Episode 3

127 20 16
                                    

ہوائے تازہ میں پھر جسم و جاں بسانے کا
دریچہ کھولیں کہ ہے وقت اس کے آنے کا
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
یہ خواب زاد ہے کردار کس فسانے کا
کبھی کبھی وہ ہمیں بے سبب بھی ملتا ہے
اثر ہوا نہیں اس پر ابھی زمانے کا
ابھی میں ایک محاذ دگر پہ الجھی ہوں
چنا ہے وقت یہ کیا مجھ کو آزمانے کا
کچھ اس طرح کا پر اسرار ہے ترا لہجہ
کہ جیسے رازکشا ہو کسی خزانے کا

لیکچر کے بعد ہادیہ اور مہناز کینٹین چلے گے ۔ ہادیہ کا موڈ ابھی بھی خراب تھا - بے دلی سے وہ مہباز کے ساتھ کینٹین تک آئی ۔ وہ دونوں ایک میز کے گرد بیٹھ گئیں
"کیا کھانا ہے میرے پیٹ میں تو چوہے ڈ سکو کر رہے ہیں " مہناز نے بھوک کی دہائی دی
"میرے لیے بس سلش لے آنا میں یہیں بیٹھتی ہوں تم جاؤ لے آو " ہادیہ نے مہناز کو بولا وہ چلی گئی تو ہادیہ ارد گرد کا جائزہ لینے لگی
———————————————————————-
بلاول اور روخیل کینٹین میں اپنے گروپ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ امیشہ اور تانیہ بھی آگئیں
"ہیلو گائز !" امیشہ بے ہاتھ سے اشارہ کیا
"ہائے !" روخیل اور باقی سب نے اس کا خیر مقدم کیا
بلاول پہلو بدل کر رہ گیا
"تم لوگوں نے کی کسی کی ریگنگ " امیشہ بہت پرجوش لگ رہی تھی
"میڈم ہم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے کارکن ہیں ان کی مدد کے لیے نا کہ انہیں پریشان کرنے کے لیے " عماد نے اسے یاد دلایا
"تم نے کس کی شامت لائی " عدیل نے اس سے پوچھا
"ہاہاہا ! دو لڑکیاں آئی تھیں LH 22 کا پوچھنے مزے کی بات وہ LH 22 کے سامنے ہی تھیں میں نے انھیں بہت اچھے سے گائڈ کیا قریباً دس منٹ میں پہنچ گئی ہونگی " اپنی بات کے اہتطام میں اُس کا قہقہ بلند ہوا
بلاول لب بھینچ کے رہ گیا ۔ باقی سب کو بھی کوئی خاص پسند نا آئی اسکی یہ حرکت
ہادیہ ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھی سامنے ہی ٹیبل پر اسے وہی صبح والا لڑکا اور ساتھ ہی وہی لڑکی جس نے انکی ریگنگ کی تھی نظر آئے
کسی بات پر اسکا بےہنگم قہقہ گونجا تھا
"یہ دونوں ساتھ مطلب اس لڑکے نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا " ہادیہ نے بدگمانی سے سوچھا
مہناز اپنے لیے سینڈوچ جوس اور ہادیہ کے لیے سلش لے کر آئی
ہادیہ کو غصے میں دیکھا تو
"تمہیں کیا ہوا ہے اچھا بھلا تو چھوڑ کر گئی تھی "کہہ کر اسنے اسکی آنکھوں کے تعاقب میں دیکھا جہاں امیشہ اور بلاول لوگوں کو گروپ خوش گپیوں میں مصروف تھا
"او تیری یہ تو وہی چڑیل ہے "مہناز کو بھی غصہ آیا
ہادیہ سلش کا گلاس کے کر اٹھی
"کہاں جا رہی " مہناز کو اسکے ارادے ٹھیک نہیں لگے
"کچھ نہیں بس یہاں دل نہیں لگ رہا "
مہناز اٹھی روکو میں بھی چلتی ہوں
وہ پہلے کاونٹر کی طرف گئیں دو ہی لمحے بعد واپس پلٹییں بلاول لوگوں کے ٹیبل کے پاس پہنچ کے اس نے ایسے ایکٹینگ کی جیسے اسکا پاؤں الجھا ہو اس طرح سلش کا گلاس چھلک کر امیشہ کی گود میں گرا
