یہ کہانی ہے ،ایمان والوں کی،جن کی زندگی امید پر قائم ہے_ ایک انوکھی لڑکی کی کہانی جسکا باپ اسکا آئیڈیل ہے،جس نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی کہ اس نے کسی بھی حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا_ ایک ایسی کہانی جو شاید کسی بھٹکے ہوئے کو روشنی دے_
Ups! Ten obraz nie jest zgodny z naszymi wytycznymi. Aby kontynuować, spróbuj go usunąć lub użyć innego.
خواب ,خواہش واہمہ ہے زندگی ایک بھیانک حادثہ ہے زندگی..
وہ تہجد کے لیے اٹھی تھی دن کا آغاز ہو چکا تھا اسے یاد نہیں اسے اس وقت اٹھنے کی عادت کب سے تھی .آج بھی وہ اپنے سارے دکھ ساری پریشانیاں سارے درد اپنے رب کے حضور پیش کر کے اپنا ایک اور دن گزارنے کا سوچ رہی تھی .اسکے لیے زندگی ایک مسئلہ تھی .وہ زندگی جیتی نہیں تھی .وہ زندگی گزارتی تھی . جینے کی کوشش بھی کرتی تو اسے اسکی بیماری زمین پر لا پھینکتی تھی.اسکی ہر رات اتنی تکلیف اور درد سے گزرتی تھی .کے اسے لگتا تھا وہ اگلے دن تک زندہ نہیں رہے گی .وہ مر جائے گی .ہاں وہ اپنی دوستوں سے کہتی تھی رات پھر کے وہ آج مر جائے گی.اسے امید نہیں تھی زندگی کی بھلا بغیر امید کے بھی کوئی جیتا ہے, یہ اسکے چاہنے والے تھے جنکی محبت اور خلوص کی وجہ سے وہ اب تک خود کو سنمبھالے ہوئے تھی .جنکی جذبات سے پھر پور حوصلہ مندی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مضبوط کرتی آئی تھی. اتنےمیں اسے اپنے کانوں میں اپنی ماما کی آواز آئی جو باہر صحن میں قرآن لئے بیھٹی اسکا انتظار کر رہی تھیں . حریم حریم بیٹے کہاں ہو حریم چندہ کدھر ہو .ماما پلیز یہ چندہ تو مت کہا کریں زہر لگتا ہے مجھے . حریم بنت آدم پیچھے سے اسے کسی نے پھکارا اور وہ جیسے کھلکھلا گئی اسے یہ پورا نام بہت پسند تھا . وہ جانتی تھی اسکے پچھے کون تھا بابا میری بس آگئی کیا ¿ حریم آج الھدی مت جاؤ تمہاری طبعت خراب ہے ماما میں جب قرآن کلاس جاتی ہوں تو ہر درد بھاگ جات کیو ں بابا مجھےجانا چاہئے ناآپ سمجھائیں نہ ماما کو مجھے کلاس سے چھٹی کا نہ کہا کریں میرا دل دکھتا ہے اود حریم نم آنکھوں سے اسکارف سے اپنا منہ چھوپا کر الھدی جانے کے لیئے نکل گئی . سنئیں نہ حریم کے بابا وہ آپ سے ایک بار کہتی بابا مجھے جانا چاہے اور بآپ نے اسکی ہاں میں سر کو خم دینا ہوتا. سنیں حریم بہت کمزور ہو رہی ہے اسکوکسی ڈاکٹر کو کیوں نہیں دیکھا آتے اسے کیا ہوتا جا رہا دن بھر یہ کھر سے با ہر قرآن کلاس لہتی گھر شام میں آتی نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا یہ کیسے زندہ رہے گی. اور بابا نے جیسے دل میں ایک آہ پھر کے کہا اگر تم ٹھیک ہوتی تو میں تمہیں ضرور بتاتا کے تمہاری بیٹی کو دماغ کا کینسر ہے اگر تمہارا ایک بار پہلے ہارہارٹ اٹیک نہ ہوا ہوتا تو تمکو ضرور بتاتا کے حریم کو کیا ہے . حریم کی والدہ اسکی بیماری سے لاعلم تھیں کچھ عرصہ پہلے انھیں ایک بیٹی کے سسرال سے کسی بات کا بہت گہرا صدمہ ہوا تو ڈاکٹرز نے انھیں حریم کی بہماری بتانے سے منع کیا تھا. حریم کے والد ایک حافظ اور عالم تھے وہ تبلیغ پر جاتے تھے انکا ایک مدرسہ تھا جہاں وہ بچوں کو قرآن سیکھایا کرتے تھے .