آخری باب؛ چُھما ہمدم (پارٹ ون)

1.1K 86 13
                                    

"مگر ممی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟؟؟ بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟ اور آپ نے بھی اتنا جلد بازی کی ہے اتنی جلدی نکاح۔۔۔ کیوں سوچا آپ نے ایسا؟ "
روز پریشانی سے بولی تھی جبکہ ان کی دوسری جانب سے کلثوم کی آواز آئی تھی۔
"لو بھلا اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے اور تم کیوں پریشان ہو رہی ہو؟ میں نے ساری تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں بس تم پاکستان سے واپس آ جاؤ عید کے فوراً بعد تمہارا اور حذیفہ کا نکاح کردیا جائے گا کیونکہ صوفیہ بھی راضی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ بالکل سادگی سے ہم لوگ نکاح کرکے تمہیں رخصت کر دیں ہمیں بھی تھوڑا ارمان تو تھا کہ لاڈلی بیٹی کی دھوم دھام سے شادی کریں مگر اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے ہونا تو تمہیں رخصت ہی ہے نا تو دھوم دھام سے کریں یا پھر سادگی سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔اب میں تمہاری کوئی ضد کوئی بات نہیں سنوں گی تم نے جو کہا ہم نے تمہاری بات مانی اور تمہاری فرمائش کی قدر کی اب تمہیں بھی چاہیے کہ میرا فیصلہ بلکہ میرا اور انور کا فیصلہ۔۔۔"
انہوں نے انور پر زور دیتے ہوئے کہا
"تم قبول کر لو"
"کیا بابا جان کو بھی یہ فیصلہ؟؟ وہ تو کبھی اس رشتے پر راضی نہیں دکھائی دیے؟؟"
روز شدید حیرت سے بولی تھی اسے بالکل بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ بھلا اس کے بابا کیسے اس رشتے پر راضی ہوگئے کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اس کے بابا بھی اس رشتے کو پسند نہیں کرتے تھے۔۔
"ہاں انہوں نے خود اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے تمہیں کیا میری بات پر یقین نہیں آرہا؟؟"
کلثوم ناراضی سے بولی تھیں اب وہ روز کو یہ تو بتانے سے قاصر تھیں کہ رات کو انکا اور انور کا جھگڑا ہوا تھا اور جھگڑے کی بنا پر انور نے غصے سے کہا تھا کہ جو تم کرنا چاہو کردو لیکن اگر میری بیٹی کی زندگی برباد ہوئی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور کلثوم تو ہمیشہ سے ہی بضد تھیں کے روز کی شادی حذیفہ سے ہی ہوگی نہ جانے وہ کیوں اپنی ضد پر اڑی ہوئی تھیں۔
"نہیں ممی ایسی بات نہیں ہے"
وہ ممی کا ناراض لہجہ محسوس کر کے جلدی جلدی بولی تھی
"آپ لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے مجھے تہہ دل سے منظور ہوگا۔"
روز بے بسی کی انتہا پر تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا چاہئے ایک طرف اس کا نکاح جزیل مصطفی سے ہوچکا تھا اور دوسری طرف اس کی ممی کہہ رہی تھیں کہ اس کا عید کے فوراً بعد نکاح کردیا جائے گا بھلا نکاح پر نکاح کیسے جائز ہے پر وہ کسی کو یہ بتا بھی تو نہیں سکتی تھی۔۔۔وہ اپنا دکھ درد پریشانی اور تکالیف ساری اپنے رب سے ہی تو بیان کرتی تھی رب کے سوا کون تھا جس کے ساتھ وہ اپنے سارے دکھ بانٹ سکتی۔۔۔ساری باتیں اسی سے تو کرتی تھی وہ۔۔
"چلو ٹھیک ہے خیر تمہارے پھپھو لوگوں کا کیا حال ہے؟؟ میں تو پوچھنا ہی بھول گئی اور سنی وہ کیسا ہے تنگ تو نہیں کرتا زیادہ؟"
کلثوم کی جب مکمل تسلی ہوگئی کے روز انکار نہیں کر رہی تو اس نے فرحت وغیرہ کا بھی حال احوال پوچھ ہی لیا۔۔۔
"جی ہاں ممی سب ٹھیک ہیں چلیں میں ذرا شائستہ آپی کے ساتھ افطار میں مدد کروا دوں آپ سے پھر بات ہوتی ہے"
روز بات بناتے ہوئے بولی تھی اس کا ابھی کچھ بھی کرنے کا اور کسی سے بھی بات کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔کلثوم نے ایک دو اور باتیں کرکے فون بند کر دیا تھا اور اب روز کا روزانہ والا مشغلہ شروع ہوچکا تھا جی ہاں رونے کا بلک بلک کر اور سسک سسک کر رونے کا۔۔۔
یا اللہ میں کیا کروں ایک طرف تیرے حکم سے میرا نکاح ہو چکا ہے اور وہ میرا محرم بھی کتنا بے خبر ہے نا میرے حال سے خیر میرے حال کا محرم تو ہے میرے رب تو جانتا ہے میں کس کرب سے گزر رہی ہوں۔ ۔۔۔ یا اللہ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرا رب میرے ساتھ ہے ہر پل وہ میرے ساتھ ہے۔۔۔بس یا اللہ میں تیرے سے اتنی سی گزارش کرتی ہوں کہ جو بھی فیصلہ ہو تیرا وہ میرے حق میں بہتر ہو۔۔۔بے شک تو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اور تو کبھی بھی اپنے کسی بندے کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا کیونکہ تو منصفوں کا منصف ہے۔۔۔
وہ روتے روتے پر دھیمی آواز میں اپنے رب سے اپنے دل کی باتیں کر رہی تھی۔۔۔پھر اس نے اٹھ کر اپنا منہ ہاتھ دھویا اور کچن میں شائستہ کی مدد کرنے کے ارادے سے نیچے چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے ہی خیالوں میں گم آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب اس نے سیڑھیوں سے اوپر آتے ہوئے جزیل کو دیکھا تھا وہ بھی تو اسی کو حیرت سے دیکھ رہا تھا جو بغیر دیکھے اور پھلانگ کر سیڑھیاں چڑھا کرتی تھی آج انتہائی آرام سے قدم اٹھا رہی تھی۔۔۔
"تمہیں کیا ہوا ہے؟"
جزیل بالکل نارمل انداز میں بولا تھا جیسے وہ پہلے ہوا کرتا تھا روز کو تو یہی لگا تھا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔وہ بھلا نکاح کے بعد بھی اتنا بے حس اور ظالم کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔سب کچھ جانتے ہوئے بھی کیسے انجان بنا ہوا تھا نہ۔۔۔
"مجھے کیا ہونا ہے؟"
وہ دونوں سیڑھیوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے روبرو کھڑے ہوکر ہمکلام تھے۔
"آنکھیں کیوں سرخ کی ہوئی ہیں تم نے؟"
جزیل اچھی طرح جانتا تھا کہ روز کل رات سے واپس آکر رو رہی ہے مگر وہ روز پر کچھ بھی ظاہر نہیں کرتا تھا۔۔۔
"وہ شاید آنکھ میں کچھ چلا گیا"
وہی برسوں پرانا رٹا ہوا سا ڈائیلوگ۔۔۔

چُھپا ہمدم (COMPLETED)حيث تعيش القصص. اكتشف الآن