مہناز نے ہادیہ کو سہارا دیا ایسے کرتے ہوئے بلکل پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ ناٹک کر رہی ہیں
"او ! سوری میرا پاؤں الجھ گیا تھا "ہادیہ نے شرمندہ ہونے کوشش کی
امیشہ غصے سے آگ بگولہ ہو اٹھی باقی سب بھی پہلے حیران ہوئے تھے
"واٹ دا ہیل " وہ چلائی
بلاول اور روخیل نے بھی ہادیہ کو پہچان لیا تھا بلاول ناگواری سے دونوں کو دیکھ رہا تھا
باقی سب امیشہ کی حالت سے محظوظ ہورہے تھے
"یہ کیا کیا تم نے میرا اتنا expensive سوٹ خراب کردیا " وہ نحوت سے چلائی
"اوو آپ ! " ہادیہ نے حیران ہونے کی ایکٹنگ کی
امیشہ نے جب ہادیہ اور مہناز کو دیکھا تو طنزیہ مسکرائی
"اصل میں ہم آپ کا شکریہ  ادا کرنا چاہتے تھے "
"میں سمجھی نہیں کس بات کا شکریہ" امیشہ حیران ہوئی
"وہ آپ نے صبح ہمیں گائڈ کیا تھا تو اس لیے بہت بہت شکر گزار ہیں ہم آپ کے ورنہ ہم تو لیٹ ہو جاتے لیکچر کے لئے " ہادیہ نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں
سب انہیں کی طرف متوجہ تھے بلاول بھی
"اوو آئی سی مل گئی تھی کلاس آپ کو " امیشہ تھوڑی حیران ہوئی
" جی اصل میں ہماری کلاس LH 22 میں نہیں تھی بلکہ LH 12 میں تھی اور وہ پہلے نمبر پر ہی مل گئی تھی ہمیں اتنا دور جاناں بھی نہیں پڑا " ہادیہ جب LH 22 کے لیے بھاگ رہی تھی تو ساری کلاسیز کے نام بغور دیکھے جارہی تھی جو شروع ہی LH 12 سے رہیں تھیں
امیشہ کو اپنی تذلیل کا احساس ہوا وہ صبر کا گونٹ پی کر رہ
گئی
سب اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کر رہے تھے اب ۔۔۔۔۔امیشہ لب بھینچ کر رے گئی
"آئی ایم سوری فار دس آپ کا اتنا پیارا سوٹ خراب ہوگیا میں معذرت خوا ہوں آپ سے "ہادیہ نے ایک بار پھر معذرت کی
امیشہ غصے سے پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی
تانیہ بھی اسکے پیچھے گئی
آخر میں ہادیہ ایک نفرت بھری نگاہ بلاول پر ڈال کر آگے بڑھ گئی
نظروں کا یہ تصادم بہت گہرا تھا ایک میں نگواری تھی تو دوسرے میں نفرت و غصہ
بلاول سر جھٹک کر رہ گیا
لیکن روخیل کو وہ یہاں کی باقی سب لڑکیوں سے مختلف لگی اس جامع میں جہاں تمام ہائی کلاس کی لڑکیاں اپنی نمائش میں آگے اگے تھیں وہی اسی کلاس کی یہ لڑکی سادہ حلیے میک اپ سے پاک شفاف معصوم چادر کے حالے میں لپٹا چہرا اپنی پاکیزگی کا داستان آپ بیان کرتا تھا ساتھ ہی اس کا لڑکوں سے گریز اس سارے وقت میں وہ لڑکوں کو بلکل فراموش کیے کھڑی تھی ویک نگاہ ڈالی بھی تو اس میں بھی دکھ غصہ نفرت بھری ہوئی تھی اس نے بلاول سے کچھ بھی نا کہا اگر وہ ایسی ہوتی تو اس سے مراسم بڑھانے کے لیے یا اسکی توجہ کے لیے اسے صبح کا تذکرہ ضرور کرتی پر وہ خاموش نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گئی
روخیل بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا پھر کیسے ممکن تھا کہ زریک نگاہ رکھنے والے بلاول کو نظر نہیں آرہا تھا وہ حیران ہو رہا تھا
"یہ پرفیکٹ ہے اس کھڑوس کے لیے " اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا کر سر جھٹک گیا