حریم کو الھدی پسند تھا وہ اپنا سارا وقت وہاں گزارتی گھر آتی تو ماں سے چھوپتی پھرتی کبھی پڑھائی کے بہانے تو کبھی میری onlineکلاس ہے ماما ..وہ درد کا وقت بھی ضائع نہیں کیا کرتی تھی اس نے بہت سے whatsapp groups الھدی کے joinکر رکھے تھے جن پر وہ رات کو feedback دیا کرتی تھی اس نے خود کو قرآن میں اتنا مصروف کر رکھا تھا اسے دنیا کی خبر نہ تھی. حریم بنت آدم جب اداس ہوتی اسکی اداسی دور کرنے کی اول ترجیح ہمیشہ اسکا محصف ہوتا تھا .وہ اپنا محصف کھولتی اور جہاں سے کھولتا وہیں سے تلاوت شروع کرتی اسکے جب سارے آنسوں بہہ جاتے تو وہ خود کو ہلکا محسوس کرتی .حریم کہا کرتی ہے .میرا قرآن مجھ سے بات کرتا ہے وہ مجھے بہتریں حل نکال کر دیتا ہے جس تک کسی بشر کی سوچ بھی جائے اسکے محصف میں کوئی نہ کوئی آیت ایسی ضرور ہوتی تھی پھر سے ایک نئی زندگی کی طرف لاتی. حریم بنت آدم کو اسکے بہت close دوستوں نے اسکی بہماری کی حالت کو نہ سمجتے ہوئے جھوٹا اور پاگل سمجھ کے چھوڑ دیا کسی نے اسکا خوب فائدہ اٹھایا اود پھر بھی حریم اپنے دوستوں کی طرف رب کی خاطر ۳ بار پلٹی اود آخر اسنے سمجھ لیا کے انسان پڑا ہی دھوکہ باز نکلا جو اپنے رب کا نہ ہو بھلا حریم کا کہاں ہو سکتا ہے اور جو دوست آپ کی برائی آپ کے پیٹھ پیچھے کر کے نیک بنے وہ رب سے کیسی وفا کرتا اور حریم نے لوگوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا حریم بہت حساس لڑکی تھی اسے ہمیشہ ہر ایک کا دکھ اپنا لگتا تھا وہ سب سے جلدی گھول مل جاتی تھی اور وہ کبھی کسی کو کمتر نہیں سمجھتی تھی . وہ اپنا Sunday کا دن اپنے بابا کے ساتھ جا کر جھوپڑیوں میں عورتوں کو قرآن اور فقہ مسائل پڑھا کر انکے بچوں کے ساتھ مٹی میں کھیلتی اور انکے لیے تحفہے لے جاتی انکی آنکھوں میں کھیلونوں کی خوشی دیکھ کر اسے لگتا اسکے لئے سب کچھ بس انکی خوشی ہے . پتہ نہیں کیوں اسکا دل اتنا نرم کیوں تھا وہ بے تحاشہ پیاری لڑکی دوسروں کے حصے کے آنسوں اپنی آنکھ سے بہانا اسکو پسند تھا . وہ ہر ایک سے بے انتہا محبت کرتی تھی لیکن اسکے پسے پردہ اسے تلاش اپنے خالق کی محبت کی ہی رہتی تھی .وہ سب سے اسلئے محبت کرتی تھی اسکا رب بھی تو اپنے سب بندوں سے محبت کرتا ہے نا.اس نے اپنا ترجیح اول اپنے رب کو بنایا تھا اور اسکے رب نے لوگوں کے دلوں کو اسکی محبت سے بھر دیا حریم اتنی پیاری تھی اسکی آواز رب نے اسے بہت خوبصورت آواز اور قرآن کی قرآت سے اور قرآن کے فہم سے نوازا تھا وہ قر آن کی حافظہ اور قرآت کی ماہر تھی وہ نعت اتنی پیاری پڑھتی کے محفل کا دل جیت لیتی.. وہ رب کی حمد اتنی پیاری کرتی کے نہ سننے والا بھی بار بار سنے... اسکی آواز میں قرآن لوگوں کو سحر زدہ کر دیتا تھا.. اور وہ سات سے زیادہ مختلف قرآت میں قرآن پڑھنا جانتی تھی. وہ اپنی دوستوں کے لیئے نظم لکھا کرتی تھی اور اسکو گا کر سنایا کرتی ہے اسکی ہر نظم میں دوستوں کے ساتھ جنت کی سیر کرنا ہوتا ..اسکی آواز رب کی نعمت تھی اور وہ قرآن کی تفسیر کو جتنا پیارے انداز میں سمجھتی تھی کوئی نہیں سمجھتا تھا. وہ کوئی اتنی بڑی نہیں تھی جب اسکو دماغ کا کینسر ہوا وہ ۱۵ سال کی بچی تھی لیکن اسکے والد نے اسکو درد کو سہنے کا حل قرآن بتا رکھا تھا وہ زرا ڈگمگاتی اسکے والد اسے قرآن کی رسی سے واپس کھینچ لاتے