episode 1

344 16 18
                                    

اف کیسے گزرے گا یہ آٹھ گھنٹے کا سفر ہول ہول کے میرا دماغ ماوُف ہو گیا ہے۔ شروع کا پہلا گھنٹہ تو میں pics لے کے فرینڈز کو whatsapp کرتی رہی ۔
دوسرا گھنٹہ باہر کے مناظر دیکھتی رہی لیکن میرے بس کا روگ نہیں کبھی دریا کبھی نہر کہیں کالے کالے پہاڑ میرا تو دل بیٹھ گیا پتہ نہیں لوگ ان ویوز کو خوبصورت کیسے کہہ لیتے ہیں
ایک گھنٹے میں ہی میرا دل مارے خوف کے میرے نوّے کی سپیڈ پر آگیا ؛ سو یہ مشغلہ بھی ترک ہوا لیکن تیسرے گھنٹے کا تیسرا مشغلہ ذیادہ خطرناک تھا اور وہ میرے برابر بیھٹا میرا شوہر تھا جو اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑے فیس بک میں بزی تھے ۔ کیونکہ اُن کو دورانِ سفر باتیں کرنا پسند نہیں۔ چاہے ہمسفر سُن کی بیوی ہی کیوں نہ ہو لیکن آپ خود سوچئے دو مہینے کی نئی نویلی شادی ہنی مون پیریڈ ؛ ناران تک کا خوبصورت سفر اور سنجیدگی ایسی جیسے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت فرمانا ہو ۔
ہائے! میرے جیسی نٹ کھٹ لڑکی اور ان جیسا ٹھس بندہ ؛جوڑ  ملا بھی تو کہاں ؛ ہنی مون پر آنے سے پہلے کیسے کیسے خواب تھے؛ میں گھونگھٹ کی عندلیب اور وہ محسن خان ؛ جاتے ہی گانا لیکن سارے خواب چکھنا چور ہوگئے ۔ یہ تو شفقت چیمہ سے بھی برے نکلے ؛پلٹ کر پوچھا تک نہیں ؛ اب تک تو میں نے صبر کا گھونٹ پی لیا تھا  جب سے وہ دونوں "جام شیریں" کوچ میں سوار ہوئے تھے ، میرا حلق تک مزید تڑخنے لگا تھا پچھلے آدھے گھنٹے میں تین بار پیپسی کاٹن کھول کر اُس نےاپنی بیوی کو پلایا تھا اور تینوں بار میرا فا میرا دل دل چلتی گاڑی سے کودنے کو چاہتا تھا ۔ یہ نیا مشغلہ کچھ زیادہ ہی چونچلے دکھا رہا تھا جو مجھ جیسے جلے دل والوں پر مزید تیل چھڑک رہا تھا ؛ مزید دکھ کی بات تو یہ تھی کے ان دونوں نے ایک بار بھی پلٹ کر ہماری طرف ہی دیکھا تھا ہاں! اتنے محو تھے وہ دونوں آپس میں ۔
میرے اندر ایک حسرت بھری ہوک اٹھی تھی ۔ یہاں تو میں نے پچھلے دو گھنٹے سے جب بھی پیاس کی دہائ دی ایک ہی فقرہ سننے کو ملا ۔
"فلاسک میں پانی پڑا ہے پی لو" ۔ اور وہ میں کیا اتنی بیوقوف ہو کہ اتنی ٹھنڈ میں پانی پہ پانی چڑھاتی جاؤں؛ وہ تو یونہی….سمجھتے ہیں نا آپ۔
اس لوفر نے پتا نہیں  بیوی کے کان میں کیا کہا تھا کہ وہ کھل کر گلنار ہوئی جا رہی تھی۔ مسافروں کا بھی خیال نہیں ؛ایسی بھی کیا بے اختیاری کے بندہ چھچھورپن پر اتر آئے۔ میں نے دل کو ڈھارس دی  لیکن اگر بات کر بھی لی جائے تو کیا حرج ہے۔ آخر کو بندہ اپنی بیوی سے بات کر رہا ہے کسی پروسن سے نہیں۔ میری نظریں تو ان دونوں سے ہٹ کر نہیں دے رہی تھی۔ میرے سرتاج نے میرا۔ نام پکارا میں نے سو جان سے فدا ہو کر ان کی طرف دیکھا۔
"دوپہر ہوگئی ہے ٹفن نکال کر کچھ کھالو ؛ یوں بھی تمہیں بھوگ جلدی لگتی ہے"۔  انہوں نے ذرا کی ذرا موبائل سے نظریں ہٹا کر مجھ پر کرم نوازی کی تھی ؛ یو جیسے ماسٹر نے شاگرد کو ہوم ورک کی تاکید کی ہو ۔