————-//////————-//////————-///—-
"ہادی بلاول شاہ  کتنا شاندار ہے نا ں " وہ لوگ کینٹین سے آئیں تو مہناز بولی
"کون بلاول " ہادیہ نے پوچھا
"ارے وہ بلاول شاہ سٹوڈنٹ فیڈریشن کا پریزیڈنٹ ہے وہ بلیک شرٹ والا handsome لڑکا "مہناز نے اسکی لاعلمی پر اسے بتایا
ہادیہ کو جھٹکا لگا
"تم کیسے جانتی ہو اسے "ہادیہ نے اپنے تاثرات چھپائے
"وہ ٹیسٹ والے دن پتا چلا تھا تب دیکھا تھا بہت کمال بندہ ہے یار "مہناز بولی
"اچھا ۔۔۔۔ایسا کیا کمال ہے " ہادیہ نے ابرو اٹھایا
"افف ہادی تم نے دیکھا نہیں کیا کمال کی شخصیعت ہے اسکی میں نے آج تک ایسا بندہ نہیں دیکھا "مہناز نے پھر سے اسکے گُن گائے
ہادیہ خود کو کچھ بھی ظاہر کرنے سے روکا
"ہنہہ خوبصورتی ہی سب کچھ نیں ہوتی بات اخلاق اور کردار کی ہوتی ہے "
"اسکا اخلاق بھی بہت اچھا ہے وہ ہر لحاض سے مکمل انسان ہے "مہناز نے پر اسکی تعریف کی
"تم اتنا وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہو" ہادیہ چڑ رہی تھی
"ٹیسٹ والے دن وہ جس طرح سب کو گائڈ کر رہا تھا اتنی بھاگ دوڑ کے بعد بھی اس کے ماتھے پر ذرا شکن نہیں تھی "مہناز نے وجہ بتائی
"وہ اس کا فرض تھا اسکی ڈیوٹی تھی اسے کرنا ہی تھا " ہادیہ جیسے چڑ گئی
"جو بھی ہے بندہ کمال ہے " مہناز تو گرویدہ ہو رہی تھی اسکی شخسیت ہی اتنی سحر انگیز تھی کے سب کو جکڑ لیتی تھی اس میں
"تم لڑکیوں کی انہی باتوں کی وجہ سے ان لڑکوں کا دماغ ساتویں آسماں پر پہنچ جاتا ہے " ہادیہ کو برا لگ رہا تھا اس بندے کی تعریف
"تم تو شروع ہی سے آدم بے زار ہو ہادی "مہناز نے ناک چڑایا
"کروں میں زوہاب کو کال بتاؤں کتنی آدم بے زار ہوں میں اور کتنی تم رنگین خیالات کی " زوہاب مہناز کا چچا زاد اور مہناز کا منگیتر بھی تھا
"توبہ ہادی میں تو بس تعریف کر رہی ہوں وہ تو میرے ھبائیوں جیسا ہے "مہناز چڑ گئی ہادیہ مسکرائی
"آج کے بعد اس بندے کا ذکر ہم نئیں کریں گے " ہادیہ کو گراں گزر رہا تھا
"تمہیں اتنی چڑ کیوں ہورہی ہے اس سے " مہناز نے مشکوک نظروں سے دیکھا
"مجھے کیوں چڑ ہوگی وہ اسی لڑکی کا دوست ہے اور ایک جیسے ہونگے بس مجھے نفرت ہے ان سے دیکھا نہیں کیسے گور رہا تھا " ہادیہ نے بے تکے جواز پیش کیے
مہناز حیران ہوئی پر بولی کچھ نہیں کہ وہ بہت اچھے سے جانتی تھی اصل وجہ وہ کبھی نہیں بتائے گی اسے وہ ایسی ہی تھی ہر بات خود تک رکھنے والی اس کی آنکھوں کے کنارے لال تھے مطلب وہ اس وقت خود کو قابو کیے ہوئے تھی
مہناز حیران و پریشان ہوئی تھی آخر بات کیا ہے ہادیہ سے پوچھنا بیکار تھا
وہ سر جھٹک کر رو گئی
"اچھا چھوڑو اس بات کو چلو چلیں " مہناز نے بات بدلی
—————///————////—————////———-
یونیورسٹی سے آ کے اپنے روم میں جا کر خوب روئی تھی اور سبب صرف بلاول شاہ کی باتیں تھیں روتے روتے وہ سو گئی تھی شام کو اٹھی تو اسکا موڈ قدرے بہتر تھا ۔
فریش ہو کر نیچے آئی تو دادی جان کال پر مصروف تھیں
