Episode O4

127 14 4
                                    


کوئی الزام مجھ پہ دھر گیا ہے کیا
یا یہ دل مجھ سے میرا بھر گیا ہے کیا

سنائ دے رہی ہے پھر سے یہ سسکی
کوئ مجھ میں کہیں پھر مرگیا ہے کیا

بکھرتی جارہی ہوں اپنے ہاتھوں میں
یہ مجھ پہ وار تو بھی کرگیا ہے کیا

یہ گیلا گیلا سا قرطاس ہے کیا ہے
کوئ اس پہ سمندر دھر گیا ہے کیا

فرشتے آسماں پہ کیوں بھلا خوش ہیں
کوئ مقتل سے پھر بن سر گیا ہے کیا

وہ اب اپنی غزل کے شاخسانے کو
سنانے یا چھپانے گھر گیا ہے کیا

بلاول کی نظر جب دروازے پر کھڑے وجود پر پڑی تو وہ منظر سارا پھر سے یاد آیا ایک ناگواری کی لہر دوڑی اسکے اندر پروہ یہاں کیا کر رہی ہے
دونوں ہی طرف نفرت کا ابال سا تھا
نظروں کا تصادم بھی ایسا ہی تھا ایک میں ناگواری غصہ اور نفرت تو دوسرے میں دکھ غصہ نفرت ۔۔۔۔
کچھ لمحے اسی طرح وہ ایک دوسرے کو گھورتے رہے کہ روخیل آگیا
"جی محترمہ آئیے ہم آپی کیا مدد کر سکتے ہیں " روخیل نے ہادیہ کو اندر آنے کا کہا جو کہ ابھی تک دروازے ہر کھڑی تھی
"وہ نوٹس بورڈ پر نوٹ دیکھا تھا پارٹیسیپنٹ کے لئے تو میں اسی سلسلے میں آئی تھی "ہادیہ اپنی چادر درست کرتے ہوئے اعتماد سے مدھم لہجے میں بولی لیکن اندر نہ گئی چونکہ وہاں کوئی لڑکی نہیں تھی وہ دونوں بھی اسکا گریز سمجھ گئے تھے
روخیل کو خیرت نہیں ہوئی بلکہ خوشی ہوئی کہ اس نے اسے ہہچاننے میں غلطی نہیں کی تھی
بلاول شاہ حیران تھا آج تک ہر لڑکی ہی بلا جھجک ان کے آفس میں آجاتی تھی وہ انہی لڑکیوں میں سے ہوتے ہوئے بھی ویسی نہیں تھی وہ پہلی لڑکی تھی جو یوں جھجک رہی تھی
"جی لگایا تھا آپ؟" روخیل نے ابتو اچکا کر اسے پوچھا
"وہ میں نے پارٹیسیپیٹ کیا ہے " اس نے بتایا
بلاول کے سامنے ہی لسٹ پڑی ہوئی تھی جس میں ایک ہی لڑکی کا نام تھا اس نے کنفرم کرنے کے لیے پوچھا
"جی آپکی تعریف ؟" وہ پہلی بار اسے غصے کے بغیر مخاطب ہوا
"ہادیہ قیصر " سپاٹ سا جواب آیا
بلاول شاہ نے سر جھٹکا
"آپ اپنا کانٹیکٹ وغیرہ نوٹ کروا دیں تاکہ ہم آپ سے رابطہ کر سکیں آپ اپنی تیاری پوری رکھیے گا ہم آپکو سب سمجھا دیں گے باقی سب " بلاول نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
ہادیہ اپنی ڈیٹیلز نوٹ کروا کر چلی گئی
———-/——-//////—————-//////————
روخیل اور بلاول لیکچر کے بعد آڈیٹوریم میں چلے گئے تھے فنکشن کا سیٹ آپ دیکھنے کے لیے۔ ابھی وہ سارا نظام دیکھ ہی رہے تھے کہ
"پائم مینسٹر صاحب کیسے مزاج ہیں آپ کے " شہریار تنزیہ مسکراہٹ لیے بلاول سے مخاطب تھا
" آپ کی دعاؤں سے بہت اچھا " بلاول نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا
شہریار کا بھرپور قہقہ گونجا تھا
