آج تو تم پورے دیوداس لگ رہے ہو۔۔۔
ادیان سمیر کی آنکھوں کے نیچے ہلکے اور بکھرے بالوں کو دیکھتا شرارت سے بولا۔خبیث انسان! دیکھ نہیں رہے میری حالت۔۔۔ دو دن سے میں بخار میں تپ رہا تھا۔۔۔ یاد ہے کے بھول گئے۔۔۔؟؟ سمیر کو اس کی بات پر چڑ سی ہوئی تھی۔
تو آج تم یونی کیوں آئے؟ گھر پر آرام کرنا تھا نا۔۔۔ وہ تینوں اس وقت یونی کی کینٹین میں بیٹھے کافی پی رہے تھے جب جیا فکرمند ہوتی بولی۔۔۔
آرام!!! ہا۔۔۔
آرام جو میں نے کل کیا کافی ہے یار! آج اگر میں یونی نا آتا تو ڈیڈ نے مجھے گھر سے ہی نکال دینا تھا۔کیوں! کیا ہوا؟
ادیان نے کافی کا سپ لیتے ہوئے اس سے پوچھا۔کل مجھے ڈیڈ سے ڈانٹ پڑی کے اتنے سے بخار میں بستر پر پڑ گئے ہو۔۔۔ زندگی میں آگے کیا کرو گے۔۔۔ سمیر نے اپنے دکھڑے سنائے۔
ہاہاہا!!!! سمیر! انکل تمہیں ابھی بھی ڈانٹتے ہیں۔۔۔؟ جیا ہنستے ہوئے بولی۔
ایسا ویسا!!!
ادیان نے اپنی ہنسی دباتے شرارت سے کہا کے جس پر سمیر نے اسے گھورا۔اوہ خدایا!!!
کاش! وہ سین میں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتی۔۔۔ کتنے مزے کا ہوگا نا۔۔۔ تمہاری تو شکل اس وقت دیکھنے والی ہوگی۔۔ ویسے سمیر یہ سب شانزے کو پتا ہے کیا؟ جیا نے مزے لیتے ہوئے کہا۔خبردار!!! جو تم لوگوں نے شانزے کو یہ سب بتایا۔۔۔ وہ تو میرا جینا عذاب کر دے گی۔۔۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کے شانزے اور ڈیڈ کو فوج میں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ دونوں ہی ہر وقت میری جان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔۔۔ یہ کرو۔۔۔ یہ نہیں کرو۔۔۔ بس توبہ ہے یار! یعنی کے حد ہی ہوگئی۔۔۔ سمیر کی دھائیاں عروج پر تھیں اور اس کے بولنے کے انداز پر تو ادیان اور جیا ہنسے جا رہے تھے۔
ویسے جیا! تم نے بتایا نہیں کے آج یہ جھنگلی بلی کیوں نہیں آئی؟ سمیر کے پوچھنے پر جیا نے کل رات شانزے کے گھر ہونے والی پارٹی والا سارا قصہ سنایا۔
وہ کمینہ ظفر! شانزے کو ابھی تک تنگ کرتا ہے۔۔۔ میرے ہاتھ لگے ذرا اسے ایسا مزہ چکھاؤں گا کے دوبارہ اس کے گھر کا راستہ بھول جاۓ گا۔۔۔ اف! پہلے ہی میری طبیعت خراب تھی اور اب تو اس لنگور کے ذکر سے مزید بگڑ گئی۔۔۔
BẠN ĐANG ĐỌC
"محبت سانس در سانس مجھ میں" از قلم سوزین سائرہ 𝕔𝕠𝕞𝕡𝕝𝕖𝕥𝕖𝕕
Lãng mạnیہ کہانی چار دوستوں کی دوستی کے بیچ محبت، اعتبار اور ان سے جڑے خوبصورت رشتوں کی ہے❤