تھوڑی ہی دیر میں کال بند کر کے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئیں
"تمہارے آغا جان کی کال تھی " انہوں نے بتایا
"کیا کہہ رہے تھے آغا جان " اس نے پوچھا
"وہ مہوش کے رشتے کے لئے کچھ لوگوں نے آنا ہے کل تو بلایا ہے اس نے "دادی جان نے وجہ نتائی
"اوو واؤ مہوش آپی کے لئے کون لوگ ہیں "وہ ویکسائڈٹڈ ہوتے ہوئے پوچھا
"مہوش کی یونیورسٹی کا کوئی لڑکا ہے "قدسیہ بیگم گویا ہوئیں
"اچھا " ہادیہ حیران ہوئی
"بس اللہ نصیب اچھے کرے میری بیٹیوں کے "قدسیہ بیگم نے دعا دی
"امین "ہادیہ مسکرائی
اسکا من کافی ہلکا ہو چکا تھا اب وہ اس شخص کی باتوں کو سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی
پھر وہ اٹھی اپنے لیے اور قدسیہ بیگم کے لیے چائے بنانے چلی گئی
————-/////———//////———/////——-
صبح وہ جلدی اٹھ کر نماز پڑھ کر جوگنگ کے لئے چلا جاتا تھا واپس آتا تو ناشتہ ریڈی ہوتا تھا - روز کی اس کی یہی روٹین تھی
بلیو جینیز نیوی بلیو شرٹ اپنی فیورٹ کلون خود پر چھڑک کر بائیں بازو پر قیمتی گھڑی پہنے وہ بلکل تیار تھا وہ نیچے آیا تو ناشتہ ٹیبل پر لگ چکا تھا - ناشتہ کر کے وہ یونیورسٹی کے لیے نکلا دلاور شاہ آفس کے لیے نکل گئے تھے وہ ابھی کار پورچ کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ
"بھائی !" رملہ شاہ نے آواز دی اسکی لاڈلی بہن
"بھائی روکیں ذرا " وہ جلدی سے اسکی طرف آئی
"آرام سے گڑیا ! کیا بات ہے " بلاول شاہ نے پیار سے پوچھا 
"بھائی وہ میری فرینڈ ہانیہ ہے ناں " اس نے تمہید باندھی
"ہممم ہاں کیا ہوا اسے " بلاول شاہ جانتا تھا اسکی سہیلی کو
"او ہو بھائی اسے کچھ نہیں ہوا اسکی برتھ ڈے آرہی ہے " اس نی بتایا
"اچھا تو پھر میں کیا کروں گا "
"بھائی مجھے اس کے لئے گفٹ لینا ہے "
"اچھا تو لے آنا نہ چھوٹی مسلہ کیا ہے اس میں " بلاول شاہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کہنا کیا چاہ رہی ہے
"ہاں تو میں آپکے ساتھ جانا چاہتی ہوں " اصل وجہ بتائی اس نے
"شاپنگ نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوتا جانتی ہونا تم " بلاول کو شاہنگ کے خیال سے ہی کوفت ہوئ
" بھائی پلیز ہم نے صرف گفٹ لینا ہے اور آ جانا ہے " رملہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا
" اوکے بابا چلیں گے " اسکی بسورتی شکل دیکھ کے وہ ہار مان گیا
" یس مجھے پتا تھا آپ ضرور مانیں گے " وہ خوش ہوئی
بلاول مسکرا کر اسکے سر پر چپت رسید کرآنکھوں پر گاگلز لگا کے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا
—————//////———///////———-////—
یونیورسٹی کی پارکنگ میں گاڑی پارک کر کے آئی تو بائیں جانب ہی مہناز کو اپنا منتظر پایا
"کیسی ہو!" مہناز نے پوچھا اسے کل والی اسکی پریشانی کے پیشِ نظر اسنے اس سے پوچھا
"میں ٹھیک ہوں بلکل " وہ مسکرائی وہ اب نارمل تھی بلکل
مہناز اسے دیکھ کر رہ گئی
وہ دونوں کلاس میں چلی گئیں لیکچر شروع ہو چکا تھا