شہریار انکی مخالف پارٹی کا سربراہ تھا وہ اپنی ہار برداشت نہیں کر پا رہا تھا وہ ایک بڑے سیاست دان کا بگڑا ہوا بیٹا تھا
اسکے دل میں شدید انتقام کی آگ بڑھک رہی تھی
"اچھا چلو تم اپنا کا جاری رکھو میں گزر رہا تھا سوچا پوچھ لوں کسی مدد کی ضروت نہ ہو ناں " وہ ایک مسکان اس کیطرف اچھال کر چل دیا
"پتا نہیں اس کے دماغ میں کیا کچڑی پک رہی ہے " روخیل بولا
"کوئی نہیں دیکھ لیں گے ہم کچھ نہیں کرسکتا یہ " بلاول نے مطمئین انداز میں کہا
روخیل بھی مسکرا دیا۔
__________\\_____________________
ہادیہ پارکنگ سے گاڑی نکالنےلگی تھی کہ پیچھے کسی کی گاڑی غلط پارک تھی
وہ سخت جھنجلائی تھی
گارڈ سے پوچھا
"چاچا وہ گاڑی کس نے غلط پارک کی ہے آپ نے منا نہیں کیا "
"بیٹا وہ شہریار کا گاڑی ہے اسے کچھ کہا تو ہمارا نوکری چلا جائے گا " چاچا نے افسوس کیا
"پتا نہیں کیا پوگا اس قوم کا "وہ تاسف سے سوچ کر رہ گئی۔
مہناز پہلے ہی جا چکی تھی وہ بے بسی سے وہاں انتظار کرنے لگی
تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک لڑکا اس گاڑی کے پاس آیا
"Excuse me ! آپ کو کوئی مینرز ہیں گاڑی پارک کرنے کے میں پچھلے آدھے گھنٹے سے انتظار کر رہی ہوں کہ یہ گاڑی ہٹے تا کہ میں گاڑی نکال سکوں "شدید غصے میں اسنے اسے سنائیں
شہریار پہلے تو جوابی کروائی کرنے لگا تھا کہ اسکی نظر سامنے کھڑی لڑکی پر پڑی غصے سے لال ہوتا معصوم اور انتہائی خوبصورت چہرہ
وہ ہمیشہ کا دل پھینک فلرٹی طبیعت کا تھا ہرنئی لڑکی سے دوستی کرنا پھر انہیں چھوڑ دینا اسکی فطرت بن چکا تھا
وہ بے باکی سے اسکا جائزہ لے رہا تھا کہ ہادیہ کا دل چاہا اسکی آنکھیں نوچ لے
"آپ مہربانی کر کے اب گاڑی ہٹا دیں آئی ایم گیٹنگ لیٹ" اسنے ناگواری سے اسے کہا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا منہ توڑ دے اسکا
"آپ نیو سٹوڈنٹ ہیں " شہریار نے اس سے پوچھا
"اپ سے مطلب ؟" ہادیہ نے ناگواری سے ابرو اچکایا
"میرا نام شہریار ہے اگر کسی مدد کی ضرورت ہو تو بلا جھجک آپ مجھ سے کہہ سکتی ہیں یہ میرا کارڈ ہے " اس نے اپنا کارڈ اس کی طرف بڑھایا
ہادیہ نے جان چھوڑنے کے لئے کارڈ تھام لیا شہریار چلا گیا تو اس بے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور جلدی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھی کہ اسے کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس ہوئی
اسنے دائیں جانب دیکھا تو دو آنکھیں ناگوری سے اسے دیکھ رہی تھیں اسکے دیکھنے پر اسنے سر جھٹکا اور گاڑی لے کر چلا گیا
ہادیہ کو عجیب لگا
بلاول شاہ پارکینگ سے اپنی گاڑی نکالنے لگا تھا کہ دور سے اسے شہریار نظر آیا کسی لڑکی کے ساتھ جب غور کیا تو وہ لڑکی ہادیہ تھی وہ تسلیم کرنے لگا تھا کہ وہ باقی لڑ کیوں جیسی نہیں ہے پر اس وقت است شہریار جیسے بندے کے ساتھ دیکھ کر وہ پھر سے غلط فہمیوں کا شکار ہو رہا تھا