میرا دل جو پہلے سے جلا ہوا تھا اس بات مزید جلنے لگا ۔ پرائمری کے بچوں کی طرح ٹفن ساتھ لیے لیے پھرو ۔ ان تو گھر کے کھانے کے علاوہ باہر کی ہر چیز میں کیڑے نظر آتے ہیں۔ وہ دونوں کیسی چٹ پٹی چیزیں کھا رہے ہیں؛کس قدر آکورڈ لگے گا۔ ان کے سامنے ٹھنڈے سینڈوچز کا ٹفن کھولنا ۔ ان دونوں کو بھی بیسن تلی ہوئی مچھلی کھاتے دیکھ کر میرا دل چاہ رہا تھا ؛ اپنا ٹفن چلتی گاڑی سے باہر پھینک دوں۔
آج مجھے اپنا آپ شفیق الرحمن کی "حماقتیں" کے میاں بیوی کے قصے جیسا لگ رہا تھا۔جس میں ہنی مون پر جاتے ہوئے بیوی نے بڑے پیار سے اپنے شوہر سے کہا۔
"جان! وہ دیکھئیے؛ سامنے پہاڑ کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں ۔" جان نے پھر کہا۔" ہاں ساتھ میں کھائیاں بھی ہیں۔"
لہذا میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بات کرکے منہ کی کھاؤں؛ اس لیے چپ رہنا ہی بہتر تھا اور یوں بھی اب مجھے نیند آ رہی تھی تھی کیونکہ وہ دونوں اب کجھ زیادہ ہی پیار جتاریے تھے اور اخلاق کا تقاضا یہی تھا کہ اب آنکھیں بند رکھی جائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن مصیبت تو تب ٹوٹی  جب انھوں نے ہوٹل بھی وہی چن لیا جو ہم نے لیا ۔ حد تو یہ کہ کمرہ بھی بالکل ہمارے برابر والا ؛ بھی جتنا ان سے بچنا چاہ رہی تھی ؛ وہ اتنا ہی سر پر سوار ہو رہے تھے۔ اب ہوٹل میرے باپ کا تو نہیں کہ نکال کر باہر کرو۔
اب کمرہ  ساتھ ساتھ ہے تو ظاہر ہے۔  میل ملاقات بھی ہوگی؛ ان دونوں کی چڑھائی دیکھ کر میرا ہنی مون تو گیا کھائ میں کیونکہ میرے میاں کو نہ تو دل داریاں آتی ہیں اور نہ ہی وہ کریں گے ۔ میرے خواب  تو بیچارے بن کھلے مرجھا گے ؛ اب یہی  دیکھئے ؛ ابھی چار گھنٹے ہوے ہیں یہاں اے اور پڑے سو رہے ہیں کے سفر کی تھکان بہت ہے اور ان دونوں کو دیکھیے ۔ سامان کمرے میں رکھتے ہی پرس جھلاتے چل پڑے کمبختوں کو ذرا تکن نہیں یوں جیسے ہوا میں اُڑ کے پہنچے ہوں۔
میں تو اس بات پہ حیران تھی کہ مجھے یہاں تک  لے کیسے آئے۔ گھر میں تو دس نقصان گنوا دیے تھے ہنی مون کے ؛ یہ تو ان کی امی نے ہی راضی کیا تو چل پڑے ۔ اب تو گھر جاکے اِن کی امی سے ہی پوچھوں گی کہ ان کو راضی کرنے کا کون سا نسخہ آپ نے استعمال کیا ۔ کیونکہ میرے خیال میں ایسے نسخے میری یاداشت میں بھی محفوظ رہنے چاہیں۔ جب ضرورت پڑی ایک نکال لیا۔ اب یہ بات امی سے پہلے پوچھ لی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ؛ کم از کم میں اس وقت ایک نسخہ نکالتی اور یوں جادو کی چھڑی گھوم جاتی لیکن نہیں۔۔۔۔۔میرا نہیں حیال کہ یہ پورے کا پورا بندہ ایک نسخہ  سے حل ہو سکے ۔ ہو تو جو میرے سینے پر مونگ دل رکھ رہے ہیں؛ کچھ تو ایسا ہو کہ میں میں بھی ان کے سینے کا مونگ دل بن سکوں

(جاری ہے)
Hope you like this 😊😊

ٹھیک کیا ناںWhere stories live. Discover now