سر آصف کا لیکچر تھا انہوں نے بتایا کہ تقریری مقابلہ ہونا ہے دو دن بعد تو انہیں دو سٹوڈنٹ اس کلاس کی چاہئے تھے
ہادیہ بہت اچھی تقریر کر لیتی تھی مہناز نے اسے مہلت دیے بنا اسکا نام لکھوا دیا مبادا ہادیہ منع ناں کر دے
مقابلے کے اگلے دن پارٹی تھی
"تمہیں کس نے کہا تھا میرا نام لکھوانے کو " ہاریہ برہم ہوئی
"کیوں کیوں تم اتنی اچھی کرتی ہو یو آر آ گڈ سپیکر ۔۔۔یونیورسٹی میں بھی تو یہ جلوا دکھاؤ نا " مہناز پرجوش ہو رہی تھی
" لیکن ناز یہاں سب اور لوگ ہیں ان کی ذہینیت اور میری میں بہت فرق ہے " ہادیہ نروس ہوئی
" یہی تو میری جان تمہاری طاقت ہے شائد کتنی ہی زندگیاں بدل جاتی ہیں یو کین ڈو اٹ بلیو می " مہناز نے اسے سمجھایا
وہ سر جھٹک کر چل پڑی اب اسے اپنی پوری توجہ لگانی تھی مہناز کی باتوں نے اپنا اثر کر دیا تھا

—-//——————-//////—————-/////——-
"بلاول تم نے سارے انتظام دیکھنے ہیں یہ تمام سٹوڈنٹ کے نام کی لسٹ ہے " سر آصف نے اسے لسٹ تھمائی
لسٹ کو دیکھا بارہ لوگ تھے جن میں گیارہ لڑکے اور صرف ایک لڑکی تھی ہادیہ قیصر نام کی
وہ حیران ہوا تھا صرف ایک لڑکی
" سر اس بار صرف ایک لڑکی ہے ایسا کیوں " اسنے سر سے بھی وہی حیرانگی ظاہر کی لڑکیوں سے چڑ اپنی جگہ پر ہر سال مقابلے میں برابر ہوتی تھیں لڑکوں کی تعداد کے البتہ آج تک کوئی لڑکی جیت نہیں پائی تھی
"اس بار موضوع ہی ایسا ہے کہ صرف ایک بچی نے حصہ لینے کی جرات کی ہے"سر آصف مسکرائے تھے
بلاول شاہ نے اثبات میں سر ہلایا
وہ اٹھ کر اپنے سٹوڈنٹ فیڈریشن کی آفس میں آگیا تاکہ پروگرام کی ترتیب سیٹ کر سکے اپنی پوری ٹیم کو اس نے بلایا
"روخیل یہ نوٹس بورڈ پر یہ لگا دو " اسنے روخیل کو ایک نوٹ دیا جس میں حصہ لینے والے تمام طلبہ کو اپنے آفس میں بلایا
تاکہ وہ کورڈینیٹ کرسکے
وہ سر ہلا کر چلا گیا
————-/////———/////—————-/////—-
ہادیہ اور مہناز کلاس لے کر کینٹین کی طرف جا رہی تھیں کہ نوٹس بورڈ پر اسکی نظر پڑی تو رک گئی
اس پر سٹوڈینٹ فیڈریشن کی انتظامیہ کا پیغام تھا ان طلبہ و طالبات کے لیے جنہوں نے مقابلے میں حصہ لیا تھا
تو مہناز کو اپنے آنے کا کہہ کر سٹوڈینٹ فیڈریشن کے آفس کی طرف چل پڑی
آفس پہنچ کر جب اسکی نظر سامنے بیٹھے انسان پر پڑی تو اسکے قدم وہیں تھم گئے تھے
اسے بلکل اندازہ نہیں تھا اسکا سامنا اس انسان سے ہوگا پھر ابھی کل ہی تو مہناز نے اسے بتایا تھا کہ وہ پریزیڈینٹ ہے پر اس وقت وہ اسکی یاداشت سے محو ہو چکا تھا
بلاول کی نظر جب دروازے پر کھڑے وجود پر پڑی تو وہ منظر سارا پھر سے یاد آیا ایک ناگواری کی لہر دوڑی اسکے اندر پروہ یہاں کیا کر رہی ہے
دونوں ہی طرف نفرت کا ابال سا تھا
نظروں کا تصادم بھی ایسا ہی تھا ایک میں ناگواری غصہ اور نفرت تو دوسرے میں دکھ غصہ نفرت ۔۔۔۔
—-/———/////————//////———-/////—-
Will continue in next episode with spice 😋
Stay connected with us
Do like and comment your opinion and appreciation
It means alot ☺️
Thank you

ہوا مہک اٹھی Where stories live. Discover now