اتنے دور سے وہ صرف انہیں دیکھ سکتا تھا سن نہیں پا رہا تھا اسکے دل میں پھر اس کے لئے نفرت جاگی اسے اس کی سادگی ڈھونگ لگنے لگی تھی
________________________________
گھر آکر کھانا کھا کر وہ لیٹی تھی کہ اسے بلاول شاہ اور شہریار کی باتیں یاد آنے لگیں وہ دکھ کی انتہا پر تھی کہ اتنے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود شہریار جیسے لوگوں کی سوچ نہیں بدلتی اسکی سکین کرتی نظریں اسے خود میں کھوبتی محسوس ہو رہی تھیں تو دوسری طرف بلاول شاہ کی وہ ناگوار نظریں جن میں اسکے کردار پر واضح چوٹ تھی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ شخص کیوں اسے اس طرح تذلیل کر رہا ہے
وہ کچھ بھی برداشت کر سکتی تھی پر اپنے کردار پر کوئی سوال نہیں
اسکی آنکھیں جل رہی تھیں
گرم سیال مادہ اسکی آنکھوں کے گوشوں سے نکلا
وہ ان دونوں سے شدید نفرت کرنے لگی تھی
انہی طرح کڑھتے کڑھتے کب وہ سو گئی پتا بھی نہ چلا
________________________________
یونیورسٹی کی پارکینگ سے نکل کر وہ بے مقصد روڈ پر گاڑی بھگاتا رہا
انجانے میں ہی اسکے سوچ کا مہور ہادیہ بنی ہوئی تھی اس وقت اسے اس لڑکی سے شدید نفرت کا احساس ہو رہا تھا
اسے شہریار جیسے بندے کے ساتھ دیکھ کر واقعتاً اسے حیرانگی ہوئی تھی کہاں وہ اس لڑکی کو منفرد سمجھ رہا تھا اور کہاں اسکی معصومیت کے پیچھے اسکا اصلی چہرہ تھا
"میں کیوں اسے سوچ رہا ہوں یہ سب ہوتی ہی ایسی ہیں " اسنے سر جھٹکا اور گھر کی طرف رخ کیا گاڑی کا کہ شام کے پانچ بج رہے تھے اور اسے رملا شاہ کو شاپنگ پر لے کر جانا تھا وہ اسکا انتظا کر رہی تھی
________________________________.
قدسیہ بیگم ،ہادیہ اور کرنل قیصرسب۔ یاسر اعوان کے گھر جمع 
تھے مہوش کے رشتے کے لئے فیملی نے آنا تھا
وہ لوگ ہر خاص مواقع پر ایسے ہی ساتھ ہوتے تھے کرنل قیصر کی جاب ہی ایسی تھی کہ ان کی بدلی ہوتی رہتی تھی کبھی اس شہر تو کبھی اُس شہر لیکن ہادیہ کو خود سے دور نہیں رکھنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے جہاں انکی بدلی ہوتی وہ قدسیہ بیگم اور ہادیہ کو ساتھ لے کر جاتے تھے ورنہ دونوں بھائی ساتھ ہی رہتے تھے پہلے
ہادیہ سب بھولا کر مہوش کے لیے ایکسائٹڈ تھی اگر ہادیہ سب کی لاڈلی تھی تو وہ خود بھی اپنے ہر رشتے سے بہت محبت کرتی تھی
آغا جان نے پہلے ہی سب معلومات لے لی تھیں لڑکے والوں کی وہ بھلے لوگ تھے اب بس فارمیلٹی ہی نبھانی تھی سب
ویسے بھی مہوش کی خوشی میں سب خوش تھے
ان لوگوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا سب کچھ خوش اسلوبی سے ہوگیا تھا
