویریں تھیں ۔صالحہ کے پیروں کے نیچے زمین نکل گئی ۔جسے جسے وہ تصویریں دیکھتی جاتی اس کا رنگ پیلا پڑگیا .
یہ یہ جھوٹ ہے بابا یہ میں نہیں ہوں ۔صادم تم بھی جانتے ہو ٹیکلنالوجی کتی اڈوانس ہوگئی ہے تصویر میں ایڈیٹینگ کرنا کون سی بڑی بات ہے ۔--بلا آخر وہ بولی
بکواس بند کرو --علی احمد نے ایک ٹھپڑ اس کے منہ پر مارا ۔صالحہ زمین پر گرگئی
کس کو بیوقوف بنا رہی ہو۔اسی لیے وہ یہاں آیا تھا۔تمہیں زرا شرم نہیں آئی یہ سب کرتے ہوئے .
بابا میں نے ایسا کچھ نہیں کیا یہ چھوٹ ہے ۔آپ کو مجھ پر یقین کیوں نہیں آرہا ۔میں ایسی نہیں ہوں میں اللہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے ایسا نہیں کیا ۔وہ بہتان لگا رہا ہے مجھ پر بابا میرا یقین کریں ۔
صالحہ روتے ہوئے ان قدم پکڑے بولے جارہی تھی ۔۔اس پیروں سے ہی دور کرتے ہوئے بولے
دور ہوجاو میری نظروں سے تمہارا بھی میں بندوبست کرتا ہوں ۔وہ حقارت سے کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے
تو مر کیوں نہیں جاتی ۔۔باپ بھائی کی عزت کا زرا خیال نہیں تھا ۔کیا نہیں کیا ہم نے تمہارے لیے اور تم یہ صلہ دے رہی ہو۔-نازش بیگم نے غصے سے بولیں
آپ بھی یہ ہی سجھتی ہیں ۔آپ تو ماں ہیں اپکو نہیں پتہ کہ میں کیسی ہوں ۔-صالحہ نے اپنی ماں سے پوچھا
یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا مگر اپنی آنکھوں سے ددیکھ رہی ہو اس کو کیسے جھٹلاوں ---انھوں نے تصویروں کی طرف اشارو کیا
میں کیسے یقین دلاوں اپ لوگوں کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔صالحہ غصے سے چیخی ۔نازش بیگم وہاں سے چلی گئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صادم اور علی احمد نماز پڑھ کر واپس آرہے تھے جب ایک آدمی ان سے ملا اور بولا
ارے علی صاحب یہ کیا سنے میں آرہا بھہی ۔
کیا سننے میں آرہا ؟علی احمد بولے
ارے آپ کی بیٹی کے بارے میں توبہ توبہ کیسی طربیت کی آپ نے ۔
کیا بکواس کیے جارے ہیں آپ ۔۔صادم غصے سے بولا تو علی احمد نے اس کا ہاتھ پکڑکر آگے چل دیے ۔۔
وہ گھرآیا اور سامنے پڑا گلدان زمین پرمارا اور بولا )
اب ہم گھر سے باہر بھی نہیں جاسکتے ۔وہ بھی اس کی وجہ سے۔ میں جان سے مار دوں گا اسے --وہ غصے سے صالحہ کی طرف بڑھا تو نازش بیگم نے اسے روک لیا
خبردار جو تم نے اسی کوئی حرکت کی تمہیں کچھ ہوگیا تو ہم تو جیتے جی ہی مرجاہیں گے ---وہ کہتے ہوئے صالحہ کی طرف مڑی اور بولیں
تو پیدا ہوتے ہی مر کیوں نہیں گئی ۔ہماری زندگیوں کو عذاب بنادیا ہے ۔آخر مر کیوں نہیں جاتی تو ۔نازش بیگم نے صالحہ کے منہ پر تھپڑوں کی برسات کردی
ان کا ایک ایک لفظ صالحہ کے جسم سے روح کھینچ رہاتھا ۔مشکل میں تو گھر والے ڈھال بنتے ہیں مگر یہاں تو اس کے اپنے بناکسی تصدیق کے اسے گناہگار سمجھ رہے تھے ۔کوئی اس شیرا سے کیوں نہیں پوچھ رہا تھا ،اس غنڈے کی بات کا یقین کرلیا مگر اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔اس کا کسی کو یقین نہیں تھا ۔ اپنے کمرے میں زمین پہ بیٹھی وہ رو رہی تھی اور اپنے اللہ سے کلام کر ہی تھی۔اے میرے رب تو جانتا ہے کون سچا ہے ،آپ سے تو کچھ بھی چھپا نہیں ہے ۔میری مدد فرما۔سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو مجھے اکیلا نہ چھوڑنا ورنہ تومیں برباد ہوجاوں گی۔کوئی نہیں میرا اس دنیا میں تیرے سوا صرف تیرا اصرا ہے اللہ میری مدد فرما۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علی احمد فون پر کسی سے بات کررہے تھے جب نازش بیگم ان کے پاس آکر بیٹھیں ۔بات ختم ہونے کے بعد وہ بولے
آج شام صالحہ کا نکاح ہے ۔اسے بتا دینا ۔
کون لوگ ہیں ؟ نازش بیگم نے پوچھا
میرےایک دوست نے رشتہ لگوایا ہے ۔اتنا کہہ کر وہ چلے گئے
BINABASA MO ANG
بھیگی یادیں. ..complete
Randomیہ کہانی ہے اللہ پر بھروسے کی،آزماہیش کی،عشق کی ،کسی کی انتیظار کی اور کسی کی اصللہ کی۔