مہمان جا چکے تھے بڑے سب چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور بچہ پارٹی مہوش ،سحرش ،عمران اوا ہادیہ لڈو کھیلنے میں مشغول تھے اب۔ مہوش اور ہادیہ ایک ٹیم اور سحرش اور عمران ایک تھے
"ویسے آپی ٹریٹ تو بنتی ہے کیوں پرٹنر  "عمران نے مہوش سے ٹریٹ مانگی عمران ہادیہ سے ایک سال چھوٹا تھا دونوں میں بہت دوستی تھی عمران اسے بلکل مہوش اور سحرش کی طرح اپنی بہن سمجھتا تھا اس نے اپنی بات میں ہادیہ کو شامل کیا
"یس آپی ویسے اتنی خوشی میں آئس کریم تو بنتی ہے نہ "بس ہادیہ کے لئے ساری بات ہی ختم ہو گئی اس بات پر.
"لو کر لو بات آئس کریم کی " سحرش بولی
مہوش اور باقی سب ہنس دیے
"نہیں نہ اب چلیں اب تو دینی پڑے گی ٹریٹ مجھے آیس کریم والی بھوک لگی ہے " ہادیہ معصومیت سے بولی تو سب ہنس پڑے اور وہ خود بھی ہنس دی
"آغا جان اور چاچو سے اجازت کون لے گا " عمران بولا
"ہادی اور کون " مہوش بولی اب
"میں ؟؟؟" ہادیہ خود کی طرف اشارہ کر کے بولی
"جی آپ میڈم " سحرش بولی
سب کو پتا تھا اس ٹائم اجازت نہیں ملنی پر اگر ہادیہ کی بات نہیں ٹالی جائے گی
ہادیہ اٹھ کر کرنل قیصر کے پاس آکر بیٹھ گئی
"آغا جان مجھے بہت شدید قسم کی نھوک لگی ہے " ہادیہ لاڈ سے بولی
"تو میری جان کچن بھرا ہوا ہے لذیذ کھانوں سے آپ نے جو کھانا ہے کھالو " انہوں نے بھی  اسی کے انداز میں کہا
"آغا جان آپ سمجھ نہیں رہے نہ مجھے وہ والی بھوک نہیں لگی " اس نے چہرے پر معصومیت پھیلاتے ہوئے کہا
مہوش لوگ پیچے کھڑے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہے تھے
کرنل قیصر اس کی سیاست سمجھ رہے تھے ان کے لب مسکرا رہے تھے
"ہیں اور کون سی بھوک " یاسر اعوان حیران ہوئے
"وہ آغا جان مجھے سپیشل والی بھوک لگی ہے آئس کریم کھانی ہے "آغا جان سمجھ کر مسکرائے
"تو بیٹے وہ بھی پڑے ہے فریزر میں " انہوں نے اسکا مسلہ حل کرنا چاہا
"نہیں نہ آغا جان مجھے گھر والی نئیں کھانی نہ " ہادیہ نے منہ بسور کر کہا
"نہیں وہ گھر والی تھوڑی ہے وہ تو تمہارے فیورٹ آئس کرئم پارلر کی ہے " یاسر اعوان نے اسے بتایا
"آغا جااااااان ! مجھے باہر جا کر کھانی ہے آپ سمجھ کیوں نہیں رہے " ہادیہ زچ ہوئی
"ہادی بیٹا رات ہو گئی ہے اب " قدسیہ بیگم نے اسے منا کرنا چاہا
"دادی جان ابھی تو آٹھ ہوئے ہیں پلیز نا " ہادیہ نے انیہں قائل کرنا چاہا
"اوکے بیٹا جاؤ آپ لوگ لیکن جلدی آجانا "یاسر اعوان نے ہامی بھری
ہادی خوشی سے چہکی
"او تھنکیو آغا جانی آئی لو یو " اسنے پیار سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالی
"خوش رہو "انہوں نے پیار سے اسکا گال تھپتھپایا
کرنل قیصر خاموش بیٹھے مسکرا کر اسکی خوشی دیکھ رہے تھے
"اللہ میری بیٹی کو ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھنا "انہوں نے صدقے دل سے دعا کی
ہادیہ ،سحرش ،مہوش اور عمران جانے کے لئے نکلے
"مانی گاڑی میں ڈرائیو کروں گی " ہادیہ ڈرائیونگ کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھی
قیصر صاحب سخت خلاف تھے اسکی ڈرائیونگ کے لیکن ہادیہ کو کریز تھا اسکی خوشی دیکھتے ہوئے انیوں نے خود اسے سکھائی تھی گاڑی چلانا اور پھر جب پوری طرح مطمئین ہوگئے تو اسے اجازت دی۔
"ہادی مجھے مانی نہ کہا کرو اب میں بچہ تھوڑی ہوں اور ڈرائیو میں خود کروں گا " عمران نے پیار سے اسکے سر پر چپت لگائی
"اور کوئی نہیں پر میرے لیے تم مانی ہی ہو صرف میں تمہیں مانی کہہ سکتی ہوں اور تم مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے "ہادیہ نے اسی کے انداز میں کہا
"اور ڈرائیو میں کروں گی بس "وہ پھر بولی
"اوکے میم آپ کو سب اجازت ہے " عمران نے سر خم کر کے کہا
مہوش سحرش ان لوگوں کی نوک جھونک سے محظوظ ہو رہی تھیں
ہادیہ نے اپنی سیٹ سنبھالی مہوش اسکے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی عمران اور سحرش پیچھے بیٹھ گئے
وہ لوگ مستی مزاق کرتے اور ہلکہ میوزک لگائے آئس کریم پارلر کی طرف بڑھے
________________________________
"رملہ دیر ہو رہی ہے " بلاول شاہ تنگ آیا ہوا تھا
پچھلے دو گھنٹے سے رملہ بلاول کو گھما رہی تھی لیکن ابھی تک لیا کچھ بھی نہیں تھا بلاول اب تنگ آ گیا تھا
"بس بھائی یہ آخری شاپ یہاں سے بھی اگر کچھ نہ ملا تو واپس " رملہ نے چہرے پر معصومیت لا کر کہا
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد کہیں جا کر وہ فارغ ہوئے
"تھینک گاڈ ! اب میری توبہ جو میں کبھی تمہارے ساتھ شاپنگ کرنے جاوں " بلاول نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کہا
" بھائی ایسا نہ کریں نا آپ ہی کے ساتھ تو میرا بس چلتا ہے " رملہ نے مان بھرے لہجے میں کہا
"ہاں ہاں مجھے پتا ہے " بلاول نے ہلکی چپت لگائی اسے
"بھائی وہ آئس کریم پارلر " رملہ کو اب آئس کریم پارلر دیکھ کر دل مچلا
"مجھے تو نہیں دکھائی دے رہا " بلاول جان کر انجان بنا
"بھائی پلیز نا کریں نا وہ سامنے ہے " رملہ زچ ہوئی
"اچھا ندیدی " بلاول نے آئس کریم پارلر کی طرف گاڑی موڑی
"ہاہا یس "وہ خوش ہوئی
_______\\\\________\\\\\______\\\\\\__________

_______\\\\_________________\\\__
Now what's gonna happen when hadia and bilawal will meet again
Here is short part of episode o4
Will see you  day after tomorrow
Stay tuned 😇
Give ur recommendations and appreciation in comment box and vote if you like it ☺️

ہوا مہک اٹھی Where stories live